بدعت کا لغوی معنی
بدعت کا اصل اشتقاق عربی زبان میں ابدع ، تبدع ، بديع ، مبدع ومبتدع سے ہے جس کے لغت میں دو معانی ہیں۔
➊ بلا سابق مثال کے کسی چیز کو بنانا اور ایجاد کرنا اور اسی معنی میں آیت کریمہ ہے:
بديع السموات والارض
یعنی ”اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کو بلاکسی سابق مثال کے پیدا کرنے والا ہے۔ “ [البقره: 117]
دوسری آیت میں ہے:
قل ماكنت بدعا من الرسل
”کہہ دیجئے کہ میں کوئی نیا رسول نہیں ہوں۔ “ [احقاف: 91]
اور اسی سے ہے:
و رهبانية ابتدعوها ما كتبناها عليهم
”اور یعنی رہبانیت جس کو ان لوگوں نے بلا کسی سابق مثال کے ایجاد کر لیا ہے ہم نے ان کے اوپر اسے متعین نہیں کیا ہے۔“ [الحديد: 271]
➋ تھکاوٹ اور اکتاہٹ: عربی میں کہا جا تا ہے کہ ابدعت الراحلة یعنی اونٹنی تھکاوٹ اکتاہٹ کی وجہ سے بیٹھ گئی پہلے نہیں بیٹھتی تھی۔ [لسان العرب: 351/9، مقاييس اللغة: 209/1]
بدعت کا اصطلاحی معنی
علماء نے بدعت کی مختلف تعریفات کی ہیں جن میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ، علامہ سیوطی اور علامہ شاطبی اور دیگر کئی علماء وفقہاء ہیں مگر ان میں سب سے زیادہ جامع تعریف علامہ شاطبی رحمہ اللہ کی ہے آپ لکھتے ہیں:
البدعة اذن طريقة فى الدين مخترعة تضاهي الشريعة يقصد بالسلوك عليها المبالغة فى التعبد لله سبحانه
”بدعت ایک ایسا راستہ ہے جسے دین میں ایجاد کر لیا گیا ہو اور شریعت کے مخالف ہو اور اس پر چلنے کا مقصد زیادہ عبارت ہو۔“ [الاعتصام للشاطبي 36/1-37]
بدعت کی شرعی حیثیت
قرآن و حدیث اور اقوال صحابہ وائمہ کی روشنی میں بدعت ایجاد کرنا اس پر عمل کرنا اور اسے ترویج دینا حرام ہے۔ شریعت اسلامیہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حکم دیا ہے اور ابتداع سے منع فرمایا ہے جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
➊ رہبانیت ایک ایسی بدعت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا ہے
رهبانية ابتدعوها ما كتبناها عليهم
”اور رہبانیت یعنی جوگ جسے ان لوگوں نے ایجاد کر لیا ہے ہم نے ان پر فرض نہیں کیا تھا۔“
➋ بدعت سے بچنا ضروری ہے کیونکہ گمراہی اور ضلالت کا راستہ ہے
حدیث عرباض بن ساریہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
واياكم ومحدثات الأمور فان كل محدثة بدعة
”اور تم نئی ایجاد شدہ چیزوں سے بچنا اس لئے کہ ہر ایجاد شدہ چیز بدعت ہے۔“ [ابوداود 4607، ترمذي 2 297]
اور جابر بن عبد اللہ کی روایت میں ہے:
وشر الأمور محدثاتها وكل محدثة بدعة
”اور سب سے بری چیز نئی ایجاد شدہ چیزیں ہیں اور ہر نئی ایجا شدہ چیز (جو دین میں ہو) بدعت ہے۔“ [مسلم: 53/2 انووي]
اور ایک روایت میں ہے:
وكل ضلالة فى النار
اس حدیث میں لفظ كل ہر بدعت کو شامل ہے اس سے بدعت حسنہ مستثنٰی نہیں۔ [النسائي 80/3 بسند صحیح]
علامہ شاطبی لکھتے ہیں کہ لفظ كل علماء کے نزدیک اپنے عموم پر محمول ہے اس سے کوئی چیز مستثنٰی نہیں اور اس میں دراصل کوئی ایسی بدعت نہیں ہے جو حسنہ ہو۔
ہر بدعت اور محدث (نو ایجاد شدہ شئی) مردود ہے کسی بھی حال میں قابل قبول نہیں ہے۔
فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
من أحدث فى أمرنا هذا ماليس منه فهو رد
[مسلم] اور ایک روایت میں:
من صنع أمرا على غير أمرنا فهورد
[ابوداود]
جس نے ہمارے دین میں کچھ ایجاد کیا جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے یا جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے حکم کے خلاف ہے تو وہ قابل رد ہے۔
➍ سنت کی خلاف ورزی اور بدعات پر عمل ہلاکت خیزی کا باعث ہے۔
حدیث رسول ہے:
لكل عمل شرة ولكل شرة فترة فمن كانت فترته الى سنتي فقد اهتدى ومن كانت فترته الى غير ذلك هلك
کہ ہر عمل کے لئے برائی ہے اور ہر برائی کے لئے کچھ وقت ہے تو جس کا وقت سنت کی طرف ہو تو وہ ہدایت یاب ہے اور جس کا اس کے علاوہ ہو تو وہ ہلاک ہے۔ [صحيح الترغيب 52 باسناد حسن، واصله فى مسند احمد 188٫2]
➎ بدعتی آدمی ملعون ہے اور اس کی توبہ قابل قبول نہیں۔
فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
ان الله صحبا التوبة عن كل صاحب بدعة حتى يدع بدعته
کہ اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب بدعت کی توبہ کو قبول کرنے سے روک دیا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی بدعت کو چھوڑ دے۔ [صحيح الترغيب 54]
بدعات کی تردید اور مذمت کے سلسلے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا موقف
یہ بات ہر ذی علم کو معلوم ہے کہ صحابہ کرام نے جس قدر سنت کی اتباع میں اپنی زندگی کے قیمتی اوقات اور متاع عزیز صرف کیا اسی قدر وہ بدعتوں سے حد درجہ دور رہے اور اہل بدعت کے لئے تیغ براں ہے، تاریخ شاہد ہے کہ اس طرح کے بے شمار نمونے اور مثالیں کتب احادیث اور سیرت و تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں جن سے بدعات اور اس کی تباہ کاریوں کے سلسلے میں صحابہ کرام کا حقیقی موقف اور مثالی کردار بالکل واضح ہے۔ ذیل میں ہم حسب استطاعت بعض اجلئہ صحابہ کرام کے اقوال تحریر کر رہے ہیں جن سے بدعات و خرافات اور غیر شرعی اعمال و اطوار کے سلسلے میں ان کے موقف کی ترجمانی ہوتی ہے، ویسے تو اس طرح کے بے شمار اقوال ہیں اگر تحریر کیا جائے تو ایک مستقل دفتر تیار ہو سکتا ہے، مگر مشتے نمونہ از خروارے چند صحابہ کرام کے اقوال زیب قرطاس ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قول:
اتباع سنت لازم ہے اور بدعات کی پیروی کج روی ہے:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہونے کے بعد فرماتے ہیں کہ میں تم میں کا ایک آدمی ہوں میرا خیال ہے کہ شاید تم مجھے اس چیز کا مکلف بنا رہے ہو جس کی طاقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکھتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو آفات و مصائب سے بچائے رکھا اور دنیا والوں کے لئے آپ کومنتخب کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
يا ايها الناس انما انا متبع وسلت بمبتدع فان احسنت فاعينوني وان زغت فقوموني
کہ اے لوگو ! میں سنت کی اتباع کرنے والا ہوں اور بدعتوں کی پیروی کرنے والا نہیں اگر اپنے معاملات میں سنت پر قائم رہوں اور اچھا کروں تو میری مدد کرنا اور اگر میں کج رو ہو جاؤں تو مجھے راہ راست پر لانا۔ [الطبقات الكبريٰ ابن سعد: 183٫3]
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن الخطاب کا قول:
بدعتی اور ھویٰ پرست کی توبہ قابل قبول نہیں اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بری ہیں:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن الخطاب فرماتے ہیں کہ ان لكل صاحب ذنب توبة غير اصحاب الاهواء والبدع ليس لهم توبة أنا برئی منهم وهم مني براء کہ ہر صاحب گناہ کی توبہ قبول ہو گی سوائے بدعتی اور ہویٰ پرست کے ان کی توبہ قابل قبول نہیں میں ان سے بری ہوں اور یہ مجھ سے بری ہیں۔ [السنته لابن ابي عاصم بتخريج الشيخ الباني رقم 22، 38]
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول:
اتباع ضروری ہے اور اتبداع حرام ہے:
عن عثمان الازدي قال: دخلت على ابن عباس فقلت: أوصني فقال: نعم، عليك بتقوى الله والاستقامة اتبع والا تبتدع
کہ عثمان الازدی کہتے ہیں کہ میں ابن عباس کے پاس گیا اور میں نے کہا کہ آپ مجھے کچھ وصیت کیجئیے، تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے تقویٰ اور دین پر استقامت کو لازم پکڑو اور سنت کی اتباع کرو بدعات مت اختیار کرو۔ [سنن الدارمي المقدمه باب من هاب الفتيا 50٫1]
بدعت اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض اور سب سے زیادہ ناپسندیدہ امر ہے:
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
ان ابغض الامور الى الله البدع وان من البدع الاعتكاف فى المساجد التى فى الدور
کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور مبغوض بدعتیں ہیں اور بدعت میں یہ بھی ہے کہ ان مسجدوں میں اعتکاف کیا جائے جو گھروں میں ہیں۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي: 316/3]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول:
دین میں کوئی بدعت حسن نہیں:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
كل بدعة ضلالة وان رآها الناس حسنة
کہ ہر بدعت گمراہی ہے اگرچہ لوگ اس کو اچھا ہی کیوں نہ سمجھیں۔ [شرح اصول اهل السنت والجماعت لكائي 126، المدخل الي السنن للبيهقي 191]
چھینک کے جواب میں الحمد لله یا دیگر اذکار مسنونہ میں درود وغیرہ کا اضافہ بدعت ہے:
نافع بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بغل میں چھینک آنے کے بعد کہا: الحمدلله والسلام على رسول الله حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ نے اس کی چھینک کے، اس دعا میں زیادتی کو بدعت قرار دیتے ہوئے فرمایا: وليس هكذا علمنا رسول الله علمنا ان نقول: الحمدلله على كل حال کہ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نہیں سکھایا بلکہ یہ کہا ہے کہ جب چھینک آئے تو الحمد لله على كل حال کہو۔
[مستدرك الحاكم 265٫4-266 سنن الترمذي: 2738 وقال الشيخ الباني حسن]
بدعتی سے قطع تعلق ضروری ہے:
نافع کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ایک دوست ملک شام سے آپ کے پاس خط و کتابت کرتا تھا، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان کے پاس ایک خط لکھا کہ
انه بلغنی انك تكلمت فى شئی من القدر فاياك ان تكتب الى
[ابوداود 4613]
اور ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ اس آدمی نے آپ کو سلام بھیجا تو آپ نے فرمایا:
بلغني انه قد احدث فلا تقرئه مني السلام فاني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: يكون فى امتي مسخ وخسف وقذف وذلك فى اهل القدر
کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ تم تقدیر کے سلسلے میں کچھ کلام کرتے ہو اس لئے خبردار تم میرے پاس آئندہ خط نہ لکھنا، ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ آپ نے جواب دیا کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ اس نے بدعت اختیار کر لیا ہے، اس لئے اس کا اسلام مجھے مت پہنچاؤ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں چہرہ مسخ کیا جانا، دھنسا دیا جانا اور قذف کا عذاب ہو گا اور یہ تقدیر کے منکر ین میں ہوگا۔ [سنن ابي داود 4613، سنن ابن ماجه، 4041، المشكاة 112، 106]
بالتزام مسجد میں باجماعت صلاۃ الضحٰی (نماز چاشت) پڑھنا بدعت ہے جب کہ اصل نماز سنت ہے۔
امام مجاہد کہتے ہیں کہ میں اور عروۃ بن الزبیر مسجد میں داخل ہوئے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے پاس بیٹھے تھے اور لوگ مسجد میں چاشت کی نماز (صلاة الضحٰي) پڑھ رہے تھے ہم نے آپ سے ان لوگوں کی نماز کے بارے میں پوچھا: تو آپ نے فرمایا کہ بدعة ”یہ تو بدعت ہے۔“
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قال عياض وغيره، انما انكر ابن عمر ملازمتها واظهارها فى المساجد وصلاتها جماعة لا انها اي اصل الصلاة، مخالفة للسنة، ويؤيده مارواه ابن أبى شيبة عن ابن مسعود انه رأى قوما يصلونها فانكر عليهم وقال: ان كان ولا بد ففي بيوتكم
کہ قاضی عیاض کا قول ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مسجد میں بالالترام اور باجماعت لوگوں کو دکھا کر نماز چاشت سے منع فرمایا۔ اس وجہ سے کہ اصل صلاۃ سنت کے مخالف ہے اور اس کی تائید ابن ابی شیبہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کرتی ہے کہ آپ نے کچھ لوگوں کو چاشت کی نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر انکار کیا اور کہا کہ اگر ضروری ہے تو اپنے گھروں میں پڑھو۔
[صحيح البخاري، كتاب العمرة، باب كم اعتمر النبى مع الفتح 1775، 732/3، صحيح مسلم الحج باب عدد عمر النبى 3037]
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول:
➊ اتباع کرو اور ابتداع سے بچو:
قال رضى الله عنه: اتبعوا ولا تبتدعوا فقد كفيتم وكل بدعة ضلالة
اتباع کرو اور بدعت ایجاد کرنے سے بچو کیونکہ اتباع ہی تمہارے لئے کافی ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
[سنن الدارمي 169/1، مجمع الزوائد للهيثمي 181/1، وقال رجاله رجال الصحيح]
➋ بدعت اور نئی ایجاد شدہ چیزوں سے دور رہنے کی تلقین:
قال: تعلموا العلم قبل أن يقبض وقبضه ان يذهب اهله الا واياكم التنطع والتعمق والبدع وعليكم بالعتيق
علم اٹھائے جانے سے پہلے علم حاصل کرو، علم ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ علماء ختم ہو جائیں گے، مبالغہ آرائی اور تکلف و کرید کرنے اور بدعتوں سے بچو اور اپنے لئے عتیق یعنی اصحاب رسول کے سیدھے راستے کو لازم پکڑو۔
[سنن الدارمي 54/1، شرح اصول اعتقاد أهل السنة لالكائي 87/1]
➌ سنت کی پیروی میں میانہ روی بدعات میں جدوجہد سے بہتر ہے۔
قال: ”الاقتصاد فى السنة احسن من الاجتهاد فى البدعة“
سنت میں میانہ روی بدعات میں اجتہاد اور محنت کرنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔
[صحيح الترغيب للالباني 41 وقال صحيح موقوف]
➍ بدعتیوں کی سرزنش کرنا ضروری ہے۔
عمرو بن زرارۃ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ میرے پاس کھڑے ہوئے اور میں قصہ گوئی کر رہا تھا مجھے زور سے ڈانٹ کر کہا:
یا عمر ولقد ابتدعت بدعة ضلالة او انك لاهدي من محمد واصحابه فلقد رأيتهم تفرقوا عني حتى رأيت مكاني مافيه أحد
اے عمرو ! تم نے گمراہی اور بدعت اختیار کر لیا ہے اور یا تو تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے زیادہ ہدایت یاب ہو چنانچہ میں نے دیکھا کہ لوگ یہ سن کر وہاں سے چلے گئے یہاں تک کہ میں نے اپنی اس جگہ کی کو نہیں دیکھا۔
[صحيح الترغيب للالباني 132/1، 60 وقال صحيح لغيره موقوف]
➎ حلقہ بنا کر کنکریوں سے تسبیج پڑھنے والوں کی ضلالت و گمراہی اور بدعت کا بھیانک انجام:
عمرو بن سلمہ الہمدانی روایت کرتے ہیں کہ ہم فجر کی نماز سے پہلے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازے پر جمع ہوتے تھے، جب آپ گھر سے نکلتے تو ہم آپ کے ساتھ مسجد جاتے، ایک دن ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ہم لوگوں کے پاس آئے اور کہا: ابوعبدالرحمن (ابن مسعود) ابھی تک نہیں نکلے۔ ہم نے کہا کہ نہیں، آپ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے اور ان کے نکلنے کا انتظار کرنے لگے جب وہ نکلے تو ہم ان کے پاس جمع ہو گئے، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن میں نے ابھی ابھی مسجد میں ایک عجیب و غریب کام دیکھا ہے اور میں نے خیر ہی دیکھا ہے، آپ نے پوچھا کیا معاملہ ہے؟ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ اگر زندہ بخیر وہاں پہنچ گئے تو خود ہی دیکھ لیں گے، میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو دیکھا جو حلقہ بنا کر بیٹھے نماز کا انتظار کر رہے تھے، ہر حلقہ میں ایک آدمی سردار تھا، بقیہ لوگوں کے ہاتھوں میں کنکریاں ہیں وہ آدمی کہتا ہے۔ سو بار اللہ اکبر کہو تو سب اللہ اکبر کہتے ہیں، پھر کہتا سو بار سبحان اللہ کہو تو سو بار تسبیح کہتے، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم نے ان سے کیا کہا؟ ابوموسیٰ اشعری نے کہا: میں نے آپ کی رائے معلوم کرنے اور آپ کا حکم ملنے سے پہلے ان سے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم نے ان سے یہ کیوں نہیں کہہ دیا کہ وہ اپنی برائیاں شمار کریں۔ میں ضمانت لیتا ہوں کہ اگر وہ ایسا کرتے تو ان کی کوئی نیکی ضائع نہ ہوتی۔ پھر سب لوگ مسجد میں آئے۔ اور آپ (یعنی ابن مسعود رضی اللہ عنہ) ایک حلقہ کے پاس آکر کھڑے ہو گئے اور کہا: تم لوگ یہ کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ کنکریاں ہیں ہم اس کے برابر تکبیر، تہلیل اور تسبیح کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: تم اپنی برائیوں کو شمار کرو اور میں ضامن ہوں کہ تمہاری کوئی نیکی رائیگاں نہ ہو گی، اور اس کے بعد سرزنش کرتے ہوئے کہا:
ويحكم يا امة محمد ما اسرع هلكتكم ! هولاء صحابة نبيكم صلی اللہ علیہ وسلم متوافرون وهذه ثيابه لم تبل و آنيته لم تكسر، والذي نفسي بيده انكم لعلى ملة أهدى من ملة محمد أو مفتتحوا باب الضلالة
کہ اے امت محمدیہ ! افسوس ہے کہ تم کتنے جلدی ہلاکت کی ڈگر پر چل پڑے، یہ دیکھو، اصحاب رسول ابھی زندہ ہیں آپ کے کپڑے ابھی پرانے نہیں ہوئے اور آپ کے برتن ابھی نہیں ٹوٹے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یا تو تم اس راستے پر ہو جو طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہے یا گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو؟ ان لوگوں نے کہا: اے ابو عبدالرحمٰن ! قسم اللہ کی ! اس کام سے ہمارا مقصد نیکی اور خیر کے علاوہ کچھ بھی نہیں، آپ (ابن مسعود) نے کہا: وكم من مريد للخير لن يصبيبه کہ کتنے ایسے لوگ ہیں جو خیر اور نیکی کے متلاشی ہیں لیکن اس کو نہیں پاتے، فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کی کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو قرآن کی تلاوت کریں گے اور وہ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا، اللہ کی قسم ! شاید اس حدیث کے مصداق تم میں سے اکثر لوگ ہیں اور پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وہاں سے چلے گئے، عمرو بن سلمہ کہتے ہیں جنگ نہروان کے موقع پر اس حلقہ کے اکثر لوگوں کو میں نے دیکھا تو خوارج کے ساتھ پایا وہ ہم پر تیر برسا رہے تھے۔ [سنن الدارمي 69 – 68/1 السلسلة الصحيحة للالباني 13012/5]
زیادہ تر فتنے بدعات وخرافات کی وجہ سے واقع ہوتے ہیں سنت رسول میں معمولی تبدیلی فتنہ کا باعث ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تمہاری حالت کیا ہو گی، جب تمہیں ایسا فتنہ گھیرے گا جس میں جوان بوڑھا اور بچہ جوان ہو جائے گا؟ لوگ اسے سنت سمجھیں گے اگر اس میں معمولی تبدیلی ہو گی تو لوگ کہنے لگیں گے کہ سنت میں تبدیلی ہوئی ہے، آپ سے پوچھا گیا کہ اے ابو عبدالرحمٰن ! ایسا کب ہو گا آپ نے فرمایا: جب تم میں قراء کی کثرت اور فقہاء کی قلت ہو گی، امیروں کی کثرت ہو گی اور امانت داروں کی قلت ہو گی آخرت کے عمل کے بدلے دنیا تلاش کیا جائے گا۔ [سنن الدارمي: 14/1]
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کا قول:
➊ بدعتوں کا بکثرت ظہور اور سنتوں پر ان کا غلبہ اس طرح ہو گا کہ لوگ بدعت کو سنت سمجھ لیں گے۔
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے دو پتھروں کو لیا اور دونوں کو ایک دوسرے پر رکھ کر اپنے ساتھیوں سے پوچھا: ان دونوں کے درمیان تمہیں کوئی روشنی نظر آ رہی ہے؟ انہوں نے کہا: اے ابو عبدالرحمٰن ! ان دونوں پتھروں کے درمیان ہلکی سی روشنی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا، آپ نے فرمایا:
”والذي نفسي بيده لتظهرن البدع حتى لايرى من الحق الا قدر مابين هذين الحجرين من النور والله لتفشون البدع حتى اذا ترك منها شئي قالوا تركت السنة“
قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! عنقریب بدعت کا اتنا غلبہ ہوگا کہ حق کی اتنی ہی معمولی روشنی دکھائی دے گی جتنی کہ ان دونوں پتھروں کے درمیان تم دیکھ رہے ہو، قسم ہے اللہ کی ! بدعت کا ایسا چرچا ہو گا کہ اگر کوئی بدعت چھوٹ گئی تو لوگ کہیں گے کہ سنت چھوٹ گئی۔ [الاعتصام الشاطبي: 60/1-80، البدع والنهي عنها: 158]
➋ ہر وہ عبادت بدعت ہے جو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔
حضرت حذیفہ فرماتے ہیں:
كل عبادة لم يتعبدها اصحاب رسول الله فلا تعبدوها
ہر وہ عبادت جسے اصحاب رسول نے نہیں کیا، اس کو نہ کرو، آگے فرمایا: کیونکہ انہوں نے بعد میں آنے والوں کے لئے کچھ باقی نہ چھوڑا، اے طالبان علوم شریعت ! اللہ سے ڈرو اور اسلاف کے نقش قدم پر چلو۔ [الاعتصام للشاطبي386/1، حجة النبى للاالباني: 101]
حضرت معاذ بن جبل رضى الله عنه كا قول:
ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے:
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تمہارے پیچھے ایسے فتنے ہیں جن میں مال کی کثرت ہو گی اور اس میں قرآن پڑھا جائے گا، اسے مومن منافق مرد عورت چھوٹا بڑا آزاد اور غلام ہر کوئی پڑھے اور عنقریب ہی کوئی کہے گا کہ لوگ میری اتباع کیوں نہیں کرتے؟ حالانکہ میں نے قرآن پڑھا ہے:
ماهم بمتبعي حتي ابتدع لهم غيره فاياكم وما ابتدع فان ما ابتدع ضلالة
وہ میری اتباع اس وقت تک کرنے والے نہیں جب تک میں ان کے لئے قرآن کے سوا کوئی نئی چیز لاؤں، خبردار ! تم اس نئی چیز سے اپنے کو پچاؤ کیونکہ وہ نئی چیز جو دین میں ایجاد کی گئی سراسر گمراہی ہے اور سنو میں تمہیں حکیم (عالم) کی کج روی سے ڈراتا ہوں کیونکہ شیطان كبھی کبھار حکیم کی زبان سے گمراہی کے کلمات نکلواتا ہے جب کہ منافق بھی کبھار کلمہ حق کہہ دیتا ہے۔
[سنن ابي داؤد / السنه / باب من دعا الى السنه، قال الشيخ الالباني صحيح الاسناد موقوف، شرح اصول اعتقاد أهل السنه للالكائي: 88/1]
صحابہ کرام کے زریں اقوال کے آئینے میں یہ چند باتیں تھیں جنہیں ہم نے آپ کے خدمت میں تحریر کیا ہے جس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ رد بدعت اور انکار محدث کے بارے میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم بےحد چاک و چوبند تھے۔ اور ان تمام چور دروازوں کو بند کرنے کے لئے کوشاں تھے، جہاں سے بدعت اور اس کی مختلف قسمیں سنت میں داخل ہو کر اس کے حسین چہرہ کو داغدار بنانے کے درپے تھیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے اقوال اور اعمال سے ان کا قلع قمع کیا اور امت مسلمہ کو ان سے ہوشیار رہنے اور بچنے کی تلقین و نصیحت کی، بدعت کا مکمل پوسٹ مارٹم کیا اور سخت الفاظ میں اس کی مذمت و تردید کی، اہل بدعت اور اصحاب الاہواء سے ترک کلام، ترک سلام او قطع تعلق تک کر لیا۔ خط و کتابت اور راہ رسم کے جملہ وسائل و ذرائع ان سے منقطع کر لئے اور ضرورت پڑی تو اہل بدعت کے برعتی حلقوں کو ختم کرنے کے لئے زبان و بیان سے جہاد کیا، بلا کسی لومۃ لائم لوجہ اللہ سنت کے علمبر دار ہے اور بدعات وخرافات کے خلاف برسر پیکار ہے اور ہر طرح سے اصحاب بدعات و اھواء اور ان کے آراء وخیالات سے امت مسلمہ کو باخبر کرتے رہے۔ بدعت سیئہ اور بدعت حسنہ کی تقسیم کو باطل قرار دیا، بدعات اضافیہ اور دیگر نووارد بدعتوں کی حقیقتوں کو بیان فرمایا اور انہیں کج روی، ضلالت، گمراہی، بدعقلی اور فتنہ پروری قرار دیتے ہوئے اس کی تباہ کاریوں اور برے نتائج و بھیانک انجام سے اہل اسلام کو خبردار کیا۔
آج بدعتوں کے اس پرفتن ماحول میں امت مسلمہ کو صحیح کتاب و سنت سے روشناس کرنے کا صرف یہی ذریعہ ہے کہ سیرت طیبہ اور حیات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ہم اپنارشتہ مضبوط کر لیں، اور نقوش صحابہ رضی اللہ عنہم کو اپنے لئے اسوہ و نمونہ بنا لیں۔
بدعات کی مذمت وتر دید میں اقوال تابعین و آثار سلف صالحین
بدعات کی مذمت اور اہل بدعت کی مجالست ومصاحبت سے ممانعت کے سلسلے میں بے شمار اقوال و آثار تابعین عظام اور اسلاف کرام سے منقول ہیں۔ ذیل میں ہم مختصرا ان کا تذکرہ کر رہے ہیں تاکہ حقائق منکشف ہو جائیں اور غلط بیانیاں واضح ہو جائیں:
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا قول:
بدعات سے اجتناب ضروری ہے۔
فرماتے ہیں: میں تمہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے اس کے فرامین پر عمل کرنے، سنت رسول کی اتباع کرنے اور بدعتیوں کی بدعت سے بچنے کی وصیت کرتا ہوں۔ [سنن ابي داود/ كتاب السنه/ باب لزوم السنه]
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ کا قول:
بدعتیں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دوری کا سبب ہیں۔
فرماتے ہیں: جس نے بدعت کیا پھر وہ سنت کی طرف لوٹ نہ سکا۔ [سنن الدارمي: 61/1]
امام سفیان الثوری رحمہ اللہ کا قول:
اسلاف کے نقش قدم پر چلنا اور بدعات سے بچنا لازمی ہے۔
فرماتے ہیں: غلط چیز کو چھوڑ دو، اگر تم نے ایسا کیا تو حق پر نہیں ہو، سنت پر عمل کرو، بدعتوں سے دور رہو، میں درست بات یہ سمجھتا ہوں کہ اسلاف کے نقش قدم پر چلا جائے اور فرمایا کہ مزدور، پردہ نشین خواتین اور مکاتب میں پڑھنے والے جس اقرا رو عمل پر ہیں اس کو اپنے لئے لازم کرلو۔ [شرح السنه للبغوي: 217/1]
بدعت ابلیس کا پسندیدہ عمل ہے:
امام سفیان فرماتے ہیں کہ ابلیس کو بدعت معصیت سے زیادہ پسندیدہ ہے کیونکہ معصیت سے توبہ ممکن ہے لیکن بدعت سے توبہ ممکن نہیں۔ [شرح اعتقاد اهل السنته /الا لكائي/1885 حلية الاولياء ابو نعيم 36/7]
محمد بن اسلم رحمہ اللہ کا قول:
اہل بدعت کی تعظیم و تکریم جائز نہیں
فرماتے ہیں کہ جس نے بدعتی کی تعظیم کی اس نے اسلام کے قلعہ کو ڈھانے میں مدد کیا۔ [شرح اعتقاد اهل السنه /اللالكائي: 139/3، حلية الاولياء ابو نعيم: 218/5]
یحیٰی بن کثیر رحمہ اللہ کا قول:
اہل بدعت اور ان کے طور و طریقے سے دور رہنا چاہئے۔
فرماتے ہیں: جب کسی جگہ تم سے کسی بدعتی سے ملاقات ہو جائے تو تم دوسرا راستہ اختیار کر لو۔ [الشريعه للآجري: 940]
فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کا قول:
بدعتی اور سنی کے مابین لوہے کی مضبوط دیوار سے زیا دہ پناہ گاہ ہونا چاہيے۔
فرماتے ہیں: جو کسی بدعتی کے ساتھ بیٹھے تو تم اس سے دور رہو اور جو کسی بدعتی کے پاس بیٹھے گا تو حکمت سے محروم کر دیا جائے گا اور میرے نزدیک یہ زیادہ پسندیدہ ہے کہ میری اور بدعتی کے مابین لوہے کا مضبوط قلعہ ہو۔ [الحليته لابي نعيم: 103/8]
امام اوزاعی رحمہ اللہ کا قول:
بدعتی سے زیا دہ بحث و مباحثہ شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔
فرماتے ہیں کہ بدعتی سے بحث ومباحثہ کی زیادہ کوشش مت کرو جس کی وجہ سے تمہارے دلوں میں فتنے (شکوک) پیدا ہو جائیں۔ [البدع والنهي عنها القرطبي: ص 52]
صاحب سنت اور اہل حدیث کا مقام بہت اونچا ہے۔
فرماتے ہیں کہ مجھ سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی کہتا ہے میں اہل حدیث کے ساتھ بھی بیٹھتا ہوں اور اہل بدعت کے ساتھ بھی تو میں نے جواب دیا: کیا یہ آدمی حق اور باطل کے درمیان برابری پیدا کرنا چاہتا ہے۔ [حواله سابق]
سعید المسیب رحمہ اللہ کا قول:
عبادت اور نیک نیتی سے انجام دیئے جانے والے اچھے کام بھی اگر سنت کے خلاف ہوں تو عذاب کا باعث ہیں: حضرت سعید ابن المسیب نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ طلوع فجر کے بعد دو رکعت سے زیادہ نماز پڑھ رہا ہے جس میں رکوع اور سجدے بھی زیادہ کرتا ہے اس آدمی نے کہا کہ اے ابو محمد ! کیا اللہ تعالیٰ مجھے نماز پڑھنے پر عذاب دے گا، آپ نے فرمایا کہ نہیں، نماز پڑھنے پر عذاب نہیں دے گا لیکن سنت کی خلاف ورزی کرنے پر عذاب دے گا۔ [سنن الدارمي 112/1، سنن البيهقي 466/2]
قتادۃ السدوسی رحمہ اللہ کا قول:
بدعت اور اہل بدعت سے لوگوں کو آگاہ کرنا اور بچانا ضروری ہے۔ فرماتے ہیں کہ آدمی جب کسی بدعت کو اختیار کرے تو مناسب ہے کہ اس کی بدعتوں کو ذکر کیا جائے تاکہ لوگ بچ سکیں۔ [الآداب الشرعيه لابن مفلح: 210/1]
سعید بن جبیر رحمہ اللہ کا قول:
بدعتی عبادت گزار کی صحبت سے غیر بدعتی فاسق کی صحبت بہتر ہے، فرماتے ہیں کہ میرا بیٹا کسی شاطر فاسق کی صحبت میں رہے جو صاحب سنت ہو تو یہ میری لئے اس بات سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ وہ کسی ایسے عبادت گزار کی صحبت میں رہے جو بدعتی ہو۔ [الابان الصغري لابن بطه: 133]
عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ کا قول:
بدعتی کم علم ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ علم اصاغر (چھوٹوں) سے طلب کیا جائے گا فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اصاغر سے مراد اہل بدعت ہیں۔ [الزهد لابن المبارك: 281، السلسلة اصحيحته: 295]
اہل بدعت کی صحبت سے بہتر فقراء و مساکین کی صحبت وہم نشینی ہے۔ فرماتے ہیں کہ مسکینوں کے ساتھ بیٹھا کرو لیکن بدعتیوں کے ساتھ کبھی نہ بیٹھو۔ [سير اعلام النبلاء: 368/8]
ابو قلابہ رحمہ اللہ کا قول:
اہل بدعت کی مجالست گمراہی کا چور دروازہ ہے۔
فرماتے ہیں: اہل بدعت کی صحبت اختیار نہ کرو اور نہ ہی ان سے بحث و مباحثہ کرو اس لئے کہ خطرہ ہے کہ وہ کہیں تمہیں اپنی گمراہی میں مبتلا کر دیں یا شکوک و شبہات میں نہ ڈال دیں۔ [سنن الدارمي المقدمه باب اجتناب اهل الاهواء]
ابو ایوب رحمہ اللہ کا قول:
بدعتی کی مجالست اور ہم نشینی سے دوری اختیار کرو۔
فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت سعید بن جبیر نے طلق بن حبیب کے پاس بیٹھے دیکھا تو کہنے لگے کہ کیا تم طلق بن حبیب کے پاس بیٹھتے ہو۔ طلق بن حبیب کی ہم نشینی مت اختیار کرو۔ [سنن الدارمي / المقدمه / باب اجتناب اهل الاهواء]
قاضی ابو یعلی رحمہ اللہ کا قول:
صحابہ و تابعین کا اہل بدعت کے بائیکاٹ پر اجماع ہے۔
فرماتے ہیں: کہ صحابہ اور تابعین کا اہل بدعت کے بائیکاٹ کرنے اور ان سے قطع تعلق رکھنے میں اجماع ہے۔ [هجر المبتدع: ص32]
حسان بن عطیہ رحمہ اللہ کا قول:
بدعت سنت کے مٹانے کا ذریعہ ہے۔
فرماتے ہیں: کہ جب کوئی قوم بدعت اختیار کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے مثل سنت کو لوگوں کے دلوں سے نکال دیتا ہے اور پھر قیامت تک وہ واپس نہیں ہوتی۔ [سنن الدارمي / المقدمه باب اتباع السنه ص 98]
امام احمد رحمہ اللہ کا قول:
سنت کے برخلاف بدعات کی طرف جانا ہلاکت خیزی کا باعث ہے۔
فرماتے ہیں: کہ جس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو چھوڑ دیا اور رد کر دیا۔ (بدعات کی طرف چلایا گیا) تو وہ ہلاکت کے دہانے پر پہنچ گیا۔ [طبقات اكحنابلہ 15/2، الا بانہ: 260/1]
بدعت سے دوری اہل سنت کا مذہب ہے:
فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس اصول سنت یہ ہیں کہ اصحاب رسول صلى اللہ علیہ وسلم کی سنت کو مضبوطی سے پکڑا جائے اور ان کی اقتداء کی جائے اور بدعات کو ترک کر دیا جائے کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ [اصول السنه: ص 25]
امام مالک رحمہ اللہ کا قول:
دین میں بدعت حسنہ سمجھنا رسالت محمدیہ میں خیانت کا اقرار ہے۔
فرماتے ہیں:
➊ جس نے بدعت ایجاد کی اور اسے بدعت حسنہ خیال کیا تو گویا اس نے رسالت محمدیہ میں خیانت کا اقرار کیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
اليوم اكملت لكم دينكم واتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الاسلام دينا
چنانچہ جو زمانہ رسالت میں دین نہیں تھا وہ آج دین نہیں ہو سکتا۔ [الاعتصام للشاطبي: 49/1]
➋ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انحراف بدعت کا چور دروازہ ہے:
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے ابو عبد اللہ ! میں کہاں سے احرام باندھوں، میں نے کہا: کہ ذوالحلیفہ سے جہاں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا تھا، اس آدمی نے کہا کہ میں مسجد نبوی میں قبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے باندھنا چاہتا ہوں، میں نے جواب دیا کہ تم ایسا مت کرو اس لئے کہ فتنہ میں پڑ جانے کا خوف ہے اس آدمی نے کہا کہ اس میں کیا فتنہ ہے؟ تو صرف چند میل کا فرق ہے، میں نے کہا: کہ اس سے بڑھ کر اور کیا فتہ ہو سکتا ہے کہ تم یہ سمجھو کہ تم نے ایک ایسی فضیات کا کام کیا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہ کر سکے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ میرے حلم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں خوف کرنا چاہئے کہ کہیں فتنہ میں نہ پڑ جائیں یا ان پر عذاب نہ آجائے۔ [النور: 63] [الحلية لابی نعيم: 326/2، المدخل للبیہقی ص 236]
امام شافعی رحمہ اللہ کا قول:
اہل بدعت کے عجائبات وغرائب نا قابل تسلیم ہیں۔
فرماتے ہیں کہ امام لیث نے نرمی سے کام لیا میں اگر اہل بدعت کو ہوا میں اڑتے دیکھوں تو تسلیم نہ کروں گا۔ [تلبیس ابليس لابن جوزي 14، شرح اصول اعتقاد السنہ للالكائی 145/1]
امام عزیز بن عبد السلام رحمہ اللہ کا قول:
بدعات کا قلع قمع کرنا باعث ثواب عمل ہے۔
فرماتے ہیں کہ خوشخبری ہو اس آدمی کے لئے جو مسلمانوں کے کسی معاملہ کا ذمہ دار بنایا جائے چنانچہ وہ بدعتوں کو ختم کرنے اور سنتوں کے فروغ کی کوشش اور جدوجہد کرے۔ [مساجد علميه: ص 10]
امام بغوی رحمہ اللہ کا قول:
اہل بدعت کا بائیکاٹ اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ تو بہ نہ کر لے۔
فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے افتراق کے بارے میں پہلے ہی خبردی تھی اس لئے اہل بدعت اور اہل ہواء کا بائیکاٹ اس وقت تک رہے گا جب تک کہ وہ توبہ نہ کریں۔ [شرح اللسنہ للبغوي: 224/1-227]
بدعات کی تردید اور اہل بدعت کی مذمت اور ان کی مجالست و ہم نشینی سے دوری کے سلسلے میں تابعین اور ائمہ کرام کے یہ اقوال زریں اس بات کی بیں دلیل ہیں کہ دین اسلام میں بدعت کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور بدعات گمراہیوں کا چور دروازہ ہیں، سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت و پاسداری کی خاطر امت کے ہر فرد کو بدعات سے بچنا اور اہل بدعات سے دور رہنا چاہئے۔
فليتدبر اولوا الابصار