وَ لَا تَسۡتَوِی الۡحَسَنَۃُ وَ لَا السَّیِّئَۃُ ؕ اِدۡفَعۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ فَاِذَا الَّذِیۡ بَیۡنَکَ وَ بَیۡنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیۡمٌ ﴿۳۴﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور نہ نیکی برابر ہوتی ہے اور نہ برائی۔ (برائی کو) اس (طریقے) کے ساتھ ہٹا جو سب سے اچھا ہے، تو اچانک وہ شخص کہ تیرے درمیان اور اس کے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہوگا جیسے وہ دلی دوست ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی۔ تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی۔ برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 34) ➊ {وَ لَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ …:} اس آیت میں دعوت کے مخاطب لوگوں کی زیادتی اور برائی کا جواب دینے کا طریقہ سکھایا گیا ہے۔ عام طور پر {” وَ لَا السَّيِّئَةُ “} کے{” لَا “} کو زائد کہہ کر ترجمہ کیا جاتا ہے کہ ”نیکی اور برائی برابر نہیں۔“ بعض حضرات اسے زائد برائے تاکید کہہ دیتے ہیں، حالانکہ قرآن مجید کے کسی لفظ بلکہ حرف کو زائد کہنے کے بجائے وہ فائدہ سمجھنے کی کوشش ضروری ہے جس کے لیے وہ لفظ لایا گیا ہے، جو بظاہر زائد ہے۔ کیونکہ یہ اللہ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ بہت بلند ہے اس بات سے کہ بلا ضرورت کوئی لفظ لائے۔ اصل میں یہاں بات بیان ہو رہی ہے کہ نیکی برابر نہیں، نہ اپنی جنس کے افراد کے لحاظ سے، کیونکہ نیکیوں کے بے شمار درجے ہیں، کوئی کمتر درجے کی نیکی، کوئی اس سے برتر اور کوئی سب سے برتر، جیسا کہ حدیث میں ہے: [فَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذٰی عَنِ الطَّرِيْقِ وَأَرْفَعُهَا قَوْلُ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ] [ترمذي، الإیمان، باب في استکمال الإیمان…: ۲۶۱۴] ”سب سے کمتر نیکی راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا اور سب سے اونچی لا الٰہ الا اللہ کہنا۔“ اور نہ ہی ایک نیکی اپنے درجات کے اعتبار سے برابر ہے، مثلاً کسی کے ساتھ حسن سلوک کے کئی درجے ہیں۔ اسی طرح ایک ہی نیکی اپنے کرنے والوں کے مختلف ہونے کے لحاظ سے بھی برابر نہیں، کوئی اسے خالص نیت سے کرتا ہے اور کوئی ریا سے، کوئی پوری کوشش سے کرتا ہے، کوئی درمیانی کوشش سے اور کوئی بے دلی سے۔ غرض کوئی بھی نیکی نہ دوسری نیکیوں کے ساتھ برابر ہے، نہ اپنی ذات میں برابر ہے اور نہ کرنے والوں کے لحاظ سے برابر ہے۔
➋ { وَ لَا السَّيِّئَةُ:} برائی کا بھی یہی حال ہے کہ وہ برابر نہیں۔ زبانی دشمنی اور تیر تلوار کے ساتھ دشمنی میں فرق ہے، ابوطالب اور ابوجہل کے کفر میں فرق ہے۔ اس لیے آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ”اور نہ نیکی برابر ہوتی ہے اور نہ برائی۔“ شاہ عبد القادر اور شاہ رفیع الدین دونوں کے ترجمہ میں یہ بات ملحوظ رکھی گئی ہے۔
➌ { اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ:} یعنی برائی کا جواب صرف یہ نہیں کہ نیکی کے ساتھ دو، بلکہ اس طریقے سے دو جو سب سے اچھا ہے اور نیکی کا سب سے اونچا درجہ ہے۔ یہ سب سے اچھا طریقہ بعض اوقات اچھی بات اور اچھا لہجہ ہوتا ہے، جیسا کہ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول نقل فرمایا ہے: [أَمَرَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ بِالصَّبْرِ عِنْدَ الْغَضَبِ، وَ الْحِلْمِ وَالْعَفْوِ عِنْدَ الْإِسَائَةِ، فَإِذَا فَعَلُوْا ذٰلِكَ عَصَمَهُمُ اللّٰهُ مِنَ الشَّيْطَانِ، وَخَضَعَ لَهُمْ عَدُوُّهُمْ، كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ] [طبري: ۳۰۷۹۴۔ السنن الکبرٰی للبیہقي: 45/7، ح: ۱۳۶۸۰] ”اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو غصے کے وقت صبر کا اور بدسلوکی کے وقت حلم اور عفو کا حکم دیا، تو جب وہ ایسا کریں گے اللہ تعالیٰ انھیں شیطان سے بچائے گا اور ان کا دشمن ان کے لیے زیر ہو جائے گا، گویا کہ وہ دلی دوست ہے۔“ اور بعض اوقات سب سے اچھا طریقہ خوش اخلاقی اور بہترین بات کے ساتھ ساتھ جہاد بالید ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو سب سے بہتر امت قرار دیا (دیکھیے آل عمران: ۱۱۰) اور جس کی وجہ سے بڑے بڑے دشمن دلی دوست بن جاتے ہیں، جیسے ثمامہ بن اثال، ابوسفیان، صفوان بن امیہ، حارث بن ہشام رضی اللہ عنھم اور بے شمار کفار جو جہاد کی برکت سے جگری دوست بن گئے۔ آج بھی جب تک کافر ملکوں کے فرماں رواؤں کی گردنوں کے سریے کاٹ کر انھیں ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کی طرح مسجد نبوی کے ستون سے باندھ کر اسلام کی تعلیمات کا آنکھوں سے مشاہدہ نہ کروایا جائے ان کا مسلمان ہونا یا دلی دوست بننا مشکل ہے۔ (مزید دیکھیے رعد: ۲۲) مومن نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو ہوتا ہے۔
➋ { وَ لَا السَّيِّئَةُ:} برائی کا بھی یہی حال ہے کہ وہ برابر نہیں۔ زبانی دشمنی اور تیر تلوار کے ساتھ دشمنی میں فرق ہے، ابوطالب اور ابوجہل کے کفر میں فرق ہے۔ اس لیے آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ”اور نہ نیکی برابر ہوتی ہے اور نہ برائی۔“ شاہ عبد القادر اور شاہ رفیع الدین دونوں کے ترجمہ میں یہ بات ملحوظ رکھی گئی ہے۔
➌ { اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ:} یعنی برائی کا جواب صرف یہ نہیں کہ نیکی کے ساتھ دو، بلکہ اس طریقے سے دو جو سب سے اچھا ہے اور نیکی کا سب سے اونچا درجہ ہے۔ یہ سب سے اچھا طریقہ بعض اوقات اچھی بات اور اچھا لہجہ ہوتا ہے، جیسا کہ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول نقل فرمایا ہے: [أَمَرَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ بِالصَّبْرِ عِنْدَ الْغَضَبِ، وَ الْحِلْمِ وَالْعَفْوِ عِنْدَ الْإِسَائَةِ، فَإِذَا فَعَلُوْا ذٰلِكَ عَصَمَهُمُ اللّٰهُ مِنَ الشَّيْطَانِ، وَخَضَعَ لَهُمْ عَدُوُّهُمْ، كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ] [طبري: ۳۰۷۹۴۔ السنن الکبرٰی للبیہقي: 45/7، ح: ۱۳۶۸۰] ”اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو غصے کے وقت صبر کا اور بدسلوکی کے وقت حلم اور عفو کا حکم دیا، تو جب وہ ایسا کریں گے اللہ تعالیٰ انھیں شیطان سے بچائے گا اور ان کا دشمن ان کے لیے زیر ہو جائے گا، گویا کہ وہ دلی دوست ہے۔“ اور بعض اوقات سب سے اچھا طریقہ خوش اخلاقی اور بہترین بات کے ساتھ ساتھ جہاد بالید ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو سب سے بہتر امت قرار دیا (دیکھیے آل عمران: ۱۱۰) اور جس کی وجہ سے بڑے بڑے دشمن دلی دوست بن جاتے ہیں، جیسے ثمامہ بن اثال، ابوسفیان، صفوان بن امیہ، حارث بن ہشام رضی اللہ عنھم اور بے شمار کفار جو جہاد کی برکت سے جگری دوست بن گئے۔ آج بھی جب تک کافر ملکوں کے فرماں رواؤں کی گردنوں کے سریے کاٹ کر انھیں ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کی طرح مسجد نبوی کے ستون سے باندھ کر اسلام کی تعلیمات کا آنکھوں سے مشاہدہ نہ کروایا جائے ان کا مسلمان ہونا یا دلی دوست بننا مشکل ہے۔ (مزید دیکھیے رعد: ۲۲) مومن نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو ہوتا ہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
34۔ 1 بلکہ ان میں عظیم فرق ہے۔ 24۔ 2 یہ ایک بہت ہی اہم اخلاقی ہدایت ہے کہ برائی کو اچھائی کے ساتھ ٹالو یعنی برائی کا بدلہ احسان کے ساتھ، زیادتی کا بدلہ عفو کے ساتھ غضب کا صبر کے ساتھ بےہودگیوں کا جواب چشم پوشی کے ساتھ اور مکروہات کا جواب برداشت اور حلم کے ساتھ دیا جائے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارا دشمن دوست بن جائے گا دور دور رہنے والا قریب ہوجائے گا اور خون کا پیاسا تمہارا گرویدہ اور جانثار ہو جائے گا۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
اللہ تعالٰی کا محبوب انسان ٭٭
فرماتا ہے ’ جو اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلائے اور خود بھی نیکی کرے اسلام قبول کرے اس سے زیادہ اچھی بات اور کس کی ہو گی؟ ‘ یہ ہے جس نے اپنے تئیں نفع پہنچایا اور خلق اللہ کو بھی اپنی ذات سے نفع پہنچایا۔ یہ ان میں نہیں جو منہ کے بڑے باتونی ہوتے ہیں جو دوسروں کو کہتے تو ہیں مگر خود نہیں کرتے یہ تو خود بھی کرتا ہے اور دوسروں سے بھی کہتا ہے۔
یہ آیت عام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اولیٰ طور پر اس کے مصداق ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے مصداق اذان دینے والے ہیں جو نیک کار بھی ہوں۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے { قیامت کے دن مؤذن سب لوگوں سے زیادہ لمبی گردنوں والے ہوں گے }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:387]
سنن میں ہے { امام ضامن ہے اور مؤذن امانتدار ہے اللہ تعالیٰ اماموں کو راہ راست دکھائے اور موذنوں کو بخشے }۔ ۱؎ [سنن ابوداود:517،قال الشيخ الألباني:صحیح]
ابن ابی حاتم میں ہے سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”اذان دینے والوں کا حصہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک مثل جہاد کرنے والوں کے حصے کے ہے۔ اذان و اقامت کے درمیان ان کی وہ حالت ہے جیسے کوئی جہاد میں راہ اللہ میں اپنے خون میں لوٹ پوٹ ہو رہا ہو۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”اگر میں مؤذن ہوتا تو پھر مجھے حج و عمرے اور جہاد کی اتنی زیادہ پروانہ نہ رہتی۔“
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے { اگر میں مؤذن ہوتا تو میری آرزو پوری ہو جاتی۔ اور میں رات کے نفلی قیام کی اور دن کے نفلی روزوں کی اس قدر تگ ودو نہ کرتا۔ میں نے سنا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار موذنوں کی بخشش کی دعا مانگی۔ اس پر میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں ہمیں یاد نہ فرمایا حالانکہ ہم اذان کہنے پر تلواریں تان لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { ہاں! لیکن اے عمر! ایسا زمانہ بھی آنے والا ہے کہ مؤذنی غریب مسکین لوگوں تک رہ جائے گا۔ سنو عمر جن لوگوں کا گوشت پوست جہنم پر حرام ہے ان میں مؤذن ہیں } }۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں { اس آیت میں بھی موذنوں کی تعریف ہے اس کا «حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃِ» کہنا اللہ کی طرف بلانا ہے }۔ ۱؎ [ضعیف]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اور عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”یہ آیت مؤذنوں کے بارے میں اتری ہے اور یہ جو فرمایا کہ وہ عمل صالح کرتا ہے اس سے مراد اذان و تکبیر کے درمیان دو رکعت پڑھنا ہے۔“
جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے { دو اذانوں کے درمیان نماز ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے جو چاہے }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:624]
ایک حدیث میں ہے کہ { اذان و اقامت کے درمیان کی دعا رد نہیں ہوتی }۔۱؎ [سنن ابوداود:521،قال الشيخ الألباني:صحیح]
یہ آیت عام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اولیٰ طور پر اس کے مصداق ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے مصداق اذان دینے والے ہیں جو نیک کار بھی ہوں۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے { قیامت کے دن مؤذن سب لوگوں سے زیادہ لمبی گردنوں والے ہوں گے }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:387]
سنن میں ہے { امام ضامن ہے اور مؤذن امانتدار ہے اللہ تعالیٰ اماموں کو راہ راست دکھائے اور موذنوں کو بخشے }۔ ۱؎ [سنن ابوداود:517،قال الشيخ الألباني:صحیح]
ابن ابی حاتم میں ہے سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”اذان دینے والوں کا حصہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک مثل جہاد کرنے والوں کے حصے کے ہے۔ اذان و اقامت کے درمیان ان کی وہ حالت ہے جیسے کوئی جہاد میں راہ اللہ میں اپنے خون میں لوٹ پوٹ ہو رہا ہو۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”اگر میں مؤذن ہوتا تو پھر مجھے حج و عمرے اور جہاد کی اتنی زیادہ پروانہ نہ رہتی۔“
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے { اگر میں مؤذن ہوتا تو میری آرزو پوری ہو جاتی۔ اور میں رات کے نفلی قیام کی اور دن کے نفلی روزوں کی اس قدر تگ ودو نہ کرتا۔ میں نے سنا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار موذنوں کی بخشش کی دعا مانگی۔ اس پر میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں ہمیں یاد نہ فرمایا حالانکہ ہم اذان کہنے پر تلواریں تان لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { ہاں! لیکن اے عمر! ایسا زمانہ بھی آنے والا ہے کہ مؤذنی غریب مسکین لوگوں تک رہ جائے گا۔ سنو عمر جن لوگوں کا گوشت پوست جہنم پر حرام ہے ان میں مؤذن ہیں } }۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں { اس آیت میں بھی موذنوں کی تعریف ہے اس کا «حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃِ» کہنا اللہ کی طرف بلانا ہے }۔ ۱؎ [ضعیف]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اور عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”یہ آیت مؤذنوں کے بارے میں اتری ہے اور یہ جو فرمایا کہ وہ عمل صالح کرتا ہے اس سے مراد اذان و تکبیر کے درمیان دو رکعت پڑھنا ہے۔“
جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے { دو اذانوں کے درمیان نماز ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے جو چاہے }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:624]
ایک حدیث میں ہے کہ { اذان و اقامت کے درمیان کی دعا رد نہیں ہوتی }۔۱؎ [سنن ابوداود:521،قال الشيخ الألباني:صحیح]
صحیح بات یہ ہے کہ آیت اپنے عموم کے لحاظ سے مؤذن غیر مؤذن ہر اس شخص کو شامل ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے۔ یہ یاد رہے کہ آیت کے نازل ہونے کے وقت تو سرے سے اذان شروع ہی نہ تھی۔ اس لیے کہ آیت مکے میں اترتی ہے اور اذان مدینے پہنچ جانے کے بعد مقرر ہوئی ہے جبکہ عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ نے اپنے خواب میں اذان دیتے دیکھا اور سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { بلال کو سکھاؤ۔ وہ بلند آواز والے ہیں }۔ پس صحیح بات یہی ہے کہ آیت عام ہے اس میں مؤذن بھی شامل ہیں۔
حسن بصری رحمہ اللہ اس آیت کو پڑھ کر فرماتے ہیں ”یہی لوگ حبیب اللہ ہیں۔ یہی اولیاء اللہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے پسندیدہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے محبوب ہیں کہ انہوں نے اللہ کی باتیں مان لیں پھر دوسروں سے منوانے لگے اور اپنے ماننے میں نیکیاں کرتے رہے اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے رہے یہاں اللہ کے خلیفہ ہیں، بھلائی اور برائی نیکی اور بدی برابر برابر نہیں بلکہ ان میں بے حد فرق ہے جو تجھ سے برائی کرے تو اس سے بھلائی کر اور اس کی برائی کو اس طرح دفع کر۔“
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ”تیرے بارے میں جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے تو تو اس کے بارے میں اللہ کی فرمابرداری کر اس سے بڑھ کو کوئی چیز نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ ایسا کرنے سے تیرا جانی دشمن دلی دوست بن جائے گا ‘، اس وصیت پر عمل اسی سے ہو گا جو صابر ہو نفس پر اختیار رکھتا ہو اور ہو بھی نصیب دار کہ دین و دنیا کی بہتری اس کی تقدیر میں ہو۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”ایمان والوں کو اللہ کا حکم ہے کہ وہ غصے کے وقت صبر کریں اور دوسرے کی جہالت پر اپنی بردباری کا ثبوت دیں اور دوسرے کی برائی سے در گزر کر لیں ایسے لوگ شیطانی داؤ سے محفوظ رہتے ہیں اور ان کے دشمن بھی پھر تو ان کے دوست بن جاتے ہیں۔“
حسن بصری رحمہ اللہ اس آیت کو پڑھ کر فرماتے ہیں ”یہی لوگ حبیب اللہ ہیں۔ یہی اولیاء اللہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے پسندیدہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے محبوب ہیں کہ انہوں نے اللہ کی باتیں مان لیں پھر دوسروں سے منوانے لگے اور اپنے ماننے میں نیکیاں کرتے رہے اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے رہے یہاں اللہ کے خلیفہ ہیں، بھلائی اور برائی نیکی اور بدی برابر برابر نہیں بلکہ ان میں بے حد فرق ہے جو تجھ سے برائی کرے تو اس سے بھلائی کر اور اس کی برائی کو اس طرح دفع کر۔“
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ”تیرے بارے میں جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے تو تو اس کے بارے میں اللہ کی فرمابرداری کر اس سے بڑھ کو کوئی چیز نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ ایسا کرنے سے تیرا جانی دشمن دلی دوست بن جائے گا ‘، اس وصیت پر عمل اسی سے ہو گا جو صابر ہو نفس پر اختیار رکھتا ہو اور ہو بھی نصیب دار کہ دین و دنیا کی بہتری اس کی تقدیر میں ہو۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”ایمان والوں کو اللہ کا حکم ہے کہ وہ غصے کے وقت صبر کریں اور دوسرے کی جہالت پر اپنی بردباری کا ثبوت دیں اور دوسرے کی برائی سے در گزر کر لیں ایسے لوگ شیطانی داؤ سے محفوظ رہتے ہیں اور ان کے دشمن بھی پھر تو ان کے دوست بن جاتے ہیں۔“
اب شیطانی شر سے بچنے کا طریقہ بیان ہو رہا ہے کہ ’ اللہ کی طرف جھک جایا کرو اسی نے اسے یہ طاقت دے رکھی ہے کہ وہ دل میں وساوس پیدا کرے اور اسی کے اختیار میں ہے کہ وہ اس کے شر سے محفوظ رکھے ‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں فرماتے تھے { «أَعُوذُ بِاللهِ السَّمِيعِ العَلِيم مِنَ الشَّیطانِ الرَّجِيمِ مِن هَمْزِهِ وَنَفْثِهِ وَنَفْخِهِ ومِنْ هَمَزَاتِ الشّيَاطِينِ وَأَعُوذَ بَكَ رَبِّي أَنْ يَحْضُرُونِ» }۔ ۱؎ [سنن ابوداود:775،قال الشيخ الألباني:صحیح] پہلے ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس مقام جیسا ہی مقام صرف سورۂ اعراف میں ہے جہاں ارشاد ہے «خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ» ۱؎ [7-الأعراف:199]، اور سورۃ مومنین کی آیت «اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ» ۱؎ [23-المؤمنون:96]، میں حکم ہوا ہے کہ ’ در گزر کرنے کی عادت ڈالو اور اللہ کی پناہ میں آ جایا کرو برائی کا بدلہ بھلائی سے دیا کرو ‘ وغیرہ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں فرماتے تھے { «أَعُوذُ بِاللهِ السَّمِيعِ العَلِيم مِنَ الشَّیطانِ الرَّجِيمِ مِن هَمْزِهِ وَنَفْثِهِ وَنَفْخِهِ ومِنْ هَمَزَاتِ الشّيَاطِينِ وَأَعُوذَ بَكَ رَبِّي أَنْ يَحْضُرُونِ» }۔ ۱؎ [سنن ابوداود:775،قال الشيخ الألباني:صحیح] پہلے ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس مقام جیسا ہی مقام صرف سورۂ اعراف میں ہے جہاں ارشاد ہے «خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ» ۱؎ [7-الأعراف:199]، اور سورۃ مومنین کی آیت «اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ» ۱؎ [23-المؤمنون:96]، میں حکم ہوا ہے کہ ’ در گزر کرنے کی عادت ڈالو اور اللہ کی پناہ میں آ جایا کرو برائی کا بدلہ بھلائی سے دیا کرو ‘ وغیرہ۔