اہل حدیث میں اختلاف
یہ تحریرمولانا ابو صحیب داؤد ارشد حفظہ اللہ کی کتاب تحفہ حنفیہ سے ماخوذ ہے۔ یہ کتاب دیوبندی عالم دین ابو بلال جھنگوی کیجانب سے لکھی گئی کتاب تحفہ اہلحدیث کا مدلل جواب ہے۔

اہل حدیث میں اختلاف

مؤلف تحفہ اہل حدیث نے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے اہل حدیث کی ذیلی تنظیموں کو بھی نشانہ بنایا کہ ان میں غرباً اہل حدیث امراء اہل حدیث (جھوٹے پر اللہ کی لعنت) مسلمین اہل حدیث علماء اہل حدیث، لشکر طیبہ، سلفی اہل حدیث اثری اہل حدیث وغیرہ ہیں جن میں متعدد اختلافات ہیں۔ (جن کا ذکر آگے آرہا ہے) حالانکہ کسی جماعت میں اختلاف رائے کا ہونا اس کے کاذب اور باطل ہونے کی دلیل نہیں ہوتی۔ یہیں سے ہی ہمارے معاصر کو بھول لگی ہے کہ وہ اختلافات اہل حدیث کو پلے باندھ کر ہمیں مطعون کر رہا ہے۔ (اپنے اختلاف کا تو خیر سے ذکر ہی نہیں کرتا) حالانکہ قرآن شہادت دیتا ہے کہ بسا اوقات انبیاء کرامؑ میں بھی اختلاف ہوا۔ مثلا سورۃ الانبیاء میں داؤد اور سلیمانؑ کا مقدمہ میں اختلاف رائے کا ذکر ہے۔ آخر میں ارشاد فرمایا کہ
وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا۔
یعنی دونوں کو ہم نے نبوت و علم بخشا تھا۔
(الانبیاء، آیت 79)

دیکھیے قرآن مجید تو ان کے اختلاف رائے کے باوجود ان کی تعریف کرتا ہے۔ مگر ہمارا معاصر ہمیں اختلاف کی وجہ سے طعن کرتا ہے۔ اگر ہر جگہ اسی اصول کو ہی اختیار کر لیا جائے کہ چونکہ فلاں فلاں میں اختلاف ہے تو ہر چیز پر اعتبار اٹھ جائے گا۔ دو ججوں، دو عدالتوں، دو ملکوں، دو گھروں، دو بھائیوں، میں اختلافات تو زندگی کا ایک معمول بن چکے ہیں۔ تو کیا اس کا یہ معنی ہے کہ دو اختلاف کرنے والے جج پاگل دو مختلف عدالتیں فضول دو مختلف ملک باطل پرست دو مختلف گھر جہنم کا ایندھن اور دو مختلف بھائی سبیل المومنین سے دور اور طریق یہود پر گامزن ہیں۔ مگر کوئی صاحب علم اس مؤقف کی تائید نہیں کرے گا۔ کیونکہ دنیا میں کوئی ایسی جماعت نہیں، جس میں اختلاف رائے نہ ہو۔ اگر ہمارے معاصر کو ہماری بات پر اعتماد نہیں تو وہ اپنے استاد محترم کی تالیف (الکلام المفید) کا باب ہفتم اور ہشتم کا مطالعہ کرلے جہاں قرآن و حدیث کی واضح نصوص سے انبیاء کرام صحابہ کرام اور فرشتوں کے اختلاف پر ٹھوس اور معتبر حوالے نقل کیے گئے ہیں اور آئمہ اربعہ اور مجتھدین کے اختلاف کا بھی ذکر کیا ہے۔ ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ
اہل علم مقلد صرف لکیر کے فقیر ہی نہیں ہوتے۔ وہ دلائل کی صحت و سقم کو پر کھتے اور جانچتے ہیں اور کمزور دلائل میں اپنے امام کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ بایں ہمہ وہ اصولی طور پر مقلد ہی ہوتے ہیں۔ امام ابو یوسف امام محمد اور امام طحاوی وغیرہ آئمہ نے بیسیوں مسائل میں حضرت امام ابو حنیفہ کے خلاف نام لے کر دلائل پیش کیے ہیں۔
(طائفہ منصورہ ص 112)

مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی مرحوم فرماتے ہیں کہ
انهما خالفا أبا حنيفة في ثلثى مذهبه
(مقدمه عمدة الرعاية ص 8)

یعنی امام غزالی فرماتے ہیں کہ قاضی ابو یوسف اور امام محمد نے امام ابو حنیفہ کے مذہب سے ایک ثلث (تیسرے حصے) میں اختلاف کیا ہے۔

ہمارے اختلاف کو چھوڑیئے ذرا اپنے اختلافات کی نوعیت بتائیے کہ آپ کے اکابرین میں اختلاف کیوں تھا؟ کیا وہ بھی باطل پرست تھے؟ اگر وہ ایسے ہی تھے تو ہمیں اس سے کیوں مطعون کر رہے ہو؟ یہ ایک ایسا وزنی اعتراض تھا کہ مؤلف تحفہ اہل حدیث کے پاس اس کا جواب تھا نہ ہی کوئی تاویل اس لیے انہوں نے اس حقیقت سے سرے سے انکار ہی کر دیا کہ ان میں اختلاف بھی تھا۔
دیکھیے(تحفہ اہل حدیث ص 70) انا للہ وانا الیہ راجعون

قارئین کرام! آپ فقہ حنفی کی کوئی مترجم کتاب اٹھا کر دیکھ لیجیے جس میں آپ کو مؤلف تحفہ اہل حدیث کے کاذب ہونے کا یقین ہو جائے گا۔

ان تمام چیزوں کو بھی جانے دیجئے دیکھئے کہ برصغیر کی حنفیت میں کوئی بریلوی ہے کوئی حیاتی دیوبندی ہے تو کوئی مماتی دیوبندی ہے۔ پھر ان کی جو ذیلی تنظیمیں ہیں ان پر غور کیجیے تو یہ لوگ تقریبا سو کے لگ بھگ گروہ بن جاتے ہیں۔ اب بھی یہ لوگ اتحاد اور اتفاق کے مدعی اور غیروں کو انتشار کا شکار باور کراتے ہیں۔ مماتی دیو بندیوں کو حیاتی کن کن القاب سے نہیں نوازتے جن کو نقل کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔

الغرض کسی گروہ میں بعض جزوی مسائل میں اختلاف یا بعض شبہات کی بنا پر اختلاف ہو جاتا کوئی بعید از عقل اور راہ صواب سے بھٹک جانے کی دلیل نہیں۔کیا حضرت فاطمہؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے باغ فدک کے معاملہ میں ناراض نہیں ہوئیں؟ کیا حضرت علی المرتضیؓ نے تامل کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کی بیعت نہیں کی؟ کیا حضرت علی المرتضیؓ سے امیر معاویہؓ کی جنگیں نہیں ہوئیں؟ کیا صحابہ کرام میں ان حالات میں دو گروہ نہیں بنے؟ اگر یہ تمام کام ہوئے ہیں۔ یقیناً ہوئے ہیں تو کیا وہ آپس میں تلوار اٹھانے کے باوجود نص قرآنی سے ﴿رحماء بينهم﴾ (الفتح : 29) تھے تو اہلحدیث میں اگر بعض فروعی امور میں اختلاف ہے تو یہ چیز ان کی عظمت کے منافی کیوں ہے؟

جماعت غرباء اہل حدیث کے انفرادی مسائل اور ان کا حل

فرماتے ہیں کہ سن لیجیے غیر مقلد مولانا عبد الوہاب ملتانی نے امامت کا دعویٰ کیا تھا۔
➊ کہتا ہے میں امام وقت ہوں۔ مظالم رو پڑی (بحوالہ تعارف علماء اہل حدیث ص 56)
➋ امام وقت اپنے نبی کا نائب ہوتا ہے۔ (ایضا ص 56)
➌ تیری بیعت مثل ابوبکر صدیقؓ کے ہوئی۔ (ایضا 56)
➍ جو امام کی بیعت کے بغیر مرے گا جاہلیت کی موت مرے گا۔ (ایضا 57)
➎ قربانی کے دنوں میں چار آٹھ آنے کا گوشت بازار سے خرید کر تقسیم کر دینے سے قربانی ہو جاتی ہے۔(ایضا)
➏ نیز انڈے کی قربانی جائز ہے۔(فتاوی ستاریہ)

یہ مسلک تھا امیر جماعت غرباء اہل حدیث کا (تحفہ اہل حدیث ص 65)

الجواب : اولا :- اعتراض ہمیشہ وہی مقبول ہوتا ہے جو فریق جانی کا متفق ہو۔ غیر متفق اعتراض کر کے فریق مختلف کے پورے گروہ کو مجرم قرار دیا عقل وانصاف سے بعید ہے۔ مسٹرئی ناصر عیسائی مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر کرتا ہے۔
یہ مزاروں کی تعمیر، یہ قبروں کی پوجا، یہ پھولوں کی چادریں، یہ منتیں، یہ قبروں، پر دعائیں کیا معنی ہے ان کا؟ کیا اللہ مسجد یا گھر میں آپ کی دعا نہیں سن سکتا؟ جب تک دس پیروں کے پنجروں کے آگے گھٹنے یا ماتھا نہ ٹیک لیں آپ کو سکون نہیں آتا۔ اللہ کو تو آپ نے اپنی زندگی سے خارج ہی کر دیا۔
(عیسائی رسالہ ماہنامہ کلام حق جولائی 1999ء صفحہ 21)

کیا اس عیسائی کا اعتراض درست ہے جو پوری امت محمدیہ کو للکار رہا ہے کہ آپ نے اللہ کو اپنی زندگی سے خارج کر دیا ہے۔ اگر نہیں یقیناً نہیں کیونکہ بعض مسلمانوں کے عمل کو پوری امت کی طرف منسوب کر کے اس کا ذمہ دار ٹھہرانا بہر حال غلط ہے۔ اسی طرح اہل حدیث میں سے کسی شخص کے انفرادی اجتہاد و رائے سے پوری جماعت اہل حدیث کو مجرم قرار دینا غلط ہے۔

ثانیا: بلاشبہ گوشت خرید کر صدقہ کرنے سے قربانی ادا نہیں ہوتی مگر یہ موقف صرف مولانا عبدالوہاب کا ہی نہیں بلکہ معروف صحابی حضرت ابن عباسؓ کا بھی ہے۔ انہوں نے اپنے مولیٰ ابن عمیر کو دو درہم دیکر کہا کہ اس کا بازار سے گوشت خرید کرلاؤ اور جو ملے اس سے کہو کہ یہ ابن عباسؓ کی طرف سے قربانی ہے۔
(المحلی بالا عمار ص 10 ج 6)

جو توجیہ اور جواب آپ ابن عباسؓ کے فتویٰ کا دیں گے وہی جواب ہماری طرف سے مولانا مرحوم کے فتوی کا سمجھ لیجیے گا۔

ہماری تو آنکھ کا تنکا بھی آپ کو نظر آگیا ہے مگر اپنی آنکھ کا شہتیر بھی آپ کو نظر نہیں آتا۔ سنئے مولانا غلام مرشد صاحب حنفی دیوبندی سابقه خطیب بادشاہی مسجد لاہور نے ایک بار خطبہ عید میں کہا تھا کہ قربانی پر حکومت کی طرف سے منصوبہ بندی کر کے جانوروں کی قیمت کسی قومی فنڈ میں ادا کر دی جائے تو اس رقم کی ادائیگی سے مذہباً قربانی تصور کی جائے گی۔
(روزنامہ نوائے وقت 20 جولائی 1959 ء بحوالہ فتاوی علمائے حدیث ص 80 ج 13)

یہ فتویٰ مولانا عبدالوہاب کے فتویٰ سے زیادہ غلط اور نتائج کے لحاظ سے سنگین ہے۔ رہا انڈے کی قربانی کا مسئلہ تو اس میں انہوں نے حدیث سے استدلال کیا ہے۔
(فتاوی ستاریہ ص 140 ج 4)میں لکھا ہے کہ حدیث جمعہ میں آیا ہے کہ جو شخص جمعہ میں سب سے پہلے آیا اس کو اونٹ کی قربانی کا ثواب ملے گا اور اس کے بعد آنے والے کو گائے کی قربانی کا اور جو اس کے بعد آئے اس کو بکرے بھیڑے کی قربانی کا اور جو اس کے بعد آیا اس کو مرغ کی قربانی کا ثواب ملے گا اور جو اس کے بعد آیا تو اس کو انڈے کی قربانی کا ثواب ملے گا۔

مفتی غرباء اہل حدیث نے جس حدیث کی نشان دہی کی ہے وہ (بخاری ص 121 ج 1 و مسلم ص 282 ج 1) میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے اس میں لفظ ھدی ہے جو بمعنی قربانی مستعمل ہے۔ عام کتب لغت، مگر اس حدیث میں اس کا استعمال بمعنی صدقہ ہوا ہے جیسا کہ محدث مبارکپوری نے صراحت کی ہے۔
مرعاة ص 462 ج 4 یہی بات حافظ ابن حجر نے کہی ہے۔
(فتح الباری ص 293 ج 2)

الغرض یہاں زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے حدیث کے مفہوم کو سمجھنے میں خطاء کی ہے۔ یہ بات آپ کو معلوم ہی ہو گی کہ احناف کے نزدیک مفتی اگر خطاء بھی کرے تو تب بھی ماجور ہوتا ہے۔
اور بخاری ص 1092 ج 2 و مسلم ص 76 ج 2 کی حدیث آپ کا مستدل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کا فتویٰ حقیقت میں غلط ہے۔ اگر آپ کو ہماری اس حدیث سے اتفاق نہیں تو نہ سہی مگر اپنے استاذ المکرم کی تالیف (الکلام المفید ص 167) کا ضرور مطالعہ کر لینا۔ جہاں انہوں نے اس پر جی بھر کے لکھا ہے۔ امید ہے کہ اس سے آپ ضرور اتفاق کریں گے۔

ثم اقول! آپ کو مولانا عبدالوہاب ملتانی سے تو اختلاف ہے جبکہ آپ نے صحابہ کو معیار حق قرار دیا ہوا ہے اس مقدس گروہ میں سے حضرت بلالؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ کا فتویٰ ہے کہ مرغ کی قربانی جائز ہے۔
(المحلی بالا بار ص 9 ج 6 مسئلہ نمبر 973, تلخیص الحير ص 138 ج 4)

علامہ ابن حزم نے یہاں پر یہ دعوی بھی کیا ہے کہ ان سے کسی صحابی کا اختلاف ثابت نہیں ہے۔ آپ ہمت کیجیے اور ابن حزم کے دعوی کو توڑ دیجیئے ورنہ یہی دلیل آپ پر محبت ہے کہ آپ صحابہ کرام کو معیار حق قرار دیتے ہوئے بھی ان کے فتاویٰ سے اختلاف کر رہے ہیں۔ رہا ہمارا عقیدہ اور نظریہ تو بغور سنتے کہ قرآن نے قربانی کے لیے جانوروں کا ذکر کیا ہے حدیث صحیح میں آتا ہے کہ لا تذبحواالامسنة الا ان يعسر عليكم فتذبحوا جذعة من الضان (مسلم ص 155 ج 2)

یعنی حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قربانی میں نہ ذبح کرو مگر دووانتہ۔ ہاں اگر دووانتہ میسر نہ ہو تو بھیٹر کا کھیرا ذبح کر لو۔

اس حدیث سے واضح ہے کہ قربانی کے لیے مسنہ ہونا شرط ہے اور بامر مجبوری بھیڑ کے کھیرے کی قربانی جائز ہے۔

ظاہر ہے کہ پرندہ اور انڈہ نہ مسنہ ہو سکتا ہے نہ کھیرا باہیں وجہ ان صحابہ کرام اور مولانا عبدالوہاب کا فتویٰ حدیث کے مخالف ہونے کی وجہ سے قابل عمل نہیں ہے۔

ثانیاً : آپ نے جو نمبر ۱،۲،۳،۴ میں مظالم روپڑی کے حوالے سے عبارات ذکر کی ہیں وہ آپ کا کذب اور غلط بیانی ہے ۔ ہم نے مظالم روپڑی کو متعدد بار بغور دیکھا ہے اس میں کوئی ایسی عبارت نہیں ہے اور نہ ہی آپ مولانا عبدالوہاب ملتانی کی کسی کتاب سے ایسی عبارات پیش کر سکتے ہیں۔ مولانا عبدالوہابؒ ملتانی فرماتے ہیں کہ
’’بھائی میرا کب دعویٰ ہے امامت مثل ابوبکر صدیقؓ کا۔‘‘
(بحوالہ مقاصد الامامة و مناقب الخلافة ص 6)

عزیز بھائی بات صرف یہ ہے کہ جب ہندوستان میں اسلامی حکومت کو انگریز نے طاقت کے بل بوتے پر ختم کر دیا تو مولانا عبدالوہاب نے جماعت غرباء کی بنیاد رکھی۔ جس میں شورائی نظام سے ان کو امام منتخب کر لیا گیا اور باقی لوگوں نے ان کی بیعت کر لی۔ جس کا مقصد دوبارہ احیاء خلافت تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ لوگ اپنے مقصد میں ناکام رہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایسی بیعت کے ناجائز و حرام ہونے کے لیے آپ کے پاس کیا دلیل ہے اس کی حرمت کا فتویٰ صادر کرتے ہوئے ذرا اپنے فرقہ دیوبند کے حالات کا خوب جائزہ لے لینا کیونکہ ان میں بیعت کار حجان آج بھی موجود ہے بلکہ آپ کے ہاں تو فوت شدہ بزرگ کے نام پر بھی بیعت کی جاتی ہے۔ مولانا عبیدالرحمن محمدی صاحب کا چشم دید بیان ہے کہ رائیونڈ میں سالانہ اجتماع 1993ء میں مولانا انعام نے تبلیغی لوگوں سے اپنے ہاتھ پر مولانا محمد الیاس کی بیعت لی تھی۔ جس کی کیسٹ مرکز الدعوة والارشاد لاہور سے مل سکتی ہے۔
دیکھئے(تبلیغی جماعت ص 21.23)

یہ بدعی بیعت کا طریقہ کہ زندہ عالم فوت شدہ کے نام پر لوگوں سے بیعت لے تو آپ کو نظر نہیں آیا مگر مولانا عبدالوہاب اور ان کی جماعت کی بیعت آپ کو کھٹکتی ہے۔ غالباً آپ کو بدعت سے پیار اور سنت سے عداوت ہے۔ اس بات کی تائید اکابر دیابنہ کے رویہ سے بھی ہوتی ہے کہ ان لوگوں نے دین میں بے شمار بدعات ایجاد کر رکھی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ حضرات جب تبلیغی چلہ وغیرہ پر جاتے ہیں تو ان لوگوں کی اقتداء میں بھی نماز ادا کر لیتے ہیں جن کو یہ حضرات بدعتی و مشرک قرار دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان کی بدعات اور شرکیہ عقائد کی تردید نہیں کرتے اور نہ ہی جہاد کی دعوت دیتے ہیں۔ اگر آپ کو میری اس بات پر یقین نہیں تو مولانا محمد اسماعیل صاحب محمدی آپ آئیے میں اور آپ دونوں تبلیغی جماعت میں تین دن لگاتے ہیں جس میں تبلیغی نصاب کی بجائے قرآن و سنت کا درس ہوا کرے گا۔ جس کو یہ راقم اور آپ باری باری توحید اتباع سنت اور رو بدعات اور دعوت جہاد پر دیا کریں گے۔ ان تینوں مضامین سے جس ایک کو آپ چاہیں منتخب کر لیں اور تیسرے کو خاکسار اور آپ باری باری بیان کریں گے مگر یہ راقم پورے وثوق اور یقین کامل سے کہتا ہے کہ آپ کے اکابر اس کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ دیابنہ کو توحید سے ضد اور شرک سے پیار سنت سے دشمنی اور بدعات سے محبت، جس کی متعدد مثالیں علماء دیوبند کی کتابوں میں موجود ہیں تسبیح سے لگاؤ اور جہاد سے نفرت ہے۔

حالانکہ توحید اسلام کی بنیاد اتباع سنت طریق المومنین اور جہاد اسلام کی چوٹی ہے اس قدر بدعات اور مبتدعین سے پیار و محبت اور الفت کے باوجود آپ کا دعویٰ اہل سنت ہونے کا ہے۔

نماز کے بعد اجتماعی دعا

فرماتے ہیں غیر مقلدین حضرات فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کو بدعت کہتے ہیں دعا نہ مانگنے والوں کے خلاف حال ہی میں ایک غیر مقلد مولوی بشیر الرحمن سلفی نے کتاب لکھ ماری ہے۔ اس کتاب میں ثابت کیا ہے کہ فرض نماز کے بعد دعا بدعت نہیں سنت ہے. اب بھی کہو کہ ہم میں اختلاف نہیں ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 66)
الجواب : اولا: نفس دعا سے تو کسی کو اختلاف نہیں اختلاف تو بعد نماز دعا کی کیفیت سے ہے کہ جو عام مساجد میں نماز کے بعد دعا کو امام التزام کے ساتھ اجتماعی صورت میں مانگتا ہے اور مقتدی پیچھے پیچھے آمین آمین کہتے ہیں اس ہیت اور کیفیت پر آپ کے پاس کوئی دلیل شرعی ہے تو بیان کیجیے۔

ثانیاً : یہ اختلاف فقط اہل حدیث ہی میں نہیں بلکہ مبتدعین دیابنہ میں بھی اختلاف ہے اور حکیم عماد الدین حنفی دیوبندی نے اس کے رو پر التحقيق الحسن في نفي الدعا الاجتماعي بعد الفرائض والسنن کے عنوان سے ایک مبسوط کتاب بھی تالیف کی ہے جو اڑھائی صد صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں انہوں نے چھتیس(۳۶) اکابرین علماء دیوبند کی عبارات نقل کی ہیں کہ یہ دعا بدعت ہے جس میں مولانا انور شاہؒ کاشمیری (عرف الشذی ص 86 ج 1) مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی (مجموعہ فتاوی ص 100 ج 2)، مفتی محمد شفیع (معارف القرآن ص 3578) اور مولانا محمد یوسف بنوری جیسے اکابر دیوبند شامل ہیں۔ (التحقيق الحسن ص 47717)

ثالثاً : قارئین کرام حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس کے بدعت ہونے کا فتوی دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اس کیفیت کے ساتھ دعا کا ثبوت قرآن وحدیث میں قطعا نہیں ظاہر ہے کہ دعا عبادت ہے۔ اور عبادت کا جو طریقہ شریعت میں منقول نہیں وہ بدعت ہوتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد
’’یعنی جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہماری طرف سے کوئی ثبوت نہیں تو وہ کام مردود ہے۔‘‘
(بخاری ص 1092 ج 2 و مسلم ص 77 ج 2)

فقہاء احناف نے اسی وجہ سے ہی طلوع فجر کے بعد دو رکعت سنت کے علاوہ نفل پڑھنے کو مکروہ لکھا ہے۔
لانه عليه السلام لم يزد عليها
’’اس لیے کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے زیادہ نماز نہیں پڑھی۔‘‘
(ہدایہ ص 70 ج 1)
جبکہ ہر حضرات نماز کے بعد اجتماعی دعا کو سنت قرار دیتے ہیں وہ اس کا ثبوت دینے کی بجائے عام دعا کی روایات نقل کرتے ہیں۔

مولانا بنوری فرماتے ہیں کہ
الاحتجاج بالعموم انما ينبغى فيما لم يرد للخاص حكم عليحدة ونفس ثبوت الرفع في الدعاء امر اخر غيران الادعية الله في أثر المكتوبات لم يثبت فيها الرفع
یعنی دلیل عام کے ساتھ حجت پکڑنا وہاں مفید ہے جہاں خاص کا حکم علیحدہ وارد نہ ہوا ہو۔ اور یہ نفس دعاء کے اندر ایک علیحدہ چیز ہے مگر فرضوں کے بعد ہاتھ کھڑا کر کے دعائیں مانگنا آپ ﷺ سے ہر گز ثابت نہیں۔
(معارف السنن ص 410 ج 3)

اس سے چند سطور پر پہلے فرماتے ہیں کہ
قد راج في كثير من البلاد الدعاء بهيئة الاجتماعية رافعين ايديهم بعد الصلوت المكتوبة ولم يثبت ذلك في عهده
بہت سے شہروں میں یہ عام رواج ہو گیا ہے کہ فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی شکل میں دعا کرتے ہیں حالانکہ یہ طریقہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں موجود نہ تھا۔
(معارف السنن ص 409 ج 3)

آپ علمائے اہل حدیث کی فکر نہ کیجیے ذرا ہمت کریں اور مولانا بنوری کے رو کے لیے کتب حدیث کا مطالعہ کیجیے اور صحیح، صریح، مرفوع، متصل حدیث پیش کیجیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرض نماز کے بعد اجتماعی طور پر دعا مانگی ہو۔ مگر یاد رکھیئے کہ اگر آپ پوری زندگی بھی محنت کریں تو آپ کو ناکامی ہی ہوگی۔ جب آپ کے پاس اس کا کوئی ثبوت ہی نہیں تو محکم حدیث یہ مردود ہی ہے۔ اگر آپ کا دل اس حدیث کو نہیں مانتا تو یہ الگ بات ہے۔

بھینس کی قربانی

فرماتے ہیں کہ پروفیسر عبداللہ بہاولپوریؒ بھینس کی قربانی کو حرام کہتے ہیں۔ مولوی سلطان محمود جلال پوری حلال کہتے ہیں۔ دونوں اہل حدیث بھی کہلواتے ہیں دونوں اختلاف کو مٹانے کے بھی قائل ہیں۔ دونوں فقہ (حنفی) سے بیزار بھی ہیں۔ پھر یہ اختلاف کیوں ہو رہا ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 66)
الجواب : اولاً: بھینس کی قربانی کا مسئلہ اجتہادی ہے۔ کیونکہ عرب میں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام (بلکہ آج بھی) کے دور میں بھینس کا وجود نہ تھا۔ بلکہ یہ جانور خالص علاقہ عجم سے تعلق رکھتا ہے۔ جن لوگوں نے اسے گائے کی جنس میں سے قرار دیا انہوں نے اس کی قربانی کا بھی فتوی دیا اور جنہوں نے اس کو علیحدہ جنس قرار دیا انہوں نے قربانی کی ممانعت کا فتوی دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ نصوص کا اختلاف نہیں بلکہ اجتہاد کا اختلاف ہے اور اجتہادی اختلاف کو اصولاً اختلاف نہیں کہا جاتا۔
مثلاً چار آدمی جنگل میں سفر کر رہے ہوں اور نماز کا وقت ہو جائے قبلہ کا رخ معلوم نہ ہو چاروں اپنی اپنی کوشش اور اجتہاد سے علیحدہ علیحدہ رخ کرکے اسے سمت قبلہ سمجھ کر نماز ادا کرتے ہیں۔ نماز تو چاروں کی ہو گئی حالانکہ ایک نے مشرق کی طرف منہ کر کے دوسرے نے مغرب کی طرف اور تیسرے نے جنوب کی طرف اور چوتھے نے شمال کی طرف منہ کر کے نماز ادا کی تھی۔ اجتہاد تو صرف ایک کا درست تھا جس نے قبلہ کی جانب منہ کر کے نماز ادا کی۔ مگر کوئی اصولی اور فقہی اس کو اختلاف نہ کہے گا۔ اختلاف تو تب ہوتا جب یہ کسی شہر میں ہوتے، جس میں ہزاروں مساجد موجود تھیں۔ قبلہ کی صحیح سمت بتانے والے لاکھوں انسان حاضر تھے۔ مگر پھر بھی کسی اور سمت منہ کر کے نماز ادا کرتے۔ اسی طرح بھینس کی قربانی کا مسئلہ اجتہادی ہونے کی وجہ سے گو فتاویٰ کے لحاظ سے مختلف ہیں مگر اصولی متفق ہیں۔ پھر یہ بھی معلوم ہو کہ جنہوں نے عدم جواز کا فتوی دیا ہے انہوں نے احتیاط کو محفوظ رکھا ہے حرام کسی نے بھی نہیں کہا۔ یہ آپ کی زیادتی ہے۔
محدث روپڑی فرماتے ہیں کہ قرآن مجید پارہ ۸ رکوع ۴ میں ہے (بھیمۃ الانعام) کی چار قسمیں بیان کی گئی ہیں۔ دنبہ، بکری، اونٹ، گائے، بھینس ان چار میں نہیں۔ اور قربانی کے متعلق حکم ہے (بھیمۃ الانعام) سے ہو اس بنا پر بھینس کی قربانی جائز نہیں۔ ہاں زکوۃ کے مسئلہ میں بھینس کا حکم گائے والا ہے جیسے گائے تیس راس ہو جائیں اور وہ باہر چرتی ہوں ان کا چارہ قیمتاً نہ ہو ان میں ایک سال کا بچھڑا یا بچھڑی۔ اس طرح بھینس میں جب ان کی گنتی تیس ہو جائے وہ باہر چرتی ہوں ان کا چارہ قیمت نہ ہو تو ایک سال کا بچہ یا بچی زکوۃ ہے۔
(موطا امام مالک باب ما جاء فی صد 5 البقرة)

یادر ہے کہ بعض مسائل احتیاط کے لحاظ سے دو جہتوں والے ہوتے ہیں اور عمل احتیاط پر کرنا پڑتا ہے۔ ام المومنین سیدہ سودہؓ کے والد زمعہ کی لونڈی سے زمانہ جاہلیت میں عقبہ بن ابی وقاص نے زنا کیا۔ جس سے لڑکا پیدا ہوا جو اپنی والدہ کے پاس پرورش پاتا رہا۔ زانی مر گیا اور اپنے بھائی سعد بن ابی وقاصؓ کو وصیت کر گیا کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرا ہے اس کو اپنے قبضہ میں کر لینا۔ فتح مکہ کے موقع پر سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ نے اس لڑکے کو پکڑ لیا اور کہا کہ یہ میرا بھتیجا ہے۔ زمعہ کے بیٹے نے کہا میرے باپ کا بیٹا ہے لہذا میرا بھائی ہے اس کو میں لوں گا۔ مقدمہ دربار نبوی میں پیش ہوا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ
الولد للفراش وللعاجر الحجر
یعنی اولاد بیوی والے کی ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔ یعنی وہ ناکام ہے اور اس کا حکم سنگسار کیا جانا ہے۔
(مكتلوۃ باب اللعان فصل اول)

بچہ سودہؓ کے بھائی کے حوالے کر دیا۔ جو سیدہ سودہؓ کا بھی بھائی بن گیا۔ لیکن سیدہ سودہؓ کو حکم فرمایا کہ اس سے پردہ کرے۔ کیونکہ اس کی شکل و صورت زانی سے ملتی جلتی تھی جس سے شبہ ہوتا تھا کہ یہ زانی کے نطفہ سے ہے۔ اس مسئلہ میں شکل وصورت کے لحاظ سے تو پردہ کا حکم ہوا اور جس کے گھر میں پیدا ہوا اس کے لحاظ سے اس کا بیٹا بنا دیا گویا احتیاط کو ملحوظ رکھا۔ ایسا ہی بھینس کا معاملہ ہے۔ اس میں دونوں جہتوں میں احتیاط پر عمل ہوگا۔ زکوۃ ادا کرنے میں احتیاط سے اور قربانی نہ کرنے میں احتیاط ہے۔ اس بنا پر بھینسے کی قربانی جائر نہیں۔ اور بعض نے جو یہ لکھنا ہے کہ الجاموس نوع من البقر یعنی بھینس، گائے کی قسم ہے یہ بھی زکوۃ کے لحاظ سے صحیح ہو سکتا ہے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ بھینس دوسری جنس ہے۔
(فتاوی اہل حدیث ص 91190 ج 2)

غور کیجیے کہ علماء اہل حدیث کیا کہہ رہے ہیں اور ہمارے مہربان اسے کیا باور کرا رہے ہیں۔ شاید ان جیسے فقہی لوگوں میں شریعت کے تمام احتیاطی فتاویٰ میں حرمت ہے۔ اسے کہتے ہیں جو کالا وہی میرے باپ کا سالہ۔

نماز جنازه آہستہ یا بلند

فرماتے ہیں سارے غیر مقلد اہل حدیث جنازہ بلند آواز سے پڑھتے ہیں۔ لیکن لشکر طیبہ کے مفتی مبشر صاحب فرماتے ہیں کہ جنازہ آہستہ پڑھنا ہی زیادہ قوی ہے۔
(رسالہ الدعوۃ ستمبر 1996ء ص 36,37)(تحفہ اہل حدیث ص 67)
الجواب: اولاً:- ہمارے بھائی محمد اسماعیل جھنگوی ابو بلال کو فن مغالطہ میں کمال مہارت ہے۔ وہ فریق مخالف کی بات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے عادی بن چکے ہیں۔ مولانا مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ نے کہیں بھی نماز جنازہ کو بلند آواز سے پڑھنے کی ممانعت کا فتویٰ نہیں دیا۔
آپ کا مفصل فتویٰ ہم قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ میں قرآت جہرا (بلند) وسراً (آہستہ) دونوں طرح درست ہے۔ البتہ دلائل کی رو سے سراً پڑھنا زیادہ بہتر و اولیٰ ہے۔

سری پڑھنے کے دلائل یہ ہیں
➊ سیدنا ابوامامہؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ
السنة في الصلاة على الجنازة ان يقرا في التكبيرة الأولى بام القرآن مخافة ثم يكبر ثلاثا والتسليم عند الآخر
(نسائی ص 280 ج 1 وا محلی ص 129 ج 5 و شرح معانی الاثار ص 288 ج 1)

نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلی تکبیر میں سورہ فاتحہ آہستہ آواز سے پڑھے پھر تین تکبیریں کہے اور آخری تکبیر کے پاس سلام پھیرے۔ یعنی تکبیر اولیٰ کے بعد سورہ فاتحہ آہستہ پڑھے پھر باقی تکبیرات میں جیسا کہ دیگر احادیث میں صراحت ہے کہ دوسری تکبیر کے بعد درود پڑھے پھر تیسری تکبیر کے بعد دعا پڑھے اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دے۔ بعض صحیح روایات میں چار سے زائد تکبیرات کا بھی ثبوت موجود ہے۔ ملاحظہ ہو (احکام الجنائز للشیخ البانیؒ)

امام شافعیؒ نے (کتاب الام ص 391 ج 1) پر اور انہی کی سند سے (امام بیہقی سنن الکبری ص 39 ج 4) پر اور امام ابن الجارود (المنتقی ص 265) پر لائے ہیں کہ ابوامامہؓ کی مذکورہ حدیث ہے۔
ان السنة في الصلاة على الجنازة ان يكبر الامام ثم يقرأ بفاتحة الكتاب بعد التكبيرات الاولى سراً في نفسه ثم يصلى على النبي صلى الله عليه وسلم ويخلص الدعاء للجنازة في التكبيرات لا يقرا في شي منهن ثم يسلم سراً فى نفسه والسنة ان يفعل من وراء مثل ما فعل امامة
نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ امام تکبیر کہے پھر پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ آہستہ آواز میں پھر (تکبیر کے بعد) نبی ﷺ پر درود پڑھے پھر باقی تکبیروں میں میت کے لیے خلوص دل سے دعا کرے اور ان تکبیروں میں قراۃ نہ کرے۔ پھر آہستہ سلام پھیر دے اور سنت یہ ہے کہ مقتدی بھی وہ عمل کرے جو اس کا امام کرے۔

اور امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ
واصحاب النبي ﷺ لا يقولون بالسنة والحق الالسنة رسول الله ﷺ ان شاء الله تعالى
یعنی اصحاب نبی ﷺ کسی مسئلہ کے بارے میں کہیں کہ یہ سنت اور حق ہے تو اس کا مطلب محض یہی ہوتا ہے کہ یہ سنت نبوی ﷺ ہے۔ان شاء الله تعالى
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قرآة آہستہ کرنا مسنون ہے اور سرافی نفسہ مخافتہ کے الفاظ اس مسئلہ پر صراحتاً دلالت کرتے ہیں۔
اور جہری قرآۃ کرنے کا استدلال اس حدیث سے ہے کہ
سیدنا عوف بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ
صلی رسول على جنازة فحفظت من دعائه وهو يقول اللهم الغفرله وارحمه وعافه واعف عنه الحديث
رسول اللہ ﷺ نے ایک جنازہ کی نماز پڑھائی میں نے آپ ﷺ کی دعا سے یاد کر لیا آپ کہہ رہے تھے اے اللہ اس کو بخش دے اور اس پر رحم کر اور اس کو عافیت و معافی سے نواز دے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابی نے آپ ﷺ کے جنازہ پڑھانے سے یہ دعا حفظ کی اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب آپ ﷺ نے جہری پڑھا ہو۔

بہر کیف سری پڑھنا حدیث سے صراحتا اور جہری پڑھنا استدلالاً ثابت ہے۔ اس لیے آہستہ پڑھنا زیادہ قوی و بہتر ہے۔ تفصیل کے لیے علامہ البانیؒ کی کتاب (احکام الجنائز) ملاحظہ کریں۔
(آپ کے سوال قرآن و سنت کی روشنی میں ص 225 ج1)

اس عبارت کو مکرر پڑھیے اور غور کیجیے کہ ہمارے بھائی کیا کہہ رہے ہیں اور ابو بلال صاحب اس سے کیا کشید کرہے ہیں۔ مولانا ربانی نے جو کچھ بھی زیب رقم فرمایا ہے وہی اکابر اہل حدیث کا موقف ہے۔ جیسا کہ علامہ شوکانیؒ نے (نیل الاوطار ص 70 ج 4) میں نواب صاحب نے (السراج الوہاج ص 300 ج 1) میں محدث عظیم آبادیؒ نے (عون المعبود ص 389 ج 3) میں محدث مبارکپوریؒ نے (تحفة الاحوذی ص 142 ج 2) میں محدث رحمانیؒ (مرعاة ص 383 ج 5) میں اور محدث روپڑیؒ نے (فتاوی اہل حدیث ص 121 ج 2) میں اپنے تائیدی فتویٰ میں قرات کی انفرض سیدنا عوف بن مالکؓ کی صحیح حدیث (مسلم ص 311 ج 1) سے نماز جنازہ کا بلند آواز سے پڑھنا ثابت ہوتا ہے مگر حنفی اس سنت کے منکر ہیں اور ابو بلال عیاری سے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔

وتروں میں قنوت کا محل

فرماتے ہیں سارے وہابی کہتے ہیں بلکہ اس پر عامل ہیں کہ دعاء قنوت وتروں میں رکوع کے بعد ہونی چاہیے لیکن لشکر طیبہ کے مفتی مبشر صاحب فرماتے ہیں کہ رکوع سے پہلے بہتر ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 67)
الجواب : اولاً:- خاکسار بلکہ یہاں کی پوری جماعت اہل حدیث وتروں میں قنوت رکوع سے پہلے کرتی ہے معلوم ہوا کہ آپ نے یہ غلط بیانی کی ہے کہ سارے وہابی رکوع کے بعد مانگنے پر عامل ہیں۔
ثانیاً : مولانا مبشر احمد ربانی نے (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 1182 و نسائی ص 235 ج 3 دار قطنی 131 ج 12 بیتی 40 ج 3) سے سیدنا ابی بن کعبؓ کی صحیح، صریح، مرفوع، متصل حدیث پیش کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز وتر میں قنوت رکوع سے پہلے مانگتے تھے (آپ کے سوال الخ ص 167 ج 1) لہذا ابو بلال کا اسے ربانی صاحب کی طرف نسبت کر کے اہل حدیث کو مطعون کرنا غلط بیانی ہے۔ کیونکہ انہوں نے جو زیب رقم فرمایا ہے وہ حدیث نبوی ہے۔ جو عین اہل حدیث کا مسلک ہے۔
ثالثاً :جن لوگوں نے رکوع کے بعد دعا کا محل بتایا ہے وہ قنوت نازلہ اور قنوت وتر میں فرق کے قائل نہیں۔ جیسا کہ امام بخاری نے (صحیح بخاری کتاب میں باب القنوت قبل الركوع وبعدہ) میں جن احادیث کو بیان کیا ہے ان کا تعلق قنوت نازلہ سے ہے۔ اس ترجمہ باب سے ہی بعض اہل حدیث کو اشتباہ ہوا ہے اور انہوں نے سیدنا انسؓ سے مروی روایات کو قنوت وتر پر محمول کیا ہے (صلوۃ الرسول) حالانکہ محقق (صلوۃ الرسول نے ص 589) پر اس کی مفصل تردید بھی کی ہے۔ باقی رہا مؤلف (تحفہ اہل حدیث) کا اسے اختلاف باور کراتا تو جو ابا عرض ہے کہ یہ مسئلہ صحابہ کرام میں بھی مختلف فیہ تھا۔ جیسا کہ (فتح الباری ص 393 ج 2) میں ہے اور صحابہ کرام مؤلف تحفہ اہل حدیث کے نزدیک معیار حق ہیں ۔ (تحفہ اہلحدیث ص 53)

بغیر خطبہ کے نماز جمعہ

تجربے کرتے ہیں شوکانی اور نواب صدیق حسن خان غیر مقلد فرماتے ہیں کہ بغیر خطبہ کے جمعہ ہو جاتا ہے۔ روضہ الندیہ اور وحید الزمان فرماتے ہیں کہ بغیر خطبہ کے جمعہ نہیں ہوتا۔
(ھدیہ المحدی تحفہ اہل حدیث ص 67)
الجواب : اولاً: نواب صاحب نے تو بلاشبہ یہ بات کہی ہے مگر علامہ شوکانی کی طرف اس قول کی نسبت غلط ہے۔ ہاں انہوں نے اس کے وجوب سے انکار ضرور کیا ہے۔ اور سنت مؤکدہ قرار دیا ہے۔ دیکھئے (نیل الاوطار ص 282 ج 3)
ثانیاً: نواب صاحب کے قول کے برعکس تعامل اہل حدیث ہے اور اس کی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جاسکتی ہے کہ فلاں مقام پر اہل حدیث بدون خطبہ نماز جمعہ ادا کرتے ہیں۔ بلکہ محدث عظیم آبادی فرماتے ہیں کہ حق جمہور کے ساتھ ہے کہ خطبہ واجب ہے۔
(عون المعبود ص 429 12)
ثالثاً : بدون خطبہ کے جواز نماز جمعہ کے قول میں نواب صاحب منفرد ہی نہیں بلکہ معروف تابعی امام حسن بصریؒ اور امام ابن سیرینؒ اور دائود ظاہریؒ اور علامہ ابن حزمؒ ان کے ساتھ ہیں۔
(المحلی بالا عمار ص 264 ج 3)
پس جو جواب مؤلف امام حسن بصریؒ اور امام ابن سیرینؒ کے اقوال کا دے گا وہی جواب ہماری طرف سے نواب صاحب کا سمجھ لیجیے گا۔
رابعاً : خفیہ جن دلائل سے جمعہ کے لیے خطبہ کا وجوب ثابت کرتے ہیں انہیں دلائل سے دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھنا اور خطبہ کھڑے ہوکر دینا بھی ثابت ہوتا ہے۔ مگر کتنے ستم کی بات ہے خطبہ کو تو یہ لوگ فرض واجب قرار دیتے ہیں مگر درمیان بیٹھنے کو سنت کہتے ہیں۔

امام ابن حزم ان کے تناقض پر بات کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ
ثم تناقض فقالا ان خطب جالسا اجزاه وان خطب خطبة واحد اجزاء وان لم يخطب لم يجزه
(المحلی بالا مار ص 263 ج 3)
پھر ان کے اقوال میں تناقض ہے کہتے ہیں کہ اگر خطبہ بیٹھ کر دیا جائے یا ایک ہی خطبہ دیا جائے تو کفایت کر جاتا ہے۔ اور اگر خطبہ نہ دیا تو جائز نہیں۔ (حالانکہ ان کا ثبوت تو ایک ہی دلیل سے ہے)
خامساً : حضرت نواب صاحب کثیر التصانیف تھے اور (الروضتہ الندیہ) ان کے دور اول کی کتاب ہے۔ جبکہ شرح مسلم ان کی آخری کتب میں سے ہے۔ جسے مؤلف نے 1298ھ میں تحریر کرنا شروع کیا اور 1301ھ میں مطبع الصدیقی بھوپال سے شائع کیا تھا۔ جس میں انہوں نے نام حسن بصری وغیرہ سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ نماز جمعہ کے لیے خطبہ فرض اور شرط ہے۔
(السراج الوہاج ص 262 263 ج1)

جس سے ثابت ہوا کہ انہوں نے اپنے پہلے موقف سے رجوع کر لیا تھا۔ لیکن اگر اب بھی ابو بلال صاحب کی تسلی نہیں ہوئی اور وہ اسے اختلاف ہی کہتے ہیں اور نواب صاحب کے پہلے فتویٰ پر ہی بعد میں تو سینے کہ حنفیہ کے نزدیک خطبہ نماز جمعہ کے لیے شرط (فرض) ہے اور اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ اس کا آنحضرت ﷺ سے ترک ثابت نہیں۔
(ھدايه مع فتح القدير ص 28 ج 2)

یہی دلیل امام بیہقی نے (السنن الکبری) میں دی ہے۔ مگر علامہ ماردینی حنفی نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجرد فعل نبوی ﷺ سے اس کا وجوب ثابت کرنے میں نظر ہے۔
(الجوہر التقی ص 196 ج 3)

سادساً : آپ کو نواب صاحب کا فتویٰ تو بھولتا نہیں مگر اپنی فقہ پر آپ نے کبھی غور ہی نہیں کیا۔ ان کے فتویٰ سے ہزار گنا بدتر فتوے فقہ حنفی میں ہیں۔ مثلا یہی کہ خطبہ بغیر طہارت کے جائز ہے۔ بلکہ اگر غسل جنابت بھی نہ کیا ہو تب بھی خطبہ جائز ہے۔ پھر آپ کے نزدیک خطبہ بھی صرف ایک ہی فرض ہے اور وہ صرف الحمد للہ، سبحان الله، لا الہ الا اللہ کہنے سے بھی ہو جاتا ہے۔
(حلبي كبير ص 56 فتاوی شامی میں 150 ج2)

اگر آپ حنفی ہیں تو ایسا عمل کر کے دکھائیے کہ اذان کے بعد خطبہ بدون غسل پڑھیے جو صرف الحمدللہ وغیر وہی ہو۔ پھر غسل جنابت کر کے آئے اور لوگوں سے کیسے کہ میں نے فقہ حنفی پر عمل کیا ہے۔ پھر قدرت الٰہی کا نظارہ دیکھنا کہ ہر کلمہ گو خواہ دیوبندی ہو یا کوئی اور وہ آپ کو کیا کچھ کہتے ہیں۔ مگر قوی امید ہے کہ آپ اس کی ہمت نہیں کریں گے۔

نماز میں قرآۃ قرآن کا مسنون طریقہ

فرماتے ہیں وحید الزمان لکھتے ہیں کہ ہر رکعت میں اعوذ باللہ پڑھنا چاہیے (ھدیة المھدی) نواب صاحب فرماتے ہیں کہ ابتداء نماز میں مسنون اور بس۔
(الروضہ الندیہ تحفہ اہل حدیث ص 68)
الجواب : اولاً : قاضی ابو یوسف کے نزدیک تعوذ ثناء کے تابع ہے جس کی وجہ سے اسے امام اور مقتدی دونوں ہی پڑھیں گے۔ جبکہ امام ابو حنیفہ کا فتویٰ ہے کہ تعوذ قراۃ کے لیے ہے اس لیے امام ہی پڑھے گا۔
(حلبي كبير ص 303 فتاوی شامی ص 490 ج 1)
ظاہر ہے کہ یہ شدید اختلاف ہے اس کا حل تم نکال دو تو مذکورہ اختلاف کا حل ہم سے وصول کر لینا۔ اگر آپ کہہ دیں کہ فتویٰ قول امام پر ہے اور قاضی ابو یوسف کی بات کو ہم قبول نہیں کرتے تو ہم کہتے ہیں کہ
نواب صاحبؒ کا فتویٰ صحیح ہونے کی وجہ سے ہم نے قبول کیا اور وحید الزمان کے قول کو ہم نے بلا دلیل ہونے کی وجہ سے ترک کیا ہے۔ حضرت نواب صاحب فرماتے ہیں کہ
فقد ثبت بالاحاديث الصحيحة ان النبى ما كان يفعله بعد الاستفتاح قبل القرأة ولفظه اعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه
(كما اخرجہ احمد واہل السفن من حديث ابي سعيد الخدرى الروضة الند یه ص 100 ج 1)
خلاصہ عبارت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے افتتاح کے وقت قرآۃ سے پہلے تعوذ پڑھا کرتے تھے۔ مسند احمد اور سنن اربعہ میں یہ روایت حضرت ابو سعید الخدری سے مروی ہے۔
ثانیاً: وحید الزمان ہی آنکھ کا شہتیر کیوں بنا ہوا ہے جبکہ حضرت حسن بصری عطاء بن ابی ربا اور ابراہیم نخفی کا بھی یہی موقف ہے کہ ہر ہر رکعت کے ابتداء میں تعوذ مستحب ہے۔
(نیل الاوطار ص 205 ج 2 ومرعاة ص 99 ج 3)
بلکہ امام ابن حزم نے تو امام ابو حنیفہ کا بھی یہی قول نقل کیا ہے۔
(المحلی ص 278 ج 2 مسئلہ نمبر 363)

رکوع وسجدہ میں ذکر کی مشروعیت

نواب صاحب فرماتے ہیں کہ رکوع و سجدہ کی تسبیحات سنت ہیں بدور الاہلہ وحید الزمان لکھتے ہیں کہ واجب ہیں۔
(ہديه المحدی متحفہ اہل حدیث ص 68)
الجواب: اولاً: کیا ان میں سے کسی نے ان تسبیحات کی مشروعیت سے بھی انکار کیا ہے۔ جب انکاری منقول نہیں تو لفظی بحث کو آپ اختلاف باور کرا رہے ہیں۔ پھر آپ پر واضح ہو کہ نواب صاحب نے واجب کو راجح قرار دیا ہے۔
(السراج الوہاج ص 200 ج1)

اسی طرح امام الحق بن راھویہ امام احمد بن مقبل امام حسن بصری اور علامہ خطابی کا بھی یہی موقف ہے۔
(عون المعبود ص 324 ج 1)

واجب کی دلیل یہ ہے کہ تسبیحات پر رسول اللہ ﷺ کی مواظبت ہے۔ اگر ان کے بغیر نماز ہو جاتی تو آنحضرت ﷺ بیان جواز کے لیے کبھی ان کا ترک بھی کرتے۔ آپ کو شاید یاد ہو کہ نہ ہو کہ اسی دلیل سے آپ نے نماز جمعہ کے لیے خطبہ کو فرض و واجب ثابت کیا تھا۔ مگر یہاں اسی دلیل سے جب تسبیحات واجب ثابت ہو رہی ہیں تو آپ کو اس سے تکلیف ہورہی ہے۔
ثانیاً: آپ کو اختلاف سے غرض نہیں اصل آپ کے لیے واجب تکلیف دہ ہے۔ کیونکہ حنفیہ کے نزدیک فقط جھکنے سے ہی رکوع ہو جائے گا۔
علامہ حلبی فرماتے ہیں کہ
اوترك التسبيح بالكلية جازت صلوته لعدم ركنيته
(مستملی ص 316)
یعنی اگر رکوع و سجود کی تمام تسبیحات کو (جان بوجھ کر چھوڑ دے تو اس کی نماز جائز (ہو جاتی) ہے۔
پھر اس کی جو دلیل دی جاتی ہے وہ لطیفہ سے کم نہیں کہ قرآن میں رکوع کرنے کا ذکر ہے اور رکوع فقط جھکنے سے لغوی طور پر حاصل ہو جاتا ہے۔ (مستملی ص 280)
انا للہ وانا الیہ راجعون
مگر ان کی شان میں کون گستاخی کر کے پوچھے کہ حضرت رکوع عبادت کا معاملہ ہے۔ اسے لغت کی بجائے اسوہ رسول ﷺ کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ امام ابو حنیفہ کے شاگرد ابی مطیع بلغی کا قول ہے کہ رکوع و سجود کی تسبیحات نماز کا رکن اور فرض ہیں۔ ان کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے شارح منیتہ المصلی فرماتے ہیں کہ یہ قول شاذ ہے۔
(مستملی ص 281)

شکر ہے انہوں نے شاذ ہی کہا ہے اگر آج کا کوئی متعصب خفی ہوتا تو غیر مقلد وہابی، نجدی آئمہ کا گستاخ اور جاہل جیسے القاب سے نوازتا۔

مؤلف تحفہ اہل حدیث کا افتراء

فرماتے ہیں کہ نواب صاحب لکھتے ہیں کہ قبلہ و کعبہ لکھنا جائز ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 68)
الجواب : اولاً: اگر فقط لفظ ہی لکھنے کی بات ہے تو ظاہر ہے کہ بیت اللہ کو قبلہ اور کعبہ دونوں طرح ہی لکھنا جائز ہے۔ اور یہ الفاظ قرآن نے بیت اللہ کے لیے استعمال کیے ہیں۔ اور اگر مؤلف کا مقصود یہ ہے کہ نواب صاحب نے کسی عالم اور استاذ کو قبلہ و کعبہ لکھنے کے جواز کا فتویٰ دیا ہے تو ابو بلال صاحب نواب صاحب کی کوئی ایسی تحریر بغیر تاویل کے ثابت کریں۔ ورنہ لعنت اللہ علی الکازبین کی وعید شدید سے ڈریں۔
ثانیاً: اہل حدیث کا موقف ہے کہ دین حق کے احکام ظاہر پر ہیں۔ شریعت کا کوئی حکم باطن پر مبنی نہیں۔ جس کی وجہ سے اہل حدیث میں کوئی فتویٰ و قول فقط خصوصی محفل تک ہی محدود نہیں رہتا کہ وہ حکم شریعت عوام تک نہ پہنچے بلکہ تعامل اہل حدیث جو باہر ہوتا ہے وہی باطن اور خصوصی محفل میں بیان کیا جاتا ہے۔ الغرض ہمارا ظاہر و باطن ایک ہی ہے۔ اگر ہمارے نزدیک کسی عالم کو قبلہ و کعبہ کے جواز کا فتویٰ ہوتا تو ہم اسے برملا بیان کرتے اور اپنے جلسہ و کانفرنس میں علماء کے القاب کے ساتھ اس کا لاحقہ بھی کرتے مگر کسی اشتہار اور رسالہ اور کتاب کی اشاعت پر ہم نے کسی بھی عالم و محقق کے القاب میں اسے قبلہ و کعبہ تحریر نہیں کیا اور نہ ہی اس کی کوئی ایک مثال بھی پیش کی جاسکتی۔ العرض تعامل اہل حدیث بھی اس کے کذب وافتراء ہونے کی واضح دلیل ہے۔

عورتوں کے لیے زیارت قبور کا حکم

ابتداء اسلام میں آنحضرت ﷺ نے زیارت قبور سے منع فرمایا تھا۔ پھر یہ حکم منسوخ ہو گیا اور آپ علیہ السلام نے زیارت قبور کی اجازت دے دی۔ حضرت بریدہ اسلمٰی راوی ہیں کہ
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم كنت نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها
’’یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں پہلے تم کو زیارت قبور سے منع کرتا تھا مگر اب زیارت کیا کرو۔‘‘
(صحیح مسلم ص 314 ج 1)

اس حدیث کی توضیح و تشریح میں اختلاف ہے کہ آیا اس اجازت میں عورتیں بھی داخل ہیں یا نہیں ؟ امت مرحومہ میں ابتدا سے ہی اس میں اختلاف ہے۔ حضرت عائشہؓ مطلق جواز کی قائل ہیں اور جمہور کا یہی موقف ہے۔
(نیل الاوطار ص 119 ج 4)

جبکہ بعض اہل علم کا خیال ہے اس اجازت میں عور تیں شامل نہیں اوروں کو چھوڑیئے آپ کے علامہ عینی حنفی شارح بخاری فرماتے ہیں کہ
وحاصل الكلام أن زيارة القبور مكروهة للنساء بل حرام في هذا الزمان
’’یعنی خلاصہ کلام یہ کہ عورتوں کے لیے زیارت قبور مکروہ ہے بلکہ اس زمانہ میں حرام ہے۔‘‘
(عمدۃ القاری بحوالہ عون المعبود ص 212 ج 3)

فتاویٰ تا تارخانیہ میں لکھا ہے کہ
سئل القاضي عن جواز خروج النساء الى المقابر قال لايسثال عن الجواز والفساد في مثل هذا وانما يسأل عن مقدار ما يلحقها من اللعن فيها واعلم انها كلما قصدت الخروج كانت فى لعنة الله وملائكة اذا خرجت تحفها الشياطين من كل جانب واذا انت القبور يلعنها روح الميت واذا رجعت كانت في لعنة الله
یعنی امام قاضی سے سوال ہوا کہ عورتوں کا قبرستان میں جانا جائز ہے یا نہیں ؟ فرمایا کہ ایسی جگہ پر جواز اور عدم جواز کا سوال نہیں کرتے۔ یہ سوال کرو اس عورت پر کتنی لعنت پڑتی ہے جب گھر سے قبرستان کی طرف چلنے کا ارادہ کرتی ہے۔ وہ اللہ تعالی اور فرشتوں کی لعنت میں ہوتی ہے جب گھر سے باہر نکلتی ہے تمام طرفوں سے شیطان اس کو گھیر لیتے ہیں، جب قبرستان پہنچتی ہے تو میت کی روح اس پر لعنت کرتی ہے جب واپس آتی ہے اللہ کی لعنت میں ہوتی ہے۔
(بحوالہ مستملی شرح مدیۃ المصلی ص 584)

حالانکہ امام ابو حنیفہ کا فتویٰ ہے کہ عورتوں کو زیارت قبور کی رخصت ہے۔
(فتاوی عالم گیری ص 350 ج 5 و مبسوط سرخسی ص 10 ج 24 کتاب الاشربة باب الرخصة في زيارة القهر او درس ترمذی ص 3328)
اس وجہ سے اکابر دیابنہ نے اقرار کیا ہے کہ اس مسئلہ میں فقہاء حنفیہ کا اختلاف ہے۔

شارح مشکوٰۃ مولانا قطب الدین حنفی فرماتے ہیں کہ
اور بعضے کہتے ہیں، کہ اجازت عام ہوئی مردوں کو بھی اور عورتوں کو بھی پس یہ نہی پہلے تھی اب درست ہے عورتوں کو زیارت قبور کی اور بعضے کہتے ہیں کہ اجازت مردوں ہی کو ہوئی عورتوں کے حق میں نہی باقی ہے۔
ظاہر حدیث کا مؤید اسی قول کا ہے۔
(مظاہر حق ص 238 ج1)

اسی طرح مولانا محمود حسن خان صاحب حنفی دیوبندی نے (اور واحدی ص 182) میں، مولانا محمد تقی عثمانی دیوبندی نے (درس ترمذی ص 327 ج 3) میں بر ملا اعتراف کیا ہے کہ حنفیہ میں عورت کے زیارت قبور کے جواز اور عدم جواز میں اختلاف لیکن کتنے ستم کی بات ہے کہ ہمارے معاصر ابو بلال کو یہ گھر کا تو اختلاف نظر نہیں آیا مگر علماء اہل حدیث کے اختلاف کو دھر لیا ہے کہ مولوی ثناء اللہ جواز کے اور مولوی شرف عدم جواز کے قائل ہیں۔
(فتاوی ثنائیہ ص 315 316 ج 1 تحفہ اہل حدیث ص 68)

اختلاف سے قطع نظر ذرا دیکھئے کہ جھنگوی صاحب کا لہجہ کتنا گستاخانہ ہے۔ ملت اسلامیہ کا مرد مجاہد جس نے ساری زندگی کفار کی تردید کرتے ہوئے گزاری اور خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے وہ امت مرحومہ کا ہیرو تھا۔ جن کی وفات پر مولانا محمد سلیمان ندوی مرحوم نے لکھا تھا کہ مرحوم اسلام کے بڑے مجاہد سپاہی تھے۔ زبان اور قلم سے جس نے بھی اسلام پر حملہ کیا اس کی مدافعت میں جو سپاہی سب سے آگے بڑھتا وہ وہی ہوتے۔ اللہ اس غازی اسلام کو شہادت کے درجات و مراحب عطاء فرمائے۔ آمین
(معارف 1948ء مندرجہ یاد رفتگاں ص)

مولانا عبدالماجد دریا آبادی حنفی دیوبندی فرماتے ہیں کہ
فن مناظرہ کے تو کہنا چاہئے امام تھے۔ خصوصاً آریہ سماجیوں کے مقابلہ میں جو علاوه بد فہم و بے علم ہونے کے بد زبان بھی ہوتے تھے۔ اور شروع صدی میں ان کا فتنہ اس وقت کا سب سے بڑا فتنہ تھا۔ اگر مولوی ثناء اللہ ان کے سامنے آنہ جاتے تو مسلمانوں کی مغلوبانہ مرعوبیت خدا جانے کہاں تک پہنچ جاتی۔
(معاصرین ص 124)

اس سلسلہ میں اگر اکابر دیابنہ کی شہادتوں کو جمع کیا جائے تو ایک اچھا خاصہ کتا بچہ تیار ہو سکتا ہے مگر افسوس کہ جھنگوی صاحب اس غازی اسلام کو مولوی ثناء اللہ کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں کر رہے۔
ان کی روش سے ثابت ہوا کہ بریلوی حضرات کا یہ اعتراض کہ آل دیوبند گستاخ ہیں اس میں شائبہ صدق ضرور ہے۔
ہاں جی ! بات ہو رہی تھی علماء اہل حدیث میں اختلاف کی تو بھائی عرض ہے کہ اگر اس اختلاف کو آپ انتشار کا نام دیتے ہیں تو اسی مسئلہ میں فقہاء احناف کے اختلاف کا جواب دیجیے۔

جمعہ کی اذان اول

فرماتے ہیں جمعہ کی اذان اول بدعت ہے۔ جمعہ کی اذان اول سنت ہے۔
(فتاوی ثنائیہ ص 435 ج 1 و ص 179 ج 2، تحفہ اہل حدیث ص 67)
الجواب: اولاً: ہم نے فتاویٰ ثنائیہ کی مراجعت کر لی ہے جلد دوم میں ایسا کوئی فتوی نہیں۔
ثانیًا: اسے بدعت کسی نے بھی نہیں کہا۔ شیخ الاسلام نے اسے سنت عثمانی لکھا تھا۔ جس پر تعاقب کرتے ہوئے حکیم عبد الرزاق فرماتے ہیں کہ اگر شہر کے باہر بازار میں اذان دلوائی جائے تو سنت عثمانی ہوگی ورنہ یقینی طریقہ رائجہ بدعی ہوگا۔
(فتاوی ثنائیہ ص 435 ج 1)

الغرض بدعت کہنے والے نے اذان عثمانی کو بدعت نہیں کہا بلکہ عام مروجہ طریقہ کو بدعت قرار دیا ہے۔ مگر بات کا بتنگڑ بنانا جھنگوی صاحب کے بائیں ہاتھ کی بات ہے۔ انہوں نے علی الاطلاق اذان کو ہی بدعت کہہ ڈالا۔
یہ ہیں سچائی کی ٹھیکے داری کا دعوی کرنے والے۔ اور دستار باندھ کر علماء کی صف میں شامل ہونے والے۔ جن کی علمی لیاقت یہ ہے کہ وہ اردو عبارت کو سمجھ نہیں پائے اور للکار رہے ہیں جبال علوم اہل حدیث کو۔

جرابوں پر مسح

فرماتے ہیں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب قائل اور شرف الدین قائل نہیں۔
(بحوالہ فتاویٰ ثنائیہ ص 441 ج 1 تحفہ اہل حدیث ص 67)
الجواب: اولاً: بلاشبہ مولانا شرف الدین مرحوم نے حضرت امر تسریؒ سے اختلاف کیا ہے اور اختلاف کی نوعیت یہ ہے کہ حضرت امر تسری کی پیش کردہ حدیث کو انہوں نے معلول قرار دیا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا تعاقب درست نہیں اور جرابوں پر مسح کی احادیث صحیح ہیں۔ تفصیل (ارواء الغلیل ص 137 ج 1) اور جرابوں پر مسح مؤلفہ الشیخ محمد یحیٰی گوندلوی حفظہ اللہ کی مراجعت کریں۔
ثانیاً: عمل اہل حدیث بھی حضرت امر تسری کے فتویٰ پر ہے بلکہ بعض حنفی شدید سردی میں تو پکے غیر مقلد بن کر جرابوں پر مسح کر لیتے ہیں۔ بلکہ ایک روایت میں امام ابو حنیفہ نے بھی عدم جواز کے فتویٰ سے رجوع کر لیا تھا ابا مقاتل سمر قندی بیان کرتے ہیں کہ
دخلت على أبي حنيفة في مرضه الذي مات فيه فدعا بماء فتوضأ و عليه جوربان فمسح عليهما

یعنی میں امام ابو حنیفہ کی مرض الموت میں ان کی تیمارداری کے لیے گیا تو آپ نے پانی منگوا کر وضو کیا پاؤں پر جبرابیں تھیں تو آپ نے ان پر مسح کیا۔
(سنن ترمذی، نسخه علامه سندهی بحواله درس ترندی ص 335 ج 1)

صاحب ہدایہ نے بھی اس رجوع کا ذکر کیا ہے کہ
وعنه أنه رجع الى قولهما وعليه الفتوى
(ھدايه مع فتح القدیر ص 139 ج 1)

یعنی امام ابو حنیفہ نے اپنے پہلے فتویٰ سے رجوع کر کے کہا ہے کہ جرابوں پر مسح جائز ہے اور فتویٰ اس پر ہے۔ مگر عام حنفی اس کے منکر ہیں اور وہ اپنے امام کے اس فتویٰ پر عمل کرتے ہیں جس سے انہوں نے رجوع کر لیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ ان کا اپنے امام سے اختلاف ہے۔

مسجد میں محراب کا حکم

فرماتے ہیں کہ فتاویٰ ثنائیہ میں لکھا ہے کہ مسجد کا محراب یہود و نصاری سے مشابہت ہے۔ جبکہ جونا گڑھی لکھتے ہیں کہ جائز ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 68)
الجواب : اولاً : مؤلف تحفہ اہل حدیث کا یہ صریحاً جھوٹ اور سو فیصد فراڈ ہے کہ فتاویٰ ثنائیہ میں مروجہ محراب مسجد کو تشبہ یہود و نصاری کہا گیا ہے۔ بلکہ فتاویٰ ثنائیہ میں تو ایک درجن کے قریب علماء کے فتاویٰ ہیں کہ مروجہ محراب مسجد جائز ہے۔ اگر محمدی صاحب فتاویٰ ثنائیہ سے اپنے دعویٰ کو ثابت کر دیں تو ہم ان کو انعام دیں گے ورنہ لعنت اللہ علی الکازبینانعام وصول کر لیں۔
ثانیاً : ہاں البتہ آپ کے نزدیک یہ بدعت ہی ہے ملا علی القاری فرماتے ہیں کہ
ان المحاريب من المحدثات بعده ومن ثم كره جمع من السلف اتخاذها والصلاة فيها
(مرقاۃ 10 ص 224 ج 2)
یعنی مسجد میں محراب بنانا بدعت ہے جو رسول اللہ ﷺ کے بعد اختیار کیا گیا ہے اور تمام آئمہ (حنفیہ) اس کے بنانے اور اس کے اندر نماز پڑھنے کو مکروہ کہتے ہیں۔
شارح سنن ابی داؤد حضرت مولانا محمد شمس الحق محدث عظیم آبادی مذکورہ عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ
(قلت ماقاله القارى من أن المحاريب من المحدثات بعدل فيه نظرلان وجود المحراب زمن النبي يثبت من بعض الروايات اخرج البيهقي في السنن الكبرى)
(وايضاً لا يكره الصلوة فى المحاريب ومن ذهب الى الكراهة فعليه البنية ولا يسمع كلام أحد من غير دليل ولا برهان)

(عون المعبود ص 180 ج 1)
یعنی میں کہتا ہوں کہ ملا علی القاری کا محراب کو بدعت میں شمار کرنے میں کلام ہے۔ کیونکہ محراب کا وجود رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بعض احادیث سے ثابت ہے۔ جیسا کہ بیہقی نے سنن میں روایت کیا ہے اور اسی طرح اس (محراب) میں نماز ادا کرنا بھی مکروہ نہیں اور جو کراہت کی طرف گیا ہے اس پر اس کی دلیل دینا واجب ہے۔ بغیر دلیل و برہان کے کسی کی بات نہیں سنی جاتی۔ حضرت محدث عظیم آبادی نے جس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ (السنن الكبری بیہقی ص 30 ج 2) میں موجود ہے۔
الغرض اہل حدیث کے نزدیک مسجد میں مروجہ محراب بنانا جائز ہے اس کو بدعت اور اس کے اندر نماز پڑھنے کو مکروہ کہنے والے جھنگوی صاحب کے اکابر ہیں۔ یہ اب ان کی مرضی ہے کہ اپنی مساجد میں محرابوں کو گرا کر بدعت کو ختم کریں یا مبتدعین میں اپنا شمار کریں اور محراب میں نماز پڑھ کر فعل حرام کے مرتکب رہیں یا اس سے توبہ کریں۔ اگر ہم سے پوچھتے ہو تو ہم آپ کو مخلصانہ مشورہ دیتے ہیں کہ سرے سے حلیف کو ہی ترک کریں اور عمل با الحدیث پر اپنی زندگی کا مدار بنائیں۔ کیونکہ کتاب و سنت کے مقابلہ میں اراء الرجال کو حجت قرار دینا بدترین دینی بدعت ہے۔ اللہ آپ کو توفیق دے اگر آپ اس مشورہ کو قبول کر لیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ محراب کو گرانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی فعل حرام کے مرتکب ہو نگے۔

منی کی طہارت اور نجاست

فرماتے ہیں کہ منی پاک ہے۔ (فتاوی علماء حدیث) منی نا پاک ہے۔
(ایضاً ص 42 ج 1) (تحفہ اہل حدیث ص 69)
الجواب:- اولاً: جس معنی میں امام ابو حنیفہ وغیرہ نے منی کو نجس کہا ہے بایں معنی کسی اہل حدیث نے بھی منی کو نجس قرار نہیں دیا سب ظاہر ہی کہتے ہیں۔ ہاں بایں معنی اس کو نجس کہتے ہیں کہ اس کے دفع ازالہ کے لیے دھونا، رگڑنا مشروع طریقہ ہے۔ محدث مبارکپوری فرماتے ہیں کہ
قلت لا شك أن المنى نجس بمعنى انه مامور بازالته غسلا اومسحا اوفر كا او حتا او سلتا أو حكا لكن من قال بنجاسته كالامام ابي حنفية والامام مالك لم يقل بنجاسته بهذا المعنى ابكار المتن ص ٤١
یعنی میں کہتا ہوں کہ بلاشک و شبہ منی بایں معنی نجس ہے کہ اس کے دھونے یا ملنے یا رگڑنے یا کریدنے یا پونچھنے کا انسان شرعی طور پر مامور ہے۔ لیکن جو اسے نجاست کہتے ہیں مثلا امام ابو حنیفہؒ امام مالکؒ اس معنی میں کوئی بھی اسے نجاست قرار نہیں دیتا۔ یہی بات علامہ شوکائی نے (نیل ص 54 ج 1) میں اور مولانا عبیداللہ رحمانی نے (مرعاۃ ص 196 ج 2) میں کہی ہے۔ افسوس کہ جھنگوی صاحب جہالت کی وجہ سے بات تو خود نہیں سمجھ پاتے اور مورد الزام علماء اہل حدیث کو ٹھہراتے ہیں۔
ثانیاً: بلا شبہ حنفیہ کے نزدیک منی نجس ہے مگر اس کی نجاست کو وہ بھی شدید نہیں کہتے۔ فتاویٰ عالم گیری میں ہے
والصحيح بقاء اثر المنى بعد الفرك لا يضر
(عالم گیری ص 44 ج 1)
یعنی جب منی خشک ہو تو صحیح یہ ہے کہ ملنے اور رگڑنے کے بعد جو اثر باقی رہے گا وہ مضر (نقصان دہ) نہیں ہے۔
(الباب السابع في النجاسة واحکامھا)
ظاہر ہے کہ خشک نجاست کو رگڑنے اور ملنے سے طہارت حاصل نہیں ہوتی۔ بالخصوص جب کپڑے وغیرہ پر اس کے اثرات بھی باقی ہوں۔ معلوم ہوا کہ حنفی بھی اس کی شدت نجاست کے قائل نہیں ہیں۔
ثالثاً : ظاہر ہے کہ منی کو نجاست قرار دیکر پھر اس کے اثرات کو غیر مضر کہنا دو متضاد اقوال ہیں۔

اہل حدیث میں تنظیمی امور پر اختلاف

انسان کمزور و ناتواں اور عاجز ہے۔ اس کی عقل و علم اور وسائل محدود ہیں جس کی وجہ سے انسان میں فرق مراتب ہے اور ان کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ خلیفہ راشد اور جاں نثار صحابی ہیں۔ ان کی عظمت و بزرگی پر اہل سنت میں سے کسی کو بھی آج تک حرف گیری کرنے کی جرات و ہمت نہیں ہوتی بلکہ تمام مکاتب فکر فقہی اختلاف کے باوجود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ سابقین الاولین میں سے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی محبت سے وہ سر شار، اتباع رسول ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ اسی پیروی اسوہ کی وجہ سے آنحضرت ﷺ نے ان کو دنیا میں جنت کی بشارت دی بلکہ ان کی سنت کو اپنی سنت میں داخل کیا۔
لیکن آپ کو یاد ہوگا کہ جب صلح حدیبیہ کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے کفار کی تمام سنگین سے سنگین شرئط کو بھی قبول کر لیا تو حضرت عمر فاروقؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اس سلسلہ میں اختلاف کیا۔ بلکہ عموماً صحابہ کرام نے اس صلح کو اسلام کے لئے کمزوری تصور کیا۔ تو کیا کسی کو یہ کہنے کا حق مل گیا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ان کے وفادار نہ تھے۔ وہ ان سے اختلاف رائے رکھتے تھے۔
مگر ہم کہیں گے کہ نہیں رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ مدبرانہ اور وحی الہی کے تحت تھا جس تک صحابہ کرام کی نگاہ نے کام نہ کیا۔ آئندہ حالات نے واضح کر دیا کہ صلح حدیبیہ کی شریک مسلمانوں کے حق میں تھیں۔
العرض بعض تنظیمی امور میں اختلاف رائے ہونے کو فرقہ کے نام سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ ورنہ آپ کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمانوں کے دو فرقے بن گئے تھے۔
پھر آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ نا واقف کالا علمی کی وجہ سے کسی چیز سے انکار کر دینا شرعاً فرقہ اور اختلاف کی زد میں نہیں آتا۔ مثلا زید کہتا ہے کہ عدنان، جمیلہ کا رشتہ میں ماموں لگتا ہے۔ جبکہ عمر کہتا ہے عدنان والد و جمیلہ کا حقیقی بھائی نہ تھا کہ جمیلہ کے نانا نے عدنان کو منہ بولا بیٹا بنایا تھا جس کی وجہ سے وہ اس کا ماموں نہیں لگتا اور عدنان و جمیلہ کا نکاح جائز ہے۔ کوئی دانا کہہ سکتا ہے کہ یہ اختلاف رائے ہے ہر سمجھ دار نہیں کہے گا کہ زید عدنان اور جمیلہ کے رشتہ داری سے نا واقف ہے اور عمر واقف کار ہے۔
جب قبلہ تبدیل ہوا تو حالت نماز میں ہی صحابہ کرام نے آنحضرت ﷺ کی اقتداء میں منہ بیت المقدس کی بجائے بیت اللہ کی طرف کر لیے۔ حضرت برآء بن عاذبؓ بیان کرتے ہیں کہ تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ نماز پڑھنے کے بعد اس شخص کا انصار کی ایک جماعت پر گزر ہوا وہ لوگ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے عصر کی نماز پڑھ رہے تھے۔ اس شخص نے قسم کھا کر کہا کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے۔ تو اس جماعت انصار نے کعبہ کی طرف رخ کر لیا۔
(صحیح بخاری ص 57 ج 1)

اب کوئی عاقل کہہ سکتا ہے کہ اس جماعت انصار نے رسول اللہ ﷺ سے اختلاف کیا تھا اور تحویل قبلہ کے وقت مسلمانوں کے دو گروہ ہو گئے۔ نہیں ہرگز نہیں! کیونکہ اختلاف کے لیے علم شرط ہے۔ ہر جاننے والا یہی کہے گا کہ جماعت انصار کو تحویل قبلہ کا علم نہ تھا۔

اس طرح کی امثلہ ہم امت مرحومہ میں سے بیسیوں پیش کر سکتے ہیں۔ مگر ہمارے جھنگوی صاحب ہر بات کو ہی اختلاف باور کراتے ہیں۔ جہاں دو اہل حدیثوں میں تنظیمی امور میں بعض جزوی مناسبت نہ ہو یہ اختلاف باور کراتے ہیں۔ لشکر طیبہ کہو تجھے فورس وغیرہ بھی ان کو اختلاف نظر آتا ہے۔ پھر اس سلسلہ میں یہ کذب بیانی کرتے ہوئے بھی ذرا شرم و حیا کو کام میں نہیں لاتے ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ
’’جماعت مسلمین کے غیر مقلد دوسرے غیر مقلدین کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ دوسرے غیر مقلدین کے ساتھ رشتے ناطے کو حرام سمجھتے ہیں اور ان کی نماز جنازہ پڑھنے کو بھی حرام سمجھتے ہیں۔‘‘
(تحفہ اہل حدیث ص 71)

مگر اس کے لیے کوئی ثبوت تو وہ نادار ند۔ اگر آپ کے قول میں شائبہ صداقت ہے تو ان کے کسی مقتدر عالم کا قول بحوالہ بیان کیجیے ورنہ لعنت اللہ علی الکازبین کی وعید شدید سے ڈریں کہ آپ نے مرکر قبر میں پڑنا ہے۔
کسی جاہل و نادان کی بات حجت نہیں ہوا کرتی۔ 1981ء کی بات ہے کہ خاکسار حافظ آباد سے متصل ریلوے اسٹیشن گاجر گولا پر ریل کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔ وہاں ایک شخص نے بینچ پر جنوب کی طرف منہ کر کے نماز ادا کی۔ جب اس نے سلام پھیرا تو راقم نے اس کو مسئلہ سمجھا یا وہ کہنے لگا کہ میں آج ہی قرآن پڑھ رہا تھا وہاں ایک آیت کے نیچے اس کا ترجمہ لکھا ہوا تھا کہ
جہاں بھی منہ کرو اسی طرف اللہ کا منہ ہے؟ خاکسار نے اسے آیت فرقانی کا مفہوم سمجھایا۔ سعادت مند تھا مان گیا اور شکریہ ادا کیا۔ یقین جانیے باریش تھا اور حنفی طریقہ کے مطابق اس نے نماز ادا کی تھی۔
یہ معلوم نہ کر سکا کہ وہ بریلوی تھا یا دیوبندی یہ بالکل سچا واقعہ ہے۔ وكفى بالله شهيداً تو کیا ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ حنفیہ کے نزدیک بیت اللہ کی طرف منہ کرنا شرط نہیں۔ یا کم از کم ان میں بعض کا عمل یہی ہے۔ نہیں ہرگز نہیں کیونکہ جاہل کا قول اور عمل حجت نہیں ہوتا۔ آپ ماضی قریب میں مرتب شدہ کسی بھی فتاویٰ کو اٹھا کر دیکھ لیجیے عوام علماء سے ایسے ایسے سوال کرتے ہیں کہ مفتی کو عوام کے دینی حالات پر رونا آجاتا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار دو پہر کے وقت سورج کا انکار ہے۔

تو کیا ان چیزوں کو پلے باندھ کر ایک دوسرے گروہ کو مطعون کرنا جائز ہے۔ ہرگز ہرگز نہیں کیونکہ عوام کا عمل شریعت میں معتبر ہی نہیں اور نہ ملک پاکستان میں اکثریت حفیت کی ہے۔ اس کی پارلیمنٹ میں اکثریت بھی ان لوگوں کی ہے جو خفیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مگر جب نواز شریف نے نفاذ شریعت کی کوشش کی اور پارلیمنٹ سے اس کی منظوری لینے کا وقت آیا تو وہ بری طرح نا کام ہوا۔ تو کیا اب ہمیں یہ کہنے کا حق مل گیا کہ حنفیت شریعت کو نہیں چاہتی۔ میرے بھائی نہیں۔ مگر افسوس جھنگوی صاحب دین و دنیا سے بے بہرا ہیں۔ ان کو کہیں سے بھی قول مل جائے وہ اس کو رد وہابیت کے لیے کھینچ لاتے ہیں۔
فرماتے ہیں کہ یوتھ فورس اور لشکر طیبہ کے درمیان جو اختلاف ہے اللہ کی پناہ ایک دوسرے کے خلاف نعرہ بازی ایک کی جماعت کا مولوی قتل ہو جائے تو دوسرے کہتے ہیں وہ مردار ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف لعنت تک بھیجی گئی ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 72)

معلوم نہیں کہ جھنگوی صاحب کو یہ تمام چیزیں شیطان کی طرف سے القاء ہوئیں ہیں۔ ورنہ لشکر طیبہ یا یوتھ فورس کے کسی مفتی کا اس پر فتوی نقل کرتے۔ یہ راقم پورے جزم و یقین کیساتھ اس کی تردید کرتا ہے کہ جھنگوی صاحب اپنے اس دعوئی پر کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکتے۔ یہ سب باتیں ان کی سینہ گزٹ ہیں۔

مگر ہم آپ کو بتاتے ہیں برصغیر میں حفیت کی دو شاخیں ہیں۔ بریلوی اور دیوبندی بریلویت کے بانی نے پوری دیوبندیت کے کفروار تداد کا فتویٰ صادر کیا تھا۔ بلکہ حرمین شریفین سے بھی اس نے ان کے کفر وارتداد کا فتویٰ حاصل کیا تھا۔ جو حسام الحرمین کے عنوان سے مطبوعہ اور دستیاب ہے۔ اور دیوبندیوں نے بریلویوں کو جن القابات سے نوازا ہے وہ بھی کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ بدعتی مشرک قبروں کی عبادت کرنے والے وغیرہ تو ان کے علماء عام تقاریر میں استعمال کرتے ہیں۔ دونوں ہی حنفی ہیں دیوبندی کہتے ہیں ہم کے حنفی ہیں بریلوی کہتے ہیں یہ کچے اور گلابی وہابی ہیں۔ اور حفیت کے واحد ٹھیکے دار ہم ہیں مگر تقلید کے وجوب کے جب دلائل دیتے ہیں تو دونوں فریق کہتے ہیں کہ تقلید کا ایک فائدہ یہ ہے کہ یہ انتشار سے بچاتی ہے۔

مگر ان سے کون پوچھے کہ حضرت آپ کے گھر کو تو اس نے انتشار سے نہ بچایا۔ پہلے آپ حنفی تھے، پھر دیوبندی و بریلوی ہوئے پھر حیاتی و مماتی بن گئے۔ حیاتی کہتے ہیں مماتی مشرک ہیں اور ممانی کہتے ہیں کہ حیاتی مشرک ہیں۔ اس بات کی معقولیت پر تو جھنگوی صاحب کو حرف گیری کرنے کا حوصلہ نہیں ہوا۔ البتہ یہ کہہ کر جان چھڑائی ہے کہ بریلوی غیر مقلد ہیں۔ ان کی غیر مقلدی کی دلیل یہ عنایت کرتے ہیں کہ ان کی بعض رسومات فقہ حنفی سے ثابت نہیں ہیں۔ حالانکہ ہوائے نفس ان دونوں پارٹیوں میں موجود ہے۔ فقہ حنفی کے بعض مسائل کو یہ دونوں پارٹیاں نہیں مانتیں۔ مثلا
➊ فقہ میں تعلیم قرآن اور امامت و خطابت پر اجرت لینا نا جائز لکھا ہے۔ حالانکہ یہ دونوں ہی پارٹیاں اجرت وصول کرتی ہیں۔
➋ فقہ میں غائبانہ نماز جنازہ کو نا جائز لکھا ہے حالانکہ یہ دونوں ہی پڑھتے ہیں۔
➌ فقہ حنفی میں گاؤں میں نماز جمعہ اور عیدین نہیں ہوتیں۔ حالانکہ دونوں پارٹیاں گاؤں میں جمعہ وعیدین کو قائم کرتے ہیں۔
➍ امام ابو حنیفہ کا فتویٰ ہے بچی اور بچہ کا عقیقہ نہ کیا جائے۔ (الجامع الصغیر ص 534) فتاوی عالمگیری میں لکھا ہے یہ کراہت (حرام) کی طرف اشارہ ہے۔ (فتاوی عالم گیری ص 362 ج 5 و شرح صحیح مسلم ص 44 ج 1) مولوی غلام رسول سعیدی بریلوی، حالانکہ دونوں پارٹیاں عقیقہ کو مسنون جان کر کرتی ہیں۔
➎ امام ابو حنیفہ کے نزدیک واقف جائز نہیں۔ ھدایہ میں ہے کہ
قال أبو حنيفة لا يزول ملك الوقف عن الوقف الا ان يحكم به الحاكم
یعنی امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ وقف کرنے والے کے وقف کرنے سے اس کی ملکیت زائل نہیں ہوتی جب تک کہ حاکم کا حکم نہ ہو جائے۔
اس کی شرح میں ابن ھمام فرماتے ہیں کہ
في المبسوط من قوله كان ابو حنيفة لا يجيز الوقف وهو ما اراد المصنف
یعنی مبسوط میں ہے کہ امام ابو حنیفہ وقف کو جائز نہیں جانتے تھے۔ اور یہی مراد (مذکورہ قول) مصنف ہدایہ کی ہے۔
(فتح اللہ یہ شرح ہدایہ ص 419 ج 5 کتاب الوقف)
مگر بریلوی اور دیوبندی دونوں ہی وقف کے قائل ہیں اور ان کے مدارس و مساجد کی اکثریت کا نظم و نسق ہی وقف کی آمدن پر ہے۔
➏ شوال کے ابتداء میں چھ روزے رکھنا امام ابو حنیفہ نے مکروہ کہا ہے۔
(البحر الدائق ص 258 ج 2)
مگر دیوبندی و بریلوی دونوں ہی رکھتے ہیں اور سنت و مستحب کہتے ہیں۔
➐ امام ابو حنیفہ مزارعت کو نا جائز کہتے ہیں (ہدایہ ص 408 ج 2) مگر بریلوی و دیوبندی دونوں ہی مزارعت کے قائل ہیں۔
➑ حج کے دس دنوں میں بال اور ناخن نہ کٹوانے کو امام ابو حنیفہ نے محض مباح کیا ہے حالانکہ دیوبندی و بریلوی ان کو سنت جان کر نہیں کٹواتے۔
➒ امام ابو حنیفہ کے نزدیک انڈے کو فروخت کرنا جائز نہیں۔
(ہدایہ مع فتح القدير ص 58 ج 6 کتاب البیوع باب الجميع الفاسد)
مگر اس کے بر عکس حنفی بریلوی اور حنفی دیوبندی دونوں ہی انڈے کی فروخت کو جائز سمجھتے ہیں بلکہ بعض نے تو اسے مستقل کاروبار بنا رکھا ہے۔
➓ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے اپنی تقلید سے منع کیا۔ جبکہ آپ دونوں گروہ امام صاحب کی تقلید کو واجب کہتے ہیں۔

تلک عشرة کاملتہ

ان دس مسائل کو ہم نے بطور نمونہ نقل کیا ہے۔ اگر اس پر ہم لکھنا شروع کردیں تو بفضلہ تعالی ہم سینکڑوں امثلہ پیش کر سکتے ہیں۔ اگر مجرد کسی جگہ پر اختلاف امام سے انسان مقلدیت سے خارج ہو جاتا ہے تو آپ دونوں حضرات ہی غیر مقلد ثابت ہوتے ہیں اور آپ کا دعویٰ تقلید جھوٹا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے