ترجمہ و تفسیر — سورۃ يونس (10) — آیت 5
ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الشَّمۡسَ ضِیَآءً وَّ الۡقَمَرَ نُوۡرًا وَّ قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ وَ الۡحِسَابَ ؕ مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالۡحَقِّ ۚ یُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ ﴿۵﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
وہی ہے جس نے سورج کو تیز روشنی اور چاند کو نور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں، تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب معلوم کرو۔ اللہ نے یہ (سب کچھ) نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔ وہ آیات کو ان لوگوں کے لیے کھول کر بیان کرتا ہے جو جانتے ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور چاند کی منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (کاموں کا) حساب معلوم کرو۔ یہ (سب کچھ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے۔ سمجھنے والوں کے لیے وہ اپنی آیاتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
وه اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے آفتاب کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو نورانی بنایا اور اس کے لیے منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں بے فائده نہیں پیدا کیں۔ وه یہ دﻻئل ان کو صاف صاف بتلا رہا ہے جو دانش رکھتے ہیں

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 5) ➊ {هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَآءً …: ضِيَآءً ضَاءَ يَضُوْءُ ضَوْءً ا وَ ضِيَاءً} سے ہے اور { قِيَامًا } کی طرح مصدر ہے، بعض کہتے ہیں یہ { ضَوْءٌ} کی جمع ہے، جیسا کہ{ سَوْطٌ} کی جمع {سِيَاطٌ} یعنی سورج کو {ذَاتَ ضِيَاءٍ} تیز روشنی والا اور چاند کو {ذَا نُوْرٍ} نور والا بنایا، پھر {ذَاتَ} اور {ذَا} کو حذف کرکے مبالغہ کے لیے سورج کو سراپا ضیاء اور چاند کو سراپا نور قرار دیا۔ ضیاء اور نور میں وہی فرق ہے جو سورج کی تیز اور گرم روشنی اور چاند کی پر سکون روشنی میں ہوتا ہے۔ انسان اور کائنات کی حرکت و سکون کے لیے دن اور رات کی طرح سورج اور چاند بھی ضروری ہیں۔
➋ {وَ قَدَّرَهٗ مَنَازِلَ …:} یعنی چاند کی منزلیں مقرر فرمائیں کہ ہر روز گھٹتا اور بڑھتا ہے، اگرچہ سورج کی بھی منزلیں مقرر ہیں، جس کا ذکر اگلی آیت میں آ رہا ہے، مگر چاند کا اٹھائیس منزلوں میں روزانہ شکل بدل کر آنا، پھر ایک یا دو دن چھپ کرنئے سرے سے طلوع ہونا تاریخ اور ماہ و سال کی تعیین کے لیے زیادہ آسان اور قابل عمل ہے۔ اس لیے شریعت کے تمام احکام مثلاً حج، روزہ اور کفارہ وغیرہ بھی اسی سے متعلق ہیں۔ دیکھیے «{ يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ [البقرۃ: ۱۸۹] کی تفسیر۔
➌ { مَا خَلَقَ اللّٰهُ ذٰلِكَ اِلَّا بِالْحَقِّ …:} یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ بے فائدہ اور بے مقصد پیدا نہیں فرمایا۔ یہ تفصیل علم و فہم رکھنے والوں کے لیے ہے، کیونکہ بے علم اور بے سمجھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی ان نشانیوں کے بیان سے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

5۔ 1 ضیاء ضوء کے ہم معنی ہے۔ مضاف یہاں محذوف ہے ذات ضیاء والقمر ذانور، سورج کو چمکنے والا اور چاند کو نور والا بنایا۔ یا پھر انہیں مبالغے پر محمول کیا جائے گویا کہ یہ بذات خود ضیا اور نور ہیں۔ آسمان و زمین کی تخلیق اور ان کی تدبیر کے ذکر کے بعد بطور مثال کچھ اور چیزوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن کا تعلق تدبیر کائنات سے ہے جس میں سورج اور چاند کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ سورج کی حرارت اور تپش اور اس کی روشنی، کس قدر ناگزیر ہے اس سے ہر با شعور آدمی واقف ہے۔ اسی طرح چاند کی نورانیت کا جو لطف اور اس کے فوائد ہیں، وہ بھی محتاج بیان نہیں۔ حکما کا خیال ہے کہ سورج کی روشنی بالذات ہے اور چاند کی نورانیت ہے جو سورج کی روشنی سے مستفاد ہے (فتح القدیر) 5۔ 2 یعنی ہم نے چاند کی چال کی منزلیں مقرر کردی ہیں ان منزلوں سے مراد مسافت ہے جو وہ ایک رات اور ایک دن میں اپنی مخصوص حرکت یا چال کے ساتھ طے کرتا ہے یہ 28 منزلیں ہیں۔ ہر رات کو ایک منزل پر پہنچتا ہے جس میں کبھی خطا نہیں ہوتی۔ پہلی منزل میں وہ چھوٹا اور باریک نظر آتا ہے، پھر بتدریخ بڑا ہوتا جاتا ہے حتٰی کے چودھویں شب یا چودھویں منزل پر وہ مکمل (بدر کامل) ہوجاتا ہے اس کے بعد پھر وہ سکڑنا اور باریک ہونا شروع ہوجاتا ہے حتٰی کے آخر میں ایک یا دو راتیں چھپا رہتا ہے۔ اور پھر ہلال بن کر طلوع ہوجاتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرسکو۔ یعنی چاند کی ان منازل اور رفتار سے ہی مہینے اور سال بنتے ہیں۔ جن سے تمہیں ہر چیز کا حساب کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ یعنی سال 12 مہینے کا، مہینہ 29، 30 دن کا ایک دن 24 گھنٹے یعنی رات اور دن کا۔ جو ایام استوا میں 12، 12 گھنٹے اور سردی گرمی میں کم و بیش ہوتے ہیں، علاوہ ازیں دینوی منافع اور کاروبار ہی ان منازل قمر سے وابستہ نہیں۔ دینی منافع بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اس طلوع بلال سے حج، صیام رمضان، اشہر حرم اور دیگر عبادات کی تعین ہوتی ہے جن کا اہتمام ایک مومن کرتا ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

5۔ وہی تو ہے جس نے سورج کو ضیاء [7] اور چاند کو نور بنایا اور چاند [8] کے لئے منزلیں مقرر کر دیں تاکہ تم برسوں اور تاریخوں کا حساب [9] معلوم کر سکو۔ اللہ نے یہ [10] سب چیزیں کسی حقیقی غایت کے لئے ہی پیدا کی ہیں۔ وہ اپنی نشانیاں ان لوگوں کے لئے تفصیل سے بیان کرتا ہے جو علم رکھتے ہیں
[7] ضیاء اور نور کا فرق:۔
ضیاء اور نور میں فرق یہ ہے کہ نور کا لفظ عام ہے اور ضیاء کا خاص۔ گویا ضیاء بھی نور ہی کی ایک قسم ہے نور میں روشنی اور چمک ہوتی ہے جبکہ ضیاء میں روشنی اور چمک کے علاوہ حرارت، تپش اور رنگ میں سرخی بھی ہوتی ہے۔ قرآن کریم نے عموماً ضیاء کا لفظ سورج کی روشنی کے لیے اور نور کا لفظ چاند کی روشنی کے لیے استعمال فرمایا ہے۔
[8] چاند کی منزلیں:۔
بطلیموسی نظریہ ہیئت کے مطابق ہئیت دانوں نے آسمان پر چاند کی اٹھائیس منزلیں مقرر کر رکھی ہیں دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہی نظریہ ہیئت مقبول عام تھا اور درس گاہوں میں اسی نظریہ کی درس و تدریس ہوتی تھی۔ لہٰذا اس آیت میں اگر وہی 28 منزلیں مراد لی جائیں تو بھی کوئی حرج نہیں تاہم اکثر علماء منازل قمر سے اشکال قمر مراد لیتے ہیں اور ان کی یہ دلیل ایک دوسری آیت
﴿ وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ حَتّيٰ عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِيْمِ [36: 39]
سے ماخوذ ہے جس کے آخر میں ہلال (نئے یا پہلی رات کے چاند) کا ذکر کیا گیا ہے۔
[9] قمری تقویم اور اس کی خصوصیات:۔
اس سے معلوم ہوا کہ قمری تقویم ہی حقیقی تقویم ہے شمسی نہیں۔ لہٰذا جہاں بھی ایک ماہ یا اس سے زائد مدت کا شمار ہو گا شرعی نقطہ نگاہ سے وہ قمری تقویم کے مطابق ہی ہو گا جیسے ایام عدت و رضاعت، معاہدات میں مدت کی تعیین وغیرہ نیز احکام اسلام مثلاً حج، روزہ، حرمت والے مہینے، عیدین سب کا تعلق قمری تقویم سے ہے قمری تقویم کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ یہ سادہ اور فطری تقویم ہے جو انسانی دستبرد (مثلاً کبیسہ اور اس کی اقسام مختلف) سے پاک ہے اس میں مہینہ کے دنوں کی تعداد کو بدلا نہیں جا سکتا اس میں سال ہمیشہ بارہ ہی ماہ کا ہو گا اور اس میں تمام دنیا کے لوگوں کے لیے مساوات اور ہمہ گیری کا اصول کار فرما ہے، اور اس پر دنیوی رسم و رواج اور اغراض اثر انداز نہیں ہو سکتیں۔ (مزید تفصیلات کے لیے میری تصنیف ﴿الشمس والقمر بحسبان﴾ ملاحظہ فرمائیے)
[10] سورج اور چاند کی کی گردش کے فوائد:۔
یعنی سورج اور چاند کی مقر رہ حساب کے مطابق گردش بلا معنی نہیں بلکہ اس کے کئی فوائد ہیں۔ پہلا فائدہ یہ ہے کہ نمازوں کے اوقات اور کاروبار کے اوقات سورج کی گردش سے متعین کر سکتے ہو، اور جب مدت کا شمار صرف ایک ماہ سے کم ہو گا تو یہ مدت سورج سے متعین ہو سکتی ہے اور چاند سے بھی، مگر جب یہ مدت ایک ماہ سے زائد ہو گی تو اس کا شمار چاند کے حساب سے ہو گا جس کی تقسیم انسانی دستبرد سے محفوظ ہے اس طرح تم مدت کا صدیوں تک کا حساب رکھ سکتے ہو دوسرا فائدہ یہ ہے کہ سورج، چاند اور دیگر ستاروں کی گردش کا نظام اس قدر مربوط، منظم اور فرمان الٰہی کا پابند ہے کہ اس میں ایک لمحہ کی تقدیم و تاخیر نا ممکن ہے۔ اور اس طرح تم آئندہ بھی صدیوں تک کے لیے تقویم تیار کر سکتے ہو اور تیسرا سب سے اہم اور حقیقی فائدہ یہ ہے کہ تم ان چیزوں کو پیدا کرنے والی، انہیں اپنی گردش میں اس طرح جکڑ بند کرنے والی ہستی کے تصرف اور اختیار پر غور کرو اور دیکھو جو ہستی اتنے اتنے عظیم الشان کارنامے سرانجام دے سکتی ہے وہ تمہیں دوبارہ پیدا نہیں کر سکتی، یہ گویا معاد پر دوسری دلیل ہوئی۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

اللہ عزوجل کی عظمت و قدرت کے ثبوت مظاہر کائنات ٭٭
اس کی کمال قدرت، اس کی عظیم سلطنت کی نشانی یہ چمکیلا آفتاب ہے اور یہ روشن ماہتاب ہے۔ یہ اور ہی فن ہے اور وہ اور ہی کمال ہے۔ اس میں بڑا ہی فرق ہے۔ اس کی شعاعیں جگمگا دیں اور اس کی شعاعیں خود منور رہیں۔ دن کو آفتاب کی سلطنت رہتی ہے، رات کو ماہتاب کی جگمگاہٹ رہتی ہے، ان کی منزلیں اس نے مقرر کر رکھی ہیں۔
چاند شروع میں چھوٹا ہوتا ہے۔ چمک کم ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ بڑھتا ہے اور روشن بھی ہوتا ہے پھر اپنے کمال کو پہنچ کر گھٹنا شروع ہوتا ہے واپسی اگلی حالت پر آ جاتا ہے۔ ہر مہینے میں اس کا یہ ایک دور ختم ہوتا ہے نہ سورج چاند کو پکڑ لے، نہ چاند سورج کی راہ روکے، نہ دن رات پر سبقت کرے نہ رات دن سے آگے بڑھے۔ ہر ایک اپنی اپنی جگہ پابندی سے چل پھر رہا رہے۔ دور ختم کر رہا ہے۔
«وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَـهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالعُرجُونِ الْقَدِيمِ ـ لاَ الشَّمْسُ يَنبَغِى لَهَآ أَن تدْرِكَ القَمَرَ وَلاَ الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِى فَلَكٍ يَسْبَحُونَ» ۱؎ [36-يس:39،40]‏‏‏‏ ’ اور چاند کی منزلیں مقرر کر رکھی ہیں کہ وہ لوٹ کر پرانی ٹہنی کی طرح ہو جاتا ہے نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں ‘۔
دونوں کی گنتی سورج کی چال پر اور مہینوں کی گنتی چاند پر ہے۔ «وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَاناً» ۱؎ [6-الأنعام:96]‏‏‏‏ ’ اور سورج اور چاند کو حساب سے رکھا ہے ‘۔ یہ مخلوق عبث نہیں بلکہ بحکمت ہے۔ زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی چیزیں باطل پیدا شدہ نہیں، یہ خیال تو کافروں کا ہے، جن کا ٹھکانا دوزخ ہے۔
«وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَالاٌّرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَـطِلاً ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُواْ مِنَ النَّارِ» ۱؎ [38-ص:27]‏‏‏‏ ’ اور ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو ناحق پیدا نہیں کیا یہ گمان تو کافروں کا ہے سو کافروں کے لیے خرابی ہے آگ کی ‘۔ ‏
’ تم یہ نہ سمجھنا کہ ہم نے تمہیں یونہی پیدا کر دیا ہے اور اب تم ہمارے قبضے سے باہر ہو، یاد رکھو میں اللہ ہوں، میں مالک ہوں، میں حق ہوں، میرے سوا کسی کی کچھ چلتی نہیں، عرش کریم بھی منجملہ مخلوق کے میری ادنیٰ مخلوق ہے ‘۔
«أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَـكُمْ عَبَثاً وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لاَ تُرْجَعُونَ ـ فَتَعَـلَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ» ۱؎ [23-المؤمنون:115،116]‏‏‏‏ ’ کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یونہی بے کار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے۔ ‏ اللہ تعالیٰ سچا بادشاہ ہے وہ بڑی بلندی والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی بزرگ عرش کا مالک ہے ‘۔
’ حجتیں اور دلیلیں ہم کھول کھول کر بیان فرما رہے ہیں کہ اہل علم لوگ سمجھ لیں ‘۔
رات دن کے رد و بدل میں، ان کے برابر جانے آنے میں رات پر دن کا آنا، دن پر رات کا چھا جانا، ایک دوسرے کے پیچھے برابر لگاتار آنا جانا اور زمین و آسمان کا پیدا ہونا اور ان کی مخلوق کا رچایا جانا یہ سب عظمت رب کی بولتی ہوئی نشانیاں ہیں۔
«يُغْشِى الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا» ۱؎ [7-الأعراف:54]‏‏‏‏ ’ وہ رات سے دن ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ کہ وہ رات اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے ‘۔
«لاَ الشَّمْسُ يَنبَغِى لَهَآ أَن تدْرِكَ القَمَرَ» ۱؎ [36-يس:40]‏‏‏‏ ’ نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے ‘۔
«فَالِقُ الإِصْبَاحِ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَناً» ۱؎ [6-الأنعام:96]‏‏‏‏ ’ وہ صبح کا نکالنے والا اس نے رات کو راحت کی چیز بنایا ہے اور سورج اور چاند کو حساب سے رکھا ہے ان سے منہ پھیر لینا کوئی عقلمندی کی دلیل نہیں یہ نشانات بھی جنہیں فائدہ نہ دیں انہیں ایمان کیسے نصیب ہو گا؟ تم اپنے آگے پیچھے اوپر نیچے بہت سی چیزیں دیکھ سکتے ہو ‘۔
«وَكَأَيِّن مِّن ءَايَةٍ فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ» ۱؎ [12-يوسف:105]‏‏‏‏ ’ آسمانوں اور زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ‘۔
«قُلِ انظُرُواْ مَاذَا فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَمَا تُغْنِى الآيَـتُ وَالنُّذُرُ عَن قَوْمٍ لاَّ يُؤْمِنُونَ» ۱؎ [10-يونس:101]‏‏‏‏ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئیے کہ تم غور کرو کہ کیا کیا چیزیں آسمانوں میں اور زمین میں ہیں اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو نشانیاں اور دھمکیاں کچھ فائدہ نہیں پہنچاتیں ‘۔
«أَفَلَمْ يَرَوْاْ إِلَى مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَالاٌّرْضِ» ۱؎ [34-سبأ:9]‏‏‏‏ ’ کیا پس وہ اپنے آگے پیچھے آسمان و زمین کو دیکھ نہیں رہے ہیں؟ ‘، «إِنَّ فِى خَلْقِ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَاخْتِلَـفِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لاّيَـتٍ لاٌّوْلِى الاٌّلْبَـبِ» ۱؎ [3-آل عمران:190]‏‏‏‏ ’ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں عقلمندوں کے لیے یہ بڑی بڑی نشانیاں ہیں، کہ وہ سوچ سمجھ کر اللہ کے عذابوں سے بچ سکیں اور اس کی رحمت حاصل کر سکیں ‘۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل