سودی معاملات کرنے والے سے قرض لینے کا حکم
ایسے آدمی سے قرض لینا یا اس کے ساتھ لین دین کرنا جس کے معاملات سودی اور حرام ہوں، مناسب نہیں، لہٰذا اس سے قرض لیں نہ اس کے ساتھ لین دین ہی کریں، بلکہ اس سے بچیں اور دور رہیں، لیکن اگر وہ آدمی حرام اور حلال دونوں طرح کا لین دین کرے، یعنی اس کے معاملات پاک اور نا پاک کا مغلوبہ ہوں تو پھر کوئی حرج نہیں، لیکن اسے چھوڑ دینا افضل اور بہتر ہے، کیونکہ فرمان نبوی ہے:
”جو آپ کو شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو اور جو شک میں نہ ڈالے اسے اپنا لو۔“ [سنن الترمذي، رقم الحديث 2518 سنن النسائي، رقم الحديث 5711]
نیز آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”جو شبہات سے بچ گیا اس نے اپنا دین اور عزت بچالی۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3330]
لہٰذا مومن مشتبہ چیزوں سے دور رہتا ہے، جب مجھے خبر ہو جائے کہ اس کے تمام معاملات حرام ہیں، وہ حرام کی تجارت کرتا ہے تو اس جیسے آدمی سے لین دین کرنا چاہیے نہ اس سے قرضہ ہی لینا چاہیے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 286/19]