ترجمہ و تفسیر — سورۃ الكهف (18) — آیت 2
قَیِّمًا لِّیُنۡذِرَ بَاۡسًا شَدِیۡدًا مِّنۡ لَّدُنۡہُ وَ یُبَشِّرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ اَجۡرًا حَسَنًا ۙ﴿۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
بالکل سیدھی، تاکہ وہ اس کی جانب سے آنے والے سخت عذاب سے ڈرائے اور ان مومنوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں، خوش خبری دے کہ بے شک ان کے لیے اچھا اجر ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
سیدھی (اور سلیس اتاری) تاکہ لوگوں کو عذاب سخت سے جو اس کی طرف سے (آنے والا) ہے ڈرائے اور مومنوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں خوشخبری سنائے کہ اُن کے لئے (ان کے کاموں کا) نیک بدلہ (یعنی) بہشت ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
بلکہ ہر طرح سے ٹھیک ٹھاک رکھا تاکہ اپنے پاس کی سخت سزا سے ہوشیار کردے اور ایمان ﻻنے اور نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبریاں سنا دے کہ ان کے لئے بہترین بدلہ ہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 2) ➊ { قَيِّمًا } میں مبالغہ ہے، یعنی بالکل سیدھی، پہلے فرمایا تھا کہ اس میں کوئی کجی نہیں رکھی، اب فرمایا بالکل سیدھی ہے۔ بات ایک ہی ہے مگر اس تاکید کا فائدہ یہ ہے کہ بعض اوقات ایک چیز میں بظاہر کوئی کجی نہیں ہوتی، مگر حقیقت میں اور باریکی سے دیکھا جائے تو اس میں کوئی نہ کوئی کجی ہوتی ہے، اس سے اس کی بھی نفی ہو گئی۔ جیسے ایک جگہ ہموار نظر آتی ہے مگر آلہ رکھ کر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ہموار نہیں۔ { قَيِّمًا } کا معنی نگران بھی ہے، {مُهَيْمِنٌ } کا بھی یہی معنی ہے۔ (دیکھیے مائدہ: ۴۸) اس صورت میں مراد یہ ہو گی کہ یہ کتاب پچھلی تمام کتابوں پر نگران ہے، یعنی ان کے مضامین کا درست یا تحریف شدہ ہونا اس کتاب کی تصدیق یا تکذیب سے معلوم ہوتا ہے۔
➋ { لِيُنْذِرَ بَاْسًا …:} یہاں یہ بتایا کہ اس کتاب کو اپنے بندے پر اس لیے نازل فرمایا کہ وہ اس سخت عذاب سے ڈرائے جو اس کی جانب سے ہو گا، مگر یہ نہیں بتایا کہ کسے ڈرائے، اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ مراد عموم ہے، یعنی کافر و مومن ہر ایک کو اللہ کی جانب سے آنے والے سخت عذاب سے ڈرائے، یا یہ کہ یہ بات اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں بتائی ہے، چنانچہ فرمایا: «وَ يُنْذِرَ الَّذِيْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا» ‏‏‏‏ [الکہف: ۴] اور (تاکہ) ان لوگوں کو ڈرائے جنھوں نے کہا اللہ نے کوئی اولاد بنا رکھی ہے۔ اس آیت(۴) میں یہ نہیں بتایا کہ کس چیز سے ڈرائے، اس کا ذکر زیر تفسیر آیت (۲) میں ہے کہ اس کی جانب سے آنے والے سخت عذاب سے ڈرائے۔ دونوں آیات کو ملائیں تو مضمون یہ بنے گا: تاکہ ان لوگوں کو اپنی جانب سے آنے والے سخت عذاب سے ڈرائے جنھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی اولاد بنا رکھی ہے۔ دونوں آیتوں میں ڈرانے کا ذکر دو بار آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس کتاب اور پیغمبر کے فرائض میں ڈرانے کا فریضہ زیادہ اہم ہے، کیونکہ ایمان نہ لانے والے زیادہ ہیں، جن میں سے کوئی مسیح علیہ السلام کو اور کوئی عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیتا ہے، کوئی فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتا ہے، کوئی اپنے انبیاء و اولیاء کو اللہ کے نور کا ٹکڑا اور کوئی انھیں عین اللہ تعالیٰ قرار دیتا ہے، جیسا کہ نصرانیوں نے کہا: «اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ» ‏‏‏‏ [المائدۃ: ۷۲] بے شک اللہ مسیح ابن مریم ہی تو ہے۔ اور ہماری امت کے ایک ظالم نے کہا ہے:
وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر
اتر پڑا ہے مدینہ میں مصطفی ہو کر
اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ کتاب ان سب کو اس کی جانب سے آنے والے سخت عذاب سے ڈراتی ہے، خواہ وہ دنیا و آخرت دونوں میں ہو یا صرف آخرت میں۔ اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد رکھنے کی تردید کے لیے دیکھیے سورۂ مریم (۸۸ تا ۹۵) { مِنْ لَّدُنْهُ } سے عذاب کی ہولناکی بیان کرنا مقصود ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

2۔ 1 مِنْ لَّدنہ، جو اس اللہ کی طرف سے صادر یا نازل ہونے والا ہے

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

مستحق تعریف قرآن مجید ٭٭
ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اللہ ہر امر کے شروع اور اس کے خاتمے پر اپنی تعریف و حمد کرتا ہے۔ ہر حال میں وہ قابل حمد اور لائق ثنا اور سزاوار تعریف ہے، اول آخر مستحق حمد فقط اسی کی ذات والا صفات ہے۔ اس نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم نازل فرمایا جو اس کی بہت بڑی نعمت ہے، جس سے اللہ کے تمام بندے اندھیروں سے نکل کر نور کی طرف آ سکتے ہیں۔ اس نے اس کتاب کو ٹھیک ٹھاک اور سیدھا اور راست رکھا ہے جس میں کوئی کجی، کوئی کسر، کوئی کمی نہیں، صراط مستقیم کی رہبر، واضح جلی، صاف اور واضح ہے۔ بدکاروں کو ڈرانے والی، نیک کاروں کو خوشخبریاں سنانے والی، معتدل، سیدھی، مخالفوں منکروں کو خوفناک عذابوں کی خبر دینے والی یہ کتاب ہے، جو عذاب اللہ کی طرف سے ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، ایسے عذاب کہ نہ اس کے سے عذاب کسی کے نہ اس کی سی پکڑ کسی کی۔ ہاں جو اس پر یقین کرے، ایمان لائے، نیک عمل کرے، اسے یہ کتاب اجر عظیم کی خوشی سناتی ہے۔
جس ثواب کو پائندگی اور دوام ہے، وہ جنت انہیں ملے گی جس میں کبھی فنا نہیں جس کی نعمتیں غیر فانی ہیں۔ اور انہیں بھی یہ عذابوں سے آگاہ کرتا ہے جو اللہ کی اولاد ٹھیراتے ہیں جیسے مشرکین مکہ کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتاتے تھے۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل