ترجمہ و تفسیر — سورۃ هود (11) — آیت 6
وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزۡقُہَا وَ یَعۡلَمُ مُسۡتَقَرَّہَا وَ مُسۡتَوۡدَعَہَا ؕ کُلٌّ فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۶﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور زمین میں کوئی چلنے والا (جاندار) نہیں مگر اس کا رزق اللہ ہی پر ہے اور وہ اس کے ٹھہرنے کی جگہ اور اس کے سونپے جانے کی جگہ کو جانتا ہے، سب کچھ ایک واضح کتاب میں درج ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے وہ جہاں رہتا ہے، اسے بھی جانتا ہے اور جہاں سونپا جاتا ہے اسے بھی۔ یہ سب کچھ کتاب روشن میں (لکھا ہوا) ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ پر ہیں وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہےاور ان کے سونپے جانے کی جگہ کو بھی، سب کچھ واضح کتاب میں موجود ہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 6) ➊ {وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ …: دَآبَّةٍ دَبَّ يَدِبُّ دَبِيْبًا } سے اسم فاعل ہے، جس کا معنی آہستہ چلنا ہے۔ ہر جان دار خواہ مذکر ہو یا مؤنث، عاقل ہو یا غیر عاقل، سب پر { دَآبَّةٍ } کا لفظ استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا: «{ وَ اللّٰهُ خَلَقَ كُلَّ دَآبَّةٍ مِّنْ مَّآءٍ فَمِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰى بَطْنِهٖ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰى رِجْلَيْنِ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰۤى اَرْبَعٍ [النور:۴۵] اور اللہ نے ہر چلنے والا (جان دار) ایک قسم کے پانی سے پیدا کیا، پھر ان میں سے کوئی وہ ہے جو اپنے پیٹ پر چلتا ہے اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو دو پاؤں پر چلتا ہے اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو چار پر چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پیٹ پر یا دو یا چار ٹانگوں پر چلنے والے تمام جانداروں کو { دَآبَّةٍ } فرمایا۔
➋ پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت اور احاطے کا بیان تھا کہ انسان کے ظاہر اور پوشیدہ احوال ہی نہیں، وہ تو دلوں کے خیالات تک سے واقف ہے۔ اس آیت میں اسی پر دلیل پیش کی ہے کہ ہر جان دار کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سے روزی پہنچ رہی ہے، پھر اگر اللہ تعالیٰ کا علم وسیع نہ ہوتا تو روزی کا یہ بندوبست کیسے ممکن تھا؟ مگر اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ رزق اللہ کے ذمے ہے تو انسان اس کی کمائی اور تلاش کے لیے محنت نہ کرے، بلکہ رزق کے تمام خزانے اگرچہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، مگر انسان کو محنت کا حکم ہے اور اسے وہ اسباب اختیار کرنا لازم ہے جن سے رزق حاصل ہوتا ہے، لیکن اس محنت اور ان اسباب پر بھروسا جائز نہیں، تمام اسباب مہیا کرنے کے بعد بھی بھروسا اور توکل صرف اللہ پر لازم ہے، کیونکہ وہ نہ چاہے تو تمام اسباب کے باوجود بندہ رزق سے محروم رہتا ہے اور اگر وہ چاہے تو بندہ کوئی سبب بھی مہیا نہ کر سکے تو وہ اسباب کے بغیر بھی روزی دے سکتا ہے۔ مگر حکم یہی ہے کہ رزق کی تلاش میں نکلو۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [لَوْ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَوَكَّلُوْنَ عَلَی اللّٰهِ حَقَّ تَوَكُّلِهٖ لَرُزِقْتُمْ كَمَا تُرْزَقُ الطَّيْرُ تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحُ بِطَانًا] [ترمذی، الزہد، باب فی التوکل علی اللّٰہ: ۲۳۴۴] اگر تم اللہ پر توکل (بھروسا) کرو جیسا اس پر توکل کا حق ہے تو یقینا تمھیں اسی طرح رزق دیا جائے جیسے پرندوں کو دیا جاتا ہے، وہ صبح نکلتے ہیں تو خالی پیٹ ہوتے ہیں، شام کو آتے ہیں تو ان کے پیٹ بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس حدیث میں صبح نکلنا کسب ہے اور یہ فکر نہ کرنا کہ کل کو کیا کھائیں گے توکل ہے۔ بہرحال اسباب اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [اِعْقِلْهَا وَ تَوَكَّلْ] [ترمذی، صفۃ القیامۃ، باب حدیث اعقلھا و توکل…: ۲۵۱۷، عن أنس رضی اللہ عنہ]اونٹنی کا گھٹنا باندھ اور توکل کر۔ ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [إِنَّ رُوْحَ الْقُدْسِ نَفَثَ فِيْ رَوْعِيْ أَنَّ نَفْسًا لَنْ تَمُوْتَ حَتَّى تَسْتَكْمِلَ أَجَلَهَا وَتَسْتَوْعِبَ رِزْقَهَا فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَأَجْمِلُوْا فِي الطَّلَبِ وَلَا يَحْمِلَنَّ أَحَدَكُمُ اسْتِبْطَاءُ الرِّزْقِ أَنْ يَّطْلُبَهُ بِمَعْصِيَةِ اللّٰهِ فَإِنَّ اللّٰهَ تَعَالٰی لَا يُنَالُ مَا عِنْدَهٗ إِلاَّ بِطَاعَتِهٖ] [صحیح الجامع: ۲۰۸۵] بے شک روح القدس (جبریل علیہ السلام) نے میرے دل میں وحی کی کہ کوئی جان اس وقت تک فوت نہیں ہو گی جب تک اپنی مقررہ مدت پوری نہ کرلے اور اپنا پورا رزق حاصل نہ کر لے۔ پس تم اللہ سے ڈرو اور (رزق کی) تلاش میں اچھا طریقہ اختیار کرو اور رزق ملنے میں دیر ہو جانا تم میں سے کسی کو اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ وہ اسے اللہ کی نافرمانی کے ذریعے تلاش کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پاس جو کچھ (نعمت اور جنت) ہے وہ اس کی اطاعت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ ذہن بھی غلط ہے کہ تلاش اور کوشش کے بغیر رزق نہیں ملتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بہت سی مخلوق وہ ہے جسے اسباب اختیار کیے بغیر رزق مل رہا ہے۔ دیکھیے سورۂ عنکبوت (۶۰)۔
(3) {وَ يَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَا:} یہ بھی اللہ تعالیٰ کے علم ہی کا مزید بیان ہے۔ { مُسْتَقَرٌّ } اور{ مُسْتَوْدَعٌ } کی تفسیر اگرچہ لوگوں نے مختلف بیان کی ہے، مگر الفاظ کے پیش نظر واضح مطلب یہی نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ وہ تمام جگہیں بھی جانتا ہے جہاں انسان نے کچھ مدت کے لیے ٹھہرنا ہے، خواہ باپ کی پشت ہو یا ماں کا رحم، یا زمین کا کوئی حصہ جہاں اس نے زندگی میں ٹھہرنا ہے اور اللہ تعالیٰ وہ جگہیں بھی جانتا ہے جن کے سپرد انسان نے مرنے کے بعد ہونا ہے، خواہ وہ زمین میں کھودی ہوئی جگہ ہو یا کسی جانور کا پیٹ یا جو جگہ بھی اللہ تعالیٰ نے قیامت تک اس کے سپرد ہونے کے لیے لکھی ہے اور وہ سب کچھ اس کے لیے قبر ہی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو موت اور قبر دینے کا ذکر فرمایا ہے: «‏‏‏‏{ ثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقْبَرَهٗ [عبس: ۲۱] پھر اسے موت دی، پھر اسے قبر میں رکھوایا۔ پھر قیامت کو زندہ ہو کر اسے دوزخ کے سپرد ہونا ہے یا جنت کے، یہ سب اس کے لیے {مُسْتَوْدَعٌ } (سونپے جانے کی جگہ) ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جان دار کی زندگی کے ہر حال کو بھی جانتا ہے اور موت کے بعد کے تمام حالات کو بھی۔ { كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ } سے مراد لوح محفوظ ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

6۔ 1 یعنی وہ کفیل اور ذمے دار ہے۔ زمین پر چلنے والی ہر مخلوق، انسان ہو یا جن، چرند ہو یا پرند، چھوٹی ہو یا بڑی، بحری ہو یا بری۔ ہر ایک کو اس کی ضروریات کے مطابق وہ خوراک مہیا کرتا ہے۔ 6۔ 2 مستقر اور مستودع کی تعریف میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک منتہائے سیر (یعنی زمین میں چل پھر کر جہاں رک جائے) مستقر ہے اور جس کو ٹھکانا بنائے وہ مستودع ہے۔ بعض کے نزدیک رحم مادر مستقر اور باپ کی صلب مستودع ہے اور بعض کے نزدیک زندگی میں انسان یا حیوان جہاں رہائش پذیر ہو وہ اس کا مستقر ہے اور جہاں مرنے کے بعد دفن ہو وہ مستودع ہے تفسیر ابن کثیر امام شوکانی کہتے ہیں مستقر سے مراد رحم مادر اور مستودع سے وہ حصہ زمین ہے جس میں دفن ہو اور امام حاکم کی ایک روایت کی بنیاد پر اسی کو ترجیح دی ہے بہرحال جو بھی مطلب لیا جائے آیت کا مفہوم واضح ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کو ہر ایک کے مستقر ومستودع کا علم ہے اس لیے وہ ہر ایک کو روزی پہنچانے پر قادر ہے اور ذمے دار ہے اور وہ اپنی ذمے داری پوری کرتا ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

6۔ زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمے [8] نہ ہو۔ وہ اس کی قرار گاہ کو بھی جانتا ہے اور دفن [9] ہونے کی جگہ کو بھی۔ یہ سب کچھ واضح کتاب [10] ﴿لوح محفوظ﴾ میں لکھا ہوا موجود ہے
[8] اللہ کی رزاقیت:۔
یعنی صرف انسانوں کا نہیں بلکہ زمین پر چلنے والے جانوروں حتیٰ کہ کیڑے مکوڑوں اور چیونٹیوں کا رزق بھی اللہ کے ذمے ہے اور یہ اللہ کی ذمہ داری ہے کہ ہر جاندار کو رزق اسے اس کے مقام پر پہنچائے۔ اس آیت سے جہاں اللہ کی کمال رزاقیت کا اندازہ ہوتا ہے وہاں اس کے وسعت علم کا بھی اندازہ ہوتا ہے اللہ کے رزق کی فراہمی کا ذریعہ یہ ہے کہ وہ آسمان سے بارش برساتا ہے جس سے زمین میں سے ہر طرح کی نباتات اگتی ہیں۔ پھر اسی نباتات، فصلوں اور پھلوں وغیرہ سے ہر جاندار کو بالواسطہ یا بلاواسطہ روزی مہیا ہوتی ہے اور ہر جاندار کی جملہ ضروریات زندگی اسی زمین سے مہیا ہو رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ جتنی بھی مخلوق پیدا فرماتا ہے تو اس کے مطابق زمین بھی اپنے نئے سے نئے خزانے اگلتی جا رہی ہے اور آئندہ بھی اگلتی چلی جائے گی۔ لیکن اس رزق کے حصول کے لیے اس نے اسباب و وسائل اختیار کرنے کا بھی حکم دے دیا ہے اور جب کوئی انسان یا جاندار اسباب اختیار کرنے سے عاجز ہو تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسباب بھی مہیا فرما دیتا ہے۔
محکمہ خاندانی منصوبہ بندی کی ناکامی اور قحط کے اسباب:۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر رزق کی فراہمی اللہ کے ذمے ہے تو قحط سے یا بعض دوسری وجوہ سے انسان ہزاروں کی تعداد میں مر کیوں جاتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قحط تو اللہ کا عذاب ہے جو لوگوں کی نافرمانیوں کی وجہ سے انسانوں پر مسلط کیا جاتا ہے اور دوسری وجوہ بعض انسانوں کی دوسروں پر ظلم و زیادتی اور معاشی وسائل کی ناہموار تقسیم کی بنا پر ایسے حادثات وجود میں آتے ہیں اور یہ سب کچھ انسانوں کے کسب اعمال کا ہی نتیجہ ہوتا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جانداروں کے رزق میں کمی یا کوتاہی کا تصور بھی ممکن نہیں۔
ماہرین معاشیات کی کوتاہ بینی:۔
آج عالمی سطح پر یہ ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے کہ آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور وسائل رزق اس کا ساتھ نہیں دے رہے لہٰذا خاندانی منصوبہ بندی اور اولاد پر کنٹرول ضروری ہے اس سلسلہ میں آج کے ماہر معاشیات کی کوتاہ فہمی اور فطرت سے جنگ کے نتیجہ میں ان کی ناکامی کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ جہاں جہاں ایسے محکمے قائم کیے جا رہے ہیں شرح پیدائش نسبتاً بڑھتی جا رہی ہے اور عجیب اتفاق ہے کہ لوگ بھی پہلے سے زیادہ آسودہ اور خوشحال ہیں جس کا اندازہ ہر شخص اپنی پچاس سال پہلے کی زندگی سے کر سکتا ہے ان مادہ پرست ماہرین کے فکر کی اصل وجہ محض اللہ تعالیٰ کی رزاقیت پر عدم توکل ہے ورنہ اللہ تعالیٰ تو آبادی کی افزائش کے ساتھ ساتھ زمین کے خزانوں میں اضافہ فرما رہا ہے صدیوں سے بنجر پڑی ہوئی زمینیں آباد ہو رہی ہیں زمین سال میں دو کی بجائے چار چار فصلیں دینے لگی ہے کہیں تیل دریافت ہو رہا ہے کہیں جلانے کی گیسیں اور کہیں دوسری معدنیات نیز انسان حصول رزق کے نئے سے نئے وسائل بھی دریافت کر رہا ہے اور سب باتیں اس آیت کا جیتا جاگتا مصداق ہیں۔ مادہ پرست ماہرین معاشیات یہ تو اندازہ کر لیتے ہیں کہ اتنے سال بعد موجودہ شرح پیدائش کے مطابق دنیا کی آبادی اتنی ہو جائے گی لیکن اس دوران اللہ تعالیٰ جو نئے نئے وسائل رزق مہیا کرتا ہے اس کا وہ کچھ اندازہ نہیں کر سکتے لہٰذا ان کے اکثر اندازے غلط ثابت ہوتے ہیں اس مادہ پرستی اور محض مادی وسائل پر نظر رکھنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اللہ پر توکل اٹھ جاتا ہے جو اس آیت کا مقصود اصلی ہے۔
اللہ پر توکل کی فضیلت:۔
چنانچہ سیدنا عمرؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر تم اللہ پر ایسا توکل کرتے جیسا کرنے کا حق ہے تو تم کو بھی اسی طرح رزق دیا جاتا جس طرح پرندوں کو دیا جاتا ہے وہ صبح کو بھوکے جاتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں“ [ترمذي، ابواب الزهد۔ باب ماجاء فى قلة الطعام]
[9] قرآن کے الفاظ ہیں مستقر (قرار گاہ) اور مستودع (سونپے جانے کی جگہ) اور مستودع اس گودام کو بھی کہتے ہیں جہاں کوئی چیز ذخیرہ کی جاتی ہے یا امانتیں بطور حفاظت رکھی جاتی ہیں ان دونوں الفاظ کی تعبیر میں مفسرین کا خاصا اختلاف ہے ان میں سے ہم ابن عباسؓ کے قول کو اختیار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک مستقر سے مراد وہ جگہ ہے جہاں کسی نے اس دنیا میں زندگی (کا اکثر حصہ) بسر کیا ہو اور مستودع سے مراد وہ جگہ ہے جہاں وہ دفن ہوا اور ہر جاندار کے ان دونوں مقامات کا اللہ کو پوری طرح علم ہے۔
[10] ﴿لوح محفوظ﴾ ہی کتاب مبین ہے:۔
کتاب مبین سے مراد ﴿لوح محفوظ﴾ ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ عمران بن حصین کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”: اللہ تھا اور اس سے پہلے کوئی چیز نہ تھی اس کا عرش پانی پر تھا پھر اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ﴿لوح محفوظ﴾ میں ہر چیز لکھی“ [بخاري، كتاب التوحيد۔ باب قوله وكان عرشه على الماء]

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

ہر مخلوق کا روزی رساں ٭٭
ہر ایک چھوٹی بڑی، خشکی، تری کی مخلوق کا روزی رساں ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ وہی ان کے چلنے پھرنے آنے جانے، رہنے سہنے، مرنے جینے اور ماں کے رحم میں قرار پکڑنے اور باپ کی پیٹھ کی جگہ کو جانتا ہے۔ امام بن ابی حاتم نے اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کرام کے بہت سے اقوال ذکر کئے ہیں «فَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
یہ تمام باتیں اللہ کے پاس کی واضح کتاب میں لکھی ہوئی ہیں جسے فرمان ہے «وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ» ۱؎ [6-الأنعام:38]‏‏‏‏ یعنی ’ زمین پر چلنے والے جانور اور اپنے پروں پر اڑنے والے پرند سب کے سب تم جیسی ہی امتیں ہیں، ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی، پھر سب کے سب اپنے پروردگار کی طرف جمع کئے جائیں گے ‘۔
اور فرمان ہے «وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ» ۱؎ [6-الأنعام:59]‏‏‏‏ یعنی ’ غیب کی کنجیاں اسی اللہ کے پاس ہیں۔ انہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ خشکی تری کی تمام چیزوں کا اسے علم ہے جو پتہ جھڑتا ہے اس کے علم میں ہے کوئی دانہ زمین کے اندھیروں میں اور کوئی تر و خشک چیز ایسی نہیں جو واضح کتاب میں نہ ہو ‘۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل