ترجمہ و تفسیر — سورۃ الكهف (18) — آیت 1
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰی عَبۡدِہِ الۡکِتٰبَ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡ لَّہٗ عِوَجًا ؕ﴿ٜ۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی اور اس میں کوئی کجی نہ رکھی۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
سب تعریف خدا ہی کو ہے جس نے اپنے بندے (محمدﷺ) پر (یہ) کتاب نازل کی اور اس میں کسی طرح کی کجی (اور پیچیدگی) نہ رکھی
ترجمہ محمد جوناگڑھی
تمام تعریفیں اسی اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ قرآن اتارا اور اس میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

{سورة كهف}
کہف کا معنی پہاڑ میں کھلی اور وسیع غار ہے، تنگ غار کو{ غَارٌ } یا {مَغَارَةٌ } کہتے ہیں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے کہف والوں کا قصہ بیان فرمایا ہے، جس میں اللہ پر ایمان کی برکات بیان ہوئی ہیں کہ اس کی بدولت کس طرح آدمی دشمن سے محفوظ اور تمام دنیا سے بے نیاز ہو جاتا ہے، اس میں حق کہنے کی کتنی جرأت پیدا ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کیسے عجیب طریقوں سے عزت و کرامت عطا فرماتا ہے۔ (مہائمی) اس کی فضیلت میں متعدد احادیث ثابت ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [مَنْ حَفِظَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ سُوْرَةِ الْكَهْفِ، عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ] [مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضل سورۃ الکہف و آیۃ الکرسی: ۸۰۹]جو شخص سورۂ کہف کی شروع کی دس آیات حفظ کرلے وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔ مسلم کی اس حدیث میں اس سورت کی آخری دس آیات کی بھی یہی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ اس سورت کے پڑھنے سے گھر میں سکینت اور برکت کا نزول ہوتا ہے۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: [كَانَ رَجُلٌ يَقْرَأُ سُوْرَةَ الْكَهْفِ وَإِلٰی جَانِبِهِ حِصَانٌ مَرْبُوْطٌ بِشَطَنَيْنِ، فَتَغَشَّتْهُ سَحَابَةٌ فَجَعَلَتْ تَدْنُوْ وَ تَدْنُوْ، وَجَعَلَ فَرَسُهُ يَنْفِرُ، فَلَمَّا أَصْبَحَ أَتَي النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذٰلِكَ لَهُ، فَقَالَ تِلْكَ السَّكِيْنَةُ تَنَزَّلَتْ بِالْقُرْآنِ] ایک آدمی سورۂ کہف پڑھ رہا تھا، اس کے ایک طرف ایک گھوڑا تھا جو دو رسیوں سے بندھا ہوا تھا، تو اسے بادل کے ایک ٹکڑے نے ڈھانپ لیا، پھر اس نے قریب آنا شروع کر دیا اور مزید قریب آتا گیا، چنانچہ اس کا گھوڑا بدکنے لگا، جب صبح ہوئی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ سکینت تھی جو قرآن کے ساتھ اتری۔ [بخاری، فضائل القرآن، باب فضل الکہف: ۵۰۱۱] ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [إِنَّ مَنْ قَرَأَ سُوْرَةَ الْكَهْفِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَضَاءَ لَهٗ مِنَ النُّوْرِ مَا بَيْنَ الْجُمُعَتَيْنِ] [مستدرک حاکم: 368/2، ح: ۳۳۹۲، صححہ الألباني في صحیح الجامع: ۶۴۷۰] جو شخص جمعہ کے دن سورۂ کہف پڑھے تو دو جمعوں کے درمیان اس کے لیے نور روشن رہے گا۔
(آیت 1) ➊ { اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْۤ …:} یہ سورت ان پانچ سورتوں میں شامل ہے جن کی ابتدا { اَلْحَمْدُ } کے ساتھ ہوئی ہے، دوسری چار سورتیں فاتحہ، انعام، سبا اور فاطر ہیں۔ پچھلی سورت کا خاتمہ بھی { اَلْحَمْدُ } کے ساتھ ہوا ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہر کام کی ابتدا اور انتہا اللہ کے پاکیزہ نام کے ساتھ یا اس کی حمد کے ساتھ کرنی چاہیے۔ ان تمام سورتوں میں سے ہر سورت کا طریقہ اگرچہ مختلف ہے مگر مقصود لوگوں کو اس بات کا یقین دلانا ہے کہ حمد کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے، اور کوئی نہیں، کیونکہ کسی میں کوئی خوبی ہے تو اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کر دہ ہے۔
➋ {الَّذِيْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ:} سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ کے تمام حمد کا مالک ہونے کی دلیل کے لیے چار صفات بیان ہوئی ہیں، یہاں اللہ تعالیٰ کے تمام حمد اور خوبیوں کا مالک ہونے کی ایک ہی دلیل بیان کی گئی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر {الْكِتٰبَ } نازل فرمانا ہے۔ کیونکہ دوسرے تمام انعامات اگرچہ ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں مگر یہ نعمت سب سے اہم ہے، کیونکہ اس پر ہمیشہ کی زندگی یعنی اخروی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار ہے۔
➌ { عَلٰى عَبْدِهِ:} اپنے بندے پر، اپنے غلام پر اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا خاص عبد قرار دینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے انتہا شان بیان ہوئی ہے، اگرچہ زمین و آسمان میں رہنے والی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی غلام ہے، مگر اپنا غلام کہنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو عزت ملی وہ بہت کم لوگوں کو ملی ہے، جیسا کہ «سُبْحٰنَ الَّذِيْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ» ‏‏‏‏ [بنی إسرائیل: ۱] میں ہے اور اس کتاب کی بھی تعریف ہے جو نازل کی گئی۔ { الْكِتٰبَ } میں الف لام عہد کا ہے، یعنی یہ کتاب، مراد قرآن کریم ہے، کیونکہ جب صرف { الْكِتٰبَ } کہا جائے تو قرآن کریم ہی مراد ہوتا ہے، اس لیے کہ اس کے سوا کسی اور میں یہ کمال ہی نہیں کہ اسے { الْكِتٰبَ } کہا جا سکے۔
➍ {وَ لَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا: عِوَجًا } کجی، ٹیڑھا پن۔ { عِوَجًا } پر تنوین عموم کے لیے ہے جو نفی کے بعد آکر مزید عام ہو گیا ہے، یعنی اس کتاب میں کسی بھی قسم کا کوئی ٹیڑھا پن نہیں، نہ الفاظ میں، نہ معانی میں، نہ فصاحت و بلاغت میں، نہ یہ کہ اس کی آیات کا آپس میں کوئی اختلاف ہو، یا اس کی کوئی خبر غلط نکلے، یا کوئی حکم حکمت سے خالی ہو۔ مزید دیکھیے سورۂ زمر (۲۸)، بنی اسرائیل (۹، ۱۰) اور نساء (۸۲)۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

تمام تعریفیں اسی اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ قرآن اتارا اور اس میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی (1)۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

مستحق تعریف قرآن مجید ٭٭
ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اللہ ہر امر کے شروع اور اس کے خاتمے پر اپنی تعریف و حمد کرتا ہے۔ ہر حال میں وہ قابل حمد اور لائق ثنا اور سزاوار تعریف ہے، اول آخر مستحق حمد فقط اسی کی ذات والا صفات ہے۔ اس نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم نازل فرمایا جو اس کی بہت بڑی نعمت ہے، جس سے اللہ کے تمام بندے اندھیروں سے نکل کر نور کی طرف آ سکتے ہیں۔ اس نے اس کتاب کو ٹھیک ٹھاک اور سیدھا اور راست رکھا ہے جس میں کوئی کجی، کوئی کسر، کوئی کمی نہیں، صراط مستقیم کی رہبر، واضح جلی، صاف اور واضح ہے۔ بدکاروں کو ڈرانے والی، نیک کاروں کو خوشخبریاں سنانے والی، معتدل، سیدھی، مخالفوں منکروں کو خوفناک عذابوں کی خبر دینے والی یہ کتاب ہے، جو عذاب اللہ کی طرف سے ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، ایسے عذاب کہ نہ اس کے سے عذاب کسی کے نہ اس کی سی پکڑ کسی کی۔ ہاں جو اس پر یقین کرے، ایمان لائے، نیک عمل کرے، اسے یہ کتاب اجر عظیم کی خوشی سناتی ہے۔
جس ثواب کو پائندگی اور دوام ہے، وہ جنت انہیں ملے گی جس میں کبھی فنا نہیں جس کی نعمتیں غیر فانی ہیں۔ اور انہیں بھی یہ عذابوں سے آگاہ کرتا ہے جو اللہ کی اولاد ٹھیراتے ہیں جیسے مشرکین مکہ کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتاتے تھے۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل