(آیت 43) ➊ { مَايُقَالُلَكَاِلَّامَاقَدْقِيْلَلِلرُّسُلِ …:} اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے کہ اگر کفار مکہ آپ کو جادوگر، شاعر، کاہن، دیوانہ، کذاب، متکبر یا اس قسم کے دوسرے ناموں سے یاد کرکے آپ کو ایذا دیتے ہیں تو آپ اطمینان رکھیں، ان کے رکھے ہوئے ناموں میں سے کوئی ایسی چیز نہیں جس کا طعنہ آپ سے پہلے رسولوں کو نہ مل چکا ہو، نہ آپ پہلے رسول ہیں جسے جھٹلایا گیا ہو اور نہ پہلے شخص ہیں جسے اللہ تعالیٰ کی خاطر تکلیف اٹھانا پڑی ہو۔ سورۂ ذاریات میں فرمایا: «كَذٰلِكَمَاۤاَتَىالَّذِيْنَمِنْقَبْلِهِمْمِّنْرَّسُوْلٍاِلَّاقَالُوْاسَاحِرٌاَوْمَجْنُوْنٌ (52) اَتَوَاصَوْابِهٖبَلْهُمْقَوْمٌطَاغُوْنَ»[الذاریات: ۵۲، ۵۳]”اسی طرح ان لوگوں کے پاس جو ان سے پہلے تھے، کوئی رسول نہیں آیا مگر انھوں نے کہا یہ جادوگر ہے، یا دیوانہ۔ کیا انھوں نے ایک دوسرے کو اس (بات) کی وصیت کی ہے؟ (نہیں) بلکہ یہ (خود ہی) سرکش لوگ ہیں۔“ کفار کی ایسی تمام باتوں پر رسولوں نے صبر کیا اور پوری ہمت سے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے رہے، یہی فریضہ آپ کا ہے، فرمایا: «فَاصْبِرْكَمَاصَبَرَاُولُواالْعَزْمِمِنَالرُّسُلِوَلَاتَسْتَعْجِلْلَّهُمْ» [الأحقاف: ۳۵]”پس صبر کر جس طرح پختہ ارادے والے رسولوں نے صبر کیا اور ان کے لیے جلدی کا مطالبہ نہ کر۔“ ➋ { اِنَّرَبَّكَلَذُوْمَغْفِرَةٍوَّذُوْعِقَابٍاَلِيْمٍ: } یعنی اتنی ایذا اور بدزبانی کے باوجود اگر یہ لوگ توبہ کرکے ایمان لے آئیں تو تیرا رب بڑی مغفرت والا ہے ({مَغْفِرَةٍ } کی تنوین تعظیم کے لیے ہے) اور اگر اپنے کفر پر اصرار کریں تو وہ نہایت دردناک عذاب والا بھی ہے۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ انھیں ان کی اس بد زبانی کا بدلا دینا آپ کا کام نہیں ہے، یہ ہمارا اختیار اور ہماری مرضی ہے کہ ہم انھیں ایمان کی توفیق سے نواز کر بخش دیں یا انھیں کفر پر رہنے دیں اور عذابِ الیم چکھائیں، جیسا کہ فرمایا: «لَيْسَلَكَمِنَالْاَمْرِشَيْءٌاَوْيَتُوْبَعَلَيْهِمْاَوْيُعَذِّبَهُمْفَاِنَّهُمْظٰلِمُوْنَ» [آل عمران: ۱۲۸]”تیرے اختیار میں اس معاملے سے کچھ بھی نہیں، یا وہ ان پر مہربانی فرمائے یا انھیں عذاب دے، کیوں کہ بلاشبہ وہ ظالم ہیں۔“
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
43۔ 1 یعنی پچھلی قوموں نے اپنے پیغمبروں کی تکذیب کے لئے جو کچھ کہا یہ ساحر ہیں، مجنون ہیں، کذاب ہیں وغیرہ وغیرہ، وہی کچھ کفار مکہ نے بھی آپ کو کہا۔ یہ گویا آپ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپکی تکذیب اور آپ کی سحر، کذب اور جنون کی طرف نسبت، نئی نہیں ہے، ہر پیغمبر کے ساتھ یہی کچھ ہوتا آیا ہے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (مَآاَتَىالَّذِيْنَمِنْقَبْلِهِمْمِّنْرَّسُوْلٍاِلَّاقَالُوْاسَاحِرٌاَوْمَجْنُوْنٌ 52ۚ اَتَوَاصَوْابِهٖ ۚ بَلْهُمْقَوْمٌطَاغُوْنَ 53ۚ) 51۔ الزایات:53-52) دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے رسولوں کو بھی کہی گئی تھیں اس لیے کہ تمام شریعتیں ان باتوں پر متفق رہی ہیں بلکہ سب کی اولین دعوت ہی توحید و اخلاص تھی۔ (فتح القدیر)۔ 43۔ 2 یعنی اہل ایمان و توحید کے لئے جو مستحق مغفرت ہیں۔ 43۔ 3 ان کے لئے جو کافر اور اللہ کے پیغمبروں کے دشمن ہیں۔ یہ آیت بھی سورة حجر کی آیت کی طرح ہے۔