خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ ؕ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ﴿۳﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا۔ وہ اس سے بہت بلند ہے جو وہ شریک بناتے ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی برحکمت پیدا کیا۔ اس کی ذات ان (کافروں) کے شرک سے اونچی ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اسی نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا وه اس سے بری ہے جو مشرک کرتے ہیں
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت3) ➊ { خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ …:} یہاں سے اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید اور قدرت کے بہت سے دلائل نہایت عمدہ اور انوکھے انداز سے شروع فرمائے ہیں۔ فرمایا اس کا کوئی شریک نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ خالق ہے اور زمین و آسمان کی ہر ہستی اور ہر چیز مخلوق ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے حق کے ساتھ پیدا کیا ہے، پھر خالق و مخلوق یکساں کیسے ہو سکتے ہیں؟
➋ { بِالْحَقِّ:} باطل کے مقابلے میں حق کا لفظ آتا ہے، یہاں بمعنی حکمت ہے، یعنی زمین و آسمان کی پیدائش بے شمار حکمتوں پر مبنی ہے، یہ کوئی کھیل یا فضول اور بے کار کام نہیں۔ دیکھیے سورۂ ابراہیم (۱۹، ۲۰)، سورۂ ص (۲۷) اور سورۂ دخان (۳۸، ۳۹) سب سے پہلے اپنی وحدانیت کی دلیل کے لیے زمین و آسمان کا ذکر فرمایا، کیونکہ یہ دوسری اکثر مخلوقات سے عظیم اور ان پر حاوی ہیں، چنانچہ فرمایا: «{ لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ }» [المؤمن: ۵۷] ”یقینا آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے بڑا ہے۔ “
➋ { بِالْحَقِّ:} باطل کے مقابلے میں حق کا لفظ آتا ہے، یہاں بمعنی حکمت ہے، یعنی زمین و آسمان کی پیدائش بے شمار حکمتوں پر مبنی ہے، یہ کوئی کھیل یا فضول اور بے کار کام نہیں۔ دیکھیے سورۂ ابراہیم (۱۹، ۲۰)، سورۂ ص (۲۷) اور سورۂ دخان (۳۸، ۳۹) سب سے پہلے اپنی وحدانیت کی دلیل کے لیے زمین و آسمان کا ذکر فرمایا، کیونکہ یہ دوسری اکثر مخلوقات سے عظیم اور ان پر حاوی ہیں، چنانچہ فرمایا: «{ لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ }» [المؤمن: ۵۷] ”یقینا آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے بڑا ہے۔ “
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
3۔ 1 یعنی محض تماشے اور کھیل کود کے طور پر نہیں پیدا کیا بلکہ ایک مقصد پیش نظر ہے اور وہ ہے جزا و سزا، جیسا کہ ابھی تفصیل گزری ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
3۔ اس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے اور جو کچھ یہ لوگ شرک کر رہے ہیں اللہ اس سے [5] بلند تر ہے
[5] کائنات میں ہم آہنگی، توحید کا ثبوت:۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بے شمار مقامات پر شرک کی تردید میں زمین اور آسمانوں کی پیدائش کو ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ایک ایک چیز میں ہم آہنگی ہے۔ کائنات کا ہر کل پرزہ دوسرے کی تائید و توثیق کر رہا ہے۔ پھر اس کائنات کے نظام میں بے شمار فوائد، حکمتیں اور مصلحتیں ہیں۔ اور سب نتائج تعمیری قسم کے پیدا ہو رہے ہیں۔ اگر اس کائنات کی تخلیق میں کوئی دوسرا بھی شریک ہوتا تو ایسا نظام وجود میں آہی نہ سکتا تھا اور اگر بالفرض محال آبھی جاتا تو فوراً درہم برہم ہو جاتا۔ گویا کائنات کی ایک ایک چیز اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ اس خالق کا کوئی شریک نہیں ہو سکتا۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
باب
عالم علوی اور سفلی کا خالق اللہ کریم ہی ہے -بلند آسمان اور پھیلی ہوئی زمین مع تمام مخلوق کے اسی کی پیدا کی ہوئی ہے اور یہ سب بطور حق ہے نہ بطور عبث۔ نیکوں کو جزا اور بدوں کو سزا ہو گی۔ وہ تمام دوسرے معبودوں اور مشرکوں سے بری اور بیزار ہے۔ واحد ہے، لا شریک ہے، اکیلا ہی خالق کل ہے۔ اسی لیے اکیلا ہی سزاوار عبادت ہے۔
انسان حقیر و ذلیل لیکن خالق کا انتہائی نافرمان ہے۔ اس نے انسان کا سلسلہ نطفے سے جاری رکھا ہے جو ایک پانی ہے۔ حقیر و ذلیل یہ جب ٹھیک ٹھاک بنا دیا جاتا ہے تو اکڑفوں میں آجاتا ہے رب سے جھگڑنے لگتا ہے رسولوں کی مخالفت پر تل جاتا ہے۔
بندہ تھا چاہیئے تو تھا کہ بندگی میں لگا رہتا لیکن یہ تو زندگی کرنے لگا۔ اور آیت میں ہے «وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُهُمْ وَلَا يَضُرُّهُمْ وَكَانَ الْكَافِرُ عَلَى رَبِّهِ ظَهِيرًا» [25-الفرقان:54-55] ’ اللہ نے انسان کو پانی سے بنایا اس کا نسب اور سسرال قائم کیا۔ اللہ قادر ہے رب کے سوا یہ ان کی پوجا کرنے لگے ہیں جو بے نفع اور بے ضرر ہیں کافر کچھ اللہ سے پوشیدہ نہیں ‘۔
سورۃ یاسین میں فرمایا «أَوَلَمْ يَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَن يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ» ۱؎ [36-یس:77-79] ’ کیا انسان نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا پھر وہ تو بڑا ہی جھگڑالو نکلا۔ ہم پر بھی باتیں بنانے لگا اور اپنی پیدائش بھول گیا کہنے لگا کہ ان گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا؟ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم ان سے کہہ دو کہ انہیں وہ خالق اکبر پیدا کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا وہ تو ہر طرح کی مخلوق کی پیدائش کا پورا عالم ہے ‘۔
مسند احمد اور ابن ماجہ میں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی پر تھوک کر فرمایا کہ جناب باری فرماتا ہے کہ ’ اے انسان تو مجھے کیا عاجز کر سکتا ہے میں نے تو تجھے اس تھوک جیسی چیز سے پیدا کیا ہے جب تو زندگی پا گیا تنومند ہو گیا لباس مکان مل گیا تو لگا سمیٹنے اور میری راہ سے روکنے؟ اور جب دم گلے میں اٹکا تو تو کہنے لگا کہ اب میں صدقہ کرتا ہو، اللہ کی راہ میں دیتا ہوں۔ بس اب صدقہ خیرات کا وقت نکل گیا ‘ }۔ ۱؎ [سنن ابن ماجه:2707،قال الشيخ الألباني:حسن]
انسان حقیر و ذلیل لیکن خالق کا انتہائی نافرمان ہے۔ اس نے انسان کا سلسلہ نطفے سے جاری رکھا ہے جو ایک پانی ہے۔ حقیر و ذلیل یہ جب ٹھیک ٹھاک بنا دیا جاتا ہے تو اکڑفوں میں آجاتا ہے رب سے جھگڑنے لگتا ہے رسولوں کی مخالفت پر تل جاتا ہے۔
بندہ تھا چاہیئے تو تھا کہ بندگی میں لگا رہتا لیکن یہ تو زندگی کرنے لگا۔ اور آیت میں ہے «وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُهُمْ وَلَا يَضُرُّهُمْ وَكَانَ الْكَافِرُ عَلَى رَبِّهِ ظَهِيرًا» [25-الفرقان:54-55] ’ اللہ نے انسان کو پانی سے بنایا اس کا نسب اور سسرال قائم کیا۔ اللہ قادر ہے رب کے سوا یہ ان کی پوجا کرنے لگے ہیں جو بے نفع اور بے ضرر ہیں کافر کچھ اللہ سے پوشیدہ نہیں ‘۔
سورۃ یاسین میں فرمایا «أَوَلَمْ يَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَن يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ» ۱؎ [36-یس:77-79] ’ کیا انسان نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا پھر وہ تو بڑا ہی جھگڑالو نکلا۔ ہم پر بھی باتیں بنانے لگا اور اپنی پیدائش بھول گیا کہنے لگا کہ ان گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا؟ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم ان سے کہہ دو کہ انہیں وہ خالق اکبر پیدا کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا وہ تو ہر طرح کی مخلوق کی پیدائش کا پورا عالم ہے ‘۔
مسند احمد اور ابن ماجہ میں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی پر تھوک کر فرمایا کہ جناب باری فرماتا ہے کہ ’ اے انسان تو مجھے کیا عاجز کر سکتا ہے میں نے تو تجھے اس تھوک جیسی چیز سے پیدا کیا ہے جب تو زندگی پا گیا تنومند ہو گیا لباس مکان مل گیا تو لگا سمیٹنے اور میری راہ سے روکنے؟ اور جب دم گلے میں اٹکا تو تو کہنے لگا کہ اب میں صدقہ کرتا ہو، اللہ کی راہ میں دیتا ہوں۔ بس اب صدقہ خیرات کا وقت نکل گیا ‘ }۔ ۱؎ [سنن ابن ماجه:2707،قال الشيخ الألباني:حسن]