● نماز وتر :
◈ رکعات کی تعداد:
➊ ایک وتر ۔ سیدنا عثمانؓ نے صرف ایک وتر پڑھا، اور آپ نے فرمایا:
’’ای وتری‘‘
یعنی یہ میرا وتر ہے۔
صحیح بخاری ، ابواب الوتر، رقم: ۹۹۰ – صحيح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، رقم : ١٧٤٨ – السنن الكبرىٰ للبيهقي : ٢٥/٣.
➋ تین وتر۔
صحیح بخاری ، کتاب صلاة التراويح، رقم : ۲۰۱۳ – صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، رقم: ۱۷۲۳ .
◈ وتر پڑھنے کا طریقہ :
سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’تین وتر نہ پڑھو، پانچ یا سات وتر پڑھو اور تین پڑھ کر نماز مغرب کی مشابہت نہ کرو۔‘‘
سنن دار قطنی : ٢٤/٢ ، رقم : ١٦٣٢ ، ١٦٣٣ – مستدرك حاكم ٢٠٤/١ ـ سنن الكبرى بیهقی: ۳۱/۳ – معرفة السنن والآثار ، رقم : ٥٥٠٩١ – صحيح ابن حبان ، رقم : ٢٤٢٩ – ابن حبان ۹۱ اور حاکم نے اس کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
معلوم ہوا کہ تین وتر یا تو ایک تشہد اور ایک سلام کے ساتھ پڑھے جائیں یا پھر دوسلام کے ساتھ ۔ ان ہر دو صورتوں میں نماز وتر کی مشابہت نماز مغرب کے ساتھ ہر گز نہیں رہتی ۔
➌ پانچ وتر ۔ درمیان میں کوئی تشہد نہیں ۔
صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، رقم: ۱۷۲۰.
➍ سات وتر ۔ چھ رکعات کے بعد درمیانہ تشہد ہوگا۔
صحيح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، رقم : ٧٤٦ .
➎ نووتر ۔ آٹھویں رکعت کے بعد درمیانہ تشہد ہوگا۔
صحيح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، رقم: ٧٤٦ .
◈ دعائے قنوت :
﴿اللهم اهدني فيمن هديت ، وعافني فيمن عافيت ، وتولني فيمن توليت ، وبارك لي فيما أعطيت ، وقني شرما قضيت ، إنك تقضي ولا يقضى عليك ، وإنه لا يذل من واليت ولا يعز من عاديت تباركت ربنا وتعاليت .﴾
سنن الكبرى بيهقى : ۲/ ۲۹۰ – سنن ابوداؤد، باب القنوت في الوتر ، رقم : ١٤٢٥ – شيخ البانىؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
’’اے اللہ ! مجھے ہدایت دے کر ان لوگوں کے زمرے میں شامل فرما جنہیں تو نے ہدایت دی۔ اور مجھے اپنا دوست بنا کر ان لوگوں میں شامل کر دے جنہیں تو نے اپنا دوست بنایا ، اور جو کچھ تو نے مجھے عطا کیا اس میں برکت ڈال دے۔ اور جس شر کا تو نے فیصلہ کیا ہے مجھے اس سے محفوظ فرما۔ بے شک تو ہی فیصلہ صادر کرتا ہے اور تیرے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا اور جس کا تو والی بنا وہ کبھی ذلیل و خوار نہیں ہوسکتا اور وہ شخص عزت نہیں پا سکتا جس سے تو دشمنی کرے۔ اے ہمارے رب ! تو برکت والا اور بلند و بالا ہے۔‘‘
◈ ضروری مسائل :
➊ مروجہ دعا:
﴿اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُك﴾
کو قنوت وتر قرار دینا نبی کریم ﷺ سے قطعی ثابت نہیں ہے۔
➋ وتروں کے بعد تین دفعہ یہ ذکر کیا جائے ۔
﴿سُبْحَانَ الْمَلِكِ القُدُّوْسِ﴾
سنن ابوداؤد، باب في الدعاء بعد الوتر، رقم : ١٤٣٠ – شیخ البانیؒ نے اس کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
’’پاک ہے وہ بادشاہ ، نہایت پاک ۔‘‘
◈ قنوت نازلہ:
وتروں میں دُعائے قنوت رکوع سے قبل اور بعد دونوں طرح جائز ہے۔ سید نا ابی بن کعبؓ سے مروی ہے :
﴿أن رسول الله كان يؤتر فيقنت قبل الركوع﴾
سنن ابن ماجه ، كتاب إقامة الصلوٰت والسنة فيها ، رقم: ۱۱۸۲ – شیخ البانیؒ نے اسے ”صحیح “ کہا ہے۔
’’بے شک رسول اللہ ﷺ وتر میں دُعائے قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے ۔‘‘
❀ محمد بن سیرینؒ فرماتے ہیں:
میں نے سیدنا انس بن مالکؓ سے دُعائے قنوت کے بارے میں پوچھا کہ کب مانگی جائے تو انہوں نے کہا:
﴿قنت رسول الله ﷺ بعد الركوع﴾
’’رسول الله ﷺ دعا قنوت رکوع سے قبل پڑھتے ۔‘‘
سنن ابن ماجه ، كتاب إقامة الصلوة والسنة فيها ، رقم : ١١٨٤ ۱۔ شیخ البانیؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
❀ سیدنا انس بن مالکؓ فرماتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ کے ستر صحابہ کرام جب شہید ہو گئے ، تو آپ ﷺ نے ایک ماہ صبح کی نماز میں قنوت کیا تھا۔
صحیح بخاری، کتاب المغازي، رقم : ٤٠٩٠ .
◈ قنوت میں ہاتھ اٹھانا:
قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے چاہئیں۔ سیدنا انس بن مالکؓ فرماتے ہیں:
یقیناً میں نے دیکھا رسول اللہ ﷺ جب صبح کی نماز پڑھتے ، دونوں ہاتھ اٹھاتے ، اور کفار پر بد دعا فرماتے ۔
مسند ابوعوانة، رقم: ٥٩١٣ .
امام اہل سنت والجماعت احمد بن حنبل اور اسحاق بن راھویہؓ دونوں قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کے قائل تھے ۔
مسائل أبو داؤد، ص : ٦٦ .
شیخ ابن بازؒ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
شریعت کا حکم ہے کہ قنوت وتر میں بھی رفع الیدین کیا جائے کیونکہ یہ قنوت بھی قنوت نازلہ ہی کے جنس میں سے ہے، اور یہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ:
﴿أنه رفع يديه حين دعائه فى قنوت النوازل .﴾
السنن الكبرىٰ للبيهقى، كتاب الصلاة، باب رفع اليدين في القنوت، ح: ٣٢٢٩.
’’آپ نے قنوت نازلہ میں دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے تھے ۔‘‘
(امام بیہقی نے اس حدیث کو صحیح سند کے ساتھ بیان فرمایا ہے )
فتاویٰ اسلامیه : ٤٥١/١ – ٤٥٢ ، طبع دار السلام، لاهور۔
امام بیہقی نے السنن الکبریٰ (۳/ ۳۹، تحت الحدیث : ۴۸۰۹ ) میں رقم کیا ہے:
﴿وقد روينا فى قنوت صلاة الصبح بعد الركوع ما يوجب الاعتماد عليه وقنوت الوتر قياس عليه .﴾
’’اور ہم نے صبح کی نماز میں رکوع کے بعد قنوت کے بارے قابل اعتماد روایات ذکر کی ہیں اور قنوت وتر اس پر قیاس ہے۔‘‘