اللہ تعالیٰ عرش پر ہے !
 تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری

اللہ تعالیٰ عرش پر ہے ۔ یہ اہل سنت و الجماعت کا اجماعی و اتفاقی عقیدہ ہے ، جیساکہ مشہور مفسر علامہ قرطبی  رحمہ اللہ (م ۶۷۱ھ) لکھتے ہیں:

ولم ینکر أحد من السلف الصالح أنہ استویٰ علی عرشہ، وإنما جھلوا کیفیۃ الاستواء.

’’سلف صالحین میں سے کسی ایک نے بھی اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا انکار نہیں کیا ،البتہ انہوں نے استوا کی کیفیت کو مجہول قرار دیا ہے ۔‘‘  (تقسیم القرطبی : ۲۱۹/۷)

اس کے برعکس گمراہ جہمیہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے ، وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے دلیل پکڑتے ہیں:

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ وَ نَعۡلَمُ مَا تُوَسۡوِسُ بِہٖ نَفۡسُہٗ ۚۖ وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ،

اور تحقیق ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم جانتے ہیں جو اس کے نفس میں وسوسے آتے ہیں اور ہم اس سے شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں(ق:۱۶)

سنی امام ابن جریر طبر ی رحمہ اللہ (تفسیر طبری : ۳۸۷/۱۳) اور امام اہل سنت حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (تفسیر ابن کثیر : ۶۷۳/۵) فرماتے ہیں کہ اس سے مراد فرشتے ہیں ، جو موت کے وقت انسان کے پاس ہوتے ہیں ، جن کا اگلی آیتِ کریمہ میں ذکر بھی ہے ۔ بعض اہل علم اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا علم یا قدرت لیتے ہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  (۶۶۱۔ ۷۲۸ھ) فرماتے ہیں:

ھذہ الآیۃ لا تخلو إما أن یراد بھا قربہ سبحانہ أو قرب ملائکتہ، کما قد اختلف الناس فی ذلک، فإن أرید بھا قرب الملائکۃ فقولہ: إذ یتلقی المتلقیان عن الیمین وعن الشمال قعید، فیکون اللہ سبحانہ و تعالی قد أخبر بعلمہ ھو سبحانہ بما فی نفس الإنسان، واخبر بقرب الملائکۃ الکرام الکاتبین منہ، ودلیل ذلک قولہ تعالیٰ: (ونحن اقرب إلیہ من حبل الورید٭ إذ یتلقی….)، ففسر ذلک بالقرب الذی ھو حین یتلقی العتلقیان و بای معنی فسر، فإن علمہ و قدرتہ عام التعلق، وکذلک نفسہ سبحانہ لا یختص بھذا الوقت، وتکون ھذہ الایۃ مثل قولہ تعالی: (أم یحسبون أنا لا نسمع سرھم و نجواھم بلی ورسلنا لدیھم یکتبون)، ومنہ قولہ فی أول السورۃ: (قد علمنا ما تنقص الأرض منھم و عندنا کتاب حفیظ)، وعلیٰ ھذا فالقرب لامجاز فیہ، وإنما الکلام فی قولہ تعالی: (ونحن أقرب) حیث عبربھا عن ملائکتہ و رسلہ أو عبربھا عن نفسہ، أو عن ملائکتہ، ولکن قرب کل بحسبہ، فقرب الملائکۃ منہ تلک الساعۃ، وقرب اللہ تعالیٰ منہ مطلق کالوجہ، الشانی إذا أرید بہ اللہ تعالیٰ، أی نحن أقرب إلیہ من حبل الورید، فیرجع ھذا إلی القرب الذاتی اللازم، وفیہ القولان: أحدھما إثبات ذلک، وھو قول طائفۃ من المتکلمین و الصوفیۃ، وفیہ القولان: أحدھما إثبات ذلک، وھو قول طائفۃ من المتکلمین و الصوفیۃ، و الثانی أن القرب ھنا بعلمہ، لأنہ قد قسال: (ولقد خلقنا الانسان و نعلم ما توسوس بہ نفسہ و نحن أقرب إلیہ من حبل الورید)، فذکر لفظ العلم ھنا دل علی القرب بالعلم، ومثل ھذہ الآیۃ حدیث أبی موسی: إنکم لا تدعون أصم ولا غائبا، إنما تدعون سمیعا قریبا، إن الذی تدعونہ أقرب إلی أحدکم من عنق راحلتہ، فالآیۃ لاتحتاج إلی تأویل القرب فی حق اللہ تعالی إلا علی ھذا القول، وحینئذ فالسیاق دل علیہ، وما دل علیہ السیاق ھو ظاھر الخطاب…… 

"اس آیت میں دو احتمال ہیں ، ایک یہ کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا قرب لیا جائے ، دوسرے یہ کہ فرشتوں کا قرب مراد لیا جائے ، جیساکہ لوگوں کا اس میں اختلاف ہے ، اگر یہاں فرشتوں کا قرب مراد لیا جائے تو اللہ تعالیٰ اپنے علم کے ذریعے انسان کے نفس میں پیدا ہونے والے وسوسوں کے بارے میں خبر دے رہے ہیں اور بتارہے ہیں کہ کراماً کاتبین فرشتے اس کے قریب ہیں ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس قرب کی خبر دے کہ فوراً اللہ تعالیٰ نے انسان کے اعمال نوٹ کرنے کے لئے دائیں اور بائیں جانب تیار بیٹھنے والے فرشتوں کا ذکر کیا ہے  ۔ جس معنیٰ میں بھی تفسیر کی جائے ، اللہ تعالیٰ کے علم اور قدرت کا تعلق عام ہے ، اسی طرح اللہ تعالیٰ کسی وقت کے ساتھ خاص نہیں ۔ یہ فرمانِ باری تعالیٰ اس آیت سے ملتا جلتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

أَمْ یَحْسَبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّہُمْ وَنَجْوَاہُم بَلَی وَرُسُلُنَا لَدَیْْہِمْ یَکْتُبُونَ  

(کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی راز کی باتیں اور سرگوشیاں نہیں سنتے ؟ کیوں نہیں ، ہمارے فرشتے ان کے پاس لکھتے ہیں )، اسی طرح اس سورت (سورۂ ق) کے شروع میں فرمایا :

قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ وَعِندَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ

زمین ان (کے جسم) میں سے جو کچھ کم کرتی ہے اس کا ہمیں علم ہے اور ہمارے پاس محفوظ رکھنے والی کتاب ہے

، اس لحاظ سے اس قرب میں کوئی مجاز نہیں ۔ بات تو صرف یہ ہے کہ نحن (ہم) سےمراد اللہ تعالیٰ نے کیا لی ہے ، یہاں اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کا قرب مراد ہو یا خود اللہ تعالیٰ کا ، ہر ایک کا قرب اپنے اعتبار سے ہے ۔ فرشتوں کا قرب صرف اسی (موت کے ) وقت ہوگا، جب کہ اللہ تعالیٰ کا قرب (علم و قدرت) مطلق (ہر وقت) ہوتاہے ۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ کا ذاتی لازم قرب مراد ہے ۔ اس میں دو قول ہیں ،ا یک تو متکلمین صوفیوں کا ہے کہ وہ اس کا اثبات کرتے ہیں ۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ کا علم مراد ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

﴿وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ وَ نَعۡلَمُ مَا تُوَسۡوِسُ بِہٖ نَفۡسُہٗ ۚۖ وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ ﴾ 

(اور تحقیق ہم نے انسان کوپیدا کیا ہے اور ہم اس کے نفس کے وسوسے جانتے ہیں اور ہم اس سے شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں)

اس آیتِ کریمہ میں علم کے لفظ سے معلوم ہوا کہ یہاں علم کے اعتبار سے قرب مراد ہے ۔ اس آیت کے مفہوم میں ہی سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیثِ نبوی ﷺ ہے کہ

((إنکم لا تدعون أصم ولا غائبا، إنما تدعون سمیعا قریبا، إن الذی تدعونہ أقرب إلی أحدکم من عنق راحلتہ))

(تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ، بلکہ تم سمیع و قریب ذات کو پکارتے ہو ، تم جس ذات کو پکارتے ہو، وہ تمہارے سواری کی گردن سے بھی زیادہ تمہارےقریب ہے )

۔ اس آیتِ کریمہ کو قربِ الٰہی کی تاویل کی صرف اسی قول کے مطابق ضرورت ہے ۔ یہاں سیاق بھی اس پر دلالت کررہا ہے اور جس پر سیاق دلالت کررہاہے ، وہی خطاب کا ظاہری مطلب ہے ۔۔۔”   (مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ : ۱۹/۲۔ ۲۰)

نیز فرماتے ہیں:

وھو بذلک أقرب إلینا من حبل الورید، وکیف لا یکون کذلک، وھو أعلم بما توسوس بہ أنفسنا منا، فکیف بحبل الورید؟ وکذلک قال أبو عمرو الطلمنکی قال: ومن سال عن قولہ: (ونحن أقرب إلیہ من حبل الورید) فاعلم ان ذلک کلہ علی معنی العلم بہ والقدرۃ علیہ، والدلیل من ذلک صدر الآیۃ، فقا ل اللہ تعالی: (ولقد خلقنا الإنسان و نعلم ماتوسوس بہ نفسہ ونحن أقرب إلیہ من حبل الورید)، لأن اللہ لما کان عالما بوسوستہ کان أقرب إلیہ من حبل الورید، وحبل الورید لا یعلم من توسوس بہ النفس، ویلزم الملحد علی اعتقادہ أن یکون معبودہ مخالطا لدم الإنسان ولحمہ، وأن لا یجرد الإنسان تسمیۃ المخلوق حتی یقول: خالق و مخلوق، لأن معبودہ بزعمہ داخل حبل الورید من الإنسان وخارجہ، فھو علی قولہ ممتزج بہ غیر مباین لہ، قال: وقد أجمع المسلمون من أھل السنۃ علی أن اللہ علی عرشہ بائن من جمیع خلقہ، وتعالی اللہ عن قول أھل الزیغ وعما یقول الظالمون علوا کبیرا.

"اللہ تعالیٰ علم کے ساتھ ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے ، کیسے نہ ہو ، وہ تو ہمارے نفس کے وسوسوں کو بھی ہم سے بڑھ کر جانتا ہے ، شہ رگ کیا ہے ؟ اسی طرح ابوعمرو الطلمنکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جو شخص اس فرمانِ باری تعالیٰ کے بارے میں سوال کرتا ہے کہ ہم انسان کی شہ رگ کے بھی قریب ہیں ، وہ شخص جان لے کہ یہ ساری بات علم و قدرت کے معنیٰ میں ہے ۔ اس کی دلیل آیت کا شروع والا حصہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم اس کے نفس میں پیدا ہونے والے وسوسوں کو بھی جانتے ہیں اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی قریب ہیں ۔ اللہ تعالیٰ جب اس کے خیالات کو بھی جانتا ہے تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوا ، کیونکہ شہ رگ خیالات کو نہیں جانتی ۔(اللہ تعالٰی کے قرب کو ذاتی ماننے والے) ملحد پر یہ اعتقاد رکھنا لازم آتا ہے کہ اس کا معبود انسان کے خون اور گوشت کے ساتھ ملا ہوا ہے اور انسان مخلوق کے نام کو خالق سے جدا نہ کرے ،کیونکہ اس کے خیال میں اللہ تعالیٰ اس کی شہ رگ کے اندر اور باہر موجود ہے ۔ اس کے کہنے کے مطابق تو اللہ تعالیٰ انسان کے ساتھ ملا ہواہے ، جدا نہیں ہے ۔ حالانکہ اہل سنت مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی ہے اور اپنی تمام مخلوق سے جدا ہے ۔ نیز گمراہ اور ظالم لوگوں کی باتوں سے بہت بلند ہے ۔”     (مجمع الفتاوی لا بن تیمیہ : ۵۰۱/۵)

اس سے فرمانِ الہیٰ:

وَإِذَا سَأَلَکَ عِبادِی عَنٌی فإِنی قَرِیبٌ أُجِیبُ دعوٰۃ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ

کا معنی بھی واضح ہوا کہ اس قرب سے مراد بھی علم وقدرت ہے ۔

جہمی لوگ اللہ تعالیٰ کا یہ  فرمان بھی پیش کرتےہیں:

  وَ ہُوَ الَّذِیۡ فِی السَّمَآءِ اِلٰہٌ وَّ فِی الۡاَرۡضِ اِلٰہٌ ؕ وَ ہُوَ الۡحَکِیۡمُ الۡعَلِیۡمُ ﴾  الزخرف : ۸۳

اس سے مراد ہے کہ وہ اللہ جو آسمانوں و زمین میں معبود ہے ۔

حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (۳۶۸۔ ۴۶۳ھ) لکھتے ہیں:

  فوجب حمل ھذہ الآیۃ علی المعنی الصحیح المجتمع علیہ، وذلک أنہ فی السماء إلہ معبود من أھل السماء، وفی الأرض إلہ معبود من أھل الأرض، وکذلک قال أھل العلم بالتفسیر. 

"اس آیت کو صحیح اتفاقی معنی پر محمول کرنا ضروری ہے اور وہ معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں میں آسمان والی مخلوق کا معبود ہے اور زمین میں زمین والی مخلوق کا معبود ہے (یعنی زمین ہو یا آسمان عبادت اسی کی ہے ) ۔ اسی طرح مفسرین کرام نے کہا ہے ۔” (التمھید لابن  عبدالبر : ۱۳۴/۷)

امام آجری رحمہ اللہ (م ۳۶۰ھ ) فرماتے ہیں :

ومما یلبسون بہ علی من لا علم معہ قولہ تعالیٰ ؛ (وھو اللہ فی السماوات وفی الأرض)، وبقولہ عزوجل : (وھو الذی فی السماء إلہ وفی الأرض إلہ)، وھذا کلہ إنما یطلبو ن بہ الفتنۃ، کما قال اللہ عزوجل: (فیتبعون ما تشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ و ابتغاء تأویلہ)، وعند أھل العلم من أھل الحق (وھو  اللہ فی السماوات وفی الأرض یعلم سرکم و جھرکم و یعلم ما تکسبون)، ھو کما قال أھل الحق یعلم سرکم مماجاءت بہ السنن أن اللہ عزوجل علی عرشہ، وعلمہ محیط بجمیع خلقہ، یعلم ما تسرون وما تعلنون، یعلم الجھر من القول و یعلم ما تکتمون، وقولہ عزوجل : (وھو الذی فی السماء إلہ وفی الأرض إلہ)، فمعناہ: أنہ جل ذکرہ إلہ من فی السموات، وإلہ من فی الأرض، ھو الالہ یعبد فی السموات، وھو الإلہ یعبد فی الأرض، ھکذا فسرہ العلماء…..

"جن چیزوں کے ساتھ جہمی لوگ جاہل لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں ، ان میں سے ایک یہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ  وہ اللہ آسمانوں میں بھی اللہ ہے اور زمین میں بھی ، نیز فرمانِ الہٰی ہے کہ وہی اللہ آسمانوں میں الٰہ ہے اور زمین میں الٰہ ہے ۔ ان سب باتوں سے ان کا مقصد لوگوں کو دھوکہ دینا ہوتا ہے ، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ متشابہ آیات کے پیچھے اس لیے پڑتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو دھوکہ دیں اور ان کی تاویلات تلاش کریں ۔ اہل حق اہل علم کے ہاں ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری پوشیدہ باتوں کو بھی جانتا ہے ، جیساکہ احادیث میں صراحت آگئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی ہے ، جبکہ اس کا علم تمام مخلوقات کو محیط ہے ۔ وہ ظاہری و مخفی تمام باتوں کو جانتا ہے ۔ اس فرمانِ الہٰی کہ وہی آسمان میں الٰہ ہے اور زمین میں الٰہ ہے ، اس کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان والوں کا بھی الٰہ ہے اور زمین والوں کابھی الٰہ ہے ۔ آسمانوں میں بھی اسی کی عباد ت کی جاتی ہے اور زمین میں بھی اسی کی عبادت کی جاتی ہے ، علمائے کرام نے اس کی یہی تفسیر کی ہے ۔”        (الشریعۃللآجری : ۱۱۰۴/۳)

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرمانِ باری تعالیٰ :

﴿ وَ ہُوَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ یَعۡلَمُ سِرَّکُمۡ وَ جَہۡرَکُمۡ وَ یَعۡلَمُ مَا تَکۡسِبُوۡنَ ﴾  (الانعام: ۳)

کے تحت لکھتے ہیں:

اختلف مفسر وھذہ الآیۃ علی أقوال، بعد الاتفاق علی تخطئۃ قول الجھمیۃ الأول القائلین بأنہ تعالی عن قولھم علوا کبیرا فی کل مکان، حیث حملوا الآیۃ علی ذلک، فأصح الأقوال أنہ المدعو اللہ فی السموات وفی الأرض، أی یعبدہ ویوحدہ ویقرلہ بالإلھیۃ من فی السموات ومن فی الأرض، ویسمونہ اللہ، ویدعونہ رغبا ورھبا، إلا من کفر من الجن و الإنس، وھذہ الآیۃ علی ھذا القول کقولہ تعالی: (وھو الذی فی السماء إلہ وفی الأرض إلہ)، أی: ھو إلٰہ من فی السماء وإلہ من فی الأرض، وعلی ھذا فیکون قولہ: (یعلم سرکم وجھرکم) خبرا أوحالا، والقول الثانی: أن المراد أن اللہ الذی یعلم ما فی السموات وما فی الأرض، من سر وجھر، فیکون قولہ: (یعلم) متعلقابقولہ: (فی السماوات وفی الارض) تقدیرہ: وھو اللہ یعلم سرکم وجھرکم فی السموات وفی الأرض، ویعلم ما تکسبون……

"اس آیت کی تفسیر کرنے والے مفسرین کے کئی اقوال ہیں ،لیکن وہ جہمیوں کی اس بات کو بالاتفاق غلط قرار دیتے ہیں کہ نعوذباللہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ پر ہے ، انہوں نے اس آیت کو اس معنیٰ میں لیا ہے ۔ سب سے صحیح بات یہ ہے کہ اس آیتِ کریمہ سے مراد یہ ہے کہ آسمانوں زمین میں جس ذات کو اللہ کے نام سے پکارا جاتا ہے ، وہ اللہ ہی کی ذات ہے ، یعنی آسمان و زمین کی تمام مخلوق اس کی عبادت کرتی ہے ، اس کی توحید کا اقرار کرتی ہے ، اس کی الوہیت کی اقراری ہے اور اس کا نام اللہ رکھتی ہے ، نیز ڈرتے ہوئے یا رغبت سے اسے پکارتی ہے ، سوائے ان جنوں اور انسانوں کے جنہوں نے کفر کیا ہے۔ اس معنیٰ میں یہ آیتِ کریمہ اس فرمانِ باری تعالیٰ ہی کی طرح ہے : ﴿وھو الذی فی السماء إلہ وفی الأرض إلہ﴾ (وہی ذات ہے جو آسمان  میں بھی معبود ہے اور زمین میں بھی معبود ہے ) یعنی زمین و آسمان کی مخلوق کا وہی معبود ہے ۔ اس طرح یہ  یعلم سرکم وجھرکم کے الفاظ خبر یا حال ہوں گے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہاں سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان میں جو بھی پوشیدہ وظاہر  چیز ہے ، اسے جانتا ہے ۔ اس معنیٰ کے اعتبار سے  یعلم…. کے الفاظ  فی السماوات وفی الارض کے متعلق ہوں گے ۔ اصل عبارت یوں ہوگی کہ   وھو اللہ یعلم سرکم وجھرکم فی السماوات وفی الارض و یعلم ما تکببون…. یعنی وہی اللہ ہے جو زمین و آسمان میں تمہاری مخفی و ظاہری چیزوں کو جانتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو ، اسے بھی جانتا ہے ۔ ”        (تفسیر ابن کثیر : ۷/۳)

ملحدین اپنے باطل عقیدہ پر یہ حدیث بھی پیش کرتے ہیں کہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری  سے روایت ہے کہ ہم بلندی پر چڑھتے وقت بآوازِ بلند اللہ اکبر کہتے تھے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :

أیھا الناس !اربعواعلی انفسکم ، فإنکم لا تدعون أصم ولا غائبا، إنہ معکم، إنہ سمیع قریب.

اے لوگوں ! اپنے اوپر کنٹرول کرو، تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے ، بے شک وہ اللہ تمہارے ساتھ ہے ، کیونکہ وہ سننے والا اور قریب ہے "۔         (صحیح البخاری : ۲۹۹۲، صحیح مسلم: ۲۷۰۴)

سنن ترمذی (۳۳۷۴، و سندہ صحیح) کے الفاظ یہ ہیں :

إن ربکم لیس بأصم ولا غائب ، ھو بینکم وبین رؤوس رحالکم.

"تمہارا رب بہرا یا غائب نہیں ہے ، بلکہ وہ تمہارے اور تمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان ہے ۔”

امام ترمذی رحمہ اللہ  یہ حدیث بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

ومعنی قولہ: ھو بینکم و بین رؤوس رواحلکم، إنما یعنی علمہ وقدرتہ.

"اس فرمانِ نبوی کی مراد صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم اور قدرت تمہارے ساتھ ہے ۔ ”

علامہ ابن رجب رحمہ  اللہ ( ۷۳۶۔ ۷۹۵ھ) لکھتے ہیں:

ولم یکن أصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم یفھمون من ھذہ النصوس غیر المعنی الصحیح المراد بھا، یستفیدون بذلک معرفۃ عظمۃ اللہ و جلالہ، واطلاعہ علی عبادہ و إحاطتہ بھم، وقربہ من عابدیہ، وإجابتہ لدعائھم، فیزدادون بہ خشیۃ اللہ و تعظیماوإجلالا و مھابۃ و مراقبۃ واستحیاء، یعبدونہ کانھم یرونہ، ثم حدث بعدھم من قل ورعہ، وساء فھمہ وقصدہ، وضعفت عظمۃ اللہ وھیبتہ فی صدرہ، وأراد أن یری الناس امتیازہ علیھم بدقۃ الفھم وقوۃ النظر، فزعم أن ھذہ النصوص تدل علی أن اللہ بذاتہ فی کل مکان، کمایحکی ذلک عن طوائف من الجھمیۃ و المعتزلۃ ومن وافقھم، تعالی اللہ عما یقولون علو کبیرا، وھذا شیء ما خطر لمن کان قبلھم من الصحابۃ رضی اللہ عنھم، وھؤلاء ممن یتبع ما تشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ و ابتغاء تأویلہ، وقد حذر النبی ﷺ أمتہ منھم فی حدیث عائشۃ الصحیح المتفق علیہ، وتعلقوا أیضا بما فھموہ بفھمھم القاصر مع قصدھم الفاسد بآیات فی کتاب اللہ، مثل قولہ تعالی (وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ ؕ) (الحدید:۴) وقولہ: (مَا یَکُوۡنُ مِنۡ نَّجۡوٰی ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ہُوَ رَابِعُہُمۡ) (المجادلۃ: ۷)، فقال من قال من علماء السلف حینئذ: إنما اراد أنہ معھم بعلمہ، وقصدوا بذلک إبطال ما قالہ اولئک، ممالم یکن أحد قبلھم قالہ ولا فھمہ من القرآن.

"رسول اکرم ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ان آیاتِ کریمہ سے یہاں مراد صحیح معنی کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے تھے ، وہ ان آیات سے اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال، اپنے بندوں پر اطلاع ، ان کے احاطہ ، اپنے عبادت گزاروں سے قرب اور ان کے دعاؤں کی قبولیت کی معرفت حاصل کرتے تھے، پھر وہ اللہ تعالیٰ کے ڈر، تعظیم ، ہیبت ، خیال اور حیاء میں زیادہ ہوجاتے تھے اور اس کی عبادت ایسے کرتے تھے، جیسے اسے دیکھ رہے ہوں۔ پھر ان کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوئے جن کا تقویٰ کم ہوگیا اور قصد و فہم برا ہوگیا اور ان کے سینے میں اللہ تعالیٰ کی ہیبت  اور عظمت کم ہوگئی اور انہوں نے اراد ہ کیا ہے کہ لوگوں کو اپنی منفرد دقت فہم اور قوت  استدلال دکھائیں تو یہ دعویٰ کردیا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے ہر جگہ ہے ، جیساکہ جہمیہ، معتزلہ  اور ان کے ہم نواؤں سے بیان کیا جا تا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی باتوں سے منزہ و مبرا ہے ۔ یہ بات ان سے پہلے صحابہ کرام کو سمجھ نہیں آئی ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کریم میں متشابہ آیات کے پیچھے پڑتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو دھوکہ دیں اور ان میں تاویلات تلاش کریں۔  نبی اکرم ﷺ  نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بیان کردہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ان لوگوں سے اپنی امت کو بچنے کا حکم دیا ہے ۔ اسی طرح ان لوگوں نے اپنے اس فاسد و قاصر فہیم سے بھی دلیل لی ہے جو انہوں نے قرآنِ کریم کی آیات کا لیا ہے ۔ جیساکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ تم جہاں بھی ہو، وہ اللہ تمہارے ساتھ ہو تا ہے ، اسی طرح فرمایا کہ کوئی تین  شخص سرگوشی نہیں کرتے مگر اللہ تعالیٰ ان کا چوتھا ہوتا ہے ۔ علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہاں مراد یہ ہے کہ وہ علم کے اعتبار سے ان کے ساتھ ہوتا ہے ۔ یہ کہہ کہ علمائے کرام جہمیوں وغیرہم کی ایسی باتوں کو رد کرتے ہیں ، جو ان سے پہلے نہ کسی نے کہی ہیں اور نہ ان سے پہلے قرآنِ کریم سے کسی کو یہ باتیں سمجھ آئی ہیں۔”        (فتح الباری لا بن رجب : ۳۳۱/۲)

جہمی مبتدعین کا استدلال اس روایت سے بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

والذی نفس محمد بیدہ ! لو أنکم دلیتم رجلا بحبل إلی الأرض السفلی لھبط علی اللہ.

"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے ! اگر تم ایک آدمی کو رسی سے نچلی زمین کی طرف لٹکاؤ تو وہ اللہ کے اوپر گرےگا۔ ”    (سنن الترمذی : ۳۲۹۸)

اس روایت کی سند "ضعیف” ہے ۔ اس میں امام حسن بصری "مدلس” ہیں اور سماع کی تصریح ثابت نہیں ہوسکی، لہٰذا سند "ضعیف” ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ امام حسن بصری رحمہ اللہ کا سیدنا ابوہریرہ  سے سماع جمہور کے نزدیک ثابت نہیں ۔ (عمدۃ القاری للعینی : ۲۳۱/۱)

لہٰذا یہ روایت منقطع ہونے کی وجہ سے "ضعیف” ہے ۔

تیسری بات یہ ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

وفسر بعض أھل العلم ھذا الحدیث، فقالوا: إنما ھبط علی علم اللہ وقدرتہ وسلطانہ، وعلم اللہ وقدرتہ وسلطانہ فی کل مکان، وھو علی عرشہ کما وصف فی کتابہ.

"بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر کی ہے ، انہوں نے کہا ہے کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ کے علم، قدرت اور بادشاہت پر گرے گا ۔ اللہ تعالیٰ کا علم ، قدرت اور بادشاہت ہرجگہ میں ہے اور وہ خود اپنے عرش پر مستوی ہے ، جیساکہ اس نے اپنی کتاب میں بیان کردیا ہے ۔ ”    (سنن الترمذی ، تحت حدیث: ۲۳۹۸)

الحاصل:

ہم اہلحدیث ائمہ اہل سنت کے مذہب پر ہیں۔  تمام ائمہ اہل سنت کا اتفاقی عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر بلند ہے ۔ اس عقیدہ سے ہم بالکل بھی منحرف نہیں جبکہ اس دور میں جہم بن صفوان کی ذریت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے ، لیکن اس کے باوجود  وہ اپنے آپ کو اہل سنت کہتے نہیں تھکتے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے