وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡتَرِیۡ لَہۡوَ الۡحَدِیۡثِ لِیُضِلَّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ٭ۖ وَّ یَتَّخِذَہَا ہُزُوًا ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿۶﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو غافل کرنے والی بات خریدتا ہے، تاکہ جانے بغیر اللہ کے راستے سے گمراہ کرے اور اسے مذاق بنائے۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور لوگوں میں بعض ایسا ہے جو بیہودہ حکایتیں خریدتا ہے تاکہ (لوگوں کو) بےسمجھے خدا کے رستے سے گمراہ کرے اور اس سے استہزاء کرے یہی لوگ ہیں جن کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بےعلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راه سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں، یہی وه لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے واﻻ عذاب ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 7،6) ➊ {وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ …:} محسنین کے اوصاف اور ان کے حسنِ انجام کے ذکر کے بعد ان بدنصیبوں کا ذکر فرمایا جن کے لیے {” عَذَابٌ مُّهِيْنٌ “} یعنی ذلیل کرنے والا عذاب تیار ہے۔ {” لَهْوَ “} کا لفظی معنی ”غافل کر دینا“ ہے، جیسا کہ فرمایا: «{ لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ }» [المنافقون: ۹] ”تمھارے اموال اور تمھاری اولاد تمھیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں۔“ {” لَهْوَ “} ہر اس بات یا کام کو کہتے ہیں جو انسان کو اس کے مقصد کی چیز سے غافل کر دے۔ شیخ عبدالرحمان السعدی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: {” وَ مِنَ النَّاسِ “} لوگوں میں سے کوئی ایسا بد نصیب اور بے توفیق بھی ہے، {” مَنْ يَّشْتَرِيْ “} جو اس طرح رغبت رکھتا اور پسند کرتا ہے جیسے قیمت خرچ کر کے حاصل کرنے والا پسند کرتا ہے، {” لَهْوَ الْحَدِيْثِ “} ان باتوں کو جو دلوں کو غافل کر دینے والی اور عظیم مقصد سے روک دینے والی ہوتی ہیں۔ چنانچہ اس میں ہر حرام کلام، ہر باطل اور ایسے اقوال پر مشتمل ہر ہذیان داخل ہے جو کفر، فسق اور معصیت کی رغبت پیدا کرے، وہ اقوال حق کو رد کرنے والے لوگوں کے ہوں، جو باطل کے ساتھ بحث کر کے حق کو زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، غیبت، چغلی، جھوٹ اور گالی گلوچ کی صورت میں ہوں یا گانے بجانے، شیطان کے باجوں اور غافل کر دینے والی داستانوں اور افسانوں کی صورت میں ہوں، جن کا نہ دنیا میں کوئی فائدہ ہو نہ آخرت میں۔ تو لوگوں کی یہ قسم وہ ہے جو ہدایت والی بات چھوڑ کر {” لَهْوَ “} والی بات خریدتی ہے۔“
➋ میں نے شیخ عبد الرحمن السعدی کا کلام اس لیے نقل کیا ہے کہ عام طور پر اس آیت میں {” لَهْوَ الْحَدِيْثِ “} سے مراد صرف گانا بجانا لیا جاتا ہے، جب کہ آیت کا مفہوم اس سے بہت وسیع ہے، اگرچہ حرام غنا (ناجائز گانا) بھی اس میں شامل ہے۔ طبری میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے جو حسن سند کے ساتھ ثابت ہے کہ انھوں نے قسم کھا کر فرمایا کہ اس سے مراد غنا (گانا) ہے، تو یہ {” لَهْوَ الْحَدِيْثِ “} کی ایک جزئی کا بیان ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اس کا مصداق ایسے گانے بجانے والے ہوں گے جو دین سے روکنے والے، اللہ تعالیٰ کی آیات کو مذاق بنانے والے اور انھیں سن کر تکبر سے منہ پھیرنے والے ہوں، کیونکہ ان اوصاف کی ان آیات میں صراحت ہے، اور یہ اوصاف کفار کے ہیں مسلمانوں کے نہیں اور انھی کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ مسلمان کو ہونے والا عذاب تو اسے گناہوں سے پاک کرنے کے لیے ہو گا۔ البتہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مسلمان کہلانے والے لوگ جو حرام عشقیہ گانے بجانے کو اپنا پیشہ یا شغل بنا لیتے ہیں، اس کے نتیجے میں ان کے دلوں میں بدترین نفاق پیدا ہو جاتا ہے اور اللہ کی آیات کو سن کر ان کے ساتھ ان کا رویہ بھی بعینہٖ وہی ہوتا ہے جو ان آیات میں مذکور ہے۔ یہ لوگ اللہ کی آیات کا مذاق اڑانے کے لیے مولوی کا مذاق اڑاتے اور اسے گالی دیتے ہیں، جب کہ ظاہر ہے کہ مولوی بے چارے کا قصور یہ ہے کہ وہ اللہ کی آیات سناتا ہے۔ ایسی صورت میں صرف نام کے مسلمان ہونے کا اللہ تعالیٰ کے ہاں کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ اللہ کی آیات کے انکار، ان سے استکبار اور ان کو مذاق بنانے کے ساتھ مسلمانی کے دعوے پر اصرار قیامت کے دن ان کے کسی کام نہ آئے گا۔ افسوس! اس وقت یہ بیماری بری طرح امتِ مسلمہ میں پھیل چکی ہے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، موبائل فون، انٹرنیٹ، غرض ہر ذریعے سے کفار اور ان کے نام نہاد مسلم گماشتوں نے اسے اس قدر پھیلا دیا ہے کہ کم ہی کوئی خوش نصیب اس سے بچا ہو گا۔ حالانکہ دین کے کمال و زوال کے علاوہ دنیوی عروج و زوال میں بھی اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اقبال نے چند لفظو ں میں اس کا نقشہ کھینچا ہے:
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر
کوئی شخص اگر حرام گانے بجانے کا عمل گناہ سمجھ کر کرے، اس پر نادم ہو تو پھر بھی معافی کی امید ہے، مگر جب کوئی قوم فنون لطیفہ یا روح کی غذا کا نام دے کر اسے حلال ہی کرلے، تو اس کے لیے اللہ کے عذاب کے کوڑے سے بچنا بہت ہی مشکل ہے۔ ابو عامر یا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [لَيَكُوْنَنَّ مِنْ أُمَّتِيْ أَقْوَامٌ يَسْتَحِلُّوْنَ الْحِرَ وَالْحَرِيْرَ وَالْخَمْرَ وَالْمَعَازِفَ، وَلَيَنْزِلَنَّ أَقْوَامٌ إِلٰی جَنْبِ عَلَمٍ يَرُوْحُ عَلَيْهِمْ بِسَارِحَةٍ لَّهُمْ، يَأْتِيْهِمْ، يَعْنِي الْفَقِيْرَ، لِحَاجَةٍ فَيَقُوْلُوْا ارْجِعْ إِلَيْنَا غَدًا فَيُبَيِّتُهُمُ اللّٰهُ وَيَضَعُ الْعَلَمَ، وَيَمْسَخُ آخَرِيْنَ قِرَدَةً وَخَنَازِيْرَ إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ] [بخاري، الأشربۃ، باب ما جاء فیمن یستحل الخمر…: ۵۵۹۰] ”میری امت میں کئی لوگ ہوں گے جو شرم گاہ (زنا) اور ریشم اور شراب اور باجوں کو حلال کر لیں گے اور کئی لوگ ایک پہاڑ کے پہلو میں اتریں گے، ان کے چرواہے شام کو ان کے چرنے والے مویشی لایا کریں گے، ان کے پاس فقیر اپنی حاجت کے لیے آئے گا، وہ کہیں گے کل آنا۔ تورات ہی کو اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب بھیجے گا اور وہ پہاڑ ان پر گرا دے گا اور کئی دوسروں کی شکلیں قیامت تک کے لیے بندروں اور خنزیروں کی شکل میں بدل دے گا۔“ ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [لَيَشْرَبَنَّ نَاسٌ مِّنْ أُمَّتِي الْخَمْرَ يُسَمُّوْنَهَا بِغَيْرِ اسْمِهَا، يُعْزَفُ عَلٰی رُؤُوْسِهِمْ بِالْمَعَازِفِ وَالْمُغَنِّيَاتِ يَخْسِفُ اللّٰهُ بِهِمُ الْأَرْضَ وَيَجْعَلُ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيْرَ] [ابن ماجہ، الفتن، باب العقوبات: ۴۰۲۰، و قال الألباني صحیح] ”میری امت کے کچھ لوگ شراب پییں گے، اس کا نام اصل نام کے بجائے اور رکھ لیں گے، ان کے سامنے باجے بجائے جائیں گے اور گانے والیاں گائیں گی۔ اللہ تعالیٰ انھیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے بعض کو بندر اور خنزیر بنا دے گا۔“
➋ میں نے شیخ عبد الرحمن السعدی کا کلام اس لیے نقل کیا ہے کہ عام طور پر اس آیت میں {” لَهْوَ الْحَدِيْثِ “} سے مراد صرف گانا بجانا لیا جاتا ہے، جب کہ آیت کا مفہوم اس سے بہت وسیع ہے، اگرچہ حرام غنا (ناجائز گانا) بھی اس میں شامل ہے۔ طبری میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے جو حسن سند کے ساتھ ثابت ہے کہ انھوں نے قسم کھا کر فرمایا کہ اس سے مراد غنا (گانا) ہے، تو یہ {” لَهْوَ الْحَدِيْثِ “} کی ایک جزئی کا بیان ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اس کا مصداق ایسے گانے بجانے والے ہوں گے جو دین سے روکنے والے، اللہ تعالیٰ کی آیات کو مذاق بنانے والے اور انھیں سن کر تکبر سے منہ پھیرنے والے ہوں، کیونکہ ان اوصاف کی ان آیات میں صراحت ہے، اور یہ اوصاف کفار کے ہیں مسلمانوں کے نہیں اور انھی کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ مسلمان کو ہونے والا عذاب تو اسے گناہوں سے پاک کرنے کے لیے ہو گا۔ البتہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مسلمان کہلانے والے لوگ جو حرام عشقیہ گانے بجانے کو اپنا پیشہ یا شغل بنا لیتے ہیں، اس کے نتیجے میں ان کے دلوں میں بدترین نفاق پیدا ہو جاتا ہے اور اللہ کی آیات کو سن کر ان کے ساتھ ان کا رویہ بھی بعینہٖ وہی ہوتا ہے جو ان آیات میں مذکور ہے۔ یہ لوگ اللہ کی آیات کا مذاق اڑانے کے لیے مولوی کا مذاق اڑاتے اور اسے گالی دیتے ہیں، جب کہ ظاہر ہے کہ مولوی بے چارے کا قصور یہ ہے کہ وہ اللہ کی آیات سناتا ہے۔ ایسی صورت میں صرف نام کے مسلمان ہونے کا اللہ تعالیٰ کے ہاں کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ اللہ کی آیات کے انکار، ان سے استکبار اور ان کو مذاق بنانے کے ساتھ مسلمانی کے دعوے پر اصرار قیامت کے دن ان کے کسی کام نہ آئے گا۔ افسوس! اس وقت یہ بیماری بری طرح امتِ مسلمہ میں پھیل چکی ہے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، موبائل فون، انٹرنیٹ، غرض ہر ذریعے سے کفار اور ان کے نام نہاد مسلم گماشتوں نے اسے اس قدر پھیلا دیا ہے کہ کم ہی کوئی خوش نصیب اس سے بچا ہو گا۔ حالانکہ دین کے کمال و زوال کے علاوہ دنیوی عروج و زوال میں بھی اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اقبال نے چند لفظو ں میں اس کا نقشہ کھینچا ہے:
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر
کوئی شخص اگر حرام گانے بجانے کا عمل گناہ سمجھ کر کرے، اس پر نادم ہو تو پھر بھی معافی کی امید ہے، مگر جب کوئی قوم فنون لطیفہ یا روح کی غذا کا نام دے کر اسے حلال ہی کرلے، تو اس کے لیے اللہ کے عذاب کے کوڑے سے بچنا بہت ہی مشکل ہے۔ ابو عامر یا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [لَيَكُوْنَنَّ مِنْ أُمَّتِيْ أَقْوَامٌ يَسْتَحِلُّوْنَ الْحِرَ وَالْحَرِيْرَ وَالْخَمْرَ وَالْمَعَازِفَ، وَلَيَنْزِلَنَّ أَقْوَامٌ إِلٰی جَنْبِ عَلَمٍ يَرُوْحُ عَلَيْهِمْ بِسَارِحَةٍ لَّهُمْ، يَأْتِيْهِمْ، يَعْنِي الْفَقِيْرَ، لِحَاجَةٍ فَيَقُوْلُوْا ارْجِعْ إِلَيْنَا غَدًا فَيُبَيِّتُهُمُ اللّٰهُ وَيَضَعُ الْعَلَمَ، وَيَمْسَخُ آخَرِيْنَ قِرَدَةً وَخَنَازِيْرَ إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ] [بخاري، الأشربۃ، باب ما جاء فیمن یستحل الخمر…: ۵۵۹۰] ”میری امت میں کئی لوگ ہوں گے جو شرم گاہ (زنا) اور ریشم اور شراب اور باجوں کو حلال کر لیں گے اور کئی لوگ ایک پہاڑ کے پہلو میں اتریں گے، ان کے چرواہے شام کو ان کے چرنے والے مویشی لایا کریں گے، ان کے پاس فقیر اپنی حاجت کے لیے آئے گا، وہ کہیں گے کل آنا۔ تورات ہی کو اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب بھیجے گا اور وہ پہاڑ ان پر گرا دے گا اور کئی دوسروں کی شکلیں قیامت تک کے لیے بندروں اور خنزیروں کی شکل میں بدل دے گا۔“ ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [لَيَشْرَبَنَّ نَاسٌ مِّنْ أُمَّتِي الْخَمْرَ يُسَمُّوْنَهَا بِغَيْرِ اسْمِهَا، يُعْزَفُ عَلٰی رُؤُوْسِهِمْ بِالْمَعَازِفِ وَالْمُغَنِّيَاتِ يَخْسِفُ اللّٰهُ بِهِمُ الْأَرْضَ وَيَجْعَلُ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيْرَ] [ابن ماجہ، الفتن، باب العقوبات: ۴۰۲۰، و قال الألباني صحیح] ”میری امت کے کچھ لوگ شراب پییں گے، اس کا نام اصل نام کے بجائے اور رکھ لیں گے، ان کے سامنے باجے بجائے جائیں گے اور گانے والیاں گائیں گی۔ اللہ تعالیٰ انھیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے بعض کو بندر اور خنزیر بنا دے گا۔“
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
6-1اہل سعادت جو کتاب الہی سے راہ یاب اور اس کے سماع سے فیض یاب ہوتے ہیں، ان کے ذکر کے بعد اہل شقاوت کا بیان ہو رہا ہے۔ جو کلام الہی کے سننے سے تو اعراض کرتے ہیں۔ البتہ ساز و موسیقی، نغمہ و سرود اور گانے وغیرہ خوب شوق سے سنتے اور ان میں دلچسپی لیتے ہیں۔ خریدنے سے مراد یہی ہے کہ آلات طرب شوق سے اپنے گھروں میں لاتے اور پھر ان سے لذت اندوز ہوتے ہیں۔ لغوالحدیث سے مراد گانا بجانا، اس کا سازوسامان اور آلات، ساز و موسیقی اور ہر وہ چیز ہے جو انسانوں کو خیر اور معروف سے غافل کر دے۔ اس میں قصے کہانیاں، افسانے ڈرامے، اور جنسی اور سنسنی خیز لٹریچر، رسالے اور بےحیائی کے پرچار اخبارات سب ہی آجاتے ہیں اور جدید ترین ایجادات ریڈیو، ٹیوی، وی سی آر، ویڈیو فلمیں وغیرہ بھی۔ عہد رسالت میں بعض لوگوں نے گانے بجانے والی لونڈیاں بھی اسی مقصد کے لیے خریدی تھیں کہ وہ لوگوں کا دل گانے سنا کر بہلاتی رہیں تاکہ قرآن و اسلام سے وہ دور رہیں۔ اس اعتبار سے اس میں گلو کارائیں بھی آجاتی ہیں جو آج کل فن کار، فلمی ستارہ اور ثقافتی سفیر اور پتہ نہیں کیسے کیسے مہذب خوش نما اور دل فریب ناموں سے پکاری جاتی ہیں۔ 6-2ان تمام چیزوں سے یقینا انسان اللہ کے راستے سے گمراہ ہوجاتے ہیں اور دین کو مذاق کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ 6-2ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرنے والے ارباب حکومت، ادارے، اخبارات کے مالکان، اہل قلم اور فیچر نگار بھی اس عذاب کے مستحق ہوں گے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
لہو و لعب موسیقی اور لغو باتیں ٭٭
اوپر بیان ہوا تھا نیک بختوں کا جو کتاب اللہ سے ہدایت پاتے تھے اور اسے سن کر نفع اٹھاتے تھے۔ تو یہاں بیان ہو رہا ہے ان بدبختوں کا جو کلام الٰہی کو سن کر نفع حاصل کرنے سے باز رہتے ہیں اور بجائے اس کے گانے بجانے باجے گاجے ڈھول تاشے سنتے ہیں۔
چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”قسم اللہ کی اس سے مراد گانا اور راگ ہے۔“ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:127/20:صحیح]
ایک اور جگہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے تین دفعہ قسم کھا کر فرمایا کہ ”اس سے مقصد گانا اور راگ اور راگنیاں ہیں۔“ یہی قول سیدنا ابن عباس عنہما، سیدنا جابر رضی اللہ عنہم، عکرمہ، سعید بن جیبر، مجاہد مکحول، عمرو بن شعیب، علی بن بذیمہ رحمہ اللہ علیہم کا ہے۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”یہ آیت گانے بجانے باجوں گاجوں کے بارے میں اتری ہے۔“ قتادۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”اس سے مراد صرف وہی نہیں جو اس لہو ولعب میں پیسے خرچے یہاں مراد خرید سے اسے محبوب رکھنا اور پسند کرنا ہے۔“ انسان کو یہی گمراہی کافی ہے کہ باطل کی بات کو حق پر پسند کرلے۔ اور نقصان کی چیز کو نفع پر مقدم کر لے۔ ایک اور قول یہ بھی ہے کہ لغو بات خریدنے سے مراد گانے والی لونڈیوں کی خریداری ہے۔
چنانچہ ابن ابی حاتم وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { گانے والیوں کی خرید و فروخت حلال نہیں اور ان کی قیمت کا کھانا حرام ہے انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے }۔ ۱؎ [سنن ترمذي:3195،قال الشيخ الألباني:حسن] امام ترمذی بھی اس حدیث کو لائے ہیں اور اسے غریب کہا ہے اور اس کے ایک راوی علی بن یزید کو ضعیف کہا ہے۔ میں کہتا ہوں خود علی ان کے استاد اور ان کے تمام شاگرد ضعیف ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”قسم اللہ کی اس سے مراد گانا اور راگ ہے۔“ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:127/20:صحیح]
ایک اور جگہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے تین دفعہ قسم کھا کر فرمایا کہ ”اس سے مقصد گانا اور راگ اور راگنیاں ہیں۔“ یہی قول سیدنا ابن عباس عنہما، سیدنا جابر رضی اللہ عنہم، عکرمہ، سعید بن جیبر، مجاہد مکحول، عمرو بن شعیب، علی بن بذیمہ رحمہ اللہ علیہم کا ہے۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”یہ آیت گانے بجانے باجوں گاجوں کے بارے میں اتری ہے۔“ قتادۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”اس سے مراد صرف وہی نہیں جو اس لہو ولعب میں پیسے خرچے یہاں مراد خرید سے اسے محبوب رکھنا اور پسند کرنا ہے۔“ انسان کو یہی گمراہی کافی ہے کہ باطل کی بات کو حق پر پسند کرلے۔ اور نقصان کی چیز کو نفع پر مقدم کر لے۔ ایک اور قول یہ بھی ہے کہ لغو بات خریدنے سے مراد گانے والی لونڈیوں کی خریداری ہے۔
چنانچہ ابن ابی حاتم وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { گانے والیوں کی خرید و فروخت حلال نہیں اور ان کی قیمت کا کھانا حرام ہے انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے }۔ ۱؎ [سنن ترمذي:3195،قال الشيخ الألباني:حسن] امام ترمذی بھی اس حدیث کو لائے ہیں اور اسے غریب کہا ہے اور اس کے ایک راوی علی بن یزید کو ضعیف کہا ہے۔ میں کہتا ہوں خود علی ان کے استاد اور ان کے تمام شاگرد ضعیف ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
ضحاک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ”مراد اس سے شرک ہے۔“ امام ابن جریر رحمہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ ”ہر وہ کلام جو اللہ سے اور اتباع شرع سے روکے وہ اس آیت کے حکم میں داخل ہے۔ اس سے غرض اس کی اسلام اور اہل اسلام کی مخالفت ہوتی ہے۔“
ایک قرأت میں «لِیَضِلَّ» ہے تو لام لام عاقبت ہو گا یا لام تعلیل ہوگا۔ یعنی امر تقدیری ان کی اس کار گزاری سے ہو کر رہے گا۔ ایسے لوگ اللہ کی راہ کو ہنسی بنا لیتے ہیں۔ آیات اللہ کو بھی مذاق میں اڑاتے ہیں۔ اب ان کا انجام بھی سن لو کہ جس طرح انہوں نے اللہ کی راہ کی کتاب اللہ کی اہانت کی قیامت کے دن ان کی اہانت ہو گی اور خطرناک عذاب میں ذلیل ورسوا ہونگے۔
ایک قرأت میں «لِیَضِلَّ» ہے تو لام لام عاقبت ہو گا یا لام تعلیل ہوگا۔ یعنی امر تقدیری ان کی اس کار گزاری سے ہو کر رہے گا۔ ایسے لوگ اللہ کی راہ کو ہنسی بنا لیتے ہیں۔ آیات اللہ کو بھی مذاق میں اڑاتے ہیں۔ اب ان کا انجام بھی سن لو کہ جس طرح انہوں نے اللہ کی راہ کی کتاب اللہ کی اہانت کی قیامت کے دن ان کی اہانت ہو گی اور خطرناک عذاب میں ذلیل ورسوا ہونگے۔
پھر بیان ہو رہا ہے کہ ’ یہ بد نصیب جو کھیل تماشوں، باجوں گاجوں، راگ راگنیوں پر ریجھا ہوا ہے، یہ قرآن کی آیتوں سے بھاگتا ہے کان ان سے بہرے کر لیتا ہے یہ اسے اچھی نہیں معلوم ہوتیں۔ سن بھی لیتا ہے تو بے سنی کر دیتا ہے۔ لیکن انکا سننا اسے ناگوار گزرتا ہے کوئی مزہ نہیں آتا۔ وہ اسے فضول کام قرار دیتا ہے چونکہ اس کی کوئی اہمیت اور عزت اس کے دل میں نہیں اس لیے وہ ان سے کوئی نفع حاصل نہیں کر سکتا وہ تو ان سے محض بے پرواہ ہے۔ یہ یہاں اللہ کی آیتوں سے اکتاتا ہے توقیامت کے دن عذاب بھی وہ ہونگے کہ اکتا اکتا اٹھے۔ یہاں آیات قرانی سن کر اسے دکھ ہوتا ہے وہاں دکھ دینے والے عذاب اسے بھگتنے پڑیں گے ‘۔