ترجمہ و تفسیر — سورۃ سبأ (34) — آیت 8
اَفۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَمۡ بِہٖ جِنَّۃٌ ؕ بَلِ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ فِی الۡعَذَابِ وَ الضَّلٰلِ الۡبَعِیۡدِ ﴿۸﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
کیا اس نے اللہ پر ایک جھوٹ باندھا ہے، یا اسے کچھ جنون ہے؟بلکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ عذاب اور بہت دور کی گمراہی میں ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
یا تو اس نے خدا پر جھوٹ باندھ لیا ہے۔ یا اسے جنون ہے۔ بات یہ ہے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ آفت اور پرلے درجے کی گمراہی میں (مبتلا) ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
(ہم نہیں کہہ سکتے) کہ خود اس نے (ہی) اللہ پر جھوٹ باندھ لیا ہے یا اسے دیوانگی ہے بلکہ (حقیقت یہ ہے) کہ آخرت پر یقین نہ رکھنے والے ہی عذاب میں اور دور کی گمراہی میں ہیں

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 8) ➊ { اَفْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا …:} یعنی اس کا یہ کہنا کہ ریزہ ریزہ کر دیے جانے کے بعد تم نئے سرے سے پھر زندہ کیے جاؤ گے، دو حال سے خالی نہیں، یا تو ہوش و حواس کی درستی میں وہ جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ رہا ہے اور اس کی طرف نسبت کر کے وہ بات کہہ رہا ہے جو اس نے نہیں فرمائی، یا اسے جنون ہے، اس کا دماغ خراب ہے، بے سوچے سمجھے جو جی میں آئے کہہ دیتا ہے۔ [نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ]
➋ { بَلِ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ …:} رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری عمر قریش مکہ کے سامنے گزری تھی۔ (دیکھیے یونس: ۱۶) آپ کے متعلق یہ دونوں باتیں اتنی بے کار تھیں کہ ان کی تردید کی ضرورت ہی نہیں تھی، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صادق اور امین ہونا سب کے ہاں مسلّم تھا۔(دیکھیے انعام: ۳۳) جیسا کہ ابوسفیان کے اس اعتراف پر کہ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جھوٹ بولنے کا کوئی واقعہ معلوم نہیں، ہرقل نے کہا تھا: یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ لوگوں پر تو جھوٹ نہ بولے، مگر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے لگے۔ [دیکھیے بخاري: ۷] رہی دیوانہ یا پاگل ہونے کی بات تو آپ کی عقل کا کمال دوست و دشمن سب کے سامنے تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان دونوں باتوں میں سے ایک بھی نہیں، اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کے منکر ہیں وہ جہالت اور نادانی سے کام لے رہے ہیں اور غوروفکر سے بات کی تہ تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے، جس کی وجہ سے وہ حق بات اور سیدھی راہ سے بہت دور نکل گئے ہیں اور اس راستے پر چل رہے ہیں جو انھیں سیدھا جہنم کے عذاب میں لے جانے والا ہے۔ الٹا سیدھی راہ پر چلنے والے کو جھوٹا یا دیوانہ بتا رہے ہیں۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

8۔ 1 یعنی دو باتوں میں سے ایک بات تو ضرور ہے، کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اور اللہ کی طرف سے وحی و رسالت کا دعویٰ، یہ اس کا اللہ پر افترا ہے۔ یا پھر اس کا دماغ چل گیا ہے اور دیوانگی میں ایسی باتیں کر رہا ہے جو غیر معقول ہیں۔ 8۔ 2 اللہ تعالیٰ نے فرمایا، بات اس طرح نہیں ہے، جس طرح یہ گمان کر رہے ہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ عقل و فہم اور ادراک حقائق سے یہی لوگ قاصر ہیں، جس کی وجہ سے یہ آخرت پر ایمان لانے کی بجائے اس کا انکار کر رہے ہیں، جس کا نتیجہ آخرت کا دائمی عذاب ہے اور یہ آج ایسی گمراہی میں مبتلا ہیں جو حق سے غایت درجہ دور ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

کافروں کی جہالت ٭٭
کافر اور ملحد جو قیامت کے آنے کو محال جانتے تھے اور اس پر اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے تھے ان کے کفریہ کلمات کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ آپس میں کہتے تھے لو اور سنو ہم میں ایک صاحب ہیں جو فرماتے ہیں کہ جب مر کر مٹی میں مل جائیں گے اور چورا چورا اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اس کے بعد بھی ہم زندہ کئے جائیں گے اس شخص کی نسبت دو ہی خیال ہو سکتے ہیں یا تو یہ کہ ہوش و حواس کی درستی میں وہ عمداً اللہ کے ذمے ایک جھوٹ بول رہا ہے اور جو اس نے نہیں فرمایا وہ اس کی طرف نسبت کر کے یہ کہہ رہا ہے اور اگر یہ نہیں تو اس کا دماغ خراب ہے، مجنون ہے، بے سوچے سمجھے جو جی میں آئے کہہ دیتا ہے
اللہ تعالیٰ انہیں جواب دیتا ہے کہ یہ دونوں باتیں نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں، نیک ہیں، راہ یافتہ ہیں، دانا ہیں، باطنی اور ظاہری بصیرت والے ہیں۔ لیکن اسے کیا کیا جائے کہ منکر لوگ جہالت اور نادانی سے کام لے رہے ہیں۔ اور غور و فکر سے بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے حق بات اور سیدھی راہ ان سے چھوٹ جاتی ہے اور وہ بہت دور نکل جاتے ہیں۔
کیا اس کی قدرت میں تم کوئی کمی دیکھ رہے ہو۔ جس نے محیط آسمان اور بسیط زمین پیدا کر دی۔ جہاں جاؤ نہ آسمان کا سایہ ختم ہو نہ زمین کا فرش۔
جیسے فرمان ہے «وَالسَّمَاءَ بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ» ۱؎ [51-الذاريات:47-48]‏‏‏‏ ’ ہم نے آسمان کو اپنے ہاتھوں بنایا اور ہم کشادگی والے ہیں۔ زمین کو ہم نے ہی بچھایا اور ہم بہت اچھے بچھانے والے ہیں۔ ‘
یہاں بھی فرمایا کہ آگے دیکھو پیچھے دیکھو اسی طرح دائیں دیکھو بائیں کی طرف التفات کرو تو وسیع آسمان اور بسیط زمین ہی نظر آئے گی۔
اتنی بڑی مخلوق کا خالق اتنی زبردست قدرتوں پر قادر کیا تم جیسی چھوٹی سی مخلوق کو فنا کر کے پھر پیدا کرنے پر قدرت کھو بیٹھے؟ وہ تو قادر ہے کہ اگر چاہے تمہیں زمین میں دھنسا دے۔ یا آسمان تم پر توڑ دے یقیناً تمہارے ظلم اور گناہ اسی قابل ہیں۔ لیکن اللہ کا حکم اور عفو ہے کہ وہ تمہیں مہلت دیئے ہوئے ہے۔
جس میں عقل ہے جس میں دور بینی کا مادہ ہو جس میں غور و فکر کی عادت ہو۔ جس کی اللہ کی طرف جھکنے والی طبیعت ہو۔ جس کے سینے میں دل، دل میں حکمت اور حکمت میں نور ہو وہ تو ان زبردست نشانات کو دیکھنے کے بعد اس قادر و خالق اللہ کی اس قدرت میں شک کر ہی نہیں سکتا کہ مرنے کے بعد پھر جینا ہے۔
آسمانوں جیسے شامیانے اور زمینوں جیسے فرش جس نے پیدا کر دئیے اس پر انسان کی پیدائش کیا مشکل ہے؟ جس نے ہڈیوں، گوشت، کھال کو ابتداً پیدا کیا۔ اسے ان کے سڑ گل جانے اور ریزہ ریزہ ہو کر جھڑ جانے کے بعد اکٹھا کر کے اٹھا بٹھانا کیا بھاری ہے؟
اسی کو اور آیت میں فرمایا «اَوَلَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ» ۱؎ [36-يس:81]‏‏‏‏، یعنی ’ آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کر دیا کیا وہ ان کے مثل پیدا کرنے پر قادر نہیں؟ بے شک وہ قادر ہے ‘
اور آیت میں ہے «لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ» ۱؎ [40-غافر:57]‏‏‏‏ یعنی ’ انسانوں کی پیدائش سے بہت زیادہ مشکل تو آسمان و زمین کی پیدائش ہے۔ لیکن اکثر لوگ بےعلمی برتتے ہیں۔ ‘

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل