مشرکانہ عقیدہ کے حامل امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

مشرک امام کے پیچھے نماز
سوال : کیا مشرکانہ عقیدہ کے حامل امام کے پیچھے نماز ادا کرنا صحیح و جائز ہے؟
جواب : قرآن مجید اور صحیح احادیث سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر، مشکل کشا اور نفع نقصان کا مالک سمجھنا، شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کو غوثِ اعظم کہنا اور علی ہجویری کو داتا ماننا شرک ہے اور ان امور پر اعتقاد رکھنے والا بلاشبہ مشرک ہے۔ کیونکہ کسی کو نفع و نقصان سے دو چار کرنا یا کسی کی پریشانی دور کرنا، فریاد رسی کرنا اور اولاد دینا یہ تمام صفات اللہ تبارک وتعالیٰ کی ہیں، جو اس نے کسی اور کو عطا نہیں کیں، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب سید الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی فرمایا :
﴿قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ﴾ [ الأعراف : 188]
”اے نبی ! آپ کہہ دیں کہ میں اپنی جان کے لیے بھی نفع ونقصان کا مالک نہیں مگر جو اللہ چاہے۔ “
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا :
﴿قُلْ إِنَّمَا أَدْعُوْا رَبِّيْ وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا o قُلْ إِنِّيْ لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا﴾ [ الجن : 20، 21]
”کہہ دیجیے ! میں تو صرف اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔ کہہ دیجیے ! میں تمہارے لیے نقصان اور ہدایت کا مالک نہیں ہوں۔ “
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اس کے غیر میں نہیں پائی جاتیں۔ وہ اپنی ذات وصفات میں یکتا اور وحدہ لا شریک لہ ہے اور جو لوگ اللہ خالق کی صفات اس کی مخلوق میں مانتے ہیں وہ اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں اور مشرک آدمی کے
اعمال تباہ و برباد ہو جاتے ہیں، وہ اللہ کے ہاں قابلِ قبول نہیں ہوتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :
﴿وَلَوْ أَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾ [الانعام : 88]
”اور اگر یہ لوگ بھی شرک کرتے تو ان کے اعمال بھی ضائع ہو جاتے۔ “
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا :
﴿وَلَقَدْ أُوْحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ﴾ [ الزمر : 65]
”اور تحقیق وحی کی گئی آپ کی طرف اور ان لوگوں کی طرف جو آپ سے پہلے تھے، اگر تو نے شرک کیا تو تیرے عمل ضائع ہو جائیں گے اور البتہ تو خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائے گا۔ “
ان آیات سے واضح ہو گیا کہ مشرک آدمی کے اعمال اللہ کے ہاں قابلِ قبول نہیں۔ خواہ وہ نماز ہو یا روزہ، حج ہو یا زکوٰۃ۔ غرض کسی قسم کا عمل بھی مشرک کا قبول نہیں بلکہ وہ سارے اعمال اکارت اور ضائع ہوں گے۔ تو جب امام مشرک ہو گا اور اس کا اپنا عمل اللہ کے ہاں مقبول نہیں تو اس کی اقتدا میں ادا کی جانے والی نماز کیسے قبول ہو گی ؟ امام کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحیح العقیدہ ہو۔ جس شخص کا عقیدہ صحیح نہیں وہ امامت کے لائق کیسے ہو سکتا ہے ؟

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: