وَ ہُوَ الَّذِیۡ مَدَّ الۡاَرۡضَ وَ جَعَلَ فِیۡہَا رَوَاسِیَ وَ اَنۡہٰرًا ؕ وَ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیۡہَا زَوۡجَیۡنِ اثۡنَیۡنِ یُغۡشِی الَّیۡلَ النَّہَارَ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۳﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور ندیاں بنائیں اور اس میں تمام پھلوں میں سے ایک ایک جوڑا دو، دو قسم کا بنایا، وہ رات کو دن پر اوڑھا دیتا ہے، بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور وہ وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور دریا پیدا کئے اور ہر طرح کے میوؤں کی دو دو قسمیں بنائیں۔ وہی رات کو دن کا لباس پہناتا ہے۔ غور کرنے والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اسی نے زمین پھیلا کر بچھا دی ہے اور اس میں پہاڑ اور نہریں پیدا کردی ہیں۔ اور اس میں ہر قسم کے پھلوں کے جوڑے دوہرے دوہرے پیدا کردیئے ہیں، وه رات کو دن سے چھپا دیتا ہے۔ یقیناً غور وفکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت3) ➊ {وَ هُوَ الَّذِيْ مَدَّ الْاَرْضَ …: ” مَدَّ “ } کا معنی پھیلانا ہے۔{ ” رَوَاسِيَ “ ”رَاسِيَةٌ“} کی جمع ہے، {”رَسَا يَرْسُوْ“} کا معنی زمین میں گڑا ہوا ہونا ہے، لفظی معنی زمین میں گڑے ہوئے، مراد پہاڑ ہیں۔ پہلے اوپر کے جہان کا تذکرہ فرمایا، پھر زمین، آسمان، سورج، چاند وغیرہ کا، اب نیچے کے جہان میں اللہ تعالیٰ کی چند قدرتوں کا ذکر ہے کہ زمین ایک کرہ ہونے کے باوجود اتنی وسیع بنائی کہ طول و عرض میں آدمی کی نگاہ اس کی انتہا کو نہیں پاتی، انسان اور حیوان کسی تکلیف کے بغیر اس پر چلتے پھرتے ہیں، انسان عظیم الشان عمارتیں بناتے ہیں۔ زمین کا توازن قائم رکھنے کے لیے اور ہر وقت زلزلے کی کیفیت سے محفوظ رکھنے کے لیے اس میں بہت نیچے تک گڑے ہوئے اور بہت اوپر تک اٹھے ہوئے پہاڑ بنا دیے اور تمھاری زندگی کی بقا کے لیے دریا اور ندی نالے بنا دیے۔ ندی نالوں کا ذکر پہاڑوں کے ساتھ فرمایا، کیونکہ دریا عموماً پہاڑوں ہی سے نکلتے ہیں۔
➋ { وَ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ …:} اس جملے میں ایک ایسی حقیقت بیان فرمائی ہے جس کا پوری طرح انکشاف کچھ مدت پہلے ہی ہوا ہے۔ پہلے لوگوں کو صرف چند درختوں کے جوڑا یعنی نر اور مادہ ہونے ہی کا علم تھا جن کے نر درخت الگ اور مادہ الگ ہوتے ہیں، مثلاً کھجور اور پپیتا وغیرہ۔ پھر ثابت ہوا کہ ہر درخت ہی کا پھل نر اور مادہ پھولوں کا بور ملنے سے وجود میں آتا ہے، یعنی ہر پھل میں جوڑا موجود ہے، پھر نر و مادہ دونوں پھول بعض اوقات ایک ہی پودے میں موجود ہوتے ہیں، بلکہ بعض اوقات ایک درخت کے ایک ہی پھول میں نر و مادہ دونوں حصے پائے جاتے ہیں۔ کتنی عظیم قدرتوں کا مالک ہے وہ جس کی صرف ایک تخلیق کی ایک حقیقت جو خود اس نے سیکڑوں برس پہلے بیان فرما دی تھی، اب کہیں انسان اسے کسی حد تک پا سکے ہیں۔ عموماً قدیم مفسرین نے اس کا معنی ہر پھل میں سے دو قسمیں کیا ہے، مثلاً میٹھا اور کھٹا، گرم اور سرد، چھوٹا اور بڑا، سیاہ اور سفید وغیرہ، یہ معنی بھی درست ہے۔
➌ { يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ:} یہ اس کی قدرت کا اور اپنے بندوں پر رحمت کے ایک اور نمونے کا بیان ہے۔{ ”غَشِيَ يَغْشٰي“} (ع) کا معنی ڈھانپنا ہے۔ {” يُغْشِي “} باب افعال {” أَغْشَي يُغْشِيْ“} سے ہے، معنی ہے کسی چیز کو دوسری چیز کے لیے ڈھانپنے والی بنا دینا۔ رات کو دن پر اڑھا دیتا ہے تو اندھیرا چھا جاتا ہے، اگلی بات خود سمجھ میں آ رہی ہے، اس لیے حذف کر دی، یعنی دن کو رات پر اڑھا دیتا ہے تو روشنی ہو جاتی ہے، دونوں ایک دوسرے کی جگہ آتے رہتے ہیں۔ دونوں کے فوائد کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ قصص (۷۱ تا ۷۳)۔
➍ {اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ …:} یعنی جو لوگ غورو فکر کرتے ہیں ان کے لیے ان چیزوں میں بہت سے دلائل ہیں کہ وہ اللہ کہ مکان و زمان کی ہر حرکت و سکون اور ہر تبدیلی مکمل طور پر اس کے ہاتھ میں ہے، وہ انسان کو بھی دوبارہ پیدا کر سکتا ہے۔ موضح میں ہے: ”رنگا رنگ چیزیں بنانا نشان ہے کہ اپنی خوشی سے بنایا، اگر ہر چیز خاصیت سے ہوتی تو ایک سی ہوتی۔“ رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ قرآن میں جہاں عالم سفلی، یعنی زمین کے دلائل کا ذکر ہے اس کے آخر میں: «{ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۠ }» یا اس کا ہم معنی جملہ لایا گیا ہے، جس سے اشارہ ہے کہ ان چیزوں پر غور وفکر سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ اختلاف طبعی اسباب کے تحت نہیں (یعنی خود بخود ایسا نہیں ہو رہا بلکہ ایک کرنے والا سب کچھ کر رہا ہے)۔
➋ { وَ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ …:} اس جملے میں ایک ایسی حقیقت بیان فرمائی ہے جس کا پوری طرح انکشاف کچھ مدت پہلے ہی ہوا ہے۔ پہلے لوگوں کو صرف چند درختوں کے جوڑا یعنی نر اور مادہ ہونے ہی کا علم تھا جن کے نر درخت الگ اور مادہ الگ ہوتے ہیں، مثلاً کھجور اور پپیتا وغیرہ۔ پھر ثابت ہوا کہ ہر درخت ہی کا پھل نر اور مادہ پھولوں کا بور ملنے سے وجود میں آتا ہے، یعنی ہر پھل میں جوڑا موجود ہے، پھر نر و مادہ دونوں پھول بعض اوقات ایک ہی پودے میں موجود ہوتے ہیں، بلکہ بعض اوقات ایک درخت کے ایک ہی پھول میں نر و مادہ دونوں حصے پائے جاتے ہیں۔ کتنی عظیم قدرتوں کا مالک ہے وہ جس کی صرف ایک تخلیق کی ایک حقیقت جو خود اس نے سیکڑوں برس پہلے بیان فرما دی تھی، اب کہیں انسان اسے کسی حد تک پا سکے ہیں۔ عموماً قدیم مفسرین نے اس کا معنی ہر پھل میں سے دو قسمیں کیا ہے، مثلاً میٹھا اور کھٹا، گرم اور سرد، چھوٹا اور بڑا، سیاہ اور سفید وغیرہ، یہ معنی بھی درست ہے۔
➌ { يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ:} یہ اس کی قدرت کا اور اپنے بندوں پر رحمت کے ایک اور نمونے کا بیان ہے۔{ ”غَشِيَ يَغْشٰي“} (ع) کا معنی ڈھانپنا ہے۔ {” يُغْشِي “} باب افعال {” أَغْشَي يُغْشِيْ“} سے ہے، معنی ہے کسی چیز کو دوسری چیز کے لیے ڈھانپنے والی بنا دینا۔ رات کو دن پر اڑھا دیتا ہے تو اندھیرا چھا جاتا ہے، اگلی بات خود سمجھ میں آ رہی ہے، اس لیے حذف کر دی، یعنی دن کو رات پر اڑھا دیتا ہے تو روشنی ہو جاتی ہے، دونوں ایک دوسرے کی جگہ آتے رہتے ہیں۔ دونوں کے فوائد کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ قصص (۷۱ تا ۷۳)۔
➍ {اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ …:} یعنی جو لوگ غورو فکر کرتے ہیں ان کے لیے ان چیزوں میں بہت سے دلائل ہیں کہ وہ اللہ کہ مکان و زمان کی ہر حرکت و سکون اور ہر تبدیلی مکمل طور پر اس کے ہاتھ میں ہے، وہ انسان کو بھی دوبارہ پیدا کر سکتا ہے۔ موضح میں ہے: ”رنگا رنگ چیزیں بنانا نشان ہے کہ اپنی خوشی سے بنایا، اگر ہر چیز خاصیت سے ہوتی تو ایک سی ہوتی۔“ رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ قرآن میں جہاں عالم سفلی، یعنی زمین کے دلائل کا ذکر ہے اس کے آخر میں: «{ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۠ }» یا اس کا ہم معنی جملہ لایا گیا ہے، جس سے اشارہ ہے کہ ان چیزوں پر غور وفکر سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ اختلاف طبعی اسباب کے تحت نہیں (یعنی خود بخود ایسا نہیں ہو رہا بلکہ ایک کرنے والا سب کچھ کر رہا ہے)۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
3۔ 1 زمین میں طول و عرض کا اندازہ بھی عام لوگوں کے لئے مشکل ہے اور بلند وبالا پہاڑوں کے ذریعے سے زمین میں گویا میخیں گاڑی ہیں، نہروں دریاؤں اور چشموں کا ایسا سلسلہ قائم کیا کہ جس سے انسان خود بھی سیراب ہوتے ہیں اور اپنے کھیتوں کو بھی سیراب کرتے ہیں جن سے انواع و اقسام کے غلے اور پھل پیدا ہوتے ہیں، جن کی شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف اور ذائقے بھی جداگانہ ہوتے ہیں۔ 3۔ 2 اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ نر مادہ دونوں بنائے، جیسا کہ موجودہ تحقیقات نے بھی اس کی تصدیق کردی ہے۔ دوسرا مطلب (جوڑے جوڑے کا) یہ ہے میٹھا اور کھٹا، سرد اور گرم، سیاہ اور سفید اور ذائقہ، اس طرح ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد قسمیں پیدا کیں۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
3۔ وہی تو ہے جس نے زمین کو پھیلا دیا اور اس میں سلسلہ ہائے کوہ [7] اور نہریں بنا دیں اور ہر طرح کے پھلوں کی دو دو قسمیں بنائیں۔ وہی دن پر رات کو طاری کرتا ہے۔ سوچنے سمجھے والے لوگوں کے لئے ان باتوں میں بہت سی نشانیاں موجود ہیں [7] اس سے پہلی آیت میں نظام کائنات سے معاد پر دلیل لائی گئی تھی۔ اب ارضی آیات سے توحید اور معاد پر دلائل دیئے جا رہے ہیں۔ یعنی اللہ نے زمین کو پھیلایا اور اس کے بعض مخصوص مقامات پر پہاڑ پیدا کر دیے۔ پھر ان پہاڑوں سے دریا اور نہریں جاری کیں۔ پھر اس پانی سے ہر طرح کی نباتات پیدا فرمائی۔ اور ہر طرح کے پھلوں میں نر اور مادہ پیدا کر دیے۔ پھر ان پھلوں اور نباتات کے بارآور ہونے کے لیے دھوپ کی بھی ضرورت تھی اور ٹھنڈک کی بھی۔ لہٰذا اللہ نے دن اور رات پیدا کر دیے۔ ان تمام باتوں میں ایک خاص قسم کا نظم، اعتدال اور حکمت پائی جاتی ہے جس سے یہ واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام چیزوں کا خالق اور مدبر ایک ہی ہستی ہو سکتی ہے۔ اگر بارش اور پانی کا دیوتا کوئی اور ہوتا، پہاڑوں کا، پھلوں اور نباتات کا کوئی دوسرا تو ان تمام اشیاء میں ایسی مناسبت اور ہم آہنگی نا ممکن تھی۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
عالم سفلی کے انواع و اقسام ٭٭
اوپر کی آیت میں عالم علوی کا بیان تھا، یہاں علم سفلی کا ذکر ہو رہا ہے، زمین کو طول عرض میں پھیلا کر اللہ ہی نے بچھایا ہے۔ اس میں مضبوط پہاڑ بھی اسی کے گاڑے ہوئے ہیں، اس میں دریاؤں اور چشموں کو بھی اسی نے جاری کیا ہے۔ تاکہ مختلف شکل و صورت، مختلف رنگ، مختلف ذائقوں کے پھل پھول کے درخت اس سے سیراب ہوں۔ جوڑا جوڑا میوے اس نے پیدا کئے، کھٹے میٹھے وغیرہ۔
رات دن ایک دوسرے کے پے در پے برابر آتے جاتے رہتے ہیں، ایک کا آنا دوسرے کا جانا ہے پس مکان سکان اور زمان سب میں تصرف اسی قادر مطلق کا ہے۔ اللہ کی ان نشانیوں، حکمتوں، اور دلائل کو جو غور سے دیکھے وہ ہدایت یافتہ ہو سکتا ہے۔ زمین کے ٹکڑے ملے جلے ہوئے ہیں، پھر قدرت کو دیکھے کہ ایک ٹکڑے سے تو پیداوار ہو اور دوسرے سے کچھ نہ ہو۔ ایک کی مٹی سرخ، دوسرے کی سفید، زرد، وہ سیاہ، یہ پتھریلی، وہ نرم، یہ میٹھی، وہ شور۔ ایک ریتلی، ایک صاف، غرض یہ بھی خالق کی قدرت کی نشانی ہے اور بتاتی ہے کہ فاعل، خود مختار، مالک الملک، لا شریک ایک وہی اللہ خالق کل ہے۔ نہ اس کے سوا کوئی معبود، نہ پالنے والا۔
«وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ» کو اگر «جَنَّاتٌ» پر عطف ڈالیں تو پیش سے مرفوع پڑھنا چاہیئے اور «أَعْنَابٍ» پر عطف ڈالیں تو زیر سے مضاف الیہ مان کر مجرور پڑھنا چاہیئے۔ ائمہ کی جماعت کی دونوں قرأتیں ہیں۔
«صِنْوَانٍ» کہتے ہیں ایک درخت جو کئی تنوں اور شاخوں والا ہو جیسے انار اور انجیر اور بعض کھجوریاں۔ «وَغَيْرُ صِنْوَانٍ» جو اس طرح نہ ہو ایک ہی تنا ہو جیسے اور درخت ہوتے ہیں۔ اسی سے انسان کے چچا کو «صُنوُالْاَبْ» کہتے ہیں۔
رات دن ایک دوسرے کے پے در پے برابر آتے جاتے رہتے ہیں، ایک کا آنا دوسرے کا جانا ہے پس مکان سکان اور زمان سب میں تصرف اسی قادر مطلق کا ہے۔ اللہ کی ان نشانیوں، حکمتوں، اور دلائل کو جو غور سے دیکھے وہ ہدایت یافتہ ہو سکتا ہے۔ زمین کے ٹکڑے ملے جلے ہوئے ہیں، پھر قدرت کو دیکھے کہ ایک ٹکڑے سے تو پیداوار ہو اور دوسرے سے کچھ نہ ہو۔ ایک کی مٹی سرخ، دوسرے کی سفید، زرد، وہ سیاہ، یہ پتھریلی، وہ نرم، یہ میٹھی، وہ شور۔ ایک ریتلی، ایک صاف، غرض یہ بھی خالق کی قدرت کی نشانی ہے اور بتاتی ہے کہ فاعل، خود مختار، مالک الملک، لا شریک ایک وہی اللہ خالق کل ہے۔ نہ اس کے سوا کوئی معبود، نہ پالنے والا۔
«وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ» کو اگر «جَنَّاتٌ» پر عطف ڈالیں تو پیش سے مرفوع پڑھنا چاہیئے اور «أَعْنَابٍ» پر عطف ڈالیں تو زیر سے مضاف الیہ مان کر مجرور پڑھنا چاہیئے۔ ائمہ کی جماعت کی دونوں قرأتیں ہیں۔
«صِنْوَانٍ» کہتے ہیں ایک درخت جو کئی تنوں اور شاخوں والا ہو جیسے انار اور انجیر اور بعض کھجوریاں۔ «وَغَيْرُ صِنْوَانٍ» جو اس طرح نہ ہو ایک ہی تنا ہو جیسے اور درخت ہوتے ہیں۔ اسی سے انسان کے چچا کو «صُنوُالْاَبْ» کہتے ہیں۔
حدیث میں بھی یہ آیا ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: { کیا تمہیں معلوم نہیں کہ انسان کا چچا مثل باپ کے ہوتا ہے } }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:983]
سیدنا براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”ایک جڑ یعنی ایک تنے میں کئی ایک شاخدار درخت کھجور ہوتے ہیں اور ایک تنے پر ایک ہی ہوتا ہے یہی صنوان اور غیر صنوان ہے۔“ یہی قول اور بزرگوں کا بھی ہے۔ سب کے لیے پانی ایک ہی ہے یعنی بارش کا لیکن ہر مزے اور پھل میں کمی بیشی میں بے انتہا فرق ہے، کوئی میٹھا ہے، کوئی کھٹا ہے۔ حدیث میں بھی یہ تفسیر ہے ملاحظہ ہو ترمذی شریف۔ ۱؎ [سنن ترمذي:3118،قال الشيخ الألباني:حسن]
الغرض قسموں اور جنسوں کا اختلاف، شکل صورت کا اختلاف، رنگ کا اختلاف، بو کا اختلاف، مزے کا اختلاف، پتوں کا اختلاف، تروتازگی کا اختلاف، ایک بہت ہی میٹھا، ایک سخت کڑوا، ایک نہایت خوش ذائقہ، ایک بے حد بد مزا، رنگ کسی کا زرد، کسی کا سرخ، کسی کا سفید، کسی کا سیاہ۔ اسی طرح تازگی اور پھل میں بھی اختلاف، حالانکہ غذا کے اعتبار سے سب یکساں ہیں۔ یہ قدرت کی نیرنگیاں ایک ہوشیار شخص کے لیے عبرت ہیں۔ اور فاعل مختار اللہ کی قدرت کا بڑا زبردست پتہ دیتی ہیں کہ جو وہ چاہتا ہے ہوتا ہے۔ عقل مندوں کے لیے یہ آیتیں اور یہ نشانیاں کافی وافی ہیں۔
سیدنا براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”ایک جڑ یعنی ایک تنے میں کئی ایک شاخدار درخت کھجور ہوتے ہیں اور ایک تنے پر ایک ہی ہوتا ہے یہی صنوان اور غیر صنوان ہے۔“ یہی قول اور بزرگوں کا بھی ہے۔ سب کے لیے پانی ایک ہی ہے یعنی بارش کا لیکن ہر مزے اور پھل میں کمی بیشی میں بے انتہا فرق ہے، کوئی میٹھا ہے، کوئی کھٹا ہے۔ حدیث میں بھی یہ تفسیر ہے ملاحظہ ہو ترمذی شریف۔ ۱؎ [سنن ترمذي:3118،قال الشيخ الألباني:حسن]
الغرض قسموں اور جنسوں کا اختلاف، شکل صورت کا اختلاف، رنگ کا اختلاف، بو کا اختلاف، مزے کا اختلاف، پتوں کا اختلاف، تروتازگی کا اختلاف، ایک بہت ہی میٹھا، ایک سخت کڑوا، ایک نہایت خوش ذائقہ، ایک بے حد بد مزا، رنگ کسی کا زرد، کسی کا سرخ، کسی کا سفید، کسی کا سیاہ۔ اسی طرح تازگی اور پھل میں بھی اختلاف، حالانکہ غذا کے اعتبار سے سب یکساں ہیں۔ یہ قدرت کی نیرنگیاں ایک ہوشیار شخص کے لیے عبرت ہیں۔ اور فاعل مختار اللہ کی قدرت کا بڑا زبردست پتہ دیتی ہیں کہ جو وہ چاہتا ہے ہوتا ہے۔ عقل مندوں کے لیے یہ آیتیں اور یہ نشانیاں کافی وافی ہیں۔