ترجمہ و تفسیر — سورۃ الأحزاب (33) — آیت 7
وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیۡثَاقَہُمۡ وَ مِنۡکَ وَ مِنۡ نُّوۡحٍ وَّ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ ۪ وَ اَخَذۡنَا مِنۡہُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا ۙ﴿۷﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور جب ہم نے تمام نبیوں سے ان کا پختہ عہد لیا اور تجھ سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم سے بھی اور ہم نے ان سے بہت پختہ عہد لیا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا اور تم سے نوح سے اور ابراہیم سے اور موسیٰ سے اور مریم کے بیٹے عیسیٰ سے۔ اور عہد بھی اُن سے پکّا لیا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
جب کہ ہم نے تمام نبیوں سے عہد لیا اور (بالخصوص) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور موسیٰ سے اور مریم کے بیٹے عیسیٰ سے، اور ہم نے ان سے (پکا اور) پختہ عہد لیا

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 7) ➊ { وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِيّٖنَ مِيْثَاقَهُمْ …:} جاہلی معاشرے میں منہ بولے بیٹوں کی ان کے باپ کی طرف نسبت کرنے کے حکم، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنٰی زید رضی اللہ عنہ کی طلاق کے بعد اس کی بیوی سے نکاح کے حکم پر عمل نہایت مشکل تھا، کیونکہ متبنٰی کا مسئلہ ان کے دینی عقیدے کی شکل اختیار کر چکا تھا اور ان کے رگ و پے میں رچ چکا تھا۔ پھر زینب رضی اللہ عنھا سے نکاح میں طرح طرح کی باتوں کا اندیشہ بھی تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس عہد کی طرف توجہ دلائی جو اس نے تمام انبیاء سے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا، جس میں ان پر یہ فریضہ عائد کیا کہ وہ ہر حال میں احکام پر عمل کرنے میں اور انھیں لوگوں تک پہنچانے میں کوئی تنگی محسوس نہیں کریں گے، نہ ہی اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے ڈریں گے۔ یہی بات اس سورۂ احزاب میں دوبارہ زیادہ تفصیل کے ساتھ آیت (۳۸، ۳۹) میں آ رہی ہے۔ انبیاء سے لیے جانے والے میثاق کا ذکر سورۂ احزاب کی اس آیت اور آیت (۳۸، ۳۹) کے علاوہ سورۂ آل عمران کی آیت (۸۱) اور سورۂ شوریٰ کی آیت (۱۳) میں بھی آیا ہے کہ ہر پیغمبر دوسرے تمام پیغمبروں کی تصدیق کرے گا، اپنے آپ پر اور لوگوں پر دین قائم کرے گا۔ دین میں تفرقے سے بچے گا۔ مشرکین پر گراں گزرنے کے باوجود اللہ کے دین کی دعوت میں کوتاہی نہیں کرے گا۔
➋ { وَ مِنْكَ وَ مِنْ نُّوْحٍ …:} تمام انبیاء سے عہد لینے کے بعد پانچ پیغمبروں کا نام لے کر عہد لینے کی صراحت فرمائی۔ اس سے ان پیغمبروں کی شان کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ ان میں سے ہر پیغمبر کی دعوت مدت دراز تک جاری رہی، پھر سب سے آخر میں آنے کے باوجود ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پہلے ذکر فرمایا۔ آپ کے بعد باقی انبیاء کا نام ان کے تشریف لانے کی ترتیب کے ساتھ ذکر فرمایا۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعت کا اظہار مقصود ہے اور یہ بھی کہ یہاں اس عہد کا ذکر خاص آپ کے لیے کیا گیا ہے۔ بعض مفسرین نے اس مقام پر لکھا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ دنیا میں سب سے آخر میں تشریف لائے، مگر وجود میں سب سے پہلے آئے، یعنی سب سے پہلے پیدا ہوئے، مگر یہ بات بالکل بے دلیل ہے۔ جس حدیث میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ کب سے نبی ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [كُنْتُ نَبِيًّا وَ آدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَ الْجَسَدِ] [مستدرک حاکم: 608/2، ح: ۴۲۰۹] (میں اس وقت نبی تھا جب آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیان تھے) اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی طے ہونے کا بیان ہے۔ یہ معنی نہیں کہ آپ اس وقت پیدا ہو چکے تھے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے آخر میں پیدا ہونا سب کو معلوم ہے۔
خصوصاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچا دینے کی تاکید کا ذکر سورۂ مائدہ (۶۷) میں ہے اور اہلِ کتاب کو اس تاکید کا ذکر سورۂ آل عمران (۱۸۷) اور اعراف (۱۶۹) میں ہے۔
➍ اس مقام پر اس عہد کو یاد دلانے اور بالخصوص { مِنْكَ } کہنے سے مراد یہ ہے کہ آپ جو منہ بولے رشتوں کے معاملے میں جاہلیت کی رسم توڑنے سے جھجک رہے ہیں اور دشمنوں کے طعن و تشنیع سے ڈر رہے ہیں، تو آپ لوگوں کے طعن و تشنیع کی قطعاً پروا نہ کریں، دوسرے پیغمبروں کی طرح آپ سے بھی ہمارا پختہ معاہدہ ہے کہ جو کچھ بھی ہم آپ کو حکم دیں گے اسے بجا لاؤ گے اور دوسروں کو اس کی پیروی کا حکم دو گے، لہٰذا جو فریضہ ہم نے آپ پر عائد کیا ہے اسے بلا تامل سرانجام دیں اور کفار و منافقین کی باتوں کی پروا مت کریں، ان سے آپ کو محفوظ رکھنا ہماری ذمہ داری ہے، فرمایا: «{ وَ اللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ [المائدۃ: ۶۷] اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

7-1اس عہد سے مراد ہے؟ بعض کے نزدیک یہ وہ عہد ہے جو ایک دوسرے کی مدد اور تصدیق کا انبیاء (علیہم السلام) سے لیا گیا تھا (وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاق النَّبِيّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗ ۭ قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰي ذٰلِكُمْ اِصْرِيْ ۭ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا ۭ قَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَ) 3۔ آل عمران:81) میں ہے، بطور خاص پانچ انبیاء (علیہم السلام) کا نام لیا گیا جن سے ان کی اہمیت و عظمت واضح ہے اور ان میں بھی نبی کا ذکر سب سے پہلے ہے درآں حالیکہ نبوت کے لحاظ سے آپ سب سے متأخر ہیں، اس سے آپ کی عظمت اور شرف کا جس طرح اظہار ہو رہا ہے، محتاج وضاحت نہیں۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

میثاق انبیاء ٭٭
فرمان ہے کہ ’ ان پانچوں اولوالعزم پیغمبروں سے اور عام نبیوں سے سب سے ہم نے عہدو وعدہ لیا کہ وہ میرے دین کی تبلیغ کریں گے اس پر قائم رہیں گے۔ آپس میں ایک دوسرے کی مدد امداد اور تائید کریں گے اور اتفاق واتحاد رکھیں گے ‘۔
اسی عہد کا ذکر اس آیت میں ہے «وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاق النَّبِيّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗ» ۱؎ [3-آل عمران:81]‏‏‏‏، یعنی ’ اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے قول قرار لیا کہ جو کچھ کتاب و حکمت دے کر میں تمہیں بھیجوں پھر تمہارے ساتھ کی چیز کی تصدیق کرنے والا رسول آ جائے تو تم ضرور اس پر ایمان لانا اور اس کی امداد کرنا۔ بولو تمہیں اس کا اقرار ہے؟ اور میرے سامنے اس کا پختہ وعدہ کرتے ہیں؟ سب نے جواب دیا کہ ہاں ہمیں اقرار ہے ‘۔ جناب باری تعالیٰ نے فرمایا ’ بس اب گواہ رہنا اور میں خود بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں ‘۔ یہاں عام نبیوں کا ذکر کر کے پھر خاص جلیل القدر پیغمبروں کا نام بھی لے دیا۔
اسی طرح ان کے نام اس آیت میں بھی ہیں «شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهٖٓ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ» ‏‏‏‏ ۱؎ [42-الشورى:13]‏‏‏‏، یہاں حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر ہے جو زمین پر اللہ کے پہلے پیغمبر تھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے جو سب سے آخری پیغمبر تھے۔ اور ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کا ذکر ہے جو درمیانی پیغمبر تھے۔
ایک لطافت اس میں یہ ہے کہ پہلے پیغمبر آدم علیہ السلام کے بعد کے پیغمبر نوح علیہ السلام کا ذکر کیا اور آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا اور درمیانی پیغمبروں میں سے حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کا ذکر کیا۔
یہاں تو ترتیب یہ رکھی کہ فاتح اور خاتم کا ذکر کر کے بیچ کے نبیوں کا بیان کیا اور اس آیت میں سب سے پہلے خاتم الانیباء کا نام لیا اس لیے کہ سب سے اشرف وافضل آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ پھر یکے بعد دیگرے جس طرح آئے ہیں اسی طرح ترتیب وار بیان کیا اللہ تعالیٰ اپنے تمام نبیوں پر اپنا درود وسلام نازل فرمائے۔
اس آیت کی تفسیر میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { پیدائش کے اعتبار سے میں سب نبیوں سے پہلے ہوں اور دنیا میں آنے کے اعتبار سے سب سے آخر میں ہوں پس مجھ سے ابتداء کی ہے }۔ ۱؎ [سلسلة احادیث ضعیفه البانی:661،]‏‏‏‏ یہ حدیث ابن ابی حاتم میں ہے لیکن اس کے ایک راوی سعید بن بشیر ضعیف ہیں۔ اور سند سے یہ مرسل مروی ہے اور یہی مشابہت رکھتی ہےاور بعض نے اسے موقوف روایت کہا ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سب سے زیادہ اللہ کے پسندیدہ پانچ پیغمبر ہیں۔ نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ، اور محمد «فَصَلَواةُ الّلهِ وَسَلَامُه عَلَیْهِمْ اَجْمَعِیْنَ» اور ان میں بھی سب سے بہتر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس کا ایک راوی حمزہ ضعیف ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آیت میں جس عہد ومیثاق کا ذکر ہے یہ وہ ہے جو روز ازل میں حضرت آدم علیہ السلام کی پیٹھ سے تمام انسانوں کو نکال کر لیا تھا۔
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو بلند کیا گیا آپ نے اپنی اولاد کو دیکھا ان میں مالدار مفلس خوبصورت اور ہر طرح کے لوگ دیکھے تو کہا کہ اللہ کیا اچھا ہوتا کہ تو نے ان سب کو برابر ہی رکھا ہوتا اللہ تعالیٰ جل و علا نے فرمایا کہ ’ یہ اس لئے ہے کہ میرا شکر ادا کیا جائے ‘۔ ان میں جو انبیاء کرام علیہم السلام تھے انہیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا وہ روشنی کے مانند نمایاں تھے اور ان پر نور برس رہا تھا ان سے نبوت و رسالت کا ایک اور خاص عہد لیا گیا تھا جس کا بیان اس آیت میں ہے۔
صادقوں سے ان کے صدق کا سوال ہو یعنی ان سے جو احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہنچانے والے تھے۔ ان کی امتوں میں سے جو بھی ان کو نہ مانے اسے سخت عذاب ہوگا۔
اے اللہ! تو گواہ رہ ہماری گواہی ہے ہم دل سے مانتے ہیں کہ بیشک تیرے رسولوں نے تیرا پیغام تیرے بندوں کو بلا کم وکاست پہنچا دیا۔ انہوں نے پوری خیر خواہی اور حق کو صاف طور پر نمایاں طریقے سے واضح کر دیا جس میں کوئی پوشیدگی کوئی شبہ کسی طرح کا شک نہ رہا گو بدنصیب ضدی جھگڑالو لوگوں نے انہیں نہ مانا۔ ہمارا ایمان ہے کہ تیرے رسولوں کی تمام باتیں سچ اور حق ہیں اور جس نے ان کی راہ نہ پکڑی وہ گمراہ اور باطل پر ہے۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل