جواب:
دوران جماع عورت سے گفتگو ہو سکتی ہے ۔
ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ۔
نواب صدیق حسن خان صاحب (1307ھ) لکھتے ہیں:
وَأَمَّا الْكَلَامُ حَالَ الْجِمَاعِ ، فَقَدِ اسْتَدَلَّ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى كَرَاهَةِ الْكَلَامِ حَالَ الْجِمَاعِ بِالْقَيَاسِ عَلَى كَرَاهَتِهِ حَالَ قَضَاءِ الْحَاجَةِ فَإِنْ كَانَ ذُلِكَ بِجَامِعِ الْإِسْتِخْبَاثِ فَبَاطِلٌ فَإِنَّ حَالَةَ الْجِمَاعَ حَالَةٌ مُّسْتَلِنَّةٌ لَّا حَالَةٌ مُّسْتَخْبَثَةٌ وَفِي الْمُكَالَمَةِ حَالَتَهُ نَوْعٌ مِنْ إِحْسَانِ الْمُشْرِةِ بَلْ فِيهِ لَنَّةٌ ظَاهِرَةٌ كَمَا قَالَ بَعْضُ الشُّعَرَاءِ: وَيُعْجِبُنِي مِنْكِ حَالَ الجِماع . . . . لينُ الكَلام وَضَعْفُ النَّظَر وَإِنْ كَانَ الْجَامِعُ شَيْئًا آخَرَ فَمَا هُوَ؟ فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ شَرَعَ الْمُلَاعَبَةَ وَالْمُدَاعَبَةَ وَوَقْتُ الْجِمَاعِ أولى بذلِكَ مِنْ غَيْرِه .
بعض اہل علم نے قضائے حاجت کے دوران کلام کرنے کی ممانعت پر قیاس کرتے ہوئے جماع کے دوران بھی کلام کرنے کو ممنوع قرار دیا ہے ۔ اگر کوئی کہے کہ وہ برا کام کر رہا ہے ، تو یہ بات غلط ہے ، کیوں کہ جماع لذت کے لمحات ہیں ، نہ کہ برے ۔ حالت جماع میں بیوی سے گفتگو کرنا حسن معاشرت ہے ، بلکہ یہ واضح لذت ہے ، جیسا کہ کسی شاعر نے کہا: تھا:
وَيُعْجِينِي مِنْكِ حَالَ الجماع . . . . . لينُ الكَلَامِ وَضَعْفُ النَّظَرِ
مجھے یہ وقت جماع آپ سے نرم نرم کلام اور ملکی ملکی نظر خوش گوار لگتی ہے ۔
اگر جماع کرنے والا کوئی اور کام کر رہا ہے ، تو وہ کیا ہو سکتا ہے؟ بلاشبہ بیوی سے دل لگی اور اٹکھیلیاں کرنا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشروع کیا ہے اور دوران جماع ایسا کرنا بالا ولی جائز ہے ۔“
[الروضة الندية شرح الدرر البهية: ٨٣/٢]