مریض کا روزہ
سوال : روزے دار مریض کے لیے شریعت میں کیا حکم ہے؟ کیا روزہ توڑنا اس کے لیے جائز ہے؟ اور مرض کی وجہ سے روزہ ترک کرنا کب واجب ہوتا ہے؟
جواب : روزے دار کے لیے اس کے مرض کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے، یعنی بعض حالات میں اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہوتا ہے اور کبھی ناجائز، اسی طرح کبھی اس کے لیے روزہ چھوڑنا واجب ہوتا ہے اور کبھی افضل۔ یہ مریض اور بیماری کے حساب سے حکم لگایا جاتا ہے۔
شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بعض امراض سے روزہ متاثر نہیں ہوتا، مثلاً زکام یا ہلکا سر درد یا دانت کا درد اور اس جیسے دیگر امراض، ان امراض سے روزہ ترک کرنا حلال نہیں۔ اگرچہ بعض علماء اس آیتِ کریمہ : «وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا» کو سامنے رکھتے ہوئے ترکِ روزہ کو درست قرار دیتے ہیں، لیکن ہم کہتے ہیں بےشک یہ حکم معلل بعلۃ ہے، وہ یہ ہے کہ اگر روزہ ترک کرنے میں اس کے لیے آسانی ہو تو ہم کہیں گے کہ روزہ ترک کرنا افضل ہے اور اگر روزہ رکھنے سے اس کا مرض متاثر نہیں ہو گا تو اس پر روزہ رکھنا واجب ہے اور روزہ چھوڑنا جائز نہیں۔
دوسری حالت یہ ہے کہ جب روزہ اس پر شاق ہو مگر اسے تکلیف نہ پہنچائے تو روزہ رکھنا یا ترک کرنا چاہے تو اس کی مرضی ہے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ جب روزہ اس پر شاق ہو اور اسے ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو، مثلاً مکمل بیمار آدمی یا شوگر کا مریض یا اس جیسے دیگر امراض ہوں تو اس صورت میں روزہ رکھنا حرام ہے۔
یعنی ایسا مرض جو ہلاکت کا سبب بنتا ہو خواہ وہ شوگر کا مرض ہو یا کوئی اور مرض ہو، مگر جب مریض کو اس کی بیماری سے کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو جبکہ اسے کوئی مستند ڈاکٹر روزہ رکھنے کی اجازت بھی دے دے تو اس پر روزہ رکھنا ضروری ہے۔