ابو بکر بن ابی مریم : یہ شخص قبیلہ غسان سے تعلق رکھتا تھا۔ اور حمص کا باشندہ تھا۔ اس کے باپ کا نام عبد اللہ اور ابو مریم کنیت ہے۔ خود اس کی کنیت تو ابوبکر ہے۔ لیکن اس کے نام میں زبردست اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کا نام بکر ہے، ایک قول یہ ہے کہ بکیر ہے، کوئی کہتا ہے کہ عمرو ہے، کوئی عامر بتاتا ہے، اور کوئی کہتا ہے عبد السلام ہے۔
ذہبی کہتے ہیں کہ :
یہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ اس کی روایات ابوداؤد، تر مذی اور ابن ماجہ میں پائی جاتی ہیں۔ یہ بہت عبادت گزار شخص تھا۔ ابوالیمان، بقیہ اور بابلتئی و غیره اس سے روایات نقل کرتے ہیں۔
امام احمد وغیرہ فرماتے ہیں :
یہ ضعیف ہے روایت حدیث میں غلطیاں بہت کرتا ہے۔
ابن عدی کہتے ہیں :
یہ حجت کے قابل نہیں۔ ابن عدی نے اس کی متعدد روایات کو منکر قرار دیا ہے۔
ابن حبان کہتے ہیں :
اس کا حافظہ نہایت ردی تھا۔ جب کوئی روایت یہ تنہا بیان کرے تو وہ قا بل حجت نہیں۔
بقیہ کا بیان ہے کہ ابو بکر بن ابی مریم کے گاؤں میں زیتون کے درخت بہت تھے۔ اور کوئی درخت ایسا نہ تھا۔ جس کی جانب اس نے منہ کر کے پوری رات عبادت نہ کی ہو، ہر وقت روتا رہتا تھا۔
جو زجانی کہتے ہیں :
بہت پرہیز گار انسان تھا 156ھ میں اس کا انتقال ہوا۔ [ميزان الاعتدال ت 5407، تهذيب التهذيب 38/12، 139، تقريب التهذيب 398/2، سير الاعلام 64/7،الطبري 2071/1،طبقات ابن سعد 487/7،التاريخ الكبير 9/9،المغني 7340،مجمع الزوائد 188/1 ]
گویا یہ کوئی بہت ہی پہنچے ہوئے بزرگ تھے۔ لیکن یہ ہر ہر درخت کی جانب منہ کر کے نماز پڑھنے کی منطق ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ بھی کوئی سلوک کی منزل ہو گی۔ کیونکہ صوفیاء کو آبادی میں سلوک کی منزل حاصل نہیں ہوتی۔ اسی لئے وہ جنگلوں کا رخ کرتے ہیں۔ ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ سرے سے ہی جھوٹ ہو، اس لئے اس واقعہ کو نقل کرنے والا ان کا شاگرد بقیہ ہے۔ جو غالی درجہ کا شیعہ ہے۔ بلکہ ابوسعید محدث نے تو بقیہ کے حال پر نہایت عمدہ تبصرہ فرمایا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :
احاديث بقيه، يست نقيه، فكن منها على التقيه . بقیہ کی احادیث اچھی نہیں ہوتیں تو ان سے تقیہ کر (یعنی بچ کر رہ)۔
قارئین یہ ضرور ذہن نشین رکھیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہما حضور کے چچا حضور سے صرف ڈیڑھ دو سال بڑے تھے اور ان کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ جو ابن عباس کے نام سے مشہور ہیں۔ اور خلفائے عباسیہ ان ہی کی اولاد سے ہیں، یہ ہجرت مدینہ سے صرف دو سال قبل پیدا ہو ئے ہیں۔ لہٰذا اس سلسلے میں جتنی روایات ان حضرات کی جانب منسوب کی جاتی ہیں۔ وہ سب نہ صرف خالص جھوٹ ہیں۔ بلکہ راوی کی جہالت بھی ثابت کرتی ہیں۔ ایسی روایات کے کے لئے مزید کسی دلیل کی حاجت نہیں۔
ہمیں اسی داستاں میں سب سے زیادہ حیرت ناک دو باتیں خاص طور پر نظر آئیں۔
➊ کوئی عورت زچگی کے وقت کسی مرد کی آمد پسند نہیں کرتی۔ حتیٰ کہ خاوند کی بھی۔ کجا کہ ایسے وقت میں وہ اس بات کی خواش کرے کہ اس کا سسر اس کے پاس ہو حالانکہ سسر سے تو بہو کو ایک خاص قسم کا حجاب ہوتا ہے۔
➋ جب حضور کی ولادت کے باعث اس دور کے عاملوں کے جنات غائب ہو گئے۔ اور ان کی کہانت لین فن عمليات سلب ہو گیا تو اس دھندے کو اب حضور کے ماننے والوں نے کیسے اپنا لیا؟ اور کاہنوں کی طرح غیب کی خبریں کس طرح بیان کرنے لگے۔ اور کس طرح انہوں نے جنات کی دوستی کو اپنے لئے جائز سمجھا؟
یہ بھی غور طلب امر ہے کہ مشرق و مغرب تو دکھا دیئے جاتے ہیں۔ اور وہاں جھنڈے بھی گاڑے جاتے ہیں۔ لیکن جنوب و شمال کا کسی روایت میں پتہ نہیں چلتا۔ کیا ان راویوں کے نزدیک صرف دو ہی سمتیں ہوتی تھیں؟ پھر تو ان کی عقلوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔