(1) نہانے دھونے ، صفائی ستھرائی ، ذکر و عبادت اور معاشرتی میل ملاپ کے لئے جمعہ کے روز مسلمانوں کی ہفتہ وار چھٹی ہونی چاہئے
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسی دن کا انتخاب مسلمانوں کے لئے فرمایا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
نحن الآخرون ونحن السابقون يوم القيامة ، بيد أن كل أمة أوتيت الكتاب من قبلنا وأوتيناه من بعدهم ، ثم هذا اليوم الذى كتبه الله علينا ، هدانا الله له ، فالناس لنا فيه تبع اليهود غدا والنصارى بعد غد» [صحيح مسلم كتاب الجُمُعَة باب هداية هذه الامة ليوم الجمعة ح 855]
”ہم سب سے آخری امت ہیں البتہ قیامت کے روز سب سے پہلے ہوں گے ۔ یہ اور بات ہے کہ تمام امتوں کو ہم سے پہلے کتاب دی گئی ہے اور ہمیں ان کے بعد ملی ہے ۔ پھر یہ دن (جمعہ کا دن) تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہی لئے لکھ رکھا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کی توفیق بخشی ۔ اس معاملے میں دوسرے لوگ ہمارے پیچھے پیچھے ہیں ۔ یہودیوں کی کل باری ہے اور عیسائیوں کی پرسوں ۔“
(2) ہر عاقل ، بالغ ، آزاد ، مقیم اور تندرست مرد پر جمعہ پڑھنا فرض ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
الجمعة على من سمع النداء» [سنن ابي داؤد كتاب الصلاة باب من تحب عليه الجُمُعَة ح 1052 و سنن الدار قطنى 2/6 كتاب الجُمُعَة باب الجُمُعَة على من سمع النداء ح 3 علامه الالباني نے حديث كو حسن قرار ديا هے ملاحظه ہو صحيح الجامع ح 3112]
”جس کسی نے آذان سنی اُس پر جمعہ لازم ہے ۔ “
دوسری حدیث میں فرمایا:
على كل محتلم رواح الجمعة وعلى من راح إلى الجمعة الغسل» [سنن ابي داؤد كتاب الطهاره ، باب فى الغسل يوم الجُمُعَة ح 342]
علامہ البانی نے حدیث کو صحیح تسلیم کیا ہے ۔
”ہر بالغ کے لئے جمعہ پر جانا ضروری ہے اور جو جمعہ پر جائے وہ غسل کرے ۔“
ایک دوسری حدیث میں یہ حکم اور بھی زیادہ واضح لفظوں میں ارشاد فرمایا:
رواح الجمعة واجب على كل محتلم» [سنن النسائى كتاب الجُمعة باب التشديد فى التخلف عن الجُمُعَة ح 1370]
علامہ ناصر الدین الالبانی نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔ [صحيح الجامع ح 3251]
”ہر بالغ پر جمعہ کے لئے جانا واجب ہے ۔“
(3) البتہ بعض حضرات کو اس حکم سے معافی دی گئی ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا:
الجمعة حق واجب على كل مسلم فى جماعة ، إلا أربعة: مملوك و امرأة و صبي و مريض» [سنن ابي داود كتاب الصلاة باب الجُمُعة للمملوك والمرءة ح 1067 المستدرك 288/1]
علامہ الالبانی کے علاوہ امام حاکم رحمہ اللہ اور امام الذہبی نے بھی حدیث کو صحیح کہا ہے ۔
”ہر مسلمان پر واجب ہے کہ باجماعت جمعہ ادا کرے ، البتہ چار قسم کے آدمیوں پر ضروری نہیں: غلام عورت بچہ اور بیمار آدمی ۔“
اس حدیث کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہر وہ شخص جو مجبور ہو یا کسی ضروری اور لازمی ڈیوٹی پر ہو اس پر جمعہ فرض نہیں ۔ مذکورہ بالا حدیث اور دیگر دلائل شریعت کی روشنی میں اہل علم نے مندرجہ ذیل افراد کو جمعہ کی فرضیت سے مستثنیٰ قرار دیا ہے:
◈ غلام اور قیدی: الا یہ کہ مالک یا انتظامیہ جیل اس کا اہتمام کرے ۔
◈ عورت: اگر وہ جمعہ پڑھ لے تو جائز ہے بلکہ افضل ہے ، نہ آئے تو گناہ نہیں ۔
◈ بچہ: جس کی عمر سات سال سے کم ہو اُس پر معمول کی نمازیں بھی فرض نہیں ۔
◈ مریض: اگر خود سے آنا ممکن ہو تو آجائے یا کوئی لے آئے ورنہ فرض نہیں ہے ۔
◈ جس آدمی کو پیشاب یا پاخانے کی حاجت نے تنگ کر رکھا ہو اس کو پہلے ضرورت پوری کرنی چاہئے ، اُس کے بعد جمعہ مل جائے تو بہتر ورنہ گناہ نہیں ۔
◈ جس آدمی کو بھوک نے پریشان کر رکھا ہو اور کھانا موجود ہو اور وہ فائدہ بھی اٹھا سکتا ہو وہ پہلے کھانا کھالے اس کے بعد جمعہ مل جائے تو فبھا ورنہ معذور ہے ۔
◈ جس آدمی کو جمعہ پر جانے کی صورت میں جانی نقصان یا ساتھیوں کے بچھڑنے یا کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ ہو ۔
◈ کسی قریبی رشتہ دار یا دوست کی موت کا وقت قریب ہو اور وہ اُس کے پاس ہو ۔
◈ اُسے اپنی جان کے لئے کسی خطرے کا اندیشہ ہو ، مثلاًً ڈاکو درندہ یا پولیس وغیرہ ۔
◈ کسی ظالم حکمران کے ظلم سے بچنے کے لئے نماز جمعہ پر نہ جائے تو بھی گناہ نہیں ۔
◈ کوئی قرض خواہ اُس کی تلاش میں ہو اور اُس کے پاس ادائیگی کی کوئی گنجائش نہ ہو اور یہ بھی خطرہ ہو کہ قرض خواہ اُس کے ساتھ بد تمیزی کرے گا یا اسے نقصان پہنچائے گا ۔
◈ شدید نیند کا غلبہ خواہ یہ غلبہ نیند تھکاوٹ کی وجہ سے ہو یا بیماری کی وجہ سے یا لمبے سفر کی وجہ سے ۔
◈ بارش یا کیچڑ کی وجہ سے گھر سے نکلنا دشوار ہو رہا ہو ۔
◈ شدید ٹھنڈی ہوا چل رہی ہو جو تکلیف دہ بھی ہو اور نقصان دہ بھی ۔
ان لوگوں کو معافی دینے کی ایک وجہ اصولِ فقہ کا ایک قاعدہ ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ:
جس حکم کو ادا کرنے میں مشقت ہو اُس حکم میں آسانی کی راہ نکالنی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُم» [التغابن: 16]
”پس جہاں تک تمہارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو ۔“
دوسری جگہ فرمایا:
لا يكلف الله نفسا إلا وسعها» [البقره: 282]
”اللہ تعالیٰ کسی جان پر اُس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا ۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
إذا أمرتكم بأمر فأتوا منه ما استطعتم» [صحيح البخارى كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة باب الاقتداء بسنن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ، صحيح مسلم كتاب الحج باب فرض الحج مرة فى العمر ح 1327]
”جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو جس قدر تمہارے لئے ممکن ہو اتنا کر لو ۔“
(4) جمعہ کے روز اگر شدید بارش ہو یا کیچڑ وغیرہ کی وجہ سے مسجد تک پہنچنا دشوار ہو تو گھروں میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے
اور آذان میں
حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» کی بجائے صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ» پکارا جائے گا ۔
”حضرت ابو الملیح اپنے والد کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ وہ سفر حدیبیہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ جمعہ کے روز بارش ہو گئی (جو اتنی کم تھی) کہ لوگوں کے جوتوں کے تلوے بھی نہیں بھیگے ۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ اپنے اپنے پڑاؤ پر نماز پڑھ لو ۔“ [سنن ابي داؤد كتاب الصلاة باب الجُمُعَة فى اليوم المطير ح 1059 حسن ہے ۔ ]
”ایک دوسری روایت اس معنی کی تائید کرتی ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن الحارث بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس اللہ رضی اللہ عنہما نے بارش کے دن مؤزن سے کہا: جب تم أَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ» کہ چکو تو حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» مت کہنا بلکہ صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ» کہنا ، چنانچہ عام لوگوں نے اس کا برا منایا ۔ تب حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نےفرمایا: مجھ سے بہتر نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم) اسی طرح کیا تھا ۔ یقیناًً جمعہ پڑھنا ضروری ہے لیکن مجھے یہ بھی پسند نہیں ہے کہ میں تم کو گھروں سے نکالوں ، پھر تم کیچڑ اور بارش میں چل کر آؤ ۔“ [صحيح البخارى كتاب الجُمُعَة باب الرخصة ان لم يحضر الجُمُعَة فى مطرح 859]
(5) اگر جمعہ کے دن عید بھی ہو تو عید پڑھنے کے بعد جمعہ اختیاری ہو جاتا ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اجتمع عيدان فى يومكم هذا ، فمن شاء أجزاه من الجمعة ، وإنا مجمعون إن شاء الله» [سنن ابن ماجه كتاب اقامة الصلاة باب ماجاء فيها اذا اجتمع العيدان فى يوم ح 1311] حدیث صحیح ہے ۔ اسی معنى کی ایک دوسری حدیث حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بیان کی ہے ، بحوالہ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ ح 1070
”آج کے دن میں تمہاری دو عیدیں اکٹھی ہوگئی ہیں ، اگر کوئی چاہے تو نماز عید اُسے نماز جمعہ سے کفایت کر جائے گی ، البتہ ہم ان شاء اللہ ضرور جمعہ ادا کریں گے ۔“
ایک دوسری روایت بھی اسی مفہوم کی تائید کرتی ہے ۔ حضرت عطاء بن ابی رباح بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے روز ابتداء وقت میں ہمیں عید پڑھائی ، پھر ہم جمعہ ادا کرنے مسجد پہنچے تو وہ تشریف نہ لائے ، ہم نے ان کے بغیر ہی نماز ادا کی ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اُس وقت طائف میں تھے جب آپ تشریف لائے اور ہم نے سارا واقعہ انہیں کہہ سنایا تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ”انہوں نے سنت پر عمل کیا ہے ۔ “ [سنن ابي داؤد كتاب الصلاة باب اذا وافق يوم الجُمُعَة يوم عيد ح 1071 اور یہ روایت صحیح ہے ۔ ]
(6) نماز جمعہ کا وقت ظہر کی نماز والا ہے البتہ بالکل ابتدائی وقت میں پڑھا جائے گا اور اگر خطبہ زوال شمس سے پہلے بھی ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ۔
حضرت سلمۃ بن الاکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
كنا نصلي مع رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم الجمعة ثم ننصرف وليس للحيطان ظل نستظل فيه» [صحيح البخاري كتاب المغازي باب غزوة الحديبية ح 3935]
”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جمعہ ادا کرتے تھے ، پھر واپسی میں دیواروں کا سایہ اتنا بھی نہیں ہوتا تھا جس کے سائے سے ہم کوئی فائدہ اٹھا سکیں ۔ “
دوسری روایت میں ہے:
كنا نجمع معه صلى الله عليه وسلم إذا زالت الشمس ثم نرجع نتتبع الفيء»
[صحيح مسلم كتاب الجُمُعَة باب صلاة الجُمُعَة حين تزول الشمس ح 860]
”سورج ڈھل جانے کے بعد ہم آپ کے ساتھ جمعہ ادا کرتے تھے ، جب ہم واپس پلٹتے تو سائے کی تلاش میں رہتے ۔“
ایک اور روایت وضاحت کرتی ہے کہ نماز جمعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بالکل ابتدائی وقت میں ادا ہوتی تھی ۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
ما كنا نقيل ولا نتغدى إلا بعد الجمعة» [صحيح البخارى كتاب الجُمُعَة ح 897 و صحيح مسلم كتاب الجمعة ح 859]
”ہم نماز جمعہ کے بعد ہی غدا (دوپہر کا کھانا) کرتے تھے اور اس کے بعد ہی دوپہر کا آرام کرتے تھے ۔ “
واضح رہے کہ عربوں میں ناشتہ کا کوئی رواج نہ تھا بلکہ دس گیارہ بجے کے قریب جو کھانا کھاتے تھے اس کو غدا کہتے تھے البتہ جمعہ کے روز اسی کھانے کو نماز کے بعد تک کے لئے اٹھا رکھتے تھے ، اس لئے جمعہ باہتمام جلد پڑھا دیا جاتا تھا تاکہ لوگ غدا کر کے آرام کر سکیں ۔
(7) نماز جمعہ دو رکعت ہے اور یہ ہمیشہ باجماعت ہی ادا کیا جاتا ہے ، البتہ اگر کسی کو امام کے ساتھ ایک رکعت مل جائے تو وہ دوسری رکعت ملا کر اپنی نماز پوری کر لے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أدرك ركعة من الجمعة أو غيرها فليضف إليها الأخرى ، فقد تمت صلاته» [سنن النسائى كتاب المواقيت باب من ادرك ركعة من الصلاة ح 274 اور ح 275 و سنن ابن ماجة كتاب اقامة الصلاة باب ما جاء فيمن ادرك من الجُمُعَة ركعة ج 1123 و سنن الدارقطني412/1]
”جس کو جمعہ یا دوسری نمازوں کی ایک رکعت مل گئی وہ اُس کے ساتھ دوسری رکعت ملا لے اور اس کی نماز پوری ہوگئی ۔“
یہی بات اُمت میں بطور معمول چلی آرہی ہے اور اکثر و بیشتر فقہاء و علماء کا یہی فتوٰی ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ خطبہ جمعہ شرط نہیں ہے ، اگرچہ اس کے فضائل بہت زیادہ ہیں ۔
(8) بستی ہو یا شہر ہر جگہ جمعہ جائز ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
إن أول جمعة جمعت بعد جمعة فى مسجد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فى مسجد عبد القيس بجواثى من البحرين» [صحيح البخارى كتاب الجُمُعَة باب الجُمُعَة فى القرى والمدن ح 853 و سنن ابي داؤد كتاب الصلاة باب الجُمُعَة فى القرى ح 1068]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد سب سے پہلے عبد القیس کی مسجد میں جمعہ ادا کیا گیا اور یہ مسجد بحرین میں جواثا کے مقام پر تھی ۔ “
واضح رہے کہ قدیم زمانے میں سعودی عرب کے مشرقی صوبے کا نام بحرین تھا اور یہ علاقہ اُس وقت موجودہ سعودی عرب میں شامل تھا ۔ جس جگہ کو جواثا کہا جاتا تھا آب اسے ”الهفوف“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، وہ مسجد اپنے تاریخی مقام پر ہی واقع ہے ۔ قریب دن میں اُس کی تجدید کی گئی ہے ۔ مسجد قبا اور مسجد نبوی کے بعد اسلام میں یہ تیسری تاریخی مسجد ہے ۔
مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں اہل علم کی ایک بڑی تعداد کی رائے ہے کہ نماز جمعہ میں نمازیوں کی تعداد شرط نہیں بلکہ جہاں جتنے نمازی جمع ہو جائیں وہ جمعہ ادا کر سکتے ہیں ۔ چونکہ اس مسئلے میں اختلاف ہے لہٰذا وسعت کی گنجائش موجود ہے ۔
(9) جمعہ کا وقت داخل ہونے سے قبل اضافی اذان کسی وقت اور کہیں بھی دی جا سکتی ہے ۔ دوسرے معنی میں وہ تیاری نماز کا اعلان ہے ۔
حضرت السائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
إن الأذان يوم الجمعة كان أوله حين يجلس الإمام يوم الجمعة على المنبر فى عهد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ، وأبي بكر وعمر ، رضي الله عنهما ، فلما كان فى خلافة عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ وكثروا أمر عثمان يوم الجمعة بالأذان الثالث ، فأذن به على الزوراء . فثبت الأمر على ذلك» [صحيح البخارى كتاب الجُمُعَة باب التاذين عند الخطبة ح 874]
”حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جمعہ کے روز پہلی اذان اُس وقت ہوتی تھی جب امام خطبہ جمعہ کے لئے منبر پر بیٹھ جاتا تھا ۔ پھر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ خلافت آیا اور لوگوں کی تعداد بڑھ گئی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے روز تیسری اذان کا حکم دیا ۔ چنانچہ (بازارِ مدینہ میں) الزوراء والے گھر پر آذان دی جانے لگی اور پھر یونہی سلسلہ چلتا رہا ۔ “
نوٹ: جمعہ کا وقت داخل ہونے سے پہلے دی جانے والی آذان کو تیسری اذان اس اعتبار سے قرار دیا گیا کہ امام کے منبر پر بیٹھنے کے بعد جو اذان دی جاتی ہے وہ پہلی کہلاتی ہے اور اقامت کو مجازاً دوسری اذان کہا جاتا ہے اور سب سے پہلی اذان کو تیسری اذان کہا گیا ہے ۔
(10) نمازی کو اگر بیٹھے بیٹھے نیند آنے لگے تو جگہ بدل لے ۔
اس طرح نیند ٹل جائے گی اور وہ اپنے وقت سے صحیح فائدہ اٹھا سکے گا ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إذا نعس أحدكم يوم الجمعة فليتحول من مجلسه ذلك قال أبو عيسى هذا حديث حسن صحيح» [سنن الترمذي ابواب الصلاة باب فيمن نعس يوم الجُمُعَة انه يتحول من مجلسه ح 526] امام ترمذی رحمہ اللہ نے حدیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے ۔ و سنن ابی داود کتاب الصلاۃ باب الرجل ینعس والامام یخطب ح 1119
”جب تم میں سے کسی کو جمعہ کے دن اُونگھ آئے تو وہ اپنی جگہ بدل لے ۔“
(11) اسی طرح اگر نمازی کو بیٹھے بیٹھے دھوپ آن پہنچے وہ جگہ بدل لینی چاہئے اور چھاؤں میں چلے جانا چاہئے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إذا كان أحدكم فى الشمس فقلص عنه الظل وصار بعضه فى الشمس وبعضه فى الظل فليقم» [سنن ابي داود كتاب الادب باب فى الجلوس بين الظل والشمس ح 4821]
علامہ الالبانی نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔
”جب تم میں سے کسی کو دھوپ آ جائے یعنی سایہ سکڑنے کی وجہ سے اُس کا کچھ حصہ دھوپ میں اور کچھ حصہ چھاؤں میں ہو تو اسے وہاں سے اُٹھ جانا چاہئے ۔“
دوسری روایت میں حکم یوں ہے کہ حضرت قیس کے والد بیان کرتے ہیں کہ: ”میں آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اور دھوپ میں کھڑا ہو گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے حکم دیا تو چھاؤں میں چلا گیا ۔“
(12) جمعہ کے روز سفر کرنے میں کوئی حرج نہیں
بالخصوص جبکہ اجتماعی وسائل سفر انسان کے اختیار میں نہیں ہوتے ، مثلاًً ہوائی جہاز’ ریل بس وغیرہ کا سفر ۔ ہاں اگر انفرادی سفر ہے یعنی سواری کا اپنا انتظام ہے تو کوشش کریں کہ جمعہ نہ رہ جائے لیکن حسب ضرورت یا حالات سفر کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ حضرت الحکم بن مقسم حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ:
بعث رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم عبد الله بن رواحة فى سرية ، فوافق ذلك يوم الجمعة ، قال: فتقدم أصحابه وقال: أتخلف فأصلي مع النبى صلی اللہ علیہ وسلم الجمعة ثم الحقهم ، قال فلما صلى رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم رآه ، قال: ما منعك أن تعدو مع أصحابك؟ قال فقال: أردت أن أصلي معك الجمعة ثم ألحقهم ، قال فقال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: لو أنفقت ما فى الأرض ما أدركت غدوتهم» [مسند احمد224/1 علامه احمد شاكر نے حديث كو صحيح قرار ديا هے ۔ ملاحظه هو ح 1962 شرح احمد شاكر و سنن التر مذى ابواب الصلاة باب ما جاء فى السفر يوم الجمعة ح 527]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو ایک مہم پر روانہ کیا ۔ روانگی لشکر کا دن جمعہ تھا ، اُن کے ساتھی آگے نکل گئے ۔ حضرت عبد اللہ بیان کرتے ہیں: میں نے سوچا کہ میں رہ جاتا ہوں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد ساتھیوں سے جاملوں گا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی تو انہیں نماز میں دیکھا تو پوچھا: ”تم صبح اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کیوں نہیں نکلے؟ “ حضرت عبد اللہ نے عرض کیا: ”میرا ارادہ تھا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز جمعہ ادا کروں گا پھر اپنے ساتھیوں سے جاملوں گا ۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زمین میں جو کچھ بھی مال و متاع ہے اگر تم یہ سب اللہ کی راہ میں خرچ کر دو تب بھی تم اپنے ساتھیوں کے مقام و مرتبے کو نہیں پہنچ سکتے ۔ “
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اُس نے سفر کی تیاری کر رکھی ہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ اگر آج جمعہ نہ ہونا تو میں سفر کے لئے نکل جاتا ۔ حضرت عمر بن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”تم سفر پر نکل جاؤ جمعہ کسی کو سفر سے نہیں روکتا ۔“ [السنن الكبرى للبيهقى 187/3 كتاب الجُمُعَة باب من قال لا تحبس الجُمُعَة عن سفر]
بعض روایات میں آیا ہے کہ جو آدمی جمعہ کے روز سفر کرے اُس پر اللہ کے فرشتے لعنت کرتے ہیں یا اُس کو بد دعائیں دیتے ہیں ۔ اس طرح کی تمام روایات ضعیف اور کمزور ہیں جن پر اعتماد کرنا صحیح نہیں ۔ مزید تفصیل درکار ہو تو ملاحظہ فرمائیں نیل الاوطار ج 2 ص 272 تا 273 طبع دار زمزم ۔ الریاض ۔
جمعہ کے روز غسل کرنا ضروری اور افضل ہے اور اگر جسم سے بدبو اُٹھ رہی ہو تو واجب اور فرض کے درجے میں ہے ۔ ہاں ! البتہ عام حالات میں اگر وضو کر لیا جائے تو بھی کام چل سکتا ہے ۔ غسل کرنا پھر بھی افضل ہے ۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من توضأ يوم الجمعة فيها ونعمت ، ومن اغتسل فالغسل أفضل» [سنن ابي داود كتاب الطهارة باب فى الرخصة فى ترك الغسل يوم الجُمُعَة ح 354]
علامہ الالبانی نے حدیث کو حسن کہا ہے ۔
”جس نے جمعہ کے روز وضو کیا وہ بھی صحیح ہے اور اچھا ہے اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل ہے ۔ “
اس معنی کی ایک حدیث حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے حوالے سے سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ باب نمبر 81 میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے ۔ چنانچہ انتہائی کوشش کرنی چاہئے کہ آدمی غسل کر کے ہی جمعہ ادا کرنے جائے البتہ کسی ضرورت یا مجبوری کے تحت وضو پر بھی اکتفا کیا جا سکتا ہے ۔