وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمۡ ؕ فَیُضِلُّ اللّٰہُ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۴﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان میں، تاکہ وہ ان کے لیے کھول کر بیان کرے، پھر اللہ گمراہ کر دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان بولتا تھا تاکہ انہیں (احکام خدا) کھول کھول کر بتا دے۔ پھر خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ غالب (اور) حکمت والا ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
ہم نے ہر ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا ہے تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کر دے۔ اب اللہ جسے چاہے گمراه کر دے، اور جسے چاہے راه دکھا دے، وه غلبہ اور حکمت واﻻ ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت4) ➊ {لِيُبَيِّنَ لَهُمْ:} تاکہ وہ ان کے لیے کھول کر بیان کرے اور وہ اچھی طرح سمجھ سکیں اور ان پر حجت قائم ہو سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے گئے وہ اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجے گئے، وہ پیغمبر اس قوم کا ایک فرد ہوتا تھا اور وہ انھی کی زبان بولتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت گو عام ہے اور قیامت تک کے تمام جن و انس کے لیے ہے، لیکن آپ کی قوم، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولین مخاطب تھی، عربی زبان بولتی تھی، اس لیے طبعی ترتیب کے مطابق آپ نے ان کو اللہ کا پیغام عربی زبان میں پہنچایا، مقصد یہ تھا کہ پہلے یہ قوم اس پیغام کو سمجھے اور پھر اسے دوسروں تک پہنچانے اور سمجھانے کا ذریعہ بنے۔ اگر قرآن تمام زبانوں میں نازل کیا جاتا تو تنازع، اختلاف اور تحریف احکام کے دروازے کھل جاتے اور دعوتِ اسلام کے لیے کسی مقام پر بھی مرکزیت قائم نہ ہو سکتی۔ عربی زبان میں نازل ہونے کے بعد دوسری اقوام کا عربی سیکھنا (جو تمام زبانوں سے آسان ہے) یا اس کا دوسری زبانوں میں ترجمہ ہو جانا تمام اقوام کی ہدایت کے لیے کافی ہے، جیسا کہ الحمد للہ ہو رہا ہے۔
➋ { فَيُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ يَّشَآءُ …:} یعنی گو ہر پیغمبر اپنی دعوت اسی زبان میں پیش کرتا ہے جسے ساری قوم سمجھتی ہے، تاہم ہدایت و ضلالت کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہی میں پڑا رہنے دیتا ہے۔ آج بھی بہت سی عجمی قومیں اسلام کی حامی اور مددگار نظر آتی ہیں اور عرب ممالک باوجود عربی زبان کی خدمت و اشاعت کے اسلام سے منحرف اور دور ہو رہے ہیں۔ (الا ما شاء اللہ)
➋ { فَيُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ يَّشَآءُ …:} یعنی گو ہر پیغمبر اپنی دعوت اسی زبان میں پیش کرتا ہے جسے ساری قوم سمجھتی ہے، تاہم ہدایت و ضلالت کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہی میں پڑا رہنے دیتا ہے۔ آج بھی بہت سی عجمی قومیں اسلام کی حامی اور مددگار نظر آتی ہیں اور عرب ممالک باوجود عربی زبان کی خدمت و اشاعت کے اسلام سے منحرف اور دور ہو رہے ہیں۔ (الا ما شاء اللہ)
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
4۔ 1 پھر جب اللہ تعالیٰ نے اہل دنیا پر یہ احسان فرمایا کہ ان کی ہدایت کے لئے کتابیں نازل کیں اور رسول بھیجے، تو اس احسان کی تکمیل اس طرح فرمائی کہ ہر رسول کو قومی زبان میں بھیجا تاکہ کسی کو ہدایت کا راستہ سمجھنے میں دقت نہ ہو۔ 4۔ 2 لیکن اس بیان و تشریح کے باوجود ہدایت اسے ملے گی جسے اللہ چاہے گا۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
4۔ اور ہم نے جو بھی رسول بھیجا ہے۔ اس نے اپنی قوم کی زبان میں ہی پیغام دیا تاکہ وہ ان کے لئے ہر بات واضح طور پر بیان [4] کر سکے پھر اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر غالب اور حکمت [5] والا ہے
[4] قرآن کا بیان کیا چیز ہے؟
یعنی رسول کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی قوم کو ہم زبان ہونے کے باوجود قرآن کا بیان بتائے یا سکھائے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بیان محض قرآن کے الفاظ کو دہرا دینے کا نام نہیں بلکہ بیان میں قرآن کے الفاظ کا صحیح صحیح مفہوم بتانا، اس کی شرح و تفسیر، اس کی حکمت عملی اور طریق امتثال بتانا سب کچھ شامل ہے قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے نازل کرنے والے اور جس پر نازل کیا گیا ہے دونوں کے نزدیک قرآن کے الفاظ کا مفہوم متعین ہو۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ زید (متکلم) بکر (مخاطب) سے کہتا ہے کہ پانی لاؤ، تو بکر زید کے حکم کی تعمیل صرف اس صورت میں کر سکے گا جبکہ متکلم اور مخاطب دونوں کے ذہن میں پانی، اور لانا، دونوں الفاظ کا مفہوم متعین ہو اور وہ ایک ہی ہو۔ اور اگر زید کوئی ذو معنی لفظ بولے گا تو جب تک اس کی مزید وضاحت نہ کرے گا بکر اس پر عمل نہ کر سکے گا اسی طرح اگر زید کا مخاطب کوئی ایسا شخص ہو جو اردو کو سمجھتا ہی نہ ہو تو بھی وہ اس کے حکم کی تعمیل نہ کر سکے گا۔ اور سوالیہ نشان بن کر رہ جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے صرف الفاظ ہی نازل نہیں فرمائے بلکہ ان کا مفہوم بھی مخاطب (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ذہن میں القا کر دیا تاکہ امتثال امر میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ یعنی مفہوم کو مخاطب کے ذہن میں متعین کر دینا ہی قرآن کا بیان ہے۔
قرآن کا بیان کیوں ضروری ہے؟
نیز اللہ تعالیٰ نے سورۃ القیامۃ میں واضح طور پر فرمایا کہ قرآن کے ساتھ اس کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے اور قرآن اور بیان دونوں کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے اور یہی بیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو سکھایا تھا۔ مثلاً قرآن میں بے شمار مقامات پر ﴿اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ﴾ کا لفظ آیا ہے۔ اس آیت میں صلوٰۃ کو قائم کرنے کا حکم ہے اور جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ صلوۃ ہے کیا چیز، تب تک تعمیل نا ممکن ہے۔ لغت میں اس کے معنی دیکھنے سے تو کام نہیں چلے گا۔ کیونکہ یہ ایک شرعی اصطلاح ہے جس کی لمبی چوڑی تفصیل کی ضرورت ہے۔ مثلاً نماز ادا کرنے کی ترتیب، کتنی رکعات پڑھی جائیں۔ اس سے پہلے طہارت کا حکم، نمازوں کے اوقات وغیرہ یہ سب کچھ امت کو بتانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تھا اور یہی قرآن کا بیان ہے۔ یہی حال دوسری شرعی اصطلاحات کا ہے اور وہ بھی بکثرت ہیں۔ مثلاً الٰہ، دین، عبادت، صلوٰۃ، صوم، حج، مناسک حج، طواف، تلبیہ، رکوع، سجود، قیام، عمرہ، آخرت، معروف و منکر وغیرہ ان سب اصطلاحات کا وہی مفہوم معتبر سمجھا جائے گا جو اللہ کے رسول نے بیان فرمایا ہو۔
قرآن کا بیان آپ کی ذمہ داری ہے:۔
علاوہ ازیں کئی الفاظ کثیر المعانی ہوتے ہیں۔ کچھ محاورۃً استعمال ہوتے ہیں۔ کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کے عرفی معانی اور ہوتے ہیں اور لغوی اور۔ ان سب الفاظ کی تفسیر و تشریح کا نام قرآن کا بیان ہے۔ کتاب کا محض اس زبان میں اترنا ہی کافی نہیں ہوتا جو قومی زبان ہو۔ بلکہ بہت سے مقامات ایسے ہوتے ہیں جن کے بیان کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن کا بیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری تھی اور اسی بیان کو سنت کہا جاتا ہے۔
[5] یہ بات نہیں کہ چونکہ اللہ ہر چیز پر غالب ہے لہٰذا وہ جسے چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے ہدایت دے دے۔ بلکہ وہ حکیم بھی ہے اور اس کی حکمت کا یہی تقاضا ہے کہ جو ہدایت کا طالب ہو اسے ضرور ہدایت دی جائے اور گمراہ صرف اسے کرتا ہے جو گمراہی کی راہ اختیار کرے اور حق بات سننے کے لیے تیار ہی نہ ہو۔
[5] یہ بات نہیں کہ چونکہ اللہ ہر چیز پر غالب ہے لہٰذا وہ جسے چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے ہدایت دے دے۔ بلکہ وہ حکیم بھی ہے اور اس کی حکمت کا یہی تقاضا ہے کہ جو ہدایت کا طالب ہو اسے ضرور ہدایت دی جائے اور گمراہ صرف اسے کرتا ہے جو گمراہی کی راہ اختیار کرے اور حق بات سننے کے لیے تیار ہی نہ ہو۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
ہر قوم کی اپنی زبان میں رسول ٭٭
یہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کی انتہائی درجے کی مہربانی ہے کہ ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا تاکہ سمجھنے سمجھانے کی آسانی رہے۔ مسند میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ہر نبی رسول کو اللہ تعالیٰ نے اس کی امت کی زبان میں ہی بھیجا ہے } }۔ [مسند احمد:158/5:ضعیف و منقطع]
حق ان پر کھل تو جاتا ہی ہے پھر ہدایت ضلالت اللہ کی طرف سے ہے، اس کے چاہنے کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ وہ غالب ہے، اس کا ہر کام الحکمت سے ہے، گمراہ وہی ہوتے ہیں جو اس کے مستحق ہوں اور ہدایت پر وہی آتے ہیں جو اس کے مستحق ہوں۔
چونکہ ہر نبی صرف اپنی اپنی قوم ہی کی طرف بھیجا جاتا رہا اس لیے اسے اس کی قومی زبان میں ہی کتاب اللہ ملتی تھی اور اس کی اپنی زبان بھی وہی ہوتی تھی۔
حق ان پر کھل تو جاتا ہی ہے پھر ہدایت ضلالت اللہ کی طرف سے ہے، اس کے چاہنے کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ وہ غالب ہے، اس کا ہر کام الحکمت سے ہے، گمراہ وہی ہوتے ہیں جو اس کے مستحق ہوں اور ہدایت پر وہی آتے ہیں جو اس کے مستحق ہوں۔
چونکہ ہر نبی صرف اپنی اپنی قوم ہی کی طرف بھیجا جاتا رہا اس لیے اسے اس کی قومی زبان میں ہی کتاب اللہ ملتی تھی اور اس کی اپنی زبان بھی وہی ہوتی تھی۔
آنحضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عام تھی ساری دنیا کی سب قوموں کی طرف آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جیسے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { مجھے پانچ چیزیں خصوصیت سے دی گئی ہیں جو کسی نبی کو عطا نہیں ہوئیں مہینے بھر کی راہ کی دوری پر صرف رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے، میرے لیے ساری زمین مسجد اور پاکیزہ قرار دی گئی ہے، مجھ پر مال غنیمت حلال کئے گئے ہیں جو مجھ سے پہلے کسی پر حلال نہیں تھے، مجھے شفاعت سونپی گئی ہے ہر نبی علیہ السلام صرف اپنی قوم ہی کی طرف آتا تھا اور میں تمام عام لوگوں کی طرف رسول اللہ بنایا گیا ہوں }۔ [صحیح بخاری:335]
قرآن یہی فرماتا ہے کہ «قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا» [7-الاعراف: 158] ’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اعلان کر دو کہ میں تم سب کی جانب اللہ کا رسول ہوں صلی اللہ علیہ وسلم ‘۔
قرآن یہی فرماتا ہے کہ «قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا» [7-الاعراف: 158] ’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اعلان کر دو کہ میں تم سب کی جانب اللہ کا رسول ہوں صلی اللہ علیہ وسلم ‘۔