وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۳۳﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور بات کے اعتبار سے اس سے اچھا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ بے شک میں فرماںبرداروں میں سے ہوں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور اس شخص سے بات کا اچھا کون ہوسکتا ہے جو خدا کی طرف بلائے اور عمل نیک کرے اور کہے کہ میں مسلمان ہوں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور اس سے زیاده اچھی بات واﻻ کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 33) ➊ { وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَى اللّٰهِ …:} پچھلی آیات میں ایمان لا کر اس پر استقامت اختیار کرنے والوں کو فرشتوں کے نزول، دنیا و آخرت میں ان کی دوستی، جنت میں داخلے اور غفور و رحیم کی مہمانی کی بشارت دے کر ان کے قلبی سکون و اطمینان اور دلی راحت کا سامان فرمایا، اب ایک ایسے کام کا ذکر فرمایا جو {” رَبُّنَا اللّٰهُ “} کہنے کا فطری تقاضا ہے کہ وہ اس نعمت کو اپنے تک محدود نہیں رکھتے، بلکہ ان کی کوشش اسے دنیا کے تمام لوگوں تک پہنچانے کی ہوتی ہے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ جو نعمت انھیں عطا ہوئی ہے وہ ہر شخص کو عطا ہو جائے۔ یہ کام سرانجام دیتے ہوئے جب وہ تین باتوں کا اہتمام کریں تو بات میں ان سے بہتر اور درجے میں ان سے بلند کوئی نہیں ہو سکتا۔ پہلی بات {” دَعَاۤ اِلَى اللّٰهِ “} یعنی وہ صرف اللہ کی طرف بلائیں۔ نہ اپنی ذات کی طرف، نہ کسی شخصیت کی طرف اور نہ کسی قبیلے، جماعت، نسل یا وطن کی طرف، بلکہ ان کی دعوت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف ہو کہ سب اسی کے بندے اور فرماں بردار بن جاؤ، جیسا کہ فرمایا: «قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ عَلٰى بَصِيْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِيْ وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ» [یوسف: ۱۰۸] ”کہہ دے یہی میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر، میں اور وہ بھی جنھوں نے میری پیروی کی ہے اور اللہ پاک ہے اور میں شریک بنانے والوں سے نہیں ہوں۔“ یہ پیغمبروں کا اور ان کے جانشینوں کا کام ہے اور اتنا عظیم کام ہے کہ ان کی دعوت سے جو لوگ راہ ہدایت اختیار کریں گے ان کا اجر ان کے علاوہ انھیں بھی ملے گا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [مَنْ دَعَا إِلٰی هُدًی كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُوْرِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا يَنْقُصُ ذٰلِكَ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ دَعَا إِلٰی ضَلَالَةٍ، كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا يَنْقُصُ ذٰلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا] [مسلم، العلم، باب من سن سنۃ حسنۃ أو سیئۃ…: ۲۶۷۴] ”جو شخص ہدایت کی کسی بات کی طرف دعوت دے اس کے لیے ان لوگوں کے اجروں جیسا اجر ہو گا جو اس کی پیروی کریں گے، یہ ان کے اجروں میں کوئی کمی نہیں کرے گا اور جو شخص گمراہی کی کسی بات کی طرف دعوت دے اس پر ان لوگوں کے گناہوں جیسا گناہ ہو گا جو اس کی پیروی کریں گے، یہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں کرے گا۔“
یہی وجہ ہے کہ پوری امت مل کر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجے کو نہیں پا سکتی، نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بعد آنے والے ان کے درجے تک پہنچ سکتے ہیں، یہی حال بعد میں دعوت الی اللہ دینے والوں کا ہے۔ پھر بات میں ان سے بہتر کون ہو سکتا ہے جسے ان اعمال کا اجر بھی مل رہا ہو جو اس نے نہیں کیے۔ کوئی شخص خود کتنا بھی عمل کر لے یہ مقام کیسے حاصل کر سکتا ہے؟
➋ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت زبان کے ساتھ بھی ہے اور ہاتھ کے ساتھ بھی۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے ساتھ تلوار دے کر بھیجا گیا، آپ کے اصحاب نے آپ کا ساتھ دیا، پھر زبانی دعوت اور جہاد فی سبیل اللہ کے ساتھ اسلام مشرق سے مغرب تک پھیل گیا۔ یہی مناسبت ہے: «هُوَ الَّذِيْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًا» [الفتح: ۲۸] کے بعد: «مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ …» [الفتح: ۲۹] میں۔ مزید دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۰۴، ۱۱۰)۔
➌ قول میں سب سے بہتر ہونے کے لیے دوسری ضروری بات {” وَ عَمِلَ صَالِحًا “} ہے، یعنی اللہ کی طرف دعوت دینے کے ساتھ وہ خود بھی عمل صالح کریں۔ صالح عمل کا مطلب یہ ہے کہ وہ خالص اللہ کے لیے ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو۔ (دیکھیے سورۂ کہف کی آخری آیت) جو شخص دوسروں کو دعوت دے مگر خود اس کے خلاف عمل کرے اس کے لیے شدید وعید آئی ہے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۴۴)۔
➍ تیسری بات {” وَ قَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ “} یعنی وہ ڈنکے کی چوٹ یہودی، نصرانی، ہندو، سکھ، کمیونسٹ، ڈیموکریٹ اور لبرل وغیرہ ہونے کے بجائے اپنے مسلم ہونے کا اعلان کرے، اس پر فخر کرے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرے۔ {” مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ “} یعنی مسلمانوں کی جماعت کا فرد ہونے پر اسے خوشی ہو اور کسی دین، مذہب، ملت یا معاشرے کو اسلام اور مسلمانوں سے بہتر نہ سمجھے۔ آج کل کے بعض ملحدوں کی طرح نہیں جو مسلمانوں میں پیدا ہو گئے، مگر وہ کفار سے اس قدر مرعوب ہیں کہ بعض اوقات یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ ہم بدقسمتی سے مسلمانوں میں پیدا ہو گئے۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
نہ بہ نظم شاعرِ خوش غزل، نہ بہ نثرِ ناثرِ بے بدل
بہ غلامیٔ شہِ عزوجل و بعاشقیٔ نبی خوشم
”نہ کسی خوب صورت غزل والے شاعر کی نظم پر اور نہ کسی بے مثال نثر لکھنے والے کی نثر پر، بلکہ میں کائنات کے بادشاہ عز و جل کی غلامی پر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر خوش ہوں۔“
عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: [ذَاقَ طَعْمَ الْإِيْمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللّٰهِ رَبًّا وَ بِالإِْسْلاَمِ دِيْنًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُوْلًا] [مسلم، الإیمان، باب الدلیل علٰی أن من رضي باللہ ربا…: ۳۴۔ ترمذي: ۲۶۲۳] ”اس شخص نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا جو اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہو گیا۔“
یہی وجہ ہے کہ پوری امت مل کر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجے کو نہیں پا سکتی، نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بعد آنے والے ان کے درجے تک پہنچ سکتے ہیں، یہی حال بعد میں دعوت الی اللہ دینے والوں کا ہے۔ پھر بات میں ان سے بہتر کون ہو سکتا ہے جسے ان اعمال کا اجر بھی مل رہا ہو جو اس نے نہیں کیے۔ کوئی شخص خود کتنا بھی عمل کر لے یہ مقام کیسے حاصل کر سکتا ہے؟
➋ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت زبان کے ساتھ بھی ہے اور ہاتھ کے ساتھ بھی۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے ساتھ تلوار دے کر بھیجا گیا، آپ کے اصحاب نے آپ کا ساتھ دیا، پھر زبانی دعوت اور جہاد فی سبیل اللہ کے ساتھ اسلام مشرق سے مغرب تک پھیل گیا۔ یہی مناسبت ہے: «هُوَ الَّذِيْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًا» [الفتح: ۲۸] کے بعد: «مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ …» [الفتح: ۲۹] میں۔ مزید دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۰۴، ۱۱۰)۔
➌ قول میں سب سے بہتر ہونے کے لیے دوسری ضروری بات {” وَ عَمِلَ صَالِحًا “} ہے، یعنی اللہ کی طرف دعوت دینے کے ساتھ وہ خود بھی عمل صالح کریں۔ صالح عمل کا مطلب یہ ہے کہ وہ خالص اللہ کے لیے ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو۔ (دیکھیے سورۂ کہف کی آخری آیت) جو شخص دوسروں کو دعوت دے مگر خود اس کے خلاف عمل کرے اس کے لیے شدید وعید آئی ہے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۴۴)۔
➍ تیسری بات {” وَ قَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ “} یعنی وہ ڈنکے کی چوٹ یہودی، نصرانی، ہندو، سکھ، کمیونسٹ، ڈیموکریٹ اور لبرل وغیرہ ہونے کے بجائے اپنے مسلم ہونے کا اعلان کرے، اس پر فخر کرے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرے۔ {” مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ “} یعنی مسلمانوں کی جماعت کا فرد ہونے پر اسے خوشی ہو اور کسی دین، مذہب، ملت یا معاشرے کو اسلام اور مسلمانوں سے بہتر نہ سمجھے۔ آج کل کے بعض ملحدوں کی طرح نہیں جو مسلمانوں میں پیدا ہو گئے، مگر وہ کفار سے اس قدر مرعوب ہیں کہ بعض اوقات یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ ہم بدقسمتی سے مسلمانوں میں پیدا ہو گئے۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
نہ بہ نظم شاعرِ خوش غزل، نہ بہ نثرِ ناثرِ بے بدل
بہ غلامیٔ شہِ عزوجل و بعاشقیٔ نبی خوشم
”نہ کسی خوب صورت غزل والے شاعر کی نظم پر اور نہ کسی بے مثال نثر لکھنے والے کی نثر پر، بلکہ میں کائنات کے بادشاہ عز و جل کی غلامی پر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر خوش ہوں۔“
عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: [ذَاقَ طَعْمَ الْإِيْمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللّٰهِ رَبًّا وَ بِالإِْسْلاَمِ دِيْنًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُوْلًا] [مسلم، الإیمان، باب الدلیل علٰی أن من رضي باللہ ربا…: ۳۴۔ ترمذي: ۲۶۲۳] ”اس شخص نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا جو اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہو گیا۔“
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
33۔ 1 یعنی لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے ساتھ خود بھی ہدایت یافتہ، دین کا پابند اور اللہ کا مطیع ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
اللہ تعالٰی کا محبوب انسان ٭٭
فرماتا ہے ’ جو اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلائے اور خود بھی نیکی کرے اسلام قبول کرے اس سے زیادہ اچھی بات اور کس کی ہو گی؟ ‘ یہ ہے جس نے اپنے تئیں نفع پہنچایا اور خلق اللہ کو بھی اپنی ذات سے نفع پہنچایا۔ یہ ان میں نہیں جو منہ کے بڑے باتونی ہوتے ہیں جو دوسروں کو کہتے تو ہیں مگر خود نہیں کرتے یہ تو خود بھی کرتا ہے اور دوسروں سے بھی کہتا ہے۔
یہ آیت عام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اولیٰ طور پر اس کے مصداق ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے مصداق اذان دینے والے ہیں جو نیک کار بھی ہوں۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے { قیامت کے دن مؤذن سب لوگوں سے زیادہ لمبی گردنوں والے ہوں گے }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:387]
سنن میں ہے { امام ضامن ہے اور مؤذن امانتدار ہے اللہ تعالیٰ اماموں کو راہ راست دکھائے اور موذنوں کو بخشے }۔ ۱؎ [سنن ابوداود:517،قال الشيخ الألباني:صحیح]
ابن ابی حاتم میں ہے سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”اذان دینے والوں کا حصہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک مثل جہاد کرنے والوں کے حصے کے ہے۔ اذان و اقامت کے درمیان ان کی وہ حالت ہے جیسے کوئی جہاد میں راہ اللہ میں اپنے خون میں لوٹ پوٹ ہو رہا ہو۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”اگر میں مؤذن ہوتا تو پھر مجھے حج و عمرے اور جہاد کی اتنی زیادہ پروانہ نہ رہتی۔“
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے { اگر میں مؤذن ہوتا تو میری آرزو پوری ہو جاتی۔ اور میں رات کے نفلی قیام کی اور دن کے نفلی روزوں کی اس قدر تگ ودو نہ کرتا۔ میں نے سنا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار موذنوں کی بخشش کی دعا مانگی۔ اس پر میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں ہمیں یاد نہ فرمایا حالانکہ ہم اذان کہنے پر تلواریں تان لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { ہاں! لیکن اے عمر! ایسا زمانہ بھی آنے والا ہے کہ مؤذنی غریب مسکین لوگوں تک رہ جائے گا۔ سنو عمر جن لوگوں کا گوشت پوست جہنم پر حرام ہے ان میں مؤذن ہیں } }۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں { اس آیت میں بھی موذنوں کی تعریف ہے اس کا «حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃِ» کہنا اللہ کی طرف بلانا ہے }۔ ۱؎ [ضعیف]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اور عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”یہ آیت مؤذنوں کے بارے میں اتری ہے اور یہ جو فرمایا کہ وہ عمل صالح کرتا ہے اس سے مراد اذان و تکبیر کے درمیان دو رکعت پڑھنا ہے۔“
جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے { دو اذانوں کے درمیان نماز ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے جو چاہے }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:624]
ایک حدیث میں ہے کہ { اذان و اقامت کے درمیان کی دعا رد نہیں ہوتی }۔۱؎ [سنن ابوداود:521،قال الشيخ الألباني:صحیح]
یہ آیت عام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اولیٰ طور پر اس کے مصداق ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے مصداق اذان دینے والے ہیں جو نیک کار بھی ہوں۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے { قیامت کے دن مؤذن سب لوگوں سے زیادہ لمبی گردنوں والے ہوں گے }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:387]
سنن میں ہے { امام ضامن ہے اور مؤذن امانتدار ہے اللہ تعالیٰ اماموں کو راہ راست دکھائے اور موذنوں کو بخشے }۔ ۱؎ [سنن ابوداود:517،قال الشيخ الألباني:صحیح]
ابن ابی حاتم میں ہے سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”اذان دینے والوں کا حصہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک مثل جہاد کرنے والوں کے حصے کے ہے۔ اذان و اقامت کے درمیان ان کی وہ حالت ہے جیسے کوئی جہاد میں راہ اللہ میں اپنے خون میں لوٹ پوٹ ہو رہا ہو۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”اگر میں مؤذن ہوتا تو پھر مجھے حج و عمرے اور جہاد کی اتنی زیادہ پروانہ نہ رہتی۔“
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے { اگر میں مؤذن ہوتا تو میری آرزو پوری ہو جاتی۔ اور میں رات کے نفلی قیام کی اور دن کے نفلی روزوں کی اس قدر تگ ودو نہ کرتا۔ میں نے سنا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار موذنوں کی بخشش کی دعا مانگی۔ اس پر میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں ہمیں یاد نہ فرمایا حالانکہ ہم اذان کہنے پر تلواریں تان لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { ہاں! لیکن اے عمر! ایسا زمانہ بھی آنے والا ہے کہ مؤذنی غریب مسکین لوگوں تک رہ جائے گا۔ سنو عمر جن لوگوں کا گوشت پوست جہنم پر حرام ہے ان میں مؤذن ہیں } }۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں { اس آیت میں بھی موذنوں کی تعریف ہے اس کا «حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃِ» کہنا اللہ کی طرف بلانا ہے }۔ ۱؎ [ضعیف]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اور عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”یہ آیت مؤذنوں کے بارے میں اتری ہے اور یہ جو فرمایا کہ وہ عمل صالح کرتا ہے اس سے مراد اذان و تکبیر کے درمیان دو رکعت پڑھنا ہے۔“
جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے { دو اذانوں کے درمیان نماز ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے جو چاہے }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:624]
ایک حدیث میں ہے کہ { اذان و اقامت کے درمیان کی دعا رد نہیں ہوتی }۔۱؎ [سنن ابوداود:521،قال الشيخ الألباني:صحیح]
صحیح بات یہ ہے کہ آیت اپنے عموم کے لحاظ سے مؤذن غیر مؤذن ہر اس شخص کو شامل ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے۔ یہ یاد رہے کہ آیت کے نازل ہونے کے وقت تو سرے سے اذان شروع ہی نہ تھی۔ اس لیے کہ آیت مکے میں اترتی ہے اور اذان مدینے پہنچ جانے کے بعد مقرر ہوئی ہے جبکہ عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ نے اپنے خواب میں اذان دیتے دیکھا اور سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { بلال کو سکھاؤ۔ وہ بلند آواز والے ہیں }۔ پس صحیح بات یہی ہے کہ آیت عام ہے اس میں مؤذن بھی شامل ہیں۔
حسن بصری رحمہ اللہ اس آیت کو پڑھ کر فرماتے ہیں ”یہی لوگ حبیب اللہ ہیں۔ یہی اولیاء اللہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے پسندیدہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے محبوب ہیں کہ انہوں نے اللہ کی باتیں مان لیں پھر دوسروں سے منوانے لگے اور اپنے ماننے میں نیکیاں کرتے رہے اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے رہے یہاں اللہ کے خلیفہ ہیں، بھلائی اور برائی نیکی اور بدی برابر برابر نہیں بلکہ ان میں بے حد فرق ہے جو تجھ سے برائی کرے تو اس سے بھلائی کر اور اس کی برائی کو اس طرح دفع کر۔“
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ”تیرے بارے میں جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے تو تو اس کے بارے میں اللہ کی فرمابرداری کر اس سے بڑھ کو کوئی چیز نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ ایسا کرنے سے تیرا جانی دشمن دلی دوست بن جائے گا ‘، اس وصیت پر عمل اسی سے ہو گا جو صابر ہو نفس پر اختیار رکھتا ہو اور ہو بھی نصیب دار کہ دین و دنیا کی بہتری اس کی تقدیر میں ہو۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”ایمان والوں کو اللہ کا حکم ہے کہ وہ غصے کے وقت صبر کریں اور دوسرے کی جہالت پر اپنی بردباری کا ثبوت دیں اور دوسرے کی برائی سے در گزر کر لیں ایسے لوگ شیطانی داؤ سے محفوظ رہتے ہیں اور ان کے دشمن بھی پھر تو ان کے دوست بن جاتے ہیں۔“
حسن بصری رحمہ اللہ اس آیت کو پڑھ کر فرماتے ہیں ”یہی لوگ حبیب اللہ ہیں۔ یہی اولیاء اللہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے پسندیدہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے محبوب ہیں کہ انہوں نے اللہ کی باتیں مان لیں پھر دوسروں سے منوانے لگے اور اپنے ماننے میں نیکیاں کرتے رہے اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے رہے یہاں اللہ کے خلیفہ ہیں، بھلائی اور برائی نیکی اور بدی برابر برابر نہیں بلکہ ان میں بے حد فرق ہے جو تجھ سے برائی کرے تو اس سے بھلائی کر اور اس کی برائی کو اس طرح دفع کر۔“
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ”تیرے بارے میں جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے تو تو اس کے بارے میں اللہ کی فرمابرداری کر اس سے بڑھ کو کوئی چیز نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ ایسا کرنے سے تیرا جانی دشمن دلی دوست بن جائے گا ‘، اس وصیت پر عمل اسی سے ہو گا جو صابر ہو نفس پر اختیار رکھتا ہو اور ہو بھی نصیب دار کہ دین و دنیا کی بہتری اس کی تقدیر میں ہو۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”ایمان والوں کو اللہ کا حکم ہے کہ وہ غصے کے وقت صبر کریں اور دوسرے کی جہالت پر اپنی بردباری کا ثبوت دیں اور دوسرے کی برائی سے در گزر کر لیں ایسے لوگ شیطانی داؤ سے محفوظ رہتے ہیں اور ان کے دشمن بھی پھر تو ان کے دوست بن جاتے ہیں۔“
اب شیطانی شر سے بچنے کا طریقہ بیان ہو رہا ہے کہ ’ اللہ کی طرف جھک جایا کرو اسی نے اسے یہ طاقت دے رکھی ہے کہ وہ دل میں وساوس پیدا کرے اور اسی کے اختیار میں ہے کہ وہ اس کے شر سے محفوظ رکھے ‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں فرماتے تھے { «أَعُوذُ بِاللهِ السَّمِيعِ العَلِيم مِنَ الشَّیطانِ الرَّجِيمِ مِن هَمْزِهِ وَنَفْثِهِ وَنَفْخِهِ ومِنْ هَمَزَاتِ الشّيَاطِينِ وَأَعُوذَ بَكَ رَبِّي أَنْ يَحْضُرُونِ» }۔ ۱؎ [سنن ابوداود:775،قال الشيخ الألباني:صحیح] پہلے ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس مقام جیسا ہی مقام صرف سورۂ اعراف میں ہے جہاں ارشاد ہے «خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ» ۱؎ [7-الأعراف:199]، اور سورۃ مومنین کی آیت «اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ» ۱؎ [23-المؤمنون:96]، میں حکم ہوا ہے کہ ’ در گزر کرنے کی عادت ڈالو اور اللہ کی پناہ میں آ جایا کرو برائی کا بدلہ بھلائی سے دیا کرو ‘ وغیرہ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں فرماتے تھے { «أَعُوذُ بِاللهِ السَّمِيعِ العَلِيم مِنَ الشَّیطانِ الرَّجِيمِ مِن هَمْزِهِ وَنَفْثِهِ وَنَفْخِهِ ومِنْ هَمَزَاتِ الشّيَاطِينِ وَأَعُوذَ بَكَ رَبِّي أَنْ يَحْضُرُونِ» }۔ ۱؎ [سنن ابوداود:775،قال الشيخ الألباني:صحیح] پہلے ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس مقام جیسا ہی مقام صرف سورۂ اعراف میں ہے جہاں ارشاد ہے «خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ» ۱؎ [7-الأعراف:199]، اور سورۃ مومنین کی آیت «اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ» ۱؎ [23-المؤمنون:96]، میں حکم ہوا ہے کہ ’ در گزر کرنے کی عادت ڈالو اور اللہ کی پناہ میں آ جایا کرو برائی کا بدلہ بھلائی سے دیا کرو ‘ وغیرہ۔