کیا رسول اللہ قبر میں درود سنتے ہیں؟
تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری

بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں درود و سلام سنتے ہیں۔ بعض لوگ تو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مطلق طور پر سلام سنتے ہیں، جب کہ بعض کے نزدیک اگر قبر مبارک کے قریب سلام کہا جائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں اور دور سے کہا جائے، تو خود نہیں سنتے، بلکہ فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ درود و سلام پہنچاتے ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قبر مبارک میں قریب یا دور سے سلام سننا قطعاً ثابت نہیں۔ جو لوگ ایسے نظریات رکھتے ہیں، ان کے مزعومہ دلائل کا اصول محدثین کی روشنی میں جائزہ پیش خدمت ہے :
روایت نمبر ①

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من صلى على عند قبري سمعته، ومن صلىٰ على نائيا أبلغته .
”جو آدمی مجھ پر میری قبر کے پاس درود پڑھے گا، میں اسے سنوں گا اور جو دور سے مجھ پر درود بھیجے گا، مجھے اس کا درود پہنچا دیا جائے گا۔‘‘ [شعب الإيمان للبيهقي : 1481، حياة الأنبياء فى قبورهم للبيهقي : 19، الضعفاء الكبير للعقيلي : 136/4-137، تاريخ بغداد للخطيب : 292/3، الترغيب والترهيب لأبي القاسما لأصبهانيي :1666]

تبصرہ :
یہ روایت سخت ترین ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
① اس کے راوی محمد بن مروان سدی (صغیر) کے ”کذاب“ اور ”متروک“ ہونے پر محدثین کرام کا اجماع ہے۔
امام احمد بن حنبل، امام ابو حاتم رازی، امام یحیٰی بن معین، امام بخاری، امام نسائی، امام جوزجانی اور امام ابن عدی رحمہ اللہ وغیرہ نے اس پر سخت جرح کر رکھی ہے۔

② اس کی سند میں سلیمان بن مہران اعمش ”مدلس“ ہیں اور انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
↰ محدثین کرام اعمش کی ابو صالح سے عن والی روایت کو ”ضعیف“ ہی سمجھتے ہیں۔

◈ امام عقیلی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
لا أصل له من حديث الأعمش، وليس بمحفوظ، ولا يتابعه إلا من هو دونه۔
”یہ حدیث اعمش کی سند سے بے اصل ہے۔ یہ محفوظ بھی نہیں۔ محمد بن مروان کی متابعت اس سے بھی کمزور راوی کر رہا ہے۔“ [الضعفاء الكبير : 137/4]

سنن بیہقی والی روایت میں ابو عبدالرحمن نامی راوی، اعمش سے بیان کرتا ہے۔

◈ امام بیہقی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں:
أبو عبدالرحمن هذا هو محمد بن مروان السدي ؛ فيما أرى، وفيه نظر .
”میرے خیال میں یہ ابوعبدالرحمٰن راوی محمد بن مروان سدی سے اور اس میں کلام ہے۔“ [حياة الأنبياء فى قبورهم، ص : 103]

◈ امام ابن نمیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
د ع ذا، محمد بن مروان ليس بشيء .
”اس (روایت) کو چھوڑ دو، کیونکہ محمد بن مروان کی کوئی حثیت نہیں۔“ [تاريخ بغداد للخطيب : 292/3]

◈ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
هذا حديث لا يصيح . ”یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔“ [الموضوعات : 303/1]

◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ففي إسناده نظر، تفرد به محمد بن مروان السدي الصغير، وهو متروك.
”اس کی سند محل نظر ہے، اس کو بیان کرنے میں محمد بن مروان سدی صغیر متفرد ہے اور وہ متروک ہے۔ [تفسير ابن كثير:228/5]
روایت نمبر ②

یہ روایت ان الفاظ سے بھی آتی ہے:
من صلى على عند قبري ؛ سمعته، ومن صلى على نائيا ؛ وكل بها ملك يبلغني، وكفي بها أمر دنياه وآخرته، وكنت له شهيدا أو شفيعا.
”جو آدمی مجھ پر میری قبر کے پاس درود پڑھے گا، میں اسے سنوں گا اور جو مجھ پر دور سے درود پڑھے گا، اس درود پر ایک فرشتہ مقرر کر دیا جائے گا، جو اسے مجھ تک پہنچائے گا۔ اس درود کے ذریعے اس شخص کے دنیا و آخرت کے معاملات سدھر جائیں گے اور میں اس کے لیے گواہ اور سفارشی بن جاؤں گا۔“ [شعب الإيمان للبيهقي : 1481، تاريخ بغداد للخطيب : 291/3–292، واللفظ له، الترغيب والترهيب لأبي القاسم الأصبهاني : 1698]

تبصره :
یہ روایت ”موضوع“ (من گھڑت) ہے۔
اس میں محمد بن مروان سدی کے علاوہ محمد بن یونس بن موسیٰ قرشی کدیمی راوی بھی ”وضاع“ ہے۔
نیز اس میں اعمش کی ”تدلیس“ بھی موجود ہے۔

تنبیہ :

ایک سند میں محمد بن مروان سدی کی متابعت ابو معاویہ محمد بن خازم ضریر نے کی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں:
من صلى على عند قبري ؛ سمعته ومن صلى على من بعيد أعلمته .
”جو آدمی مجھ پر میری قبر کے پاس درود پڑھے گا، میں اسے خود سنوں گا اور جو دور سے مجھ پر درود بھجیے گا، مجھے اس کے بارے میں بتایا جائے گا۔“ [الصلاة على النبى لأبي الشيخ نقلا عن جلاء الأفهام لابن القيم، ص : 19، الثواب لأبي الشيخ نقلا عن اللالي المصنوعة للسيوطي، ص:283/1]

تبصره :
اس کی سند بھی ”ضعیف“ ہے کیونکہ :
اس میں عبدالرحمٰن بن اعرج راوی ہے، جس کے بارے میں توثیق کا ادنیٰ کلمہ بھی ثابت نہیں ہے، اگرچہ ابو الشیخ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الطبقات [451/3] میں اور امام ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ نے اخبار اصبھان [113/3] میں اس کے حالات زندگی درج کیے ہیں۔
لہذا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ [فتح الباري : 488/6] اور حافظ سخاوی رحمہ اللہ [القول البديع، ص : 154] کا اس کی سند کو’’ جید“ کہنا درست نہیں، بلکہ تعجب خیز ہے۔

روایت نمبر ③

سیدنا ابو دردا رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
أكثروا الصلاة على يوم الجمعة، فإنه يؤم مشهود، تشهده الملائكة، ليس من عبد يصلىى على ؛ إلا بلغنى صوته حيث كان .
”جمعہ کے دن مجھ پر زیادہ درود پڑھا کرو، کیونکہ اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ جو بھی آدمی مجھ پر درود بھیجتا ہے، وہ جہاں بھی ہو، مجھے اس کی آواز پہنچ جاتی ہے۔ ہم نے عرض کیا : آپ کی وفات کے بعد بھی ایسا کریں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وبعد وفاتي، إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء . ”ہاں! میری وفات کے بعد بھی۔ یقیناً اللہ رب العزت نے زمین پر انبیاء کرام کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے۔“ [الطبراني نقلا عن جلاء الأفهام لابن القيم الجوزية، ص: 63]

تبصرہ :
اس کی سند ”انقطاع‘‘ کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔
سعید بن ابو ہلال کا سیدنا ابودردا سے سماع ولقا ثابت نہیں۔

◈حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کو طبقہ سادسہ (چھٹے طبقہ) میں ذکر کیا ہے۔ [تقريب التهذيب : 2410]
اس طبقہ کے راویوں کی کسی صحابی سے ملاقات ثابت نہیں ہوتی۔

◈ حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إن إسنادهٔ لا يصح. ”اس کی سند صحیح نہیں۔“ [القول البديع فى الصلاة على الحبيب الشفيع، ص: 164]

روایت نمبر ④

”ایک روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: جو آپ پر نزدیک سے اور دور سے درود بھیجتے ہیں اور بعد میں آنے والے بھی بھیجیں گے، کیا یہ سب درود آپ پر پیش کیے جاتے ہیں اور پیش کیے جائیں گے؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أسمع صلاة أهل محبتي، وأعرفهم . ”میں اہل محبت کا درود سنتا اور انہیں پہچانتا ہوں۔“ [دلائل الخيرات، ص : 32]

تبصرہ :
یہ بے سند اور جھوٹی روایت ہے۔
جو لوگ اس سے استدلال کرتے ہیں، انہیں چاہے کہ اس کی کوئی سند پیش کریں۔
بے سروپا روایات پر اپنے عقیدہ و عمل کی بنیاد رکھنا کسی سچے مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔

⟐ اسی طرح سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت میں ہے:
إن الله تعالىٰ وعدني إذا مت، أن يسمعني صلاة من صلىٰ على وأنا فى المدينة وأمتي فى مشارق الأرض ومغاربها .
”اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ جب مجھے موت آ جائے گی تو وہ جو مجھ پر درود پڑھے گا، اللہ مجھے اس کا درود سنا دے گا، حالانکہ میں مدینہ میں ہوں گا اور میری امت مشرق و مغرب میں پھیلی ہو گی۔‘‘ [ ”آب كوثر“ از محمد امين بريلوي فيصل آبادي، ص:87]
دوسری بے پر روایت میں ہے:
ويوم الجمعته ؛ فإني أسمع صلاتي ممن يصلي على بأذني .
”جمعہ کے دن میں اپنے کانوں سے اس شخص کا درود سنتا ہوں، جو مجھ پر درود پڑھتا ہے۔‘‘ [ آب كوثر، از محمد امين بريلوى فيصل آبادى،ص:88]

ان لوگوں کی جسارت ملاحظہ فرمائیں کہ ایک طرف تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دم بھرتے ہیں لیکن دوسری طرف بے دریغ جھوٹی روایات گھڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ کیا محبت رسول کا یہی تقاضا ہے؟

روایت نمبر ⑤

سلیمان بن سحیم کہتے ہیں:
رأيت النبى صلى الله عليه وسلم فى النوم، قلت: يا رسول الله، هؤلاء الذين يأتونك، فيسلمون عليك، أتفقه سلامهم ؟ قال : نعم، وأرد عليهم.
”میں نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! یہ کچھ لوگ آپ کی قبر مبارک کے پاس آ کر آپ پر سلام پیش کر رہے ہیں؛ کیا آپ ان کا سلام سمجھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جی ہاں! میں ان کا جواب بھی دیتا ہوں۔“ [شعب الإيمان للبيهقي : 3868، حياة الأنبياء فى قبورهم للبيهقي : 19]

تبصرہ :
یہ سخت ”ضعیف“ روایت ہے، کیونکہ:
① عبدالرحمٰن بن ابو الرجال کا سلیمان بن سحیم سے سماع ثابت نہیں ہو سکا۔
② سوید بن سعید حدثانی کے بارے میں :
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
صدوق فى نفسه؛ إلا أنه عمي، فصار يتلقن ما ليس من حديثه.
”یہ بذات خود صدوق راوی تھا، مگر جب نابینا ہوا تو وہ ایسی باتوں کی تلقین قبول کرنے لگا، جو اس کی بیان کردہ نہیں تھیں۔‘‘ [تقريب التهذيب : 2690]
↰ امام ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ کا سوید سے قبل از اختلاط روایت لینا ثابت نہیں۔

روایت نمبر ⑥

سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت ہے کہ رسول اللہ ا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله وكل بقبرى ملكا أعطاه أسماع الخلائق، فلا يصلي على أحد إلى يوم القيامة؛ إلا بلغني باسمه واسم أبيه؛ هذا فلان بن فلان، قد صلى عليك .
”اللہ تعالیٰ میری قبر پر ایک فرشتہ مقرر فرمائے گا جسے تمام مخلوقات کی آوازیں سننے کی صلاحیت عطا کی گئی ہو گی۔ روز قیامت تک جو بھی شخص مجھ پر درود پڑھے گا، وہ فرشتہ درود پڑھنے والے اور اس کے والد کا نام مجھ تک پہنچائے گا اور عرض کرے گا: اللہ کے رسول! افلاں کے بیٹے فلاں نے آپ پر درود بھیجا ہے۔“ [مسند البزار: 254/4، ح : 1425، التاريخ الكبير للبخارى : 416/6، مسند الحارث ;962/2، ح : 1063، الترغيب لأبي القاسم التيمي : 319/2، ح : 1671]
ابوالشیخ ابن حیان اصبہانی رحمہ اللہ [العظمة : 263/2] اور امام طبرانی رحمہ اللہ [المعجم الكبير نقلا عن جلاء الأفهام لابن القيم، ص : 84، مجمع الزوائد للهيثمي 162/10 :، الضعفاء الكبير للعقيلي: 249/3] کے بیان کردہ الفاظ یہ ہیں:
إن لله ملكا أعطاه أسماع الخلائق كلها، وهو قائم على قبري؛ إذا مت إلىٰ يوم القيامة، فليس أحد من امتي يصلي على صلاة؛ إلا سماه باسمه واسم أبيه، قال: يا محمد، صلى عليك فلان بن فلان كذا وكذا، فيصلي الرب عز وجل على ذلك الرجل بكل واحدة عشراه .
”اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ایسا ہے، جسے تمام مخلوقات کی آوازیں سننے کی صلاحیت عنایت کی گئی ہے۔ وہ میری وفات کے بعد قیامت تک میری قبر پر کھڑا رہے گا۔ میرا جو بھی امتی مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا، وہ فرشتہ پڑھنے والے کو اس کے والد کے نام سمیت مجھ تک پہنچاتے ہوئے عرض کرے گا: اے محمد! افلاں بن فلاں نے آپ پر اتنا اتنا درود بھیجا ہے۔ اللہ رب العزت اس شخص پر ایک مرتبہ درور پڑھنے کے عوض دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔“

تبصرہ :
یہ روایت بھی سخت ”ضعیف ”ہے، کیونکہ:
① اس کا راوی عمران بن حمیری جعفی ”مجہول الحال“ ہے۔
سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ [الثقات : 223/5] کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
اس کے بارے میں:
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا يتابع عليه. ”اس کی کوئی بھی تائید نہیں۔“ [التاريخ الكبير : 416/6]
◈ امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے کوئی جرح و تعدیل ذکر نہیں کی۔
◈ علامہ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا يعرف. ”یہ مجہول راوی ہے۔“ [ميزان الاعتدال : 236/3]
◈ حافظ منذری رحمہ اللہ نے بھی یہی فرمایا ہے۔ [القول البديع للسخاوي، ص : 119]
◈ علامہ ہیثمی، حافظ ذہبی پر اعتماد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وقال صاحب الميزان : لا يعرف.
”صاحب میزان الاعتدال (علامہ ذہبی رحمہ اللہ) کا کہنا ہے کہ یہ راوی مجہول ہے۔“ [مجمع الزوائد:162/10]
◈ علامہ عبدالرؤف مناوی رحمہ اللہ، علامہ ہیثمی کے حوالے سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
لم اعرفه۔ ”میں اسے پہچان نہیں پایا۔‘‘ [فيض القدير:612/2]

② اس کا راوی نعیم بن ضمضم ”ضعیف“ ہے۔ اس کے بارے میں:
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ضعیف الحدیث راوی ہے۔ [المغني فى الضعفاء : 701/2]
◈ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
نعيم بن ضمضم ضعيف۔ ”نعیم بن ضمضم ضعیف راوی ہے۔“ [مجمع الزوائد: 10 /162]
↰ اس کے بارے میں ادنیٰ کلمہ تو ثیق بھی ثابت نہیں۔

فائده :
حماد بن ابوسلیمان کوفی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
إن العبد إذا صلى على النبى صلى الله عليه وسلم، عرض عليه باسمه .
”کوئی شخص جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتا ہے تو وہ درود اس کے نام کے ساتھ آپ پر پیش کیا جاتا ہے۔“ [الزهد والرقائق للإمام ابن المبارك: 1029، وسندۂ صحيح]

روایت نمبر ⑦

ایک روایت یوں ہے:
قال (شيرويه بن شهردار) الديلمى : أنبأنا والدي (شهردار بن شيرويه) : أنبأنا أبوالفضل الكرابيسي (محمد بن عبد الله بن حمدويه) : أنبأنا أبو العباس بن تركان (الفرضي) حدثنا موسي بن سعيد (لعله ابن موسي بن سعيد أبو عمران الهمداني) : حدثنا أحمد بن حماد بن سفيان : حدثني محمد بن عبد الله بن صالح المروزي : حدثنا بكر بن خراش عن فطر بن خليفة، عن ابى الطفيل، عن أبى بكر الصديق، قال : قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم ) : أكثروا الصلاة علي، فإن الله و كل بي ملكا عند قبري، فإذا صلى على رجل من أمتي، قال لي ذلك الملك: يا محمد، إن فلان ابن فلان صلى عليك الساعة .
”سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود پڑھا کرنا۔ اللہ تعالیٰ میری قبر کے پاس ایک فرشتے کو مامور کرے گا۔ جب میری امت میں سے کوئی فرد مجھ پر درود بھجیے گا تو یہ فرشتہ میری جناب میں عرض کرے گا: اے محمد (صلى الله عليه وسلم) !فلاں بن فلاں نے ابھی آپ پر درود بھیجا ہے .“ [اللآلي المصنوعة فى الأحاديث الموضوعة للسيوطي : 259/1، السلسلة الصحيحة للألباني : 1530]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ:
① اس کا راوی بکر بن خداش ”مجہول الحال“ ہے۔
سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ [الثقات ;148/8] کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
② محمد بن عبداللہ بن صالح مروزی کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔
③ ابوالفضل کرابیسی کے حالات اور توثیق بھی نہیں ملی۔
اس روایت کے بارے میں :
◈ حافظ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وفي سنده ضعف. ”اس کی سند میں کمز وری ہے۔“ [القول البديع فى الصلاة على الحبيب الشفيع، ص : 161]

روایت نمبر ⑧

سيدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن لله ملائكة سياحين، يبلغوني عن أمتي السلام، قال : وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : حياتي خير لكم، تحدثون ونحدث لكم، ووفاتي خير لكم، تعرض على أعمالكم، فما رايت من خير حمدت الله عليه، وما رايت من شر استغفرت الله لكم
”زمین میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے گشت کر رہے ہیں، جو میری امت کی طرف سے پیش کیا گیا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں۔ میری زندگی بھی تمہارے لیے بہتر ہے کہ ہم آپس میں ہم کلام ہوتے رہتے ہیں اور میری وفات بھی تمہارے لیے بہتر ہو گی کہ تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے رہیں گے۔ میں جو بھلائی دیکھوں گا، اس پر اللہ تعالیٰ کی تعریف کروں گا اور جو برائی دیکھوں گا، اس پر تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے استغفار کروں گا۔“ [مسند البزار : 308/5، ح : 1925]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ:
① امام سفیان ثوری رحمہ اللہ بصیغہ ”عن“ روایت کر رہے ہیں۔
مسلم اصول ہے کہ ”ثقہ مدلس“ جب صحیح بخاری و مسلم کے علاوہ محتمل الفاظ سے حدیث بیان کرے، تو جب تک سماع کی تصریح نہ ملے، وہ ”ضعیف“ ہی ہوتی ہے۔
② اس میں عبدالمجید بن ابو رواد بھی ”مدلس“ ہے۔ اس کی طرف سے سماع کی تصریح موجود نہیں۔
③ عبدالمجید بن ابو رواد جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ضعیف“ اور مجروح بھی ہے۔
اس پر امام حمیدی [الضعفاء الكبير للبخاري : 307] امام ابو حاتم رازی [الجرح والتعديل لابن أبى حاتم: 65/6] امام ابن حبان [كتاب المجر وحين : 160/2] ، امام دارقطنی [سؤالات البرقاني : 317] ، امام محمد بن یحيی بن ابو عمر [الضعفاء الكبير لعقيلي : 96/3، وسند صحيح] ، امام ابن سعد [الطباقت الكبري : 500/5] ، امام ابن عدی [الكامل فى ضعفاء الرجال : 346/5] اور امام ابو زرعہ [أسامي الضعفاء : 637] رحمها اللہ وغیرہ نے سخت جروع کر رکھی ہے۔

◈ حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فقد ضعفه كثيرون . ”یقیناً اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [المغني عن حمل الأسفار فى تخريج الإحياء : 144/4]
↰ لہذا حافظ بوصیری کا اس کے بارے میں وثقه الجمهور کہنا صحیح نہیں۔

روایت نمبر ⑨

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من صلى على فى يوم الجمعة وليلة الجمعة مائة من الصلاة، قضى الله له مائة حاجة، سبعين من حوائج الآخرة، وثلاثين من حوائج الدنيا، ووكل الله عز وجل بذلك ملكا يدخله على قبري كما يدخل عليكم الهدايا، إن علمي بعد موتي كعلمي فى الحياة .
’’جو آدمی مجھ پر جمعہ کے دن اور رات سو مرتبه درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی سو حاجتیں پوری کر دیتا ہے، جن میں ستر آخرت کی اور تیس دنیا کی شامل ہوتی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک فرشتہ مقرر کر دیتا ہے، جو وہ درود اس طرح میری قبر انور میں پیش کرتا ہے، جس طرح تمہیں تحائف پیش کیے جاتے ہیں۔ وفات کے بعد میرا علم ویسے ہی ہو گا، جیسے اب دنیوی زندگی میں ہے۔“ [الفوائد لابن مندة : 56، الترغيب والترهيب لأبي القاسم الأصبهاني : 320/2 -321 ح:1674]

تبصره :
یہ جھوٹی اور باطل روایت ہے، کیونکہ:
① حکامہ بنت عثمان کے بارے میں:
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”اس کی بیان کردہ روایت کی کوئی حیثیت نہیں۔‘‘ [الثقات :194/7]
↰ اس کی توثیق ثابت نہیں، لہذا یہ ”مجہولہ“ ہے۔

◈ حافظ عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
تروي عنه (عثمان بن دينار) حكامة ابنته أحاديث بواطيل، ليس لها أصل .
”عثمان بن دینار سے اس کی بیٹی حکامہ نے باطل روایتیں بیان کی ہیں، جن کی کوئی اصل نہیں۔“ [الضعفاء الكبير : 200/3]
◈ نیز فرماتے ہیں:
أحاديث حكامة تشبه حديث الْقصاص، ليس لها أصول.
”حکامہ کی بیان کردہ احادیث قصہ گو لوگوں کی کہانیوں سے ملتی جلتی ہیں۔ ان کی کوئی اصل نہیں۔“ [الضعفاء الكبير : 200/3]
② حکامہ کے باپ عثمان بن دینار کو امام حبان رحمہ اللہ نے [الثقات : 7/ 194] میں ذکر کیا ہے، ان کے علاوہ کسی نے اس کی توثیق نہیں کی، لہذا یہ ”مجہول الحال“ راوی ہے۔
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
لا شيء . ”اس کی کوئی حیثیت نہیں۔‘‘ [ميزان الاعتدال : 33/3]

روایت نمبر ⑩

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہی سے منسوب ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن أقربكم مني يوم القيامة فى كل موطن أكثركم على صلاة فى الدنيا، من صلى على فى يوم الجمعة وليلة الجمعة قضى الله له مائة حاجة، سبعين من حوائج الآخرة، وثلاثين من حوائج الدنيا، ثم يوكل الله بذلك ملكا يدخله فى قبري كما يدخل عليكم الهدايا، يخبرني من صلى على باسمه ونسبه إلى عشيرته، فأثبته عندي فى صحيفة بيضاء .
”بے شک روز قیامت ہر ایک مقام پر تم میں سے میرے زیادہ قریب وہ شخص ہو گا، جو دنیا میں سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجتا ہے۔ چنانچہ جو آدمی مجھ پر جمعہ کے دن اور رات درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی سو حاجتیں پوری کر دیتا ہے جن میں ستر آخرت کی اور تیس دنیا کی شامل ہوتی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک فرشتہ مقرر کر دیتا ہے، جو وہ درود اس طرح میری قبر انور میں پیش کرتا ہے، جس طرح تمہیں تحائف پیش کیے جاتے ہیں۔ وہ فرشتہ مجھے اس شخص کا نام اور اس کے خاندان کا سلسلہ نسب بتاتا ہے، پس میں یہ ساری معلومات اپنے پاس ایک روشن کتاب میں محفوظ کر لیتا ہوں۔“ [شعب الإيمان للبيهقي : 2773، حياة الأنبياء فى قبورهم للبيهقي : 13، فضائل الأوقات للبيهقي : 276، تاريخ دمشق لابن عساكر : 301/54]

تبصره :
یہ روایت سخت ”ضعیف“ ہے،
اس میں وہی علتیں موجود ہیں جن کا ذکر مذکورہ بالا روایت کے ضمن میں کیا جا چکا ہے۔

روایت نمبر ⑪

حاتم بن وردان کا بیان ہے:
كان عمر بن عبد العزيز يوجه بالبريد قاصدا إلى المدينة، ليقرى عنه النبى صلى الله عليه وسلم .
”امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ ایک قاصد کو ڈاک دے کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ کرتے کہ وہ ان کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام پیش کرے۔“ [شعب الإيمان للبيهقي : 3869]

تبصرہ :
اس روایت کی سند ”ضعیف“ اور باطل ہے، کیونکہ:
① اس کے راوی ابراہیم بن فراس کی توثیق نہیں ملی۔
② اس کا استاذ احمد بن صاح رازی بھی ”مجبول“ ہے۔

روایت نمبر ⑫

یزید بن ابوسعید مقبری بیان کرتے ہیں:
قدمت على عمر بن عبد العزيز؛ إذ كان خليفة، بالشام، فلما ودعته، قال : إن لي إليك حاجة، إذا اتيت المدينة، فترٰى قبر النبى صلى الله عليه وسلم ؛ فاقرئه مني السلام.
”میں امام عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خلافت کے زمانے میں ان کے پاس شام میں گیا۔ جب میں واپس ہونے لگا، تو انہوں نے فرمایا: مجھے تم سے ایک کام ہے۔ وہ یہ کہ جب مدینہ منورہ میں جاؤ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کرو، تو میری طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام پیش کرنا۔“ [شعب الإيمان للبيهقي : 3870، تاريخ دمشق لابن عساكر : 203/65]

تبصره :
اس قول کی سند ”ضعیف“ ہے۔
اس کا راوی رباح بن بشیر ”مجہول“ ہے۔
◈ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے اسے ”مجہول“ قرار دیا ہے۔ [الجرح والتعديل لابن أبى حاتم : 490/3]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ [الثقات: 242/8] کے علاوہ کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔

روایت نمبر ⑬

نبیہ بن وہب سے روایت ہے کہ کعب احبار رحمہ اللہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سیدہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا، تو کعب کہنے لگے: ”جب بھی دن طلوع ہوتا ہے، ستر ہزار فرشے اترے ہیں۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو گھیر لیتے ہیں اور قبر پر اپنے پر لگاتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتے ہیں۔“ [الزهد للامام عبدالله بن المبارك: 1600، مسند الدارمي:47/1، ح : 94، فضل الصلاة على النبى لإسماعيل بن إسحاق القاضي: 102، حلية الأولياء لأبي نعيم الأصبهاني : 390/5]

تبصره :
اس روایت میں نبیہ بن وہب، کعب احبار سے بیان کر رہے ہیں، جبکہ ان کا کعب احبار سے سماع ولقا ثابت نہیں۔ یوں یہ سند ”منقطع‘‘ ہے۔
◈ امام طحاوی حنفی ایک ”منقطع“ روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:
فدخل هذا الحديث فى الاحاديث المنقطعة التى لا يحتج أهل الإسناد بمثلها .
”یہ حدیث منقطع روایات میں سے ہے جنہیں محدثین کرام قابل حجت نہیں سمجھتے۔“ [شرح مشكل الآثار للطحاوي : 10 /36، ح : 4140]

الحاصل :
دین قرآن کریم اور صحیح احادیث سے ثابت شدہ تعلیمات کا نام ہے۔ سند امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیازی وصف اور خاص شناخت ہے۔ مسلمانوں کا پورا دین صحیح احادیث میں موجود ہے۔ دین اسلام کو ”ضعیف“ اور من گھڑت روایات کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسی روایات کو اپنانا کسی مسلمان کو زیبا نہیں۔ اہل حق کو صرف وہی احادیث کافی ہیں، جو محدثین کرام کے اجماعی اصولول کے مطابق صحیح ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قبر مبارک میں درود سننا کسی صحیح و صریح حدیث سے ثابت نہیں۔ اگر کسی کے پاس ایسی کوئی بھی صحیح حدیث موجود ہے تو وہ پیش کرے، ورنہ ایسا عقیدہ رکھنا صحیح نہیں۔

دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں صحیح احادیث ہی پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین !

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

ایک تبصرہ

  1. ماشااللہ بہت ہی خوبصورت اور معلوماتی تحریریں آپ نے مگر ای میل سبسکرایب کے لیے آپ نے کوئی آپشن نہیں رکھا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے