کافر کی عزت کرنا
سوال: کافر آدمی کی عزت و اکرام کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: اس سے ممانعت آئی ہے ، اس لیے کہ عزت دینا دوستی کا حصہ ہے اور یہ منع ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ﴾ [المائدة: 51]
”تم میں سے جو بھی ان سے دوستی کرے تو بے شک وہ بھی پھر انہی میں سے ہے ۔“
اور امام احمد رحمہ اللہ نے حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میرے پاس ایک عیسائی کلرک (دفتری کام نمٹانے والا) ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ اللہ تیرا ستیاناس کرے کیا تم نے اللہ جلّ جلالہ کا یہ فرمان نہیں سنا؟ :
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ﴾ [المائدة: 51]
”اے ایمان والو ! تم یہود و نصاری کو دوست نہ بناؤ ۔“
میں نے کہا: میں تو خدمت کا روادار ہوں اور اس کے لیے اس کا اپنا دین ہے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں ان کی عزت نہیں کرتا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ذلیل و خوار کیا ہے ، اور نہ میں ان کی تعظیم کرتا ہوں ، اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انہیں رسوا کیا ہے اور نہ میں انہیں قریب کرتا ہوں جب کہ اللہ نے انہیں دور کیا ہے ۔ اسی بات کو امام بیہقی نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے ڈانٹا اور میری ران پر مارتے ہوئے کہا: ”کیا تم کو کوئی مسلمان نہیں ملا جو لکھنے کی ذمہ داری ادا کرے؟ جب اللہ نے انہیں خائن کہا ہے تو تم بھی انہیں ایمان دار نہ سمجھو ۔ ۔ ۔ الخ“
اور امام احمد کی روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”تم یہود و نصاری کو ملازم نہ رکھو اس لیے کہ یہ لوگ رشوت کو حلال سمجھتے ہیں ۔“
اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ”اقتضاء الصراط المستقیم“ میں فرمایا کہ دوستی عزت و امانت کا مقام ہے ، اور کافر ذلت اور خیانت کے مستحق ہیں اور اللہ عزوجل نے مسلمانوں کو اُن سے بے نیاز کر رکھا ہے سو ان کو ایسی ذمہ داری پر رکھنا جائز نہیں جس کی وجہ سے ان کو مسلمانوں پر بلند درجہ حاصل ہوتا ہو ۔
اور آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تبدءوا اليهود والنصارى بالسلام وإذا لقيتم أحدهم فى طريق فاضطروهم إلى أضيقه [صحيح مسلم ، كتاب السلام باب 4 ح 2167 ، مسند احمد 346/2]
”تم یہود و نصاری کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو اور جب تم ان سے کسی راستہ پر ملو تو انہیں تنگ راستہ پر چلنے پر مجبور کرو ۔“
اور مزید ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
الإسلام يعلوا ولا يعلى عليه [السنن الكبرى للبيهقى 205/6 وسنن الدارقطني 252/3 علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ الارواء 106/5 ح 1368]
”اسلام بلند ہوتا ہے اور اس پر کسی چیز کو بلند نہیں کیا جا سکتا ۔“
ایک مرتبہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک یہ تحریر بھیجی کہ شام میں ایک نصرانی کاتب (کلرک) ہے اور شام کا خراج صرف اسی کے ذریعے وصول ہوتا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب لکھا کہ ”نصرانی مرجائے“ والسلام ۔ یعنی اسے موت نصیب ہو ۔
اور ابن القاسم نے امام مالک رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: نصرانی کو کاتب نہ رکھو اس لیے کہ کاتب (کلرک) کی حیثیت مشیر کی ہوتی ہے اور مسلمانوں کے امور و معاملات میں نصرانی سے مشورہ نہیں لیا جا سکتا ۔
اور ابن عبد البر رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ ایک فقیہہ خلیفۃ المسلمین مامون کے پاس تشریف لے گئے تو دیکھا کہ ان کے پاس ایک یہودی کاتب (کلرک ، منشی) ہے ، جو ان کا مقرب اور محبوب نظر بنا ہوا ہے ، فقیہہ نے مامون کے سامنے یہ شعر پڑھا:
إن الذى شرفت من أجله
يزعم هذا انه كاذب
”اے مامون ! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے تمہیں یہ عزت و شرف حاصل ہوا ہے ، اور اس نبی معصوم کے بارے میں اس یہودی کا عقیدہ ہے کہ وہ جھوٹا ہے ۔“
یہ شعر سنتے ہی خلیفۃ المسلمین مامون نادم و شرمندہ ہوا اور فوراً یہودی کو ٹانگوں سے پکڑ کر چہرے کے بل گھسیٹتے ہوئے نکالنے کا حکم دیا ، اور سرکاری حکم جاری کر دیا کہ آج کے بعد کسی کافر سے کسی سرکاری کام میں مدد نہیں لی جائے گی ۔
فقہاء نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ مجلسوں میں غیر مسلموں کو صدر بنانا یا ان کی عظمت کے لیے کھڑا ہونا جائز نہیں ، بلکہ جزیہ وصول کرتے وقت ان سے سخت معاملہ کیا جائے گا اور انہیں دیر تک کھڑا رکھا جائے گا ، نیز ان کے ہاتھوں کو کھینچا جائے گا ۔ واللہ اعلم !