حَتّٰۤی اِذَا جَآءَنَا قَالَ یٰلَیۡتَ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکَ بُعۡدَ الۡمَشۡرِقَیۡنِ فَبِئۡسَ الۡقَرِیۡنُ ﴿۳۸﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
یہاں تک کہ جب وہ ہمارے پاس آئے گا تو کہے گا اے کاش! میرے درمیان اور تیرے درمیا ن دو مشرقوں کا فاصلہ ہوتا، پس وہ برا ساتھی ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
یہاں تک کہ جب ہمارے پاس آئے گا تو کہے گا کہ اے کاش مجھ میں اور تجھ میں مشرق ومغرب کا فاصلہ ہوتا تو برا ساتھی ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
یہاں تک کہ جب وه ہمارے پاس آئے گا کہے گا کاش! میرے اور تیرے درمیان مشرق اور مغرب کی دوری ہوتی (تو) بڑا برا ساتھی ہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 38) ➊ { حَتّٰۤى اِذَا جَآءَنَا قَالَ …:} دنیا میں ہر وقت شیطان کے ساتھ رہنے کے بعد قیامت کے دن اللہ کے ذکر سے اندھا بننے والا انسان جب اپنے قرین کے ہمراہ اللہ تعالیٰ کے پاس حاضر ہو گا تو حسرت و افسوس کے ساتھ اس سے کہے گا، کاش! میرے اور تیرے درمیان دو مشرقوں کی دوری ہوتی۔ دو مشرقوں سے مراد مشرق و مغرب ہیں۔ دونوں کو مشرقین کہہ دیا ہے، جیسے ابوبکر و عمر(رضی اللہ عنھما) کو عمرین کہہ دیتے ہیں اور کھجور اور پانی کو اسودین کہہ دیتے ہیں۔ دو مشرق بھی مراد ہو سکتے ہیں، کیونکہ سردیوں میں سورج طلوع ہونے کی جگہ اور گرمیوں میں طلوع ہونے کی جگہ کے درمیان بہت فاصلہ ہے، جیسا کہ فرمایا: «‏‏‏‏رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَ رَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ» ‏‏‏‏ [الرحمان: ۱۷] (وہ) دونوں مشرقوں کا رب ہے اور دونوں مغربوں کا رب۔
➋ { فَبِئْسَ الْقَرِيْنُ: أَيْ بِئْسَ الْقَرِيْنُ أَنْتَ} یعنی تو برا ساتھی ہے، جس نے دوست بن کر مجھے خراب و برباد کیا اور ہمیشہ کے عذاب میں پھنسا دیا۔ بعض مفسرین نے اسے اللہ تعالیٰ کا کلام قرار دے کر معنی کیا ہے: { فَبِئْسَ الْقَرِيْنُ هُوَ } یعنی پس وہ برا ساتھی ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

38۔ 1 مراد مشرق اور مغرب کی دوری ہے، یہ کافر قیامت والے دن کہے گا لیکن اس دن اس اعتراف کا کیا فائدہ؟

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

اس آیت کی تفسیر اگلی آیات کیساتھ ملاحظہ کریں۔