کسی عذر کی وجہ سے مسجد میں نماز عید
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
انهم أصابهم مطر فى يوم عيد فصلى بهم النبى صلى الله عليه وسلم صلاة العيد فى المسجد
”ایک عید کے موقع پر لوگوں کو بارش نے آ لیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز عید مسجد میں پڑھا دی۔“
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 248 ، كتاب الصلاة: باب يصلى بالناس العيد فى المسجد إذا كان يوم مطر، المشكاة: 1448 ، ضعيف ابن ماجة: 270 ، أبو داود: 1160 ، ابن ماجة: 1313]
یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے موقوفا بھی ایسی روایت موجود ہے کہ بارش ہو جائے تو مسجد میں نماز عید پڑھی جا سکتی ہے۔
[بيهقي: 310/3]
اور اس قاعدے کی وجہ سے بھی جواز کا اشارہ ملتا ہے:
الضرورات تبيح الـمـخـطـورات
”ضرورتیں ممنوع کاموں کو مباح بنا دیتی ہیں ۔“
[القوانين الفقهية الكبرى للدكتور صالح بن غانم: ص/ 247]
◈ علماء نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے کہ نماز عید وسیع و کشادہ مسجد میں پڑھنا افضل ہے یا آبادی سے باہر نکل کر پڑھنا افضل ہے۔
(شافعیؒ) اگر علاقے کی مسجد ہی وسیع و کشادہ ہو تو مسجد میں پڑھنا افضل ہے کیونکہ اصل مقصود مرد اور خواتین کا اجتماع ہے اور وہ مسجد میں ہی ہو سکتا ہے تو باہر نکلنے کی ضرورت نہیں ۔
(مالکؒ) آبادی سے باہر نکلنا ہی افضل ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر مداومت اختیار فرمائی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آبادی سے باہر نماز عید کے متعلق کہا کہ لولا أنه سنة الصليت فى المسجد ”اگر یہ عمل (یعنی آبادی سے باہر نکل کر نماز عید ادا کرنا ) سنت نہ ہوتا تو میں مسجد میں نماز پڑھ لیتا.“
[ابن أبى شيبة: 185/2 ، نيل الأوطار: 591/2 ، سبل السلام: 686/2 ، فتح البارى: 126/3]
(راجح) امام مالکؒ کا موقف رائج ہے۔
[السيل الجرار: 320/1]