ۣالَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقۡدِیۡرًا ﴿۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
وہ ذات کہ اسی کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور اس نے نہ کوئی اولاد بنائی اور نہ کبھی بادشاہی میں کوئی اس کا شریک رہا ہے اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا، پھر اس کا اندازہ مقرر کیا، پورا اندازہ۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
وہی کہ آسمان اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور جس نے (کسی کو) بیٹا نہیں بنایا اور جس کا بادشاہی میں کوئی شریک نہیں اور جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اس کا ایک اندازہ ٹھہرایا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اسی اللہ کی سلطنت ہے آسمانوں اور زمین کی اور وه کوئی اوﻻد نہیں رکھتا، نہ اس کی سلطنت میں کوئی اس کا ساجھی ہے اور ہر چیز کو اس نے پیدا کرکے ایک مناسب اندازه ٹھہرا دیا ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد بھٹوی
(آیت 2) ➊ { الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ:} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی چار صفات بیان فرمائی ہیں جو اس کی توحید کی دلیل ہیں۔ پہلی یہ کہ آسمان و زمین کی بادشاہی اسی کی ہے، کسی اور کی نہیں۔ ان دونوں کو چلانے والا وہی ہے، دوسرے سب اپنے وجود اور اپنی بقا میں اسی کے محتاج ہیں۔
➋ { وَ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا:} یہ دوسری صفت ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل کی آخری آیت کی تفسیر۔ اس میں یہود و نصاریٰ کا ردّ ہے اور ان جھوٹے مسلمانوں کا بھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یا علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنھم کو، یا کسی اور کو اللہ کے نور کا ٹکڑا مانتے ہیں۔
➌ { وَ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ:} یہ تیسری صفت ہے۔ {” لَمْ يَكُنْ “} میں نفی کا استمرار ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ”اور نہ کبھی بادشاہی میں کوئی اس کا شریک رہا ہے۔“ اس میں ہر قسم کے مشرکین کا ردّ ہے، جیسے بت پرست، قبر پرست، دو خدا ماننے والے اور شرک خفی کا ارتکاب کرنے والے وغیرہ۔
➍ { وَ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِيْرًا:} یہ چوتھی صفت ہے کہ ہر چیز اسی نے پیدا کی، پھر اس کے لیے ایک خاص اندازہ مقرر فرما دیا، جس کی بدولت اس سے وہی افعال و اثرات صادر ہوتے ہیں جن کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے اور اسے وہی صورت، جسامت اور صلاحیتیں عطا کیں جو اس کی ضرورت کے مطابق ہیں، مثلاً انسان کو فہم و ادراک، غور و فکر، صنعت و حرفت اور مفید کام بجا لانے کی صلاحیت بخشی، اسی طرح ہر حیوان اور پودے اور جماد کو اس مصلحت کے مطابق بنایا جو اس سے مطلوب تھی۔ جب اللہ کے سوا کسی نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا تو کسی اور کی عبادت کیوں؟ دیکھیے سورۂ انعام (۱۰۲)، رعد (۱۶)، فاطر (۳)، زمر (۶۲)، مؤمن (۶۲)، حج (۷۳)، نحل (۲۰) اور اعراف (۱۹۱)۔
➋ { وَ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا:} یہ دوسری صفت ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل کی آخری آیت کی تفسیر۔ اس میں یہود و نصاریٰ کا ردّ ہے اور ان جھوٹے مسلمانوں کا بھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یا علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنھم کو، یا کسی اور کو اللہ کے نور کا ٹکڑا مانتے ہیں۔
➌ { وَ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ:} یہ تیسری صفت ہے۔ {” لَمْ يَكُنْ “} میں نفی کا استمرار ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ”اور نہ کبھی بادشاہی میں کوئی اس کا شریک رہا ہے۔“ اس میں ہر قسم کے مشرکین کا ردّ ہے، جیسے بت پرست، قبر پرست، دو خدا ماننے والے اور شرک خفی کا ارتکاب کرنے والے وغیرہ۔
➍ { وَ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِيْرًا:} یہ چوتھی صفت ہے کہ ہر چیز اسی نے پیدا کی، پھر اس کے لیے ایک خاص اندازہ مقرر فرما دیا، جس کی بدولت اس سے وہی افعال و اثرات صادر ہوتے ہیں جن کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے اور اسے وہی صورت، جسامت اور صلاحیتیں عطا کیں جو اس کی ضرورت کے مطابق ہیں، مثلاً انسان کو فہم و ادراک، غور و فکر، صنعت و حرفت اور مفید کام بجا لانے کی صلاحیت بخشی، اسی طرح ہر حیوان اور پودے اور جماد کو اس مصلحت کے مطابق بنایا جو اس سے مطلوب تھی۔ جب اللہ کے سوا کسی نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا تو کسی اور کی عبادت کیوں؟ دیکھیے سورۂ انعام (۱۰۲)، رعد (۱۶)، فاطر (۳)، زمر (۶۲)، مؤمن (۶۲)، حج (۷۳)، نحل (۲۰) اور اعراف (۱۹۱)۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
2-1یہ پہلی صفت ہے یعنی کائنات میں تصرف کا مالک صرف وہی ہے، کوئی اور نہیں۔ 2-2اس میں نصاریٰ، یہود اور بعض ان عرب قبائل کا رد عمل جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ 2-3اس میں صنم پرست مشرکین اور (دو خداؤں کے خالق) کے قائلین کا رد عمل ہے۔ 2-4ہر چیز کا خالق صرف وہی ہے اور اپنی حکمت و مشیت کے مطابق اس نے اپنی مخلوقات کو ہر وہ چیز بھی مہیا کی ہے جو اس کے مناسب حال ہے یا ہر چیز کی موت اور روزی اس نے پہلے سے ہی مقرر کردی ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
اللہ تعالیٰ کی رحمت کا بیان ٭٭
اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا بیان فرماتا ہے تاکہ لوگوں پر اس کی بزرگی عیاں ہو جائے کہ اس نے اس پاک کلام کو اپنے بندے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے۔
سورۃ الکہف کے شروع میں بھی اپنی حمد اسی اندازے سے بیان کی ہے، یہاں اپنی ذات کا بابرکت ہونا بیان فرمایا اور یہی وصف بیان کیا۔ یہاں لفظ «نَزَّلَ» فرمایا جس سے بار بار بکثرت اترنا ثابت ہوتا ہے۔
جیسے فرمان ہے «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ» ۱؎ [4-النساء:136] پس پہلی کتابوں کو لفظ «أَنزَلَ» سے اور اس آخر کتاب کو لفظ «نَزَّلَ» سے تعبیر فرمانا۔ اسی لیے ہے کہ پہلی کتابیں ایک ساتھ اترتی رہیں اور قرآن کریم تھوڑا تھوڑا کر کے حسب ضرورت اترتا رہا۔ کبھی کچھ آیتیں، کبھی کچھ سورتیں، کبھی کچھ احکام۔ اس میں ایک بڑی حکمت یہ بھی تھی کہ لوگوں کو اس پر عمل مشکل نہ ہو اور خوب یاد ہو جائے اور مان لینے کے لیے دل کھل جائے۔
جیسے کہ اسی سورت میں فرمایا ہے کہ کافروں کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ قرآن کریم اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ساتھ کیوں نہ اترا؟ جواب دیا گیا ہے کہ اس طرح اس لیے اترا کہ اس کے ساتھ تیری دل جمعی رہے اور ہم نے ٹھہرا ٹھہرا کر نازل فرمایا۔ یہ جو بھی بات بنائیں گے ہم اس کا صحیح اور جچاتلا جواب دیں جو خوب تفصیل والا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اس آیت میں اس کا نام فرقان رکھا۔ اس لیے کہ یہ حق و باطل میں، ہدایت و گمراہی میں فرق کرنے والا ہے۔ اس سے بھلائی برائی میں، حلال حرام میں تمیز ہوتی ہے۔
قرآن کریم کی یہ پاک صفت بیان فرما کر، جس پر قرآن اترا ان کی ایک پاک صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ خاص اس کی عبادت میں لگے رہنے والے ہیں، اس کے مخلص بندے ہیں۔ یہ وصف سب سے اعلیٰ وصف ہے۔
اسی لیے بڑی بڑی نعمتوں کے بیان کے موقعہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی وصف بیان فرمایا گیا ہے۔ جیسے معراج کے موقعہ پر فرمایا «سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ» ۱؎ [17-الإسراء:1]
اور جیسے اپنی خاص عبادت نماز کے موقعہ پر فرمایا «وَّاَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ يَدْعُوْهُ كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِ لِبَدًا» ۱؎ [72-الجن:19] ’ اور جب بندہ اللہ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی عبادت کرنے کھڑے ہوتے ہیں ‘ یہی وصف قرآن کریم کے اترنے اور آپ کے پاس بزرگ فرشتے کے آنے کے اکرام کے بیان کرنے کے موقعہ پر بیان فرمایا۔
سورۃ الکہف کے شروع میں بھی اپنی حمد اسی اندازے سے بیان کی ہے، یہاں اپنی ذات کا بابرکت ہونا بیان فرمایا اور یہی وصف بیان کیا۔ یہاں لفظ «نَزَّلَ» فرمایا جس سے بار بار بکثرت اترنا ثابت ہوتا ہے۔
جیسے فرمان ہے «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ» ۱؎ [4-النساء:136] پس پہلی کتابوں کو لفظ «أَنزَلَ» سے اور اس آخر کتاب کو لفظ «نَزَّلَ» سے تعبیر فرمانا۔ اسی لیے ہے کہ پہلی کتابیں ایک ساتھ اترتی رہیں اور قرآن کریم تھوڑا تھوڑا کر کے حسب ضرورت اترتا رہا۔ کبھی کچھ آیتیں، کبھی کچھ سورتیں، کبھی کچھ احکام۔ اس میں ایک بڑی حکمت یہ بھی تھی کہ لوگوں کو اس پر عمل مشکل نہ ہو اور خوب یاد ہو جائے اور مان لینے کے لیے دل کھل جائے۔
جیسے کہ اسی سورت میں فرمایا ہے کہ کافروں کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ قرآن کریم اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ساتھ کیوں نہ اترا؟ جواب دیا گیا ہے کہ اس طرح اس لیے اترا کہ اس کے ساتھ تیری دل جمعی رہے اور ہم نے ٹھہرا ٹھہرا کر نازل فرمایا۔ یہ جو بھی بات بنائیں گے ہم اس کا صحیح اور جچاتلا جواب دیں جو خوب تفصیل والا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اس آیت میں اس کا نام فرقان رکھا۔ اس لیے کہ یہ حق و باطل میں، ہدایت و گمراہی میں فرق کرنے والا ہے۔ اس سے بھلائی برائی میں، حلال حرام میں تمیز ہوتی ہے۔
قرآن کریم کی یہ پاک صفت بیان فرما کر، جس پر قرآن اترا ان کی ایک پاک صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ خاص اس کی عبادت میں لگے رہنے والے ہیں، اس کے مخلص بندے ہیں۔ یہ وصف سب سے اعلیٰ وصف ہے۔
اسی لیے بڑی بڑی نعمتوں کے بیان کے موقعہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی وصف بیان فرمایا گیا ہے۔ جیسے معراج کے موقعہ پر فرمایا «سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ» ۱؎ [17-الإسراء:1]
اور جیسے اپنی خاص عبادت نماز کے موقعہ پر فرمایا «وَّاَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ يَدْعُوْهُ كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِ لِبَدًا» ۱؎ [72-الجن:19] ’ اور جب بندہ اللہ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی عبادت کرنے کھڑے ہوتے ہیں ‘ یہی وصف قرآن کریم کے اترنے اور آپ کے پاس بزرگ فرشتے کے آنے کے اکرام کے بیان کرنے کے موقعہ پر بیان فرمایا۔
پھر ارشاد ہوا کہ اس پاک کتاب کا آپ کی طرف اترنا اس لیے ہے کہ آپ تمام جہان کے لیے آگاہ کرنے والے بن جائیں، ایسی کتاب جو سراسر حکمت و ہدایت والی ہے۔ جو مفصل، مبین اور محکم ہے۔ جس کے آس پاس بھی باطل پھٹک نہیں سکتا۔ جو حکیم و حمید اللہ کی طرف سے اتاری ہوئی ہے۔
آپ اس کی تبلیغ دنیا بھر میں کر دیں، ہر سرخ و سفید کو، ہر دور و نزدیک والے کو اللہ کے عذابوں سے ڈرا دیں، جو بھی آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر ہے اس کی طرف آپ کی رسالت ہے۔
جیسے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: { میں تمام سرخ و سفید انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ } ۱؎ [صحیح مسلم:521] اور فرمان ہے: { مجھے پانچ باتیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئی تھیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہر نبی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا رہا لیکن میں تمام دنیا کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ } ۱؎ [صحیح بخاری:335]
خود قرآن میں ہے «قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ» ۱؎ [7-الأعراف:158] ’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اعلان کر دو کہ اے دنیا کے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں۔ ‘
پھر فرمایا مجھے رسول بنا کر بھیجنے والا، مجھ پر یہ پاک کتاب اتارنے والا وہ اللہ ہے جو آسمان و زمین کا تنہا مالک ہے، جو جس کام کو کرنا چاہے اسے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا وہ اسی وقت ہو جاتا ہے۔ وہی مارتا اور جلاتا ہے، اس کی کوئی اولاد نہیں، نہ اس کا کوئی شریک ہے۔ ہر چیز اس کی مخلوق اور اس کی زیر پرورش ہے۔ سب کا خالق، مالک، رازق، معبود اور رب وہی ہے۔ ہر چیز کا اندازہ مقرر کرنے والا اور تدبیر کرنے والا وہی ہے۔
آپ اس کی تبلیغ دنیا بھر میں کر دیں، ہر سرخ و سفید کو، ہر دور و نزدیک والے کو اللہ کے عذابوں سے ڈرا دیں، جو بھی آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر ہے اس کی طرف آپ کی رسالت ہے۔
جیسے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: { میں تمام سرخ و سفید انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ } ۱؎ [صحیح مسلم:521] اور فرمان ہے: { مجھے پانچ باتیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئی تھیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہر نبی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا رہا لیکن میں تمام دنیا کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ } ۱؎ [صحیح بخاری:335]
خود قرآن میں ہے «قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ» ۱؎ [7-الأعراف:158] ’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اعلان کر دو کہ اے دنیا کے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں۔ ‘
پھر فرمایا مجھے رسول بنا کر بھیجنے والا، مجھ پر یہ پاک کتاب اتارنے والا وہ اللہ ہے جو آسمان و زمین کا تنہا مالک ہے، جو جس کام کو کرنا چاہے اسے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا وہ اسی وقت ہو جاتا ہے۔ وہی مارتا اور جلاتا ہے، اس کی کوئی اولاد نہیں، نہ اس کا کوئی شریک ہے۔ ہر چیز اس کی مخلوق اور اس کی زیر پرورش ہے۔ سب کا خالق، مالک، رازق، معبود اور رب وہی ہے۔ ہر چیز کا اندازہ مقرر کرنے والا اور تدبیر کرنے والا وہی ہے۔