وَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً لَّا یَخۡلُقُوۡنَ شَیۡئًا وَّ ہُمۡ یُخۡلَقُوۡنَ وَ لَا یَمۡلِکُوۡنَ لِاَنۡفُسِہِمۡ ضَرًّا وَّ لَا نَفۡعًا وَّ لَا یَمۡلِکُوۡنَ مَوۡتًا وَّ لَا حَیٰوۃً وَّ لَا نُشُوۡرًا ﴿۳﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور انھوں نے اس کے سوا کئی اور معبود بنا لیے، جو کوئی چیز پیدا نہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے جاتے ہیں اور اپنے لیے نہ کسی نقصان کے مالک ہیں اور نہ نفع کے اور نہ کسی موت کے مالک ہیں اور نہ زندگی کے اور نہ اٹھائے جانے کے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور (لوگوں نے) اس کے سوا اور معبود بنا لئے ہیں جو کوئی چیز بھی پیدا نہیں کرسکتے اور خود پیدا کئے گئے ہیں۔ اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اُٹھ کھڑے ہونا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
ان لوگوں نے اللہ کے سوا جنہیں اپنے معبود ٹھہرا رکھے ہیں وه کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وه خود پیدا کئے جاتے ہیں، یہ تو اپنی جان کے نقصان نفع کا بھی اختیارنہیں رکھتے اور نہ موت وحیات کے اور نہ دوباره جی اٹھنے کے وه مالک ہیں
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد بھٹوی
(آیت 3){ وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً لَّا يَخْلُقُوْنَ شَيْـًٔا …:} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے معبود برحق ہونے کے چند معیار بیان فرمائے اور تمام مشرکوں کو دعوت دی کہ وہ اپنے خداؤں کو ان معیاروں پر پرکھیں اور بتائیں کہ وہ کسی طرح بھی معبود ہو سکتے ہیں۔ وہ معیار یہ ہیں: (1) جو ہستی کوئی چیز پیدا نہ کر سکے، یا کسی چیز کی بھی خالق نہ ہو وہ معبود نہیں ہو سکتی۔ (2) جو چیز خود مخلوق ہو، اسے کسی نے پیدا کیا ہو وہ الٰہ نہیں ہو سکتی۔ ظاہر ہے اللہ کے سوا جن کو بھی معبود بنایا گیا ہے سب مخلوق ہیں، وہ چاہے فرشتے ہوں یا جن، انسان، درخت، پتھر، بت، قبر، سورج، چاند، تارے یا کوئی اور، اس لیے انھیں معبود بنانا بہت بڑی جہالت ہے۔ (3) جو ہستی کسی دوسرے کو فائدہ یا نقصان نہ پہنچا سکتی ہو، دوسرے لفظوں میں جو ہستی حاجت روا اور مشکل کشا نہ ہو وہ الٰہ نہیں ہو سکتی۔ یہی وہ صفت ہے جسے مشرکین اللہ کے سوا بعض دوسری ہستیوں میں تسلیم کرتے ہیں، خواہ وہ جان دار ہوں یا بے جان، زندہ ہوں یا مر چکی ہوں، اور شرک کی یہی قسم سب سے زیادہ عام ہے۔ اس کا ردّ اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا کہ جو چیز اپنے نفع و نقصان ہی کی مالک نہ ہو وہ کسی دوسرے کی حاجت روا یا مشکل کُشا کیسے ہو سکتی ہے! یہ معیار ایسا واضح اور زبردست ہے کہ اس کے مطابق اللہ کے سوا تمام معبود باطل قرار پاتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو توڑا اور وہ ان کا بال بیکا نہ کر سکے۔ رہے بزرگان دین، خواہ وہ پیغمبر ہوں یا ولی، زندہ ہوں یا فوت ہو چکے ہوں، سب کو ان کی زندگی میں بے شمار تکلیفیں پہنچتی رہیں، لیکن وہ اپنی تکلیفیں اور بیماریاں خود رفع نہ کر سکے، تو دوسروں کی کیا کرتے، یا کیا کریں گے، وہ تو خود صرف اللہ سے دعا کرتے رہے۔ رہے شمس و قمر، تارے اور فرشتے، تو یہ سب ایسی مخلوق ہیں جن کے پاس اپنا اختیار کچھ بھی نہیں ہے۔ اللہ نے انھیں جس کام پر لگا دیا ہے اس کے سوا دوسرا کام کر ہی نہیں سکتے، لہٰذا وہ بھی الوہیت کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔
(4) معبود برحق ہونے کا ایک معیار یہ ہے کہ وہ ہستی کسی زندہ کو مار سکتی ہو اور مردہ کو زندہ کر سکتی ہو اور زندہ کرکے قبروں سے اٹھا سکتی ہو، اللہ کی یہ شان ہے کہ وہ ہر وقت زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ چیزیں پیدا کر رہا ہے، قیامت کو وہ سب کو زندہ کرکے سامنے لا کھڑا کرے گا، دوسری کسی ہستی کے اختیار میں کسی کو زندہ کرنا ہے نہ مارنا اور نہ قیامت برپا کرنا۔ اس مقام پر معبود برحق ہونے کے یہ معیار بیان ہوئے ہیں، جب کہ دوسرے مقامات پر اور بھی کئی معیار مذکور ہیں، مثلاً جو خود محتاج ہو وہ الٰہ نہیں ہو سکتا، جو بے جان ہو وہ الٰہ نہیں ہو سکتا، جو کھانا کھاتا ہو وہ الٰہ نہیں ہو سکتا، جسے نیند یا موت آتی ہے وہ الٰہ نہیں ہو سکتا، جو ہر چیز کا علم نہ رکھتا ہو وہ الٰہ نہیں ہو سکتا، جو نہ سن سکتا ہو، نہ دیکھ سکتا ہو، نہ بول سکتا ہو، نہ جواب دے سکتا ہو وہ الٰہ نہیں ہو سکتا وغیرہ۔ (تیسیر القرآن کیلانی بتصرف)
(4) معبود برحق ہونے کا ایک معیار یہ ہے کہ وہ ہستی کسی زندہ کو مار سکتی ہو اور مردہ کو زندہ کر سکتی ہو اور زندہ کرکے قبروں سے اٹھا سکتی ہو، اللہ کی یہ شان ہے کہ وہ ہر وقت زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ چیزیں پیدا کر رہا ہے، قیامت کو وہ سب کو زندہ کرکے سامنے لا کھڑا کرے گا، دوسری کسی ہستی کے اختیار میں کسی کو زندہ کرنا ہے نہ مارنا اور نہ قیامت برپا کرنا۔ اس مقام پر معبود برحق ہونے کے یہ معیار بیان ہوئے ہیں، جب کہ دوسرے مقامات پر اور بھی کئی معیار مذکور ہیں، مثلاً جو خود محتاج ہو وہ الٰہ نہیں ہو سکتا، جو بے جان ہو وہ الٰہ نہیں ہو سکتا، جو کھانا کھاتا ہو وہ الٰہ نہیں ہو سکتا، جسے نیند یا موت آتی ہے وہ الٰہ نہیں ہو سکتا، جو ہر چیز کا علم نہ رکھتا ہو وہ الٰہ نہیں ہو سکتا، جو نہ سن سکتا ہو، نہ دیکھ سکتا ہو، نہ بول سکتا ہو، نہ جواب دے سکتا ہو وہ الٰہ نہیں ہو سکتا وغیرہ۔ (تیسیر القرآن کیلانی بتصرف)
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
3-1لیکن ظالموں نے ایسے ہمہ صفات موصوف رب کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کو رب بنا لیا جو اپنے بارے میں بھی کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے چہ جائیکہ کہ وہ کسی اور کے لئے کچھ کرسکنے کے اختیارات سے بہرہ ور ہوں اس کے بعد منکرین نبوت کے شبہات کا ازالہ کیا جا رہا ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
مشرکوں کی جہالت ٭٭
مشرکوں کی جہالت بیان ہو رہی ہے کہ وہ خالق، مالک، مختار بادشاہ کو چھوڑ کر ان کی عبادتیں کرتے ہیں جو ایک مچھر کا پر بھی نہیں بنا سکتے بلکہ وہ خود اللہ کے بنائے ہوئے اور اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو بھی کسی نفع نقصان کے پہنچانے کے مالک نہیں چہ جائیکہ دوسرے کا بھلا کریں یا دوسرے کا نقصان کریں۔ یا دوسری کوئی بات کر سکیں۔ وہ اپنی موت زیست کا یا دوبارہ جی اٹھنے کا بھی اختیار نہیں رکھتے۔ پھر اپنی عبادت کرنے والوں کی ان چیزوں کے مالک وہ کیسے ہو جائیں گے؟
بات یہی ہے کہ ان تمام کاموں کا مالک اللہ ہی ہے، وہی جلاتا اور مارتا ہے، وہی اپنی تمام مخلوق کو قیامت کے دن نئے سرے سے پیدا کرے گا۔ اس پر یہ کام مشکل نہیں، ایک کا پیدا کرنا اور سب کو پیدا کرنا، ایک کو موت کے بعد زندہ کرنا اور سب کو کرنا، اس پر یکساں اور برابر ہے۔
ایک آنکھ جھپکانے میں اس کا پورا ہو جاتا ہے۔ صرف ایک آواز کے ساتھ تمام مری ہوئی مخلوق زندہ ہو کر اس کے سامنے ایک چٹیل میدان میں کھڑی ہو جائے گی۔
اور آیت میں فرمایا ہے صرف ایک دفعہ کی ایک آواز ہو گی کہ ساری مخلوق ہمارے سامنے حاضر ہو جائے گی، وہی معبود برحق ہے۔ اس کے سوا نہ کوئی رب ہے، نہ لائق عبادت ہے۔
اس کا چاہا ہوتا ہے، اس کے چاہے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وہ ماں باپ سے، لڑکی لڑکوں سے، عدیل و بدیل سے، وزیر و نظیر سے، شریک وسہیم سب سے پاک ہے۔ وہ «أَحَدٌ» ہے، «الصَّمَدُ» ہے، «لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ» ہے، اس کا کفو کوئی نہیں۔
بات یہی ہے کہ ان تمام کاموں کا مالک اللہ ہی ہے، وہی جلاتا اور مارتا ہے، وہی اپنی تمام مخلوق کو قیامت کے دن نئے سرے سے پیدا کرے گا۔ اس پر یہ کام مشکل نہیں، ایک کا پیدا کرنا اور سب کو پیدا کرنا، ایک کو موت کے بعد زندہ کرنا اور سب کو کرنا، اس پر یکساں اور برابر ہے۔
ایک آنکھ جھپکانے میں اس کا پورا ہو جاتا ہے۔ صرف ایک آواز کے ساتھ تمام مری ہوئی مخلوق زندہ ہو کر اس کے سامنے ایک چٹیل میدان میں کھڑی ہو جائے گی۔
اور آیت میں فرمایا ہے صرف ایک دفعہ کی ایک آواز ہو گی کہ ساری مخلوق ہمارے سامنے حاضر ہو جائے گی، وہی معبود برحق ہے۔ اس کے سوا نہ کوئی رب ہے، نہ لائق عبادت ہے۔
اس کا چاہا ہوتا ہے، اس کے چاہے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وہ ماں باپ سے، لڑکی لڑکوں سے، عدیل و بدیل سے، وزیر و نظیر سے، شریک وسہیم سب سے پاک ہے۔ وہ «أَحَدٌ» ہے، «الصَّمَدُ» ہے، «لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ» ہے، اس کا کفو کوئی نہیں۔