اَہُمۡ یَقۡسِمُوۡنَ رَحۡمَتَ رَبِّکَ ؕ نَحۡنُ قَسَمۡنَا بَیۡنَہُمۡ مَّعِیۡشَتَہُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ رَفَعۡنَا بَعۡضَہُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعۡضُہُمۡ بَعۡضًا سُخۡرِیًّا ؕ وَ رَحۡمَتُ رَبِّکَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجۡمَعُوۡنَ ﴿۳۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
کیا وہ تیرے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں؟ ہم نے خود ان کے درمیان ان کی معیشت دنیا کی زندگی میں تقسیم کی اور ان میں سے بعض کو بعض پر درجوں میں بلند کیا، تاکہ ان کا بعض، بعض کو تابع بنالے اور تیرے رب کی رحمت ان چیزوں سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
کیا یہ لوگ تمہارے پروردگار کی رحمت کو بانٹتے ہیں؟ ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کردیا اور ایک کے دوسرے پر درجے بلند کئے تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لے اور جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں تمہارے پروردگار کی رحمت اس سے کہیں بہتر ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ تقسیم کرتے ہیں؟ ہم نے ہی ان کی زندگانیٴ دنیا کی روزی ان میں تقسیم کی ہے اور ایک کو دوسرے سے بلند کیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو ماتحت کر لے جسے یہ لوگ سمیٹتے پھرتے ہیں اس سے آپ کے رب کی رحمت بہت ہی بہتر ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 32) ➊ {اَهُمْ يَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ:} یہ ان کے اعتراض کا جواب ہے۔ {” رَحْمَتَ “} کا لفظ اگرچہ عام ہے، جس میں ہر رحمت شامل ہے، مگر یہاں اس سے مراد نبوت و رسالت ہے، کیوں کہ ان کا اعتراض اسی پر تھا۔ {” رَحْمَتَ رَبِّكَ “} (تیرے رب کی رحمت) کے الفاظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کی بلندی کا اظہار ہو رہا ہے۔ یعنی کیا تیرے رب کی رحمت نبوت و رسالت کی تقسیم ان کے ہاتھوں میں ہے کہ جسے چاہیں دیں اور جسے چاہیں نہ دیں؟ نہیں، یہ اختیار اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی جانتا ہے کہ یہ رحمت کسے عطا کرنی ہے۔ یہ جاہل اپنی حیثیت کو بھول کر اس قدر دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں کہ ان کا ہر شخص چاہتا ہے کہ اللہ کی کتاب اسی کو دی جائے، فرمایا: «بَلْ يُرِيْدُ كُلُّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ اَنْ يُّؤْتٰى صُحُفًا مُّنَشَّرَةً» [المدثر: ۵۲] ”بلکہ ان میں سے ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ اسے کھلے ہوئے صحیفے دیے جائیں۔“ حتیٰ کہ انھوں نے ایمان لانے کی شرط ہی نبوت دیا جانا ٹھہرائی، فرمایا: «وَ اِذَا جَآءَتْهُمْ اٰيَةٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰى نُؤْتٰى مِثْلَ مَاۤ اُوْتِيَ رُسُلُ اللّٰهِ اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ سَيُصِيْبُ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَ عَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا كَانُوْا يَمْكُرُوْنَ» [الأنعام: ۱۲۴] ”اور جب ان کے پاس کوئی نشانی آتی ہے تو کہتے ہیں ہم ہر گز ایمان نہیں لائیں گے، یہاں تک کہ ہمیں اس جیسا دیا جائے جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا۔ اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے۔ عنقریب ان لوگوں کو جنھوں نے جرم کیے، اللہ کے ہاں بڑی ذلت پہنچے گی اور بہت سخت عذاب، اس وجہ سے کہ وہ فریب کیا کرتے تھے۔“
خلاصہ یہ کہ تیرے رب کی رحمت کی تقسیم اسی کے پاس ہے اور وہی جانتا ہے کہ کون اس کے قابل ہے۔ یہ کافر دنیا کے مال و جاہ کی وجہ سے ان لوگوں کو رسالت کے قابل سمجھ رہے ہیں جو اللہ کے ہاں ایک تنکے کا وزن نہیں رکھتے اور مال نہ ہونے کی وجہ سے اس شخص کو نبوت کے لیے نااہل قرار دے رہے ہیں جو سب سے زیادہ پاکیزہ قلب و نفس والا، خاندانی شرافت میں سب سے بلند اور انسانی خوبیوں میں سب سے ممتاز ہے۔
➋ { نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا:} یعنی نبوت و رسالت تو بہت ہی بلند چیز ہے، ہم نے تو دنیا میں ان کی روزی کی تقسیم کا اختیار بھی ان کو یا کسی دوسرے کو نہیں دیا، بلکہ اسے خود تقسیم کیا ہے، حالانکہ وہ ہمارے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں، تو قرآن نازل کرنے کا اختیار انھیں کیسے دے سکتے ہیں!؟
➌ { وَ رَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ:} اس مختصر سے جملے میں اللہ تعالیٰ نے کئی حقیقتیں بیان فرما دی ہیں۔ پہلی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے صلاحیتوں اور روزیوں کی تقسیم میں برابری نہیں رکھی، بلکہ ان میں درجات رکھے ہیں۔ کسی کو غنی بنا دیا کسی کو فقیر، کوئی ذہین ہے کوئی کند ذہن، کوئی بے وقوف ہے کوئی عقل مند اور کوئی اس سے بڑھ کر عقل مند، کوئی طاقتور ہے کوئی کمزور، کوئی خادم ہے کوئی مخدوم، کوئی مالک ہے کوئی مملوک، کوئی اندھا ہے کوئی بینا، کوئی باعزت ہے کوئی ذلیل اور کوئی حاکم کوئی محکوم۔ کمیونسٹوں کا نعرہ کہ ہم تمام لوگوں میں دولت کی مساوات پیدا کریں گے، سخت دھوکا تھا۔ یہ اللہ کے فیصلے کے خلاف ہے، نہ ایسا ہو سکتا ہے نہ کمیونسٹوں سے ہو سکا۔ رزق اور اللہ تعالیٰ کی دوسری عنایتوں کی عطا میں یکسانیت کے بجائے درجات کی کمی بیشی ناقابل تردید حقیقت ہے۔ دنیا میں اس کا مقصد آزمائش ہے۔ (دیکھیے انعام: ۱۶۵) درجات کا یہ فرق آخرت میں اس سے بھی زیادہ ہو گا۔ دیکھیے سورۂ نحل (۷۱)، بنی اسرائیل (۲۱) اور سورۂ روم (۲۸)۔
دوسری حقیقت یہ کہ یہ کمی بیشی اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے، کسی دوسرے کا اس میں کوئی دخل نہیں اور اللہ تعالیٰ نے جسے جس درجے میں رکھا ہے اس پر قناعت کے سوا اس کے پاس کوئی راستہ نہیں۔ کسی کو خوبصورت بنایا یا بدصورت، قوی بنایا یا ضعیف، عقل مند بنایا یا بے وقوف، آنکھیں عطا کر دیں یا نابینا کر دیا، ہر ایک کو اسی طرح رہنا پڑے گا جس طرح خلاّقِ عالم نے اس کے لیے طے کر دیا ہے۔
➍ { لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا: ”اِتَّخَذَ فُلَانٌ فُلَانًا سُخْرِيًّا“} یعنی فلاں نے فلاں کو اپنا تابع بنا لیا، یا اپنے کام یا خدمت میں لگا لیا۔ یہ تیسری حقیقت ہے، کسی مال دار کا مال یا دنیوی عز و جاہ اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر خوش ہے اور نہ ہی کسی فقیر کا فقر اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہے، بلکہ درجات کا یہ تفاوت اللہ تعالیٰ نے اس لیے رکھا ہے کہ لوگوں کو ایک دوسرے کی ضرورت رہے اور وہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں، کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو دنیا کا نظام معطل ہو جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے ایک شخص کو مال نہیں دیا، مگر اسے کسی کام کی صلاحیت اور قوت بخش دی، دوسرے کو کمزور بنا دیا جو خود نہ کام کر سکتا ہے نہ محنت، مگر اسے دولت بخش دی جس کے ساتھ وہ ان لوگوں کو مزدور رکھ سکتا ہے جن کے پاس مال نہیں۔ اسی طرح کسی کے پاس ایک ہنر ہے دوسرے کے پاس دوسرا، دونوں ایک دوسرے سے کام لیتے ہیں۔ اس میں ضروری نہیں کہ کام لینے والا مرتبے میں بھی اس سے اونچا ہو جس سے کام لے رہا ہے۔ کتنے ہی ڈاکٹر، انجینئر اور دوسرے کمالات کے مالک ان لوگوں کے پاس ملازمت کر رہے ہیں جو مطلق جاہل ہیں۔ یہاں کوئی بڑے سے بڑا ایسا نہیں جو چھوٹے سے چھوٹے کا محتاج نہ ہو، حتیٰ کہ بادشاہ بھی حجام، باورچی اور دوسرے خدمت گاروں کا محتاج ہے اور خدمت گار اس کے محتاج ہیں، اسی سے نظامِ عالم چل رہا ہے۔ اگر سب برابر ہو جائیں تو وہ ایک قدم نہیں چل سکتا۔
➎ { وَ رَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ: ” رَحْمَتُ رَبِّكَ “} کے متعلق دو قول ہیں، ایک یہ کہ اس سے مراد نبوت ہے، یعنی نبوت و رسالت کا شرف تو دنیوی مال و جاہ اور ساز و سامان سے کہیں اعلیٰ ہے۔ جب دنیا کی دولت اس نے ان کی تقسیم پر نہیں رکھی تو رسالت ان کی تجویز پر کیسے دے گا!؟ دوسرا یہ کہ اس سے مراد آخرت کی وہ نعمتیں ہیں جو اس نے اپنے بندوں کے لیے تیار کر رکھی ہیں، یعنی یہ لوگ دنیا کے جس فانی مال و متاع اور عز و جاہ کو سمیٹنے کی تگ و دو میں دن رات لگے ہوئے ہیں، تیرے رب کی رحمت یعنی آخرت کی دائمی نعمتیں ان سے بدرجہا بہتر ہیں۔
خلاصہ یہ کہ تیرے رب کی رحمت کی تقسیم اسی کے پاس ہے اور وہی جانتا ہے کہ کون اس کے قابل ہے۔ یہ کافر دنیا کے مال و جاہ کی وجہ سے ان لوگوں کو رسالت کے قابل سمجھ رہے ہیں جو اللہ کے ہاں ایک تنکے کا وزن نہیں رکھتے اور مال نہ ہونے کی وجہ سے اس شخص کو نبوت کے لیے نااہل قرار دے رہے ہیں جو سب سے زیادہ پاکیزہ قلب و نفس والا، خاندانی شرافت میں سب سے بلند اور انسانی خوبیوں میں سب سے ممتاز ہے۔
➋ { نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا:} یعنی نبوت و رسالت تو بہت ہی بلند چیز ہے، ہم نے تو دنیا میں ان کی روزی کی تقسیم کا اختیار بھی ان کو یا کسی دوسرے کو نہیں دیا، بلکہ اسے خود تقسیم کیا ہے، حالانکہ وہ ہمارے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں، تو قرآن نازل کرنے کا اختیار انھیں کیسے دے سکتے ہیں!؟
➌ { وَ رَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ:} اس مختصر سے جملے میں اللہ تعالیٰ نے کئی حقیقتیں بیان فرما دی ہیں۔ پہلی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے صلاحیتوں اور روزیوں کی تقسیم میں برابری نہیں رکھی، بلکہ ان میں درجات رکھے ہیں۔ کسی کو غنی بنا دیا کسی کو فقیر، کوئی ذہین ہے کوئی کند ذہن، کوئی بے وقوف ہے کوئی عقل مند اور کوئی اس سے بڑھ کر عقل مند، کوئی طاقتور ہے کوئی کمزور، کوئی خادم ہے کوئی مخدوم، کوئی مالک ہے کوئی مملوک، کوئی اندھا ہے کوئی بینا، کوئی باعزت ہے کوئی ذلیل اور کوئی حاکم کوئی محکوم۔ کمیونسٹوں کا نعرہ کہ ہم تمام لوگوں میں دولت کی مساوات پیدا کریں گے، سخت دھوکا تھا۔ یہ اللہ کے فیصلے کے خلاف ہے، نہ ایسا ہو سکتا ہے نہ کمیونسٹوں سے ہو سکا۔ رزق اور اللہ تعالیٰ کی دوسری عنایتوں کی عطا میں یکسانیت کے بجائے درجات کی کمی بیشی ناقابل تردید حقیقت ہے۔ دنیا میں اس کا مقصد آزمائش ہے۔ (دیکھیے انعام: ۱۶۵) درجات کا یہ فرق آخرت میں اس سے بھی زیادہ ہو گا۔ دیکھیے سورۂ نحل (۷۱)، بنی اسرائیل (۲۱) اور سورۂ روم (۲۸)۔
دوسری حقیقت یہ کہ یہ کمی بیشی اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے، کسی دوسرے کا اس میں کوئی دخل نہیں اور اللہ تعالیٰ نے جسے جس درجے میں رکھا ہے اس پر قناعت کے سوا اس کے پاس کوئی راستہ نہیں۔ کسی کو خوبصورت بنایا یا بدصورت، قوی بنایا یا ضعیف، عقل مند بنایا یا بے وقوف، آنکھیں عطا کر دیں یا نابینا کر دیا، ہر ایک کو اسی طرح رہنا پڑے گا جس طرح خلاّقِ عالم نے اس کے لیے طے کر دیا ہے۔
➍ { لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا: ”اِتَّخَذَ فُلَانٌ فُلَانًا سُخْرِيًّا“} یعنی فلاں نے فلاں کو اپنا تابع بنا لیا، یا اپنے کام یا خدمت میں لگا لیا۔ یہ تیسری حقیقت ہے، کسی مال دار کا مال یا دنیوی عز و جاہ اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر خوش ہے اور نہ ہی کسی فقیر کا فقر اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہے، بلکہ درجات کا یہ تفاوت اللہ تعالیٰ نے اس لیے رکھا ہے کہ لوگوں کو ایک دوسرے کی ضرورت رہے اور وہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں، کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو دنیا کا نظام معطل ہو جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے ایک شخص کو مال نہیں دیا، مگر اسے کسی کام کی صلاحیت اور قوت بخش دی، دوسرے کو کمزور بنا دیا جو خود نہ کام کر سکتا ہے نہ محنت، مگر اسے دولت بخش دی جس کے ساتھ وہ ان لوگوں کو مزدور رکھ سکتا ہے جن کے پاس مال نہیں۔ اسی طرح کسی کے پاس ایک ہنر ہے دوسرے کے پاس دوسرا، دونوں ایک دوسرے سے کام لیتے ہیں۔ اس میں ضروری نہیں کہ کام لینے والا مرتبے میں بھی اس سے اونچا ہو جس سے کام لے رہا ہے۔ کتنے ہی ڈاکٹر، انجینئر اور دوسرے کمالات کے مالک ان لوگوں کے پاس ملازمت کر رہے ہیں جو مطلق جاہل ہیں۔ یہاں کوئی بڑے سے بڑا ایسا نہیں جو چھوٹے سے چھوٹے کا محتاج نہ ہو، حتیٰ کہ بادشاہ بھی حجام، باورچی اور دوسرے خدمت گاروں کا محتاج ہے اور خدمت گار اس کے محتاج ہیں، اسی سے نظامِ عالم چل رہا ہے۔ اگر سب برابر ہو جائیں تو وہ ایک قدم نہیں چل سکتا۔
➎ { وَ رَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ: ” رَحْمَتُ رَبِّكَ “} کے متعلق دو قول ہیں، ایک یہ کہ اس سے مراد نبوت ہے، یعنی نبوت و رسالت کا شرف تو دنیوی مال و جاہ اور ساز و سامان سے کہیں اعلیٰ ہے۔ جب دنیا کی دولت اس نے ان کی تقسیم پر نہیں رکھی تو رسالت ان کی تجویز پر کیسے دے گا!؟ دوسرا یہ کہ اس سے مراد آخرت کی وہ نعمتیں ہیں جو اس نے اپنے بندوں کے لیے تیار کر رکھی ہیں، یعنی یہ لوگ دنیا کے جس فانی مال و متاع اور عز و جاہ کو سمیٹنے کی تگ و دو میں دن رات لگے ہوئے ہیں، تیرے رب کی رحمت یعنی آخرت کی دائمی نعمتیں ان سے بدرجہا بہتر ہیں۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
32۔ 1 اس رحمت سے مراد آخرت کی وہ نعمتیں ہیں جو اللہ نے اپنے نیک بندوں کے لئے تیار کر رکھی ہیں۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
باب
اس اعتراض کے جواب میں فرمان باری سرزد ہوتا ہے کہ کیا رحمت الٰہی کے یہ مالک ہے جو یہ اسے تقسیم کرنے بیٹھے ہیں؟ اللہ کی چیز اللہ کی ملکیت وہ جسے چاہے دے پھر کہاں اس کا علم اور کہاں تمہارا علم؟ اسے بخوبی معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رسالت کا حقدار صحیح معنی میں کون ہے؟ یہ نعمت اسی کو دی جاتی ہے جو تمام مخلوق سے زیادہ پاک دل ہو۔ سب سے زیادہ پاک نفس ہو سب سے بڑھ کر اشرف گھر کا ہو اور سب سے زیادہ پاک اصل کا ہو۔
دنیا کی قدر و قیمت: پھر فرماتا ہے کہ ’ یہ رحمت اللہ کے تقسیم کرنے والے کہاں سے ہو گئے؟ اپنی روزیاں بھی ان کے اپنے قبضے کی نہیں وہ بھی ان میں ہم بانٹتے ہیں اور فرق وتفاوت کے ساتھ جسے جب جتنا چاہیں دیں۔ جس سے جب جو چاہیں چھین لیں عقل و فہم، قوت طاقت وغیرہ بھی ہماری ہی دی ہوئی ہے اور اس میں بھی مراتب جداگانہ ہیں۔ ‘ اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے سے کام لے کیونکہ اس کی اسے اور اس کی اسے ضرورت اور حاجت رہتی ہے۔ ایک ایک کے ماتحت رہے۔
دنیا کی قدر و قیمت: پھر فرماتا ہے کہ ’ یہ رحمت اللہ کے تقسیم کرنے والے کہاں سے ہو گئے؟ اپنی روزیاں بھی ان کے اپنے قبضے کی نہیں وہ بھی ان میں ہم بانٹتے ہیں اور فرق وتفاوت کے ساتھ جسے جب جتنا چاہیں دیں۔ جس سے جب جو چاہیں چھین لیں عقل و فہم، قوت طاقت وغیرہ بھی ہماری ہی دی ہوئی ہے اور اس میں بھی مراتب جداگانہ ہیں۔ ‘ اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے سے کام لے کیونکہ اس کی اسے اور اس کی اسے ضرورت اور حاجت رہتی ہے۔ ایک ایک کے ماتحت رہے۔
پھر ارشاد ہوا کہ ’ تم جو کچھ دنیا جمع کر رہے ہو اس کے مقابلہ میں رب کی رحمت بہت ہی بہتر اور افضل ہے‘، زاں بعد اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ لوگ مال کو میرا فضل اور میری رضا مندی کی دلیل جان کر مالداروں کے مثل بن جائیں تو میں تو کفار کو یہ دنیا اتنی دیتا کہ ان کے گھر کی چھتیں بلکہ ان کے کوٹھوں کی سیڑھیاں بھی چاندی کی ہوتیں جن کے ذریعے یہ اپنے بالا خانوں پر پہنچتے۔ اور ان کے گھروں کے دروازے ان کے بیٹھنے کے تخت بھی چاندی کے ہوتے اور سونے کے بھی۔ میرے نزدیک دنیا کوئی قدر کی چیز نہیں یہ فانی ہے زائل ہونے والی ہے اور ساری مل بھی جائے جب بھی آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔ ان لوگوں کی اچھائیوں کے بدلے انہیں یہیں مل جاتے ہیں۔ کھانے، پینے، رہنے، سہنے، برتنے برتانے میں کچھ سہولتیں بہم پہنچ جاتی ہیں۔ آخرت میں تو محض خالی ہاتھ ہوں گے۔ ایک نیکی باقی نہ ہو گی جو اللہ سے کچھ حاصل کر سکیں ‘۔
جیسے کہ صحیح حدیث میں وارد ہوا ہے اور حدیث میں ہے { اگر دنیا کی قدر اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو یہاں پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پلاتا۔} ۱؎ [سنن ترمذي:2320،قال الشيخ الألباني:صحیح]
پھر فرمایا آخرت کی بھلائیاں ان کے لیے جو دنیا میں پھونک پھونک کے قدم رکھتے رہے ڈر ڈر کر زندگی گزارتے رہے۔ وہاں رب کی خاص نعمتیں اور مخصوص رحمتیں جو انہیں ملیں گی ان میں کوئی اور ان کا شریک نہ ہو گا۔
چنانچہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالا خانہ میں گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہما سے ایلا کر رکھا تھا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی کے ٹکڑے پر لیٹے ہوئے ہیں جس کے نشان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر نمایاں ہیں تو رو دئیے اور کہا ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیصر و کسرٰی کس آن بان اور کس شان و شوکت سے زندگی گزار رہے ہیں اور آپ اللہ کی برگذیدہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو کر کس حال میں ہیں؟“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا تو تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہوئے تھے یا فوراً تکیہ چھوڑ دیا اور فرمانے لگے { اے ابن خطاب رضی اللہ عنہ کیا تو شک میں ہے؟ یہ تو وہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں جلدی سے یہیں انہیں مل گئیں۔} ۱؎ [صحیح بخاری:2468]
ایک اور روایت میں ہے کہ { کیا تو اس سے خوش نہیں کہ انہیں دنیا ملے اور ہمیں آخرت }۔۱؎ [صحیح بخاری:4913]
جیسے کہ صحیح حدیث میں وارد ہوا ہے اور حدیث میں ہے { اگر دنیا کی قدر اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو یہاں پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پلاتا۔} ۱؎ [سنن ترمذي:2320،قال الشيخ الألباني:صحیح]
پھر فرمایا آخرت کی بھلائیاں ان کے لیے جو دنیا میں پھونک پھونک کے قدم رکھتے رہے ڈر ڈر کر زندگی گزارتے رہے۔ وہاں رب کی خاص نعمتیں اور مخصوص رحمتیں جو انہیں ملیں گی ان میں کوئی اور ان کا شریک نہ ہو گا۔
چنانچہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالا خانہ میں گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہما سے ایلا کر رکھا تھا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی کے ٹکڑے پر لیٹے ہوئے ہیں جس کے نشان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر نمایاں ہیں تو رو دئیے اور کہا ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیصر و کسرٰی کس آن بان اور کس شان و شوکت سے زندگی گزار رہے ہیں اور آپ اللہ کی برگذیدہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو کر کس حال میں ہیں؟“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا تو تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہوئے تھے یا فوراً تکیہ چھوڑ دیا اور فرمانے لگے { اے ابن خطاب رضی اللہ عنہ کیا تو شک میں ہے؟ یہ تو وہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں جلدی سے یہیں انہیں مل گئیں۔} ۱؎ [صحیح بخاری:2468]
ایک اور روایت میں ہے کہ { کیا تو اس سے خوش نہیں کہ انہیں دنیا ملے اور ہمیں آخرت }۔۱؎ [صحیح بخاری:4913]
بخاری و مسلم وغیرہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { سونے چاندی کے برتنوں میں نہیں کھاؤ پیو یہ دنیا میں ان کے لیے ہیں اور آخرت میں ہمارے لیے ہیں۔ اور دنیا میں یہ ان کے لیے یوں ہیں کہ رب کی نظروں میں دنیا ذلیل و خوار ہے }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:5426]
ترمذی وغیرہ کی ایک حسن صحیح حدیث میں ہے کہ حضور سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { اگر دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی وقعت رکھتی تو کسی کافر کو کبھی بھی اللہ تعالیٰ ایک گھونٹ پانی کا نہ پلاتا }۔۱؎ [سنن ترمذي:2320،قال الشيخ الألباني:صحیح]
ترمذی وغیرہ کی ایک حسن صحیح حدیث میں ہے کہ حضور سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { اگر دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی وقعت رکھتی تو کسی کافر کو کبھی بھی اللہ تعالیٰ ایک گھونٹ پانی کا نہ پلاتا }۔۱؎ [سنن ترمذي:2320،قال الشيخ الألباني:صحیح]