میت کی طرف سے روزوں کی قضائی
  تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری

اگر کسی نے روزوں کی نذر مانی ہوا اور اس کو پورا کرنے سے پہلے فوت ہوجائے تو اس کی طرف سے یہ روزے اس کا ولی رکھ ےگا، جیسا کہ

۱  –       سیدہ عائشہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

من مات وعلیہ صیام ، صام عنہ ولیّہ۔ 

جو آدمی فوت ہوجائے ، اس حال میں کہ اس کے ذمّہ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے۔‘‘(صحیح بخاری: ۱۹۵۲، صحیح مسلم: ۱۱۴۷) .

۞     عمرہ سے روایت ہے:

ان امھا ماتت ولیھا من رمضان، فقالت لعا ئشۃ : أقضیہ عنھا؟ قالت : لا، بل تصد قی عنھا وکان کل یوم نصف صاع علی کل مسکین .

"ان کی ماں فوت ہوگئی، اس پر رمضان کے روزے باتی تھے، اس نے سیدہ عائشہ ؓ سے پوچھا ، کیا میں اپنی ماں کی طرف سے ان کی قضائی دوں ؟ آپﷺ نے فرمایا، نہیں ، بلکہ ہر روزے کے بدلے کسی مسکین پر ایک صاع گندم صدقہ کر۔‘‘(مشکل الآ ثار للطحاری: ۱۴۲/۳، وسندۂ صحیح، المحلی لابن حزم: ۴/۷، واللفظ لہ، وسندۂ صحیح) .

بخاری و مسلم کی پہلی حدیث کا مفہوم راویہ حدیث سیدہ عائشہ ؓ کے درج بالا فرمان سے واضح ہوگیا کہ اُس حدیث سے نذر کے روزے مراد ہیں ، نہ کہ رمضان کے، راوی اپنی روایت کو بہتر جانتا ہے۔

امام ابوداؤدؒ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

،ھذا فی النذر ، وھو قول أ حمد بن حنبل .

"یہ (حدیث) نذر کے (روزوں کے ) بارے میں ہےے، امام احمد بن حنبل ؒ کا یہ قول ہے۔‘‘(سنن ابی داؤد، تحت حدیث:۲۴۰۰).

حدیث ِ عائشہ ؓ کے عموم کی تخصیص یہ حدیث بھی کرہی ہے کہ سید نا عبد اللہ بن عباس ؓ سے  روایت ہے:

(جاء رجل الی االنبی ﷺ ، فقال یا رسول اللہ! ان اُمّی شھر ، أ فأ قضیہ عنھا؟ قال : نعم ، فد ین اللہ أ حق أن یقضٰی.)

"ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی، اے اللہ کے رسول! میری امی فوت ہوگئی ہیں ، ان پر ایک مہینے کے روزے ہیں ، کیا میں ان کی طرف سے قضائی دوں ؟ آپﷺ نے فرمایا، ہاں!اللہ تعالیٰ کا قرض ادائیگی کا زیادہ حق رکھتا ہے۔ ” (صحیح بخاری: ۱۹۵۳، صحیح مسلم: ۱۱۴۸) .

۞     سید نا ابنِ عباس ؓ سے روایت ہے:

ان سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ استفتی رسول اللہﷺ ، فقال : ان أمّی  ماتت وعلیھا نذر ، فقال: اقضہ عنھا) . 

"سیدنا سعد بن عبادہ ؓ نےرسولِ کریم ﷺ سے فتویٰ طلب کیا کہ میری والدہ فوت ہوگئی ہیں ، ان پر نذ ر کے روزے تھے ، آپ نے فرمایا ، ا ن کی طرف سے قضائی دے۔” (صحیح بخاری :۲۷۶۱، صحیح مسلم ۱۶۳۸).

یہ حدیث نص ہے کہ میت کی طرف سے نذر کے روزے رکھے جائیں گے۔

۞     سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے ایسے انسان کے بارے میں پوچھا گیا جو فوت ہوگا ہواور اس پر نذر کے روزے تھے تو آپ نے فرمایا:

( یصام عنہ النذر) .

"اس کی طرف سے نذر کے روزے رکھے جائیں گے۔‘‘(مصنف ابن ابی  شیبۃ: ۲۵/۱/۴، وسندۂ صحیح).

فائدہ: 

اگر مرنے والے  پر رمضان کے روزوں کی ادائیگی ہو تو اس کی طرف سے روزہ نہیں رکھا جائے گا، بلکہ سیدہ عائشہ ؓ کے اس فرمان کے مطابق ہر روزے کے بدلے آدھا صاع یا ایک مد گندم ولی صدقہ کرے گا۔

امام احمد بن حنبل ؒ بھی یہی فرما تے ہیں ۔

امام بخاری ؒ کا بھی یہی مؤقف ہے۔

سیدناابنِ عباس ؓ فرماتے ہیں : (مسائل الا مام احمد برویۃ ابی داؤد: ص۹۶) .

"کوئی کسی کی طرف سے نہ نماز پرھے اور نہ کوئی کسی کی  طرف سےروزہ رکھے، بلکہ (روزے کے بدلےمیں ) ہر دن ایک مد گندم صدقہ کرے۔‘‘(السنن الکبری  للسائی : ، ۲۹۱۸وسندۂ صحیح)

میت کی طرف سے نذر کے روزوں کے علاوہ ولی روزے نہیں رکھ سکتا، کیو نکہ سیدنا ابنِ عباس ؓ اسی بات کے قائل ہیں کہ میت کے طرف سے نذر کے روزے رکھے جائی۔

الحاصل:

میت پر نذر کے روزے ہوں تو اس کا ولی ان کی قضائی دے گا، اگر رمضان کے روزے ہوں تو ولی ہر روزے کے بدلے میں آدھا صاع یا ایک مد گندم کسی مسکین پر صدقہ کرے گا۔

مقلدین نبئ اکرم ﷺ ، سیدہ عائشہ ؓاور سید ناابنِ عباس ؓ کی مخالفت میں کہتے ہیں :

(ولا یصوم عنہ الولیّ)

"ولی میت کی طرف سےنذر کے روزے نہیں رکھے گا۔‘‘ (الھدایۃ الدرایۃ، کتاب الصوم: ۲۰۳/۱)

قارئین کرام! انصاف شرط ہے کہ آپ نبی کریم ﷺ کی حدیث کو لیں گے یافقہ حنفی کو؟

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے