مسئلہ تقلید پر علمائے دیوبند کے دلائل کا جائزہ
یہ تحریرمولانا ابو صحیب داؤد ارشد حفظہ اللہ کی کتاب تحفہ حنفیہ سے ماخوذ ہے۔ یہ کتاب دیوبندی عالم دین ابو بلال جھنگوی کیجانب سے لکھی گئی کتاب تحفہ اہلحدیث کا مدلل جواب ہے۔

فصل دوم – مسئلہ تقلید

تقلید کی لغوی تعریف :

لغت میں تقلید معنی گلے میں کسی چیز کو لٹکانا ہے جیسا کہ علامہ زمخشری حنفی نے لکھا ہے۔
(اساس البلا غتہ ص 375)
لیکن جب اس کا استعمال دین کے مفہوم میں آئے تو اس وقت اس کا معنی کسی کی بات کو بغیر دلیل اور غور و فکر کے قبول کر لینا ہے۔ جیسا کہ (لسان العرب ص 367 ج 3) وغیرہ معتبر کتب لغت میں ہے۔
مولانا سر فراز خان صفدر فرماتے ہیں کہ: لغت کی جدید اور معروف کتاب (مصباح اللغات ص 764) میں ہے قلدہ فی کذا اس نے اس کی فلاں بات میں بغیر غور و فکر کے پیروی کی۔
(الکلام المفید ص 30)

اصطلاحی تعریف:

علماء اصول نے تقلید کی تعریف یوں کی ہے۔
((التقليد العمل بقول الغير من غير حجة )) (مسلم الثبوت ص 350 ج 2)

یعنی تقلید ایسے عمل کا نام ہے جو کسی کی بات پر بغیر دلیل کے کیا جائے۔ یہی تعریف علامہ آمدی متوفی 613ھ نے ( الاحکام ص 187 188 ج 3 طبع مصر 1347ھ ) میں بحر العلوم عبد العلی نے‘ فوائح الر حموت ص 400 ج 2 طبع مصر 1324ھ میں علامہ نووی نے ( تہذیب الاسماء واللغات ص 101 ج 4 طبع بیروت ) میں ابن حاجب نے (مختصر 231) میں حضرمی نے ( اصول فقہ ص 457) میں مفتی احمد یار گجراتی نے (جاء الحق ص 15 ج 1) میں اور مولوی غلام رسول سعیدی حنفی بریلوی نے شرح (صحیح مسلم ص 329 ج3) میں کی ہے۔
مولانا سر فراز خان صفدر حنفی دیوبندی فرماتے ہیں کہ :اصطلاحی طور پر تقلید کا یہ مطلب ہے کہ جس کا قول حجت نہیں اس کے قول پر عمل کرنا۔
(الکلام المفید من 35)
اس تعریف سے ثابت ہوا کہ تقلید بلا دلیل اطاعت و اقتداء کا نام ہے جس میں علم و استدلال نظر و فکر کی جگہ حسن ظن کو دی گئی ہے۔ یہ بات کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ انسان میں علم و تحقیق اور جستجو کو ودیعت کیا گیا ہے بلا سوچے سمجھے کسی کے پیچھے محض حسن ظن سے لگنا کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ ٹھیک اسی طرح غیر معلوم مسائل میں علماء کی طرف رجوع کرنا کوئی بھی معیوب نہیں سمجھتا۔
ظاہر ہے کہ امت سے کسی انسان کو واجب الاتباع اور کامل ترین نمونہ قرار دینا اور اس کی بات کو حرف آخر کہنا عملا اس کی بات کو من وعن قبول کرنا اس سے انحراف کو گمراہی ولادینی وغیرہ جیسے کلمات سے تعبیر کرنا بلکہ اس سے علمی اختلاف کرنے والے کو لامذھب سے مخاطب کرنا شرک ہے۔ کیونکہ واجب الاطاعت صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے اور انبیاء کی اتباع و پیروی در حقیقت اللہ ہی کی اطاعت و فرمان برداری ہے۔
جیسا کہ خالق ارض و سماء کہتا ہے:
(ومن يطع الرسول فقد اطاع الله ) (سورة النساء: 80)
یعنی جس نے اللہ کے رسول کی اطاعت کی اس نے گویا اللہ کی اطاعت کی۔
ہماری اس تمھیدی بات سے ہمارے معاصر کی اس غلط فہمی کا بھی ازالہ ہو گیا کہ تقلید شرک نہیں ہے۔
(مفہوم تحفہ اہل حدیث ص 32)

کیا تقلید شرک نہیں ؟

اس کی تفصیل تو ہم آخر میں درج کریں گے سرے دست مؤلف تحفہ اہل حدیث کے استاذ محترم کا حوالہ درج کر دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ : کوئی بد بخت اور ضدی مقلد دل میں یہ ٹھان لے کہ میرے امام کے قول کے خلاف اگر قرآن و حدیث سے بھی کوئی دلیل قائم ہو جائے تو میں اپنے مذھب کو نہیں چھوڑوں گا تو وہ مشرک ہے ہم بھی کہتے ہیں۔ لاحنفہ فيه (اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں) ( الکلام المفید ص 310) مزید صفحہ 298 میں دیکھئے۔
حنفی:۔ اس حقیقت سے انحراف کے لیے ابو بلال نے ایک چور دروازہ بھی کھولا ہے۔ کہتا ہے یہ تعریف آپ نے کسی حدیث شریف سے اخذ کی ہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 31)
محمدی:۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ جرم تو آپ کریں اور دلیل ہم سے طلب کریں۔ عزیز بھائی یہ تعریف آپ کے مقلد علماء اصول نے کی ہے‘ اگر تقلید کوئی حکم شرعی ہوتا اور ہم اس پر عمل بھی کرتے تو جب تو آپ کا سوال درست تھا‘ لیکن ہم تو اسے دین میں بدعت کہتے ہیں جو شرک فی الاطاعت ہے۔ مگر آپ بھولے پن سے اس تعریف پر ہم سے حدیث کا سوال کر رہے ہیں آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ دین میں بدعات کی تعریف مبتدعین کی ہی مسلم ہوتی ہے۔
یہ بات یاد رکھئے کہ ہمارے نزدیک احکام شرعیہ میں قرآن وحدیث ہی کافی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہر فعل میں قرآن و حدیث ہی کافی ہے۔ مثلاً اگر کوئی جاٹ یہ کہہ دے کہ قرآن وحدیث سے یہ دکھائیے کہ دھان کی فصل کب کاشت کرنی چاہیے ؟ یا آپ سے کوئی یہ کہہ دے کہ گندم کو کب کاشت کرنا چاہیے۔ اس کی دلیل قول امام سے عنایت کیجئے تو یقیناً آپ بھی ایسے سوال کرنے والے کو جواب کی بجائے دماغی آپریشن کا مشورہ دیں گے۔ ہاں اگر ہم آپ سے یہ سوال کریں کہ آپ کے نزدیک تقلید حکم شرعی ہے اور آپ امام ابو حنیفہ کے مقلد بھی ہیں تو جو تقلید کی تعریف آپ نے بیان کی ہے وہ امام صاحب کے قول سے دکھائے ؟ مگر آپ کو شش کے باوجود اس کا جواب قیامت تک نہیں دے سکتے۔

تقلید اور اتباع میں فرق

مذکورہ سطور میں آپ نے پڑھ لیا ہے کسی کی دلیل کے بغیر پیروی کرنے کو تقلید کہتے ہیں جبکہ اتباع بادلیل ہوتی ہے جس کی وجہ سے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی پیروی کو تقلید نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ دلیل کی پیروی ہے۔
امام ابن قیم نے اعلام الموقعین میں اس پر بڑا جچا تلا تبصرہ کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
والاتباع ما ثبت عليه حجة
ص 137 ج 2‘ یعنی تقلید بغیر دلیل کے ہوتی ہے اور اتباع بادلیل ، مولانا غلام رسول سعیدی حنفی بریلوی فرماتے ہیں کہ : تقلید کے معنی ہیں دلائل سے قطع نظر کر کے کسی امام کے قول پر عمل کرنا اور اتباع سے یہ مراد ہے کہ کسی امام کے قول کو کتاب وسنت کے موافق پا کر اور دلائل شرعیہ سے ثابت جان کر اس قول کو اختیار کرنا۔
(شرح صحیح مسلم ص 63 ج 5)
مؤلف تحفہ اہل حدیث کے استاذ مکرم مولانا سر فراز خاں فرماتے ہیں کہ: یہ طے شدہ بات ہے کہ اقتداء واتباع اور چیز ہے اور تقلید اور ہے۔
( راہ سنت ص 35)
اس سے واضح ہو گیا کہ عامی کا عالم کی طرف بوقت ضرورت رجوع کرنا تقلید نہیں کیونکہ عالم اپنے فتویٰ میں قرآن وحدیث درج کرے گا۔ جس کو ماننا مستفتی پر پہلے سے ہی فرض تھا۔ پس عالم نے اسے قرآن وحدیث سے مسئلہ سمجھا دیا ہے۔
فاضل قندھاری نے اور ملا حسن شر نبلالی نے عقد الفرید میں یہی کہا ہے کہ عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں۔
(بحوالہ معیار الحق ص 66)

رد تقلید

قرآن کریم سے: قرآن کریم میں متعدد آیات سے تقلید کی نفی ہوتی ہے ہم اختصار سے قارئین کرام کو چند آیات کی نشان دہی کراتے ہیں۔ سورہ زخرف میں ارشاد ہوتا ہے کہ :
فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (ز خرف 43 پ 25)
جو کلام تیری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے اس کو مضبوطی سے پکڑے رہ اس میں شک نہیں کہ تو سیدھی راہ پر ہے ( ثنائی)
سورہ ما ئدہ میں ارشاد ہوتا ہے:
وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ (المائده 48)
پس تو ان میں خدا کے اتارے ہوئے حکموں سے فیصلہ کیجیے۔ اور جو تیرے پاس سچی تعلیم آئی ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کے پیچھے نہ چلیے۔
(ثنائی: 5-48)
ان آیات میں اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ پیروی صرف اور صرف وحی کی کیجئے اور وحی کی موجودگی میں اھواء و خواہشات کی پیروی نہ کرنا۔
سورہ النحل میں ارشاد ہوتا ہے:
وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَٰذَا حَلَالٌ وَهَٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ
(سورہ النحل: 116 تا 116)
اور اپنی زبانوں کے جھوٹ بیان سے نہ کہا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام کہ تم اللہ پر جھوٹ کے بہتان باندھنے لگو جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا کرتے ہیں ہر گز نہ بامراد ہوں گے ان کے لئے تھوڑا سا گذارہ ہے اور ان کے لئے دکھ کا عذاب ہے۔ (ثنائی)
آیت اپنے مقصد میں بالکل واضح ہے کہ کسی چیز کو حلال و حرام قرار دینا اللہ تعالی کا خاصہ ہے اور یہ کہ اپنی طرف سے کسی چیز کو حلال و حرام کہنا مالک حقیقی پر بہتان باندھنا ہے اس بات کا رب رحمٰن نے سورہ یونس آیت ۵۹ میں بھی بیان کیا ہے۔ الغرض کسی چیز کی حلت و حرمت کا تعلق اللہ کی ذات سے خاص ہے اب جو شخص امام ابو حنیفہ کی تقلید کو حلال قرار دے کر اسے فرض و واجب کہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرتا ہے کیونکہ اللہ نے کسی جگہ بھی امام ابو حنیفہ کی تقلید کرنے کا حکم وارشاد نہیں فرمایا۔ اس آیت سے ایک اور بات بھی معلوم ہوئی وہ یہ کہ جب کوئی شخص کسی چیز کو حلال و حرام کہتا ہے تو اس کی حلت و حرمت کی کوئی دلیل قرآن و سنت سے دینا اس پر لازم ہے ورنہ وہ افترا علی اللہ ہو گا اور اس سے بھی بڑھ کر وہ شخص نادان و جاہل اور اللہ کی صفت میں شریک ٹھہرانے والا ہو گا جو انسان اس حلت و حرمت کے فتویٰ کو بلا چون و چراں قبول کر لیتا ہے اور اسے تمام واجبات سے زیادہ اہمیت دیتا ہے بلکہ اس کی طرف دعوت دیتا ہے اور اس سے انحراف اسلام سے بغاوت کے مترادف قرار دیتا ہے اور اس بے دلیل فتویٰ کے منکرین کو گمر اہ و ضال اور مبتدعین میں شمار کرتا ہے۔
ہمارے معاصر نے تحفہ اہلحدیث میں فقہ کی کتاب در مختار کی بڑی دھوم دھام سے تعریف کی ہے اور اسے مدینہ کی تصنیف قرار دیا ہے۔ (صفحہ 79)
ہم نے خاص اسی کتا ب سے حصہ سوم فصل ھشتم میں چند فقہ حنفیہ کے مسائل نقل کیے ہیں اور ان کا مفتی بہ ہونا بھی نقل کیا ہے اور دیگر کتب فقہ حنفیہ سے اس کی تائیدات بھی نقل کی ہیں اگر ان میں اخلاقی جرات ہے تو ان تمام مسائل کو قرآن و سنت سے ثابت کریں ور نہ تسلیم کرلیں کہ در مختار کی طرف ہماری دعوت مذکورہ آیت میں بتائی گئی وعید شدید کے زمرہ میں آتی ہے۔

تقلید کی رسم اہل کتاب میں تھی؟

اصل میں تقلید اہل کتاب اور مشرکین عرب کی رسم بد ہے‘ اس کا دین اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ(التوبة : 31)
انہوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں اور مسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا معبود بنا رکھا ہے حالانکہ حکم صرف یہی تھا کہ اکیلے معبود کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں عبادت کریں وہ ان کے شرک سے پاک ہے۔
(ثنائی ص 31 ج 9)
اس آیت کی تفسیر نبی کریم ﷺ نے خود فرمائی ہے‘ جسے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ آیت رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم کو تلاوت کرتے ہو سنا تو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ ہم نے ان کی کبھی بھی عبادت نہیں کی اور نہ ہم مولویوں اور درویشوں کو رب مانتے تھے تو آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ:
((اما انهم لم يكونوا يعبدونهم ولكن هم اذا احلو الهم شيئا استحلوه واذا حرموا عليهم شيئا حرموه)).
وہ اپنے علماء کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن جب ان کے علماء کسی چیز کو حلال کہہ دیتے تو وہ اسے حلال کر لیتے اور جب وہ کسی چیز کو حرام قرار دیتے تو وہ بھی اسے حرام تسلیم کر لیتے۔
(سنن ترمذی مع تحفہ الاحوذی ص 117 ج 4)
اس آیت کی تفسیر میں علماء دیوبند کا بھی یہی موقف ہے کہ اہل کتاب کا معاملہ ایسے ہی تھا چنانچہ مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں کہ: یہود و نصاریٰ نے خدا کی توحید فی الطاعتہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور مشائخ کو باعتبار اطاعت کے رب بنارکھا ہے کہ ان کی اطاعت تحلیل اور تحریم میں مثل اطاعت خدا کے کرتے ہیں کہ نص پر ان کے قول کو ترجیح دیتے ہیں اور ایسی اطاعت بالکل عبادت ہے۔
(بیان القرآن ص 107 ج 4 منزل نمبر 2 طبع )
اسی صفحہ کے حاشیہ میں مسائل السلوک کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں کہ اس میں نصوص کے مقابلہ میں تقلید کرنے کی مذمت ہے جیسے جاہلوں کی عادت ہے کہ جب رسوم منکرہ سے منع کیا جائے تو اپنے مشائخ سے تمسک کرتے ہیں۔
( حاشیہ بیان القرآن ص 107 ج 4)
مولانا تھانوی نے اس اقتباس میں یہ بات تسلیم کی ہے کہ نصوص کے بالمقابل تقلید اصل میں علماء و مشائخ کی عبادت ہے اس میں مزید یہ بات بھی داخل کر لیں کہ مقلدین حضرات جب تقلید کرتے ہیں وہ امام کی بعض مسائل میں تقلید کرتے ہیں یا تمام مسائل میں اگر وہ تمام مسائل میں تقلید کرتے ہیں یقیناً کرتے ہیں تو کیا وہ نصوص اور اپنے امام کے تقلیدی مسائل کا تقابل کرتے ہیں؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ملے گا کیونکہ جب امام کے مسائل پر عدم اعتماد ہو گیا اور ان کے مسائل کی تحقیق کرلی جائے تو یہ تقلید نہیں رہے گی کیونکہ تقلید تو کہتے ہی کسی کی بات کو بغیر دلیل کے ماننا جیسا کہ پہلے عرض کر دیا گیا ہے۔ مزید سنئے کہ حافظ ابن حجر بخاری کی شرح میں علامہ آمدی سے تقلید کی تعریف نقل کرتے ہیں که:
((بان المراد بالتقليد اخذ قول الغير بغير حجة ومن قامت عليه حجة لم يكن مقلد لانه لم يا خذ بقول غيره بغير حجة ))
یعنی تقلید سے مراد غیر کے قول کو بغیر دلیل کے قبول کرنا ہے ۔ (فتح الباری ص 299 ج 13) اور جس پر دلیل قائم ہو گی وہ مقلد نہیں اس لیے کہ اس نے غیر کے قول کو دلیل کے بغیر قبول نہیں کیا۔ باب ما جاء فى دعا النبى الله امته الى توحيد الله تبارك و تعالى الغرض مذکورہ آیت میں علماء و مشائخ کے اقوال کو دلیل کے بغیر قبول کرنے کو عبادت سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کا ہی دوسرا نام تقلید ہے اور جب ان کے اقوال کو نصوص کے ساتھ تقابل کیا جائے تو اس کا نام ترک تقلید ہے۔
تھوڑا عرصہ قبل دیوبندی مکتب فکر کی طرف سے‘ دفاع امام ابو حنیفہ‘ کے نام سے مولانا عبد الحق حقانی نے کتاب تصنیف کر کے شائع کی ہے اس کے مقدمہ میں قاضی محمد زاہد الحسینی فرماتے ہیں: (حنفی) مسلمان فقہ حنفی سے اس قدر غافل ہو رہے ہیں کہ ان کو حنفیت کا احساس تک نہیں رہا اسی طرح اپنے وطن عزیز پاکستان میں بعض وہ ادارے اور طبقات جن کو منفیت کے فروغ اور تحفظ کے لیے محنت کرنی چاہیے تھی بالارادہ یا بلا ارادہ اس سے غفلت برت رہے ہیں۔ دینی مدارس میں فقہی نصاب کو مختصر سے مختصر کیا جا رہا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں مفتی حضرات کا فقدان ہے۔ استدلال کے بجائے فقہ حنفی کے لیے قرآن و حدیث کا مطالعہ زوروں پر ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بارہ سو سال سے مرتب شدہ مسائل میں موشگافیاں کی جارہی ہیں۔ کتب حدیث کا اردو زبان میں صرف ترجمہ کر کے عدم تقلید کا دروازہ کھولا جا رہا ہے اس کے نتیجہ میں علماء را سخین کی جگہ صرف اردو خوان اور اردو دان طبقہ لے کر مارقیت (خارجیت) کی اشاعت کر رہا ہے حالانکہ ہر مقلد کے لئے آخری دلیل مجتہد کا قول ہے جیسا کہ مسلم الثبوت میں ہے ((اما المقلد فمستندہ قول المجتھد )) یعنی مقلد کو صرف مجتہد کا قول کافی ہوتا ہے۔
(دفاع نام ابو حنیفہ ص26)
لیجئے قاضی صاحب نے تمام فیصلے کر دیئے کہ مقلد کے لئے صرف اس کے امام کا قول ہی حجت ہے اور جو شخص قرآن و حدیث کو پڑھتا پڑھاتا اور اس کی نشر و اشاعت کرتا ہے وه ترک تقلید کادروازہ کھولتا ہے‘ جس کا نتیجہ خارجیوں کے مسلک کی نشر و اشاعت ہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون
مزید یہ کہ اپنے امام کے قول کی دلیل دریافت کرنے کی غرض سے قرآن و حدیث کو پڑھنا بھی ترک تقلید اور اپنے امام کے مسائل میں موشگافیاں ہیں جب کہ مقلد کے لیے مجتہد کا قول ہی کافی ہوتا ہے اور یہی کچھ اہل کتاب کرتے تھے ان کے لیے دلیل علماء و مشائخ کے اقوال ہی تھے اور اسی موقف و نظریہ کی تردید قرآن کریم نے کی ہے۔

مقلدین کا طرز عمل

اس بات کا شکوہ کرتے ہوئے امام رازی نے تفسیر کبیر میں سورہ توبہ کی آیت ۳۱ کے تحت لکھا ہے کہ :
((قال شيخنا ومولانا خاتمة المحققين و المجتهدين رضى الله عنه قد شاهدت جماعة من مقلدة الفقهاء قرات عليهم آيات كثيرة من كتاب الله تعالى في بعض مسائل وكانت ومذاهبم بخلاف تلك الايات ولم يقبلوا تلك الآيات ولم يلتفتوا اليها وبقوا ينظرون الى كالمتعجب يعني كيف يمكن العمل بظواهر هذه الايات مع ان روأية سلفنا وردت على خلافها ولو تاملت حق لاتامل وجدت هذا الداء ساريا في عروق الاكثرين من أهل الدنيا ))
یعنی ہمارے شیخ اور خاتم المحققين والمجتهدین فرماتے ہیں کہ میں نے فقہاء مقلدین کے ایک گروہ کا مشاہدہ کیا ہے کہ میں نے انہیں کتاب اللہ کی متعدد ایسی آیات پڑھ کر سنائیں جوان کے اسلاف کے خلاف تھیں تو انہوں نے صرف ان کے قبول کرنے سے منہ ہی موڑا بلکہ سرے سے کوئی توجہ ہی نہیں دی اور مجھے تعجب خیز نظروں سے دیکھنے لگے کہ ان آیات کے ظاہر پر عمل کیسے ہو سکتا ہے جب کہ ہمارے اکا بر ان کے خلاف کہہ گئے ہیں امام رازی فرماتے ہیں اے مخاطب! اگر تو ٹھیک ٹھیک طور پر غور و فکر کرے تو یہ بیماری اکثر مقلدین میں گھسی ہوئی پائے گا جو اہل دنیا سے ہیں۔
(بحوالہ حاشیہ تفسیر جامع البیان ص 166 طبع و علی 1344ھ )
حکیم الامت شاہ ولی اللہ محدث دھلوی فرماتے ہیں کہ :
((فان شئت ان تدى أموذج اليهود فانظر الى علماء السوء من الذين يطلبون الدنيا وقد اعتادوا تقليد السلف واعرضوا عن نصوص الكتاب والسنة وتمسكوا بتعمق عالم و تشدده واستحسانه فاعرضوا عن كلام الشارع المعصوم وتمسكو بأحاديث موضوعة وتأويلات فاسدة كانت سبب هلاكهم))
یعنی اگر تم یہودیوں کا نمونہ دیکھنا چا ہو تو ان علماء سوء کو دیکھ لوجود نیا طلبی میں مشغول میں جن میں تقلید کی بیماری گھر کر گئی ہے جنہوں نے کتاب وسنت سے منہ موڑ لیا ہے اور ایک ہی امام کے پیچھے لگ گئے ہیں اور معصوم شارع علیہ السلام کے کلام (حدیث کو ترک کر رکھا ہے (اور اقوال امام کو ) من گھڑت روایات اور فضول تاویلوں سے خوب مضبوط بنا کر اسی سے تمسک کیے بیٹھے ہیں۔ بس یہی روش (یہود و نصاریٰ) کی ہلاکت کا سبب بنی۔ ( الفوز الکبیر علی حامش جامع البیان ص 54) اس سے ملتے جلتے الفاظ میں انہوں نے تضھیمات میں کہا ہے جس کی ضروری تفصیل صراط مستقیم ص49 میں حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے خوب کی ہے اس سلسلہ میں قاضی ابن ابی العز شارح عقیدہ طحاویہ‘ علامہ محمد حیات سندھی‘ امام عبد الرحمٰن بن اسماعیل، علامہ شعرانی علامہ صالح القلا نی اور علامہ لکھنوی رحمھم اللہ وغیرہ حضرات نے بھی بعض مقلدین کے اسی طرز عمل کی نشان دہی کی ہے کہ وہ تقلید میں نصوص کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں کرتے اور امام کے اقوال کی ایسی پابندی کرتے ہیں جیسے نبی ﷺ کے فرمودات کی پابندی ہوتی ہے مولانا اشرف علی تھانوی حنفی دیوبندی اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں کہ اکثر مقلد عوام بلکہ خواص اس قدر جامد ہوتے ہیں کہ اگر قول مجتہد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث بھی کان میں پڑتی ہے تو ان کے قلب میں انشراح وانبساط نہیں رہتا بلکہ اول استنکار قلب پیدا ہوتا ہے، پھر تاویل کی فکر ہوتی ہے‘ خواہ کتنی ہی بعید کیوں نہ ہو‘ خواہ دوسری دلیل قوی اس کے معارض ہو بلکہ مجتہد کی دلیل اس مسئلہ میں بجزہ قیاس کے کچھ بھی نہ ہو بلکہ خود دل میں اس تاویل کی وقعت نہ ہو مگر نصرت مذہب (حنفیہ) کے لیے تاویل ضروری سمجھتے ہیں‘ دل یہ نہیں مانتا کہ قول مجتہد کو چھوڑ کر حدیث صحیح صریح پر عمل کریں۔
(تذکرۃ الرشید ص 130,131 ج 1)
مزید فرماتے ہیں کہ
بعض مقلدین نے اپنے امام کو معصوم عن الخطاو مصیبت و جو با مفروض الاطاعتہ تصور کر کے عزم بالجزم کیا کہ خواہ کیسی ہی‘ حدیث صحیح‘ مخالف قول امام کے ہو اور مستند قول امام کا بجز قیاس امر دیگر نہ ہو پھر بھی بہت سے علل اور خلل حدیث میں پیدا کر کے یا اس کی تاویل بعید کر کے حدیث کو رد کر دیں گے‘ ایسی تقلید حرام اور مصداق قولہ تعالی‘ (اتخذوا اخبار هم … الخ ) اور خلاف وصیت ائمہ مرحومین ہے۔
(امداد الفتاویٰ ص 88 ج 4 طبع قدیم و ایضاًص 297 ج 5 طبع جدید کراچی)
مولانا تھانوی کی اس وضاحت کے بعد ضرورت تو نہیں کہ مقلدین کے اس انداز فکر کی شہاد تیں پیش کی جائیں ، تاہم اس بات کی نشان دہی کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں کہ مقلدین نے بطور اصول لکھا ہے کہ اگر صحیح حدیث کے مخالف بھی قول امام ہو گا تب بھی مقلد پر تقلید اس پر عمل کرنا جائز نہیں، چنانچہ دیوبندی مکتب فکر کے‘ افضل الفضلاء‘ مولوی ارشاد الحسن رامپوری محدث دہلوی رحمہ اللہ کی تالیف ’’میار حق ‘‘ کے جواب میں مجددالف پانی‘ سے نقل کرتے ہیں کہ
ہم مقلدوں کو چھوڑنا مذ ہب اپنے (امام) کا ظاہر احادیث کے جائز نہیں۔
(انتصار الحق ص 255)
ان اقوال سے مؤلف ’’ تحفہ اہل حدیث‘‘ کے اس وہم کا بھی ازالہ ہو جاتا ہے کہ میرے بھائی! آپ نے ہم پر دوسرا الزام لگا دیا کہ ہم حدیث رسول صلى الله عليہ وسلم کو چھوڑ کر فقہ کو مانتے ہیں‘ آپ نے احناف کا مؤقف اور مقصد ہی نہیں سمجھا‘ اگر سمجھ لیتے تو ہر گز یہ اعتراض نہ کرتے (ص 34)
بھائی اگر یہ الزام ہے تو لگانے والے ہم نہیں بلکہ اکا بر احناف ہیں، جس میں خیر سے آپ کے حکیم الامت‘ بھی شامل ہیں۔ اگر حکیم صاحب بھی مقصد نہیں سمجھے تو آپ جیسے تقلیدی بیماروں نے خاک سمجھنا ہے، حقیقت وہی ہے جو ہم عرض کر چکے ہیں‘ آپ کا انکار فقط جھوٹ اور دفع الوقتی ہے۔

مقلد کے اصول

پیارے! ہمارے یعنی احناف کے ہاں سب سے پہلے قرآن کو دیکھا جاتا ہے‘ اگر مسئلہ قرآن شریف میں مل جائے تو الحمد للہ ورنہ حدیث رسول کو دیکھتے ہیں، اگر مل جائے تو ٹھیک ورنہ اجماع میں دیکھتے ہیں‘ اگر اجماع میں بھی نہ ملے تو پھر فقہ سے یعنی قیاس شرعی سے مسئلہ حل کیا جاتا ہے۔ فقہ کا تو چوتھا نمبر ہے۔ ہمارے ہاں تو حدیث ضعیف بھی ہو تب بھی اولیت اور فوقیت حدیث کو ہی ہو گی‘ قیاس کو نہیں ہو گی۔
( تحفہ اہل حدیث ص 34)

الجواب :

اولا:-

قارئین کرام ! یہ اتنا بڑا جھوٹ مذہب کے نام پر بولا گیا ہے جس کی مثال تلاش کرنے کے باوجود نہیں ملے گی‘ اور بولنے والے بھی ماشاء اللہ دین کے واحد ٹھیکے دار اور ایمان کامل کا دعویٰ کرنے والے ہیں‘ سنیٔے فقہ حنفی کے اصول میں لکھا ہے‘ ادلہ اربعہ سے فقط مجتہدہی فوائد حاصل کر سکتا ہے‘ مقلد کو تو صرف قول امام کی ضرورت ہوتی ہے۔ حنفیوں کے صدر الشریعہ فرماتے ہیں کہ
(فالادلة الاربعة انما يتوصل بها المجتهد لا المقلد فاما المقلد فالدليل عنده قول المجتهد فالمقلد يقول هذا الحكم واقع عندى لانه اوی الیه رای ابی حنيفة وكل ما أوى اليه رايه فهو واقع عندى)
(التوضيح مع التلویح ص 44 طبع نول کشور 1292ھ )
یعنی ادلہ اربعہ (قرآن و حدیث‘ اجماع اور قیاس) سے صرف مجتہد ہی کچھ حاصل کر سکتا ہے‘ مقلد نہیں‘ کیونکہ مقلد کے نزدیک تو دلیل صرف اس کے امام مجتہد کا قول ہوتا ہے‘ مقلد تو فقط یہی کہے کہ میرے نزدیک اس مسئلہ کا یہی حکم ہے اس واسطے کہ میرے امام ابو حنیفہ کی رائے یہی ہے اور جس حکم تک بھی مجھے ان کی رائے نے پہنچایا ہے بس میرے نزدیک وہی صحیح ہے‘ (انتہی)
یہ عبارت کسی حاشیہ آرائی کی محتاج نہیں‘ بلکہ اپنی تفسیر آپ ہے کہ ادلہ اربعہ کی طرف رجوع مجتہد کا کام ہے اور مقلد کی دلیل قول امام ہے‘

ثانیا:-

یہ بھی آپ کی غلط بیانی ہے کہ مقلدین کے نزدیک ضعیف حدیث بھی قیاس پر مقدم ہے‘ ملاجیون اصولی حنفی لکھتا ہے کہ
(وان عرف بالعدالة والضبط دون الفقة كانس وأبي هريرة أن وافق حديثه القياس عمل به و هو أن خالفه لم يترك الا بالضرورة وهي أنه لو عمل بالحديث لانسد باب الراي)
یعنی اگر راوی عادل و ضابط ہو لیکن فقیہ نہ ہو ، جیسے انس بن مالکؓ اور ابوہریرہؓ تو اگر ان کی روایت کردہ حدیث قیاس کے مطابق ہے تو عمل کر لیا جائے گا اور اگر قیاس کے خلاف ہے تو بالضرورۃ چھوڑ دی جائے گی‘ اس لیے کہ اگر خلاف قیاس) حدیث پر عمل کر لیا جائے تو قیاس کا دروازہ بند ہو جائے گا‘۔
(نور الانور ص 179)
مولانا محمد تقی عثمانی حنفی دیوبندی فرماتے ہیں کہ ہر حال میں تقلید ہی واجب ہے اور اپنے امام یا مفتی کے قول سے خروج جائز نہیں ، خواہ اس کا کوئی قول ان کو بظاہر حدیث کے خلاف ہی معلوم ہو تا ہو ۔
(درس ترمذی ص 122 ج 1)
کیوں جناب اب تو معاملہ صاف ہے کہ قیاس کے خلاف حدیث پر عمل کرنا جائز نہیں اور یہ کہ اگر امام کا قول گو حدیث کے خلاف بھی ہو تب بھی قول امام پر ہی عمل کرتا واجب ہے۔

ثالثاً:-

اگر واقعی آپ پہلے قرآن و سنت میں مسئلہ دیکھتے ہیں، تو آپ مبارک باد کے مستحق ہیں اللہ آپ کے اس فعل میں برکت ڈالے۔ آمین
مگر میرے عزیز بھائی یہ تقلید نہیں بلکہ ترک تقلید ہے‘ جیسا کہ ہم مقدمہ دفاع امام ابو حنیفہ کے حوالے سے ایک معتبر حنفی دیوبندی عالم کا اعتراف نہیں کر چکے ہیں مزید ملاحظہ کیجیے‘ دیوبندیوں کے مفتی اعظم اور فقیہ العصر مولوی رشید احمد صاحب فرماتے ہیں کہ رجوع الی الحدیث مقلد کا وظیفہ نہیں۔
(احسن الفتاویٰ ص 55 ج 3)
احناف کے معروف علامہ قاضی محب اللہ بہاری فرماتے ہیں کہ
(وأما المقلد فمستنده قول مجتهده الاظنه ولا ظنه)
(مسلم الثبوت ص 9)
یعنی مقلد کی دلیل صرف اس کے امام مجتہد کا قول ہوتا ہے‘ نہ تو وہ خود تحقیق کر سکتا ہے اور نہ اپنے امام کی تحقیق پر نظر ڈال سکتا ہے۔

تقلید اور راہنمائی کا فرق

فرماتے ہیں کہ ہم سنت حضور صلى الله عليه وسلم کی مانتے ہیں، لیکن امام کی اتباع وراہنمائی میں‘ ہم شریعت حضور صلى الله عليه وسلم کی مانتے ہیں مگر امام کی راہنمائی میں‘ ہم طریقہ نماز حضور صلى الله عليه وسلم کا لیتے ہیں لیکن امام کی اتباع ور اہنمائی میں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 45)

الجواب:

اولاً:-

عربی زبان میں راہنمائی کے لیے تحت‘ قيادة‘ بالار شاد‘ وغیرہ الفاظ آتے میں (قاموس الجدید ص522) مؤلفه مولوی وحید الزمان قاسمی کیرانوالی حنفی دیوبندی‘ مؤلف کا حق تھا کہ وہ لغت عرب سے تقلید بمعنی تحت قيادة ( راہنمائی) ثابت کرتا‘ پھر یہ دعویٰ کرتا‘ مگر یہ کام مشکل بلکہ نا ممکن تھا، تو مؤلف نے بدون دلیل ہی دعویٰ کر دیا‘ اور اسی میں ہی ان کی عافیت تھی‘

ثانیاً:-

اگر آپ کا مقصود سنت‘ شریعت اور طریقہ نماز کو ہی معلوم کرنا تھا تو ان کے متعلق جن بھی معتبر ذرائع سے معلومات حاصل ہو تیں آپ انہیں تسلیم کرتے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ ایک ہی کی تخصیص کرلی‘ خاص کرنے پر آپ کے پاس دلیل تو ہے نہیں۔

ثالثاً:-

جب آپ نے ایک کو خاص کر لیا اور باقی معتبر ذرائع سے منہ پھیر لیا بلکہ انہیں عملاً غیر معتبر قرار دے کر شریعت کے بعض احکام کی تحریف کی حد تک تاویل کی‘ بعض سنن کا انکار کر دیا‘ ملت اسلامیہ میں گروہ بندی کر کے قرآن کے ارشاد کو عملاً ترک کر دیا کہ
(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَلَا تَفَرَّقُو) (آل عمران: 103)
یعنی اللہ کی رسی (قرآن وسنت) کو مضبوطی سے پکڑ لو اور آپس میں فرقہ فرقہ نہ بنو!
مگر آپ نے حنفی شافعی‘ مالکی‘ جنبلی وغیرہ گروہ بندی کر کے جس طرح اس فرمان الہیٰ کا مذاق اڑایا ہے وہ ہر باشعور آدمی پر واضح ہے۔

رابعاً:-

بالفرض اگر آپ کی بات کو درست تسلیم کر لیا جائے تو آپ سے سوال یہ ہے کہ آپ عقائد میں تقلید کو کیوں حرام کہتے ہیں؟ مثلاً مقلدین اللہ کو مانتے ہیں مگر امام کی رہنمائی میں۔ انبیاء کو مانتے ہیں مگر امام کی راہنمائی میں۔ مقلدین قرآن کو مانتے ہیں‘ مگر امام کی راہنمائی میں وغیرہ ایسی ہم بیسیوں مثالیں عرض کر سکتے ہیں۔ مگر ہمارا مقصود صرف عوام کو سمجھنا ہے شمار کرانا نہیں۔
الغرض آپ حضرات عقائد میں تقلید جائز نہیں جانتے یہی وجہ ہے کہ حنفیہ عقائد میں ماتریدی ہیں‘ جس سے یہ بات ہمارے سامنے کھل کر آجاتی ہے کہ آپ سنت اسے مانتے ہیں جسے ابو حنیفہ سنت کہے‘ شریعت وہ مانتے ہیں، جسے امام ابو حنیفہ شریعت کہیں‘ طریقہ نماز آپ کو وہ قبول ہے جو ابو حنیفہ بتلائے‘ اس کے علاوہ آپ کسی کی بات کو قبول نہیں کرتے‘ خواہ اس کے خلاف قرآن ہو یا حدیث‘ اجماع امت ہو یا تعامل اہل مدینہ یا دور خلفاء راشدین کا دستور ہو، آپ قرآن کا ترجمہ کرنا اور کتب احادیث کے تراجم تک کو مارقیت سے تعبیر کرتے ہیں، جیسا کہ ہم دفاع امام ابو حنیفہ ص 26 کے حوالے سے عرض کر چکے ہیں بلکہ امام کے قول پر نظر ثانی کرنے والے کو بے دینی قرار دیتے ہیں‘ اسی کا ہی دوسرے لفظوں میں نام تقلید ہے‘ ایمان سے کہنا کہ اس کا ’’راہنمائی‘‘ سے کیا تعلق‘ مثلاً ایک شخص نے کراچی جانا ہے‘ وہ کراچی جانے کے لیے اور وہاں کے معروف مقامات کے متعلق راہنمائی کا محتاج ہے‘ اسے تو معلومات درکار ہیں خواہ کوئی بھی جاننے والا بتادے‘ اس کا یہ سرے سے مطلب ہی نہیں کہ میں تو صرف ابو بلال سے ہی پوچھوں گا خواہ وہ صحیح بتائے یا غلط‘ اسی پر ہی عمل کرونگا اور اس کے خلاف کوئی بادلیل بات بھی قبول نہیں کرونگا۔ پہلا طریقہ راہنمائی ہے‘ دوسرا طریقہ تقلید ہے‘ جسے کوئی عقل مند قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔

خامساً:-

آپ کے استاذ المکرم فرماتے ہیں کہ
’’ تقلید توان پیش آمدہ مسائل میں جائز ہے جو نہ قرآن کریم سے صراحتہ ثابت ہوں اور نہ احادیث صحیحہ صریحہ سے اور نہ اقوال حضرات صحابہ کرام سے ‘‘۔
(الکلام المفید ص 235)
جبکہ آپ نے تقلید کا نام راہنمائی رکھ کر سنت‘ شریعت اور طریقہ نماز وغیرہ کی مثالیں دی ہیں‘ بتائیے یہ پیش آمدہ مسائل ہیں یا ان پر قرآن وسنت اور اقوال صحابہ سے روشنی پڑتی ہے ؟ اگر یہ پیش آمدہ نہیں یقیناً نہیں‘ تو بتائیے آپ کا ذب ہیں یا آپ کے استاد؟

اسناد حدیث اور تقلید

فرماتے ہیں ‘ محدثین بھی تو امتی تھے‘ محد ثین کون سے نبی تھے‘ بات پھر پھر اکر پھر امت شمث پر آگئی، لیکن بخاری شریف یا جتنی بھی حدیث کی کتب ہیں‘ ان میں ہر حدیث سے پہلے سند موجود ہے‘ یہ ناموں کی قطار اسے سند کہتے ہیں‘ اور سند میں سارے امتی ہوتے ہیں‘ امتی کو واسطہ بنانا پڑتا ہے‘ پھر پیغمبرﷺ کی حدیث ملتی ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 46)

الجواب:-

اولاً:-

سند گواہی کے زمرے میں آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب راوی ثقہ نہ ہو بلکہ ضعیف و متروک ہو‘ نیسان کا مریض ہو‘ لقمہ قبول کر لیتا ہو‘ سند اور متن میں گڑبڑ کرتا ہو‘ تو اس کی گواہی غیر معتبر ہو کر روایت ضعیف ہو جاتی ہے‘ معتبر کی گواہی کو قبول کرنا اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليہ وسلم کا حکم ہے‘ خود رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے گواہی کی بنا پر فیصلے صادر فرمائے‘ جس سے ثابت ہوا کہ گواہ کی گواہی کو ہم نے قرآن و سنت کی اتباع میں قبول کیا کہ یہ جو کچھ اپنا چشم دید واقعہ بیان کر رہا ہے یہ سچا ہے۔ جبکہ تقلید کہتے ہیں کہ مجتہد کے اجتہاد کو بغیر دلیل کے قبول کرنے کو جبکہ گواہی میں دلیل ہوتی ہے کہ وقوعہ اور کلام کو میں نے دیکھا ہے یا فلاں کی گفت و شنید کو سنا ہے۔

ثانیا:-

گواہ کی گواہی کے لیے مجتہد ہونا شرط نہیں، تو کیا تقلید غیر مجتہد کی بھی جائز ہے؟ جواب یقیناً نفی میں ہے‘ تو پھر یہ تقلید کی دلیل کیسے بن گئی؟

ثالثاً:-

مقلد صرف ایک ہی مجتہد کی تقلید کرتا ہے، تو کیا یہ بھی درست ہے کہ قاضی (جج) بھی صرف ایک ہی گواہی پر فیصلہ صادر کر دے‘ علاوہ ازیں اگر قاضی کہے کہ میں فقط فلاں شخص کی ہی گواہی قبول کرونگا‘ اس کے علاوہ تمام لوگوں کی گواہی غیر معتبر ہے‘ یا ایک شخص کہے کہ روایت مجھے وہی قبول ہے جو فلاں شخص سے مروی ہے تو کیا ایسا جج اور انسان قابل مذمت ہے‘ اگر قابل مذمت ہے تو پھر یہ تقلید کی دلیل کس طرح بن گئی؟

را بعاً:-

تقلید میں مجتہد کے قول کو بطور دلیل قبول کیا جاتا ہے‘ جبکہ گواہی میں اور سند حدیث میں راوی کی خبر کو قبول کیا جاتا ہے‘ ظاہر ہے کہ ان دونوں میں فرق واضح ہے۔ کیونکہ تقلید میں امام کے اجتہاد کو بغیر دلیل کے قبول کیا جاتا ہے۔ جبکہ حدیث کی سند میں راوی اپنا حس ظاہر کرتا ہے کہ میں نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو ایسے کرتے دیکھا۔

کیا اہل حدیث بھی تقلید کی دعوت دیتے ہیں؟

مقلدین حضرات کا مؤقف و نظریہ ہے کہ ابتداء میں صرف تقلید مطلق ہی تھی‘ جو کوئی جس کی چاہتا تقلید کر لیتا تھا‘ آخر اس میں قباحتوں نے جنم لینا شروع کیا یا اس کا خدشہ تھا که اگر مطلق تقلید کی اجازت بدستور رہی تو اس میں قباحتیں پیدا ہو نگی‘ ان کے سدباب کے لیے بقول مولانا عثمانی علماء نے چوتھی صدی ہجری میں تقلید شخصی کو واجب قرار دے یا۔
(درس ترمذی ص 121 ج 1 )
پھر مولانا عثمانی اس کو واجب قرار دینے پر دلائل بھی نقل کرتے ہیں ، مگر یہ دلائل تمام کے تمام نفس مسئلہ سے سرے سے تعلق ہی نہیں رکھتے جس کی وجہ سے بالآخر یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ’’ تقلید شخصی کا وجوب کوئی شرعی حکم نہیں بلکہ ایک انتظامی فتویٰ ہے‘‘۔
(درس ترمذی ص 121 ج 1)
الغرض مولانا کی تحریر الجھی ہوئی ہے‘ اسے واجب بھی قرار دینے پر مصر ہیں‘ مگر خود ہی اسے انتظامی فتویٰ کہہ کر تردید بھی کر رہے ہیں‘ بہر حال اگر مولانا اور دیگر مقلدین کے ان پریشان خیالات کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو تب بھی تقلید شخصی ہوائے نفس کو روکنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے‘ کیونکہ حنفیہ میں سے ہی‘ مسئلہ خلق قرآن نے جنم لیا‘ اعتزال نے بھی یہاں سے نشو و نما پائی‘ حنفیہ سے ایک کثیر گروہ قبر پرستی اور بدعات کا دلدادہ ہو گیا‘ بلکہ فقہ حنفی کی تقلید کرنے والوں میں اکثریت بے دین اور نماز جیسے اہم رکن اسلامی تک کے ہی تارک ہیں‘ اس خداداد مملکت اسلامیہ پاکستان میں‘ سینما و غیرہ کے مالک عموماً حنفی حضرات ہیں‘ اگر تقلید ہی ہوا پرستی کا علاج تھا تو آج ہوا پر ستوں کے یہ کام ہر جگہ کیوں موجود ہیں؟ پور املک ہوا پرستی کا شکار ہے، اگر تقلید شخصی ہی ان امراض کا علاج اور نسخہ شفا تھا تو ظاہر ہے کہ یہ مفید ثابت نہیں ہوا‘ اور خود ہی انتظامی فتویٰ انتظام میں غیر مؤثر ثابت ہونے کی وجہ سے بے کار ہو گیا۔ لیکن پوری حفیت آج بھی ان فوائد کو گنواتی تھکتی نہیں‘ اور پورے زور و شور سے اس کا پرچار کرتی ہے۔ پھر تقلید شخصی میں بھی ان لوگوں نے آئمہ اربعہ کو مخصوص کر لیا کہ ان کے علاوہ اب کسی اور کی تقلید جائز نہیں “۔
(دیکھیے الکلام المفید ص 116)
پھر ان آئمہ اربعہ میں سے بھی کسی ایک کو ترجیح دیکر منتخب کرنا ہے، ظاہر ہے کہ ان چاروں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا اجتہاد ہے، تقلید نہیں‘ (اور اجتہاد قرآن وحدیث میں ہوتا ہے جس کے لیے ان کا علم ہونا ضروری ہے) اور بقول مقلدین اجتہاد فقط مجتہد کا کام ہے۔ اور مجتہد کے لیے تقلید جائز نہیں ، تحفہ اہل حدیث ص 63 اور اگر آئمہ اربعہ میں سے کسی کا انتخاب ( تقلید آگیا ہے ) ہے تو ظاہر ہے کہ اصول میں تقلید ہے اور اصول میں تقلید خود مقلدین کے نزدیک جائز نہیں، جیسا کہ ہم الکلام المفید ص 235 کے حوالے سے عرض کر چکے ہیں۔
یہ بات مؤلف تحفہ اہل حدیث کے دل میں بھی اضطراب کا باعث بنی تو اہل حدیث کے موقف کو نہایت بھونڈے پن سے نقل کرتے ہیں کہ ’’ آپ امام ابو حنیفہ کی بات کو کیوں لیتے ہیں‘‘ دوسرے ائمہ کی بات کو کیوں نہیں لیتے‘‘ پھر ادھر اُدھر کی باتوں میں الجھا کر آخر اپنے راگ کی تان اس پر توڑتے ہیں کہ ’’اگر امام ابوحنیفہ کی تقلید شرک ہے‘ تو چاروں کی تقلید تو بہت بڑا بلکہ چار گنا بڑا شرک بنے گا‘ مجھے شرک سے نکالتے نکالتے بڑے شرک میں پھنسا ر ہے ہو اگر ایک بت کو سجدہ حرام ہے تو چار بتوں کو سجدہ کیسے توحید بن گئی‘ واہ آپ کی منطق صرف ایک امام کی تقلید تو شرک ہے، لیکن چاروں کی تقلید توحید ہو گئی ہے‘‘۔
( بلفظہ تحفہ اہل حدیث ص 47)
ذرا سوال پر غور کیجیے پھر ہمارے بھائی کے جواب کو دیکھئے ان دونوں میں کونسی مناسبت ہے‘ سوال تو امام ابو حنیفہ کی تقلید کو اختیار کرنے میں وجہ ترجیح کے بارے ہے‘ جواب نفس تقلید کے بارے ہے۔ یہ جواب تو تب درست تھا کہ جب ہماری طرف سے صرف امام ابو حنیفہ کی تقلید کو شرک کہا جاتا اور باقی کو عین توحید قرار دیا جاتا‘ مگر ہمارا دامن اس سے پاک ہے‘ ہمارے نزدیک تمام مجتہدین کی تقلید کا حکم ایک ہی ہے‘ ہم امام ابو حنیفہ کی تقلید ترک کروا کر ائمہ ثلاثہ (امام مالکؒ‘ امام شافعیؒ‘ امام احمد بن حنبلؒ) میں سے کسی ایک کی تقلید کے نہ داعی و مبلغ ہیں اور نہ ہی ہمارا یہ موقف ہے ‘ خلط مبحث علماء کی شان نہیں لہذا آپ اصل سوال پر غور کریں پھر اس کا کوئی جواب عنایت کریں۔

امام ابو حنیفہ کی تقلید میں وجہ ترجیح

مولانا فرماتے ہیں کہ ” میرے بھائی اس واسطے کہ امام اعظم ابو حنیفہ بہ نسبت دوسرے ائمہ کے نبی صلى الله عليه وسلم کے زیادہ قریب ہیں‘ زمانہ کے اعتبار سے نبی علیہ السلام نے فرمایا:
(خیرامتي قرني ثم الذي يلونهم ثم الذين يلونهم)
بہترین میر ازمانہ ہے اس کے بعد تابعین کا اور اسکے بعد تبع تابعین کا‘
تو نبی علیہ السلام سے قریب ترین زمانے میں امام صاحب ہوئے ہیں، ہم ان کی بات کو ترجیح دیتے ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 47)

الجواب:-

اولاً:-

معلوم یوں ہوتا ہے کہ مؤلف تحفہ اہل حدیث اس دلیل کو تحریر کرتے ہوئے گھبراہٹ کا شکار تھا، اس کی بے قراری‘ اضطراب اور بد حواسی کی یہ دلیل ہے کہ لفظ قرنی کے بعد ثم الذی‘ نقل کیے ہیں‘ حالانکہ درست الفاظ ثم الذین کے ہیں۔
( بخاری ص 515 ج 1 و مسلم ص 309 ج 2)

ثانیا:۔

اس فضیلت میں کیا امام ابو حنیفہ منفرد ہیں ؟ یا خیر القرون کی پوری امت مرحومہ بھی اس میں داخل ہے؟ یقین داخل ہے۔ تو پھر یہ وجہ ترجیح کیسے ہو گئی ؟ اگر کہو کہ آئمہ اربعہ میں سے یہ عظمت صرف امام ابو حنیفہ کو ملی ہے‘ تو یہ بات دروغ گوئی پر مبنی ہے کیونکہ آپ نے خود تسلیم کیا ہے کہ تبع تابعین تک خیر القرون کا زمانہ ہے‘ اور تبع تابعین کا زمانہ 220ھ میں ختم ہوتا ہے‘ جیسا کہ شارحین حدیث نے صراحت کی ہے۔ (دیکھئے فتح الباری ص 4 ج 7) مولانار شید احمد گنگوہی فرماتے ہیں کہ
’’ اس حدیث خیر القرون میں تابعی اور تبع تابعین دونوں داخل ہیں اور تبع تابعین کا عہد دو سو سال کے بعد تک رہا‘‘۔ (سبیل الرشاد مندرجہ مجموعہ رسائل گنگوہی ص30)
اس بات کو ملحوظ رکھیں تو آئمہ ثلاثہ اس فضیلت میں داخل ہیں ۔ امام مالکؒ ولادت 85 وفات 179ھ‘
عام شافعی ولادت 150ھ وفات 204ھ‘ امام احمد بن حنبلؒ ولادت 164ھ وفات 241ھ‘ زمانہ کے اعتبار سے امام احمدؒ بن حنبل بھی اس میں داخل ہیں گو آپ کی کسی تابعی سے ملاقات ثابت نہیں ، تو پھر بھی کچھ مضائقہ نہیں کیونکہ امام مالک اور امام شافعیؒ کو بہر حال یہ عظمت و بزرگی حاصل ہے۔

تقلید کے فوائد اور ان کی حقیقت

مولانا فرماتے ہیں کہ آئمہ کرام نے کوئی الگ دین نہیں بنالیا‘ امام اعظم ابو حنیفہ جو خیر القرون کے امام ہیں‘ نبی علیہ السلام نے ان کے بارے میں خوشخبری سنائی تھی کہ ایک شخص فارس سے اٹھے گا اگر ایمان ثریا ستارے تک بھی پہنچ چکا ہو گا وہاں سے بھی لا کر لوگوں کے سامنے پیش کر دے گا۔
احادیث مقد سہ میں کافی اختلاف ہے‘ وجہ اختلاف یہ ہے کہ بعض جگہ حضور علیہ السلام ایک حکم صادر فرماتے تھے کچھ مدت کے بعد دوسرا حکم صادر فرماتے‘ اب حدیثیں دونوں ہوتی ہیں ایک کام کے کرنے والی اور دوسری نہ کرنے والی‘ پندرھویں صدی میں ان کے ناسخ و منسوخ کا فیصلہ کس طرح کر سکتے ہیں، دیکھو صحابہ نے آپ کے سامنے گوہ کھائی ہے‘ اور ابو داؤد میں حدیث آتی ہے کہ آپ نے منع فرمایا‘ آگ پر پکی ہوئی چیز سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ (حدیث) آپ کا عمل اس کے خلاف بھی ہے۔ (حدیث) صحابہ کرام کا شراب پینا ایک وقت میں حدیث سے ثابت ہے۔ بعد میں منع فرمانا بھی حدیث سے ثابت ہے۔ سر کا مسح ایک مرتبہ کرنا‘ سر کا مسح تین مرتبہ کرنا‘ عصر کے بعد آپ نوافل پڑھتے تھے۔ ( حدیث) منع فرماتے تھے کہ عصر کے بعد نکل نہ پڑھو۔ (حدیث) کلی کرنا ناک میں پانی کا ایک ایک مرتبہ کی حدیث ہے۔ تین تین مرتبہ والی حدیث بھی آتی ہے۔ صبح کی نماز روشنی میں پڑھنا‘ اند ھیرے میں پڑھنا دونوں حد یثیں آئی ہیں۔
دیکھیں یہ مختلف قسم کی احادیث آرہی ہیں اس قسم کی سینکڑوں احادیث پیش کی جاسکتی ہیں، جن میں کافی تعارض و تخالف موجود ہے۔ اب ان متعارض روایات میں سے کس حدیث پر عمل جاری رہا کس پر ختم ہو گیا‘ کونسا آپ صلى الله عليه وسلم کا عمل آخری ہے‘ اور کونسا پہلے زمانے کا‘ اس تعارض کو وہی ختم کر سکتا ہے جو ماہر شریعت بھی ہو ساتھ ساتھ صحابہ کرام کا ہم عصر بھی ہو، تو امام ابو حنیفہ تابعی ہیں اور اپنے دور کے امام مسلم ہیں ، ہم ان سے مسائل لیتے ہیں‘ وہ ایسی روایات میں رفع تعارض کر کے ہمیں حضور علیہ السلام کے آخری عمل پر لگاتے ہیں۔ وہ حدیث کے خلاف اپنی بات منوانے پر بضد نہیں ہیں۔
(تحفہ اہل حدیث ص59-57)

الجواب:-

اولا:-

ان احادیث کا جن میں آپ کو تعارض نظر آرہا ہے ان کا جواب اپنے مقام پر تفصیل سے موجود ہے‘ اسے وہاں ہی ملاحظہ کریں‘ سرے دست آپ امام ابو حنیفہ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت کریں کہ انہوں نے (جو بقول آپ کے متعارض ہیں) ان تخالف و تناقض کو دور کیا ہے، مجھے میری زندگی کے مالک کی قسم ہے کہ مؤلف تحفہ اہل حدیث اگر ساری زندگی بھی اپنے حواریوں کو ساتھ ملا کر کوشش کرے تب بھی اس کا ثبوت نہیں دے سکتا‘ ان تعارض کو دور کرنا تو کجا کسی صحیح و معتبر اسناد سے یہ بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ ان روایات کا امام ابو حنیفہ کو علم بھی تھا اور واقعی ان کو یہ صحیح اسناد کے ساتھ مل بھی گئی تھیں۔

ثانیا:

آپ کا ناسخ و منسوخ کو بھی متعارض قرار دینا‘ کو تاہ علم کا نتیجہ ہے، آج تک کسی اصولی نے ان کو متعارض قرار نہیں دیا‘ یہ دعویٰ صرف اہل حدیث کی عداوت میں‘ نصرۃ العلوم ‘‘کا تربیت یافتہ کر رہا ہے جسے عقل ہے نہ موت یہ عقل کا دشمن اگر شعور سے’’ حجۃ اللہ البالغہ ص 138 ج 1 ‘‘ کا ہی مطالعہ کر لیتا تو اہل علم کی محفل میں اس پر استہزاء نہ ہوتا مگر اسے محدثین کی عداوت نے اندھا کر دیا ہے۔

ثالثاً:۔

امام صاحب کے تابعی ہونے پر محترم نے کوئی دلیل نقل نہیں کی ورنہ ہم اس کا تفصیلی جائزہ لیتے۔ لیکن پھر بھی مختصر عرض ہے کہ امام صاحب کا تابعی ہونا آپ نے تقلید آکہا ہے یا خود تحقیق کی ہے‘ اگر تقلید اکہا ہے تو یہ دعویٰ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مخالف و معارض ہے کیونکہ آپ سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ
(يقول ما رايت فيمن رايت افضل من عطاء ولا لقيت فيمن لقيت اكذب من جابر الجعفي)
(كتاب القرآة للبيہقى ص 134)
یعنی امام ابو حنیفہ فرمایا کرتے تھے کہ جنہیں میں نے دیکھا ہے ان میں سے عطاء بن ابی رباح سے بڑھ کر کسی کو افضل نہیں دیکھا اور جابر جعفی سے بڑھ کر کسی کو جھوٹا نہیں دیکھا۔
امام صاحب کے اس ارشاد سے ثابت ہوا کہ ان کی ملاقات کسی صحابی سے نہیں ہوئی ورنہ وہ اسے ذکر کرتے اور امام عطاء بن ابی رباح غیر صحابی (جو کہ تابعی ہیں) کو ملاقات والوں میں بہتر قرار نہ دیتے کیونکہ صحابی بہر حال تابعی سے افضل ہے‘ مگر مؤلف ’’ تحفہ اہل حدیث ‘‘ اپنے امام کے اس قول پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہا ہے جو کہ ترک تقلید ہے، جسے ہمارا مہربان گمراہی سے تعبیر کرتا ہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 88)
اب اس بات کا فیصلہ تو ہم ان پر چھوڑتے ہیں کہ یہاں انہوں نے تقلید کو ترک کر کے‘ گمراہی‘ کو اختیار کیا ہے یا ترک تقلید کے باوجود راہ ہدایت پر ہیں ؟ اگر آپ نے ترک تقلید میں امام صاحب کو تابعی قرار دے ہی لیا ہے تو اس کی کوئی دلیل تو وہ آپ کے پاس نہیں‘ بھائی بغیر دلیل کے ہم لوگ ’’ تحفہ ‘‘ قبول نہیں کرتے یہ مقلدین کا شیوہ و شعار ہے کہ وہ ہر بے دلیل بات پر ڈر جاتے ہیں‘ اور اگر آپ کے باطن میں کوئی دلیل ہے بھی تو وہ بھی فضول و بے کار اور دلیل بننے کے قابل نہیں۔ علامہ محمد طاہر فتنی حنفی مرحوم فرماتے ہیں:
(وكان في أيامه أربعة صحابة انس وعبدالله بن ابی اوفى وسهل بن سعد وابو الطفيل ولم يلق احداً منهم ولا أخذ منه واصحابه يقولون انه لقي جماعة من الصحابة وروى عنهم ولا يثبت عنداهل النقل)
یعنی امام ابو حنیفہ کے دور میں حضرت انسؓ حضرت عبداللہؓ بن ابی اوفی‘ حضرت سہلؓ ‘ اور حضرت ابوالطفیلؓ چار صحابہ کرام (زندہ) موجود تھے‘ مگر آپ کی کسی سے ملاقات اور کسب علم ثابت نہیں‘ اور امام ابو حنیفہ کے مقلدین کہتے ہیں کہ آپ نے صحابہ کرام کی ایک جماعت سے ملاقات کی ہے اور ان سے حدیث روایت کی ہے مگر محققین کے نزدیک ان میں سے کوئی چیز بھی ثابت نہیں۔
(مجمع بحار الانوار ص 300-301 ج 5)
یہ ایک معتبر حنفی مقلد کی شہادت ہے، جس کے بعد ہم اس پر مزید کچھ لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے‘ کہاں اگر ضرورت پیش آئی اور ہم مجبور کر دیئے گئے تو اس پر تفصیل سے بھی عرض کر دیں گے۔

رابعا:-

مؤلف تحفہ اہل حدیث نے جس حدیث سے امام ابو حنیفہ کی منقبت ثابت کرنے کی بے سود کو شش کی ہے اس کے متعلق مختصر عرض ہے کہ مؤلف کا حق تھا کہ پہلے امام ابو حنیفہ کو‘ فارسی‘ ثابت کرتے اس کے بعد امام کی عظمت ثابت کرتے تو ایک بات تھی۔ مگر ہمارے بھائی نے قسم کھا رکھی ہے کہ سارے کام فقط دعوے ہی دعوے سے چلاؤں گا کوئی ان پر دلیل قائم کرنے کی زحمت گوارہ نہ کرونگا‘ چونکہ یہ خود مقلد اعمیٰ ہے، جس کی وجہ یہ مخاطب کو بھی دلیل کا غیر محتاج اور بن دلیل فقط باتوں سے قائل اور راضی کرنے پر ادھار کھائے بیٹھا‘ جیسے ساون کے اندھے کو ہراہی ہرا نظر آتا ہے ایسے ہی اسے اہل حدیث بھی اپنی طرح کے مقلد دکھائی دے رہے ہیں ، جس کی وجہ سے یہ بے دلیل‘ تحفہ عنایت کر رہا ہے۔
(1) بھائی اس حدیث میں ’’ رجال ‘‘ کا لفظ ہے اور بخاری ص 27 7 ج 2 و مسلم ص 312 ج 2 نے اس لفظ کی تخریج پر اتفاق کیا ہے۔ اور الفاظ ( اور جل من هؤلاء) کہنے میں خود اس کے راوی‘ سلیمان کو شک ہے‘ اور عبد العزیز کی روایت میں تردد نہیں جس کی وجہ سے رجال کے الفاظ معتبر ہیں ، دیکھئے
(فتح الباری ص 521 ج 8)
جب یہ بات متحقق ہو گئی تو واضح رہے کہ رجال جمع ہے رجل سے اور رجال کی پیشگوئی کا تعلق اہل فارس کے محدثین سے ہے نہ کہ کوفہ کے رہنے والے امام ابو حنیفہ کے بارے۔
(۲) یہ بات درست ہی نہیں کہ امام صاحب فارسی الاصل میں، جس کی تفصیل اللمحات‘ جلد دوم میں دیکھی جاسکتی ہے‘ اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ امام ابو حنیفہ‘ فارسی الاصل تھے جیسا کہ مقلدین کا کہنا ہے‘ ( مقام ابی حنیفہ ص 83) تو تب بھی اس سے امام صاحب کی منقبت ثابت نہیں ہوتی۔ کیونکہ حدیث میں فارسی الاصل کا ذکر نہیں بلکہ‘ فارسی کی بات ہے اور ان دونوں میں بعد المشرقین ہے‘ کیونکہ فارسی الاصل ہونے کا یہ مطلب ہے کہ امام صاحب کے آباؤ اجداد فارس سے ہجرت کر کے آئے تھے اور فارسی کا مفہوم یہ ہے کہ فارس میں جس کی رہائش ہو، جیسے پاکستانی‘ وغیرہ کا مفہوم ہے‘ اور فقہا ء نے صراحت کی ہے جس جگہ پر انسان چار برس بود و باش اختیار کر لے‘ اس کا وہی وطن ہوتا ہے۔
(حديث الغاشیہ ص 134)
(۳) اگر بالفرض حنفیہ کا دعویٰ تسلیم کر لیا جائے کہ اس سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا شرف و بزرگی ثابت ہوتی ہے، تو تب بھی یہ تقلید شخصی کی دلیل نہیں کیونکہ اس سے امام صاحب کا ایمان دار ہونا ثابت ہوتا ہے اور ہم ان کے مسلمان اور مؤمن کامل عابد وزاہد ہونے‘ کا کب انکار کرتے ہیں‘ انکار تو ان کی تقلید سے ہے جو اس حدیث سے ثابت نہیں ہوتی لہذا کوئی ایسی حدیث صحیح پیش کیجیے جس میں رسول اللہ ﷺ نے امام ابو حنیفہ کی تقلید کی تلقین کی ہو‘

کیا مترجم پر اعتماد اس کی تقلید ہے؟

پہلے سوال نقل کرتے ہیں کہ‘ مجھے کافی ساری احادیث آتی ہیں، میں نے احادیث کا بہت مطالعہ کیا ہے کیا میں بھی تقلید کروں؟
اس کا جواب عنایت کرتے ہیں کہ کیا آپ کو عربی آتی ہے؟ نہیں ترجمے والی کتابیں دیکھتا ہوں ؟ وہ ترجمے بھی تو کسی امتی کے کیے ہوئے ہیں۔ ان کے تراجم پر اعتماد کرنا یہ ان کی تقلید ہی تو ہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 60)

الجواب:-

اولا:-

حنفیہ میں سے دیوبندی مکتب فکر کے علماء و مولانا محمود حسنؒ، مولانا اشرف علی تھانوی وغیرہ نے قرآن کے تراجم کیے ہیں جن پر دیوبندی علماء اعتماد کرتے ہیں تو کیا سارے دیوبندی امام ابو حنیفہ کی تقلید کو ترک کر کے محمود الحسنؒ خاں اور اشرف علی تھانوی کے مقلد ہو گئے ہیں‘ جواب یقیناً نفی میں ہے‘ اسی طرح حدیث اور کتب فقہ کے تراجم بھی موجود ہیں‘ جن پر علماء دیو بنداعتماد کرتے ہیں‘ تو کیا وہ ان متر جمین کے مقلد ہو گئے ہیں، عقل کے ناخن لو‘ کیا کہہ رہے ہو‘

ثانیا:-

معتبر مترجم پر اعتماد کرنا تقلید نہیں، آپ لغت سے تقلید اور اعتماد کے الفاظ کو مترادف ثابت کر دیں تو منہ مانگا انعام ور نہ ایسی کچی باتیں کر کے اپنے علم کا حدود اربعہ معلوم نہ کروائیں۔
خودر رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے ترجمان پر اعتماد کیا ہے صحیح بخاری میں ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار مکہ کے وکیل نے شرائط نامہ کی تحریر میں لفظ رسول اللہ ﷺ پر اعتراض کیا تھا کہ اسے کاٹ کر محمد بن عبداللہ (صلى الله عليه وسلم) لکھا جائے، مگر حضرت علی نے بوجہ نہ کا ٹا آخر حضرت علیؓ نے نشاندہی کی تو آپ علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ کا لفظا اپنے دست مبارک سے کاٹ دیا۔
(الحدیث بخاری ص ۴۵۲ ج ، ومسلم ص ۱۵ ج ۲)
صحیح بخاری و مسلم کتاب الحدود میں اور کتب سیر میں معروف واقع منقول ہے کہ جب یہود نے شادی شدہ زانی کی حد میں رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم کو منصف تسلیم کیا تو آپ علیہ السلام نے حکم فرمایا کہ تورات لے آئیں‘ ان کا ایک عالم اس جگہ سے تو رات کو تلاوت کرنے لگا‘ جہاں رجم کی آیات درج تھیں، مگر ان آیات پر اس نے اپنا ہاتھ رکھ لیا تا کہ کسی کی نظر اس پر نہ پڑے۔ حضرت عبد اللہ بن سلامؓ بھی پاس بیٹھے ہوئے تھے اس کی یہ حرکت دیکھ رہے تھے‘ صبر نہ کر سکے‘ اس کا ہاتھ پکڑ کر زور سے پرے پٹخ دیا اور بولے:
(هذه يا نبي الله آية الرجم يابي ان يتلوها عليك)
یعنی اے اللہ کے نبی ﷺ یہ ہے رجم کی آیت یہ شخص اس کو پڑھنے سے انکار کرہا ہے‘
(سیرة النبويه لا بن ہشام ص 215 ج 2)
چنانچہ حکم تو رات کے موافق آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے یہودی کو رجم کرنیکا حکم فرمایا‘ جسے مدینہ میں رجم کر دیا گیا۔ تو رات تو سریانی زبان میں تھی جس کو رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نہ جانتے تھے ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام کو حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے سریانی سے عربی میں ترجمہ کر کے آیت رجم کی نشان دہی کی تھی۔ حضرت زید بن ثابت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ یہودیوں کی زبان سیکھنے کا اور فرمایا
انی والله ما امن يهود لى كتابي فتعلمته فلم يمر بي الا نصف شهر حتى حذقته فكنت اكتب له اذا كتب واقراء له اذا كتب اليه
اللہ کی قسم مجھے یہودیوں پر بھروسہ نہیں کہ وہ میری طرف درست لکھتے ہوں (زید فرماتے کہ ) نصف ماہ نہ گزرا تھا کہ میں نے ان کی تحر یر و زبان خوب سیکھ لی پھر جب آپ کچھ لکھوانا چاہتے تو میں لکھ دیتا اور جب کسی مقام سے کوئی تحریر آتی تو اسے پڑھ دیتا‘
مسند احمد ص 186 ج 5 و ابوداؤد 356/3(3645) و ترمذی 392/3(2715), بیہقی ص 127 ج 10 و مستدرک حاکم ص 75 ج١
امام ترمذی حاکم اور علامہ ذہبی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے‘ اور یہ اپنے معنی و مفہوم میں بالکل واضح ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ترجمانی کیلئے سید نازید کو یہودیوں کی زبان سیکھنے کیلئے حکم فرمایا‘ جو سید نازید رضی اللہ عنہ نے آدھے ماہ میں سیکھ بھی لی۔ جس کے بعد سیدنا زید نبی کریم ﷺ کے لئے بطور ترجمان کام کرتے رہے‘ انہیں چیزوں کو ملحوظ رکھ کر امام ترمذی نے اسے باب السریانیتہ‘ کے تحت لا کر یہ مسئلہ سمجھایا کہ ضرورت کے تحت کفار کی زبان سیکھنی بھی جائز ہے۔ بلکہ امام حاکم نے بھی مستدرک کے کتاب الایمان باب جواز تعلم کتابۃ الیہود‘ میں درج کر کے بھی اسی طرف توجہ دلائی ہے۔ الغرض رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے زید کی ترجمانی پر اعتماد فرمایا ہے۔
اب نصرة العلوم کا تربیت یافتہ ابو بلال ( أجڈ ) شاید اس کا نام ’’ تقلید ‘‘ رکھ کر رسول اللہ ﷺ کو بھی زید بن علی مرتضیٰؓ اور عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہم کا مقلد کہے گا۔ مگر کوئی صاحب علم اسے تقلید نہیں کہتا کیونکہ ترجمان یا مترجم اپنی بات نہیں کہتا بلکہ دوسرے شخص کی بات کا لغوی معنی کرتا ہے‘ لہذا جس کی ترجمانی کی جارہی ہے یا جس شخصیت کے اقوال کو اپنی زبان میں ڈھال رہا ہے‘ اس کی شخصیت اگر دین میں حجت ہے تو یہ دلیل کی پیروی ہو گی‘ اگر حجت نہیں تو تقلید ہو گی‘ اس فرق کو ملحوظ رکھیں تو قرآن وحدیث کے تراجم کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں بلکہ دلیل کی طرف رجوع ہونے کی وجہ سے اتباع رسول اللہ صلى الله عليه وسلم میں داخل ہے‘ اور کتب فقہ کے تراجم کی طرف رجوع کرنا‘ چونکہ دلیل کی پیروی نہیں بلکہ فقہ مرتب کرنے والے پر حسن ظن کی بنا پر اسے قبول کر لیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ تقلید ہے‘ کہیے کیا کہتے ہو۔
آنحضرت ﷺ خود دینی اور دنیاوی امور میں اعتماد فرماتے‘ جبریل امین علیہ السلام وحی لے کر آتے‘ اسے قبول کرتے‘ کاتب وحی صحابہ کرام سے قرآن کو ضبط تحریر میں کرواتے ، بعض صحابہ کو حدیث و سنن لکھوا کر دیں، بادشاہوں کے نام خطوط تحریر کروائے‘ وغیرہ یہ تمام کام اعتماد کی بنا پر ہوتے تھے ، مگر آج تک کسی نے اس کو تقلید کا نام نہیں دیا‘ اہل علم اس کو شہادت و گواہی کے زمرے میں لاتے ہیں کیونکہ معتبر پر اعتماد کر کے اس کی گواہی کو قبول کرنا دستور اسلام ہے۔ اسے تقلید کا نام صرف آپ نے دیا ہے‘ شاید آپ کو قرآن وحدیث کے علاوہ لغت پر بھی عبور نہیں اور اصول کی مبادی کتب بھی زیر مطالعہ نہیں‘ اور متقدمین پر بھی آپ کو اعتماد نہیں‘ ورنہ ایسے بے کار دلائل آپ تقلید پر نہ دیتے‘ آپ دعویٰ تو تقلید کا کرتے ہیں مگر اس کی دلیل تجد یدی دیتے ہیں۔

کیا مؤ لفین صحاح ستہ مقلد تھے ؟

فرماتے ہیں‘ کہ امام بخاری‘ امام مسلم‘ امام ترمذی‘ امام نسائی‘ امام ابن ماجہ‘ امام شافعی کے مقلد تھے اور امام ابوداؤد امام احمد بن حنبل کے مقلد تھے۔
( ملخصاً تحفہ اہل حدیث ص 61)

الجواب:-

اولا:-

اگر آپ کے اس قول میں صداقت ہے تو ان آئمہ کرام سے ثابت کیجیے کہ ہم مقلد ہیں‘ ور نہ لعنتہ اللہ علی الکند بین کی وعید شدید سے ڈریئے اور خوف خدا کیجیے کہ آپ مذہب کے نام پر جھوٹ بولنے کے عادی ہو چکے ہیں۔

ثانیا:-

ہم التوضیح ص 44 کے حوالے سے ذکر کر آئے ہیں کہ ادلہ اربعہ سے صرف مجتہد ہی کچھ حاصل کر سکتا ہے‘ مقلد نہیں کیونکہ مقلد کے نزدیک تو دلیل صرف قول مجتہد ہوتا ہے‘ اس کے بر عکس آپ صحاح ستہ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ تمام اپنی اپنی سنن اور صحاح میں باب باندھتے ہیں‘ پھر حدیث رسول نقل کرتے ہیں، آثار صحابہ کا تذکرہ کرتے ہیں، قرآنی آیات سے استدلال کرتے ہیں‘ فقہ الحدیث سمجھاتے ہیں، بعض مقام پر علماء امت کے اقوال کا تذکرہ بھی کرتے ہیں، بعض کی موافقت اور بعض کا رد تحریر کرتے ہیں، مثلا امام بخاری کو ہی لیجیے انہوں نے بخاری ص 99 ج 1 ص 194 ج 1 و ص 211 ج 1 ص 248 ج 1 وغیرہ میں امام شافعی سے اختلاف کر کے حنفیہ کی موافقت کی ہے‘ امام ترمذی نے تو باب تا خیر الظہر في شدة الحر میں امام شافعی کا نام لے کر تردید کی ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ
(وكان صاحب الحديث ايضاً قد ينسب الى احد المذاهب لكثرة موافقته له كالنسائي والبيهقي ينسبان الى الشافعي) (حجتہ الله ص 153 ج 1)
یعنی کبھی اہل حدیث کو کثرت موافقت کی وجہ سے کسی ایک مذہب کی طرف منسوب کر لیا جاتا ہے جیسے نسائی اور بیہقی کو شافعیت کی طرف منسوب کیا گیا ہے، حالانکہ یہ مقلد نہ تھے
محدث مبارکپوری نے‘ مقدمہ تحفہ الاحوذی ص 174 میں اس کی پر زور تردید کی ہے کہ مؤلفین صحاح مقلد تھے۔
آپ مقلدین حنفیہ کی احادیث پر لکھی ہوئی کتب کا طحاوی سے لے کر آثار السنن تک مطالعہ کریں پھر صحاح ستہ میں سے کوئی کتاب اٹھائیے اور ان کو گہری نظر سے بغض و تعصب اور خالی الذہن ہو کر مطالعہ کریں تو ان کے انداز فکر اور مقلدین کے طور طریقے کے درمیان زمین و آسمان کا فرق پائیں گے۔ امام محمد کی موطا‘ یا‘ طحاوی کی‘ شرح معانی الا ثار‘ ہو ان میں آپ دیکھیں گے کہ صحیح حدیث کو رد کرنے کے لیے کیسے بودے اور کمزور بلکہ لایعنی قسم کے فضول بہانے تلاش کیے گئے ہیں، امام کے اقوال کی نصرت میں تو جیہات پر تو جیہات کرتے ہوئے تھکتے نہیں‘ اس کے برعکس مؤلفین صحاح‘ باب باندھ کر حدیث درج کرتے ہیں، بعض مقامات پر صحت حدیث اور معانی حدیث پر بھی بحث کرتے ہیں‘ اور ترمذی مذاہب کو بھی بیان کرتے ہیں۔ بعض کی موافقت کرتے ہیں تو بعض کی تردید کرتے ہیں، مگر طحاوی کی طرح صحیح حدیث کے رد کے لیے ضعیف و کمزور روایات کا سہارا نہیں لیتے۔ آپ اس کی ایک مثال بھی پیش نہیں کر سکتے۔

ثالثا:-

باعتراف مؤلف تحفہ اہل حدیث ص 63 مجتہد مقلد نہیں ہوتا اور مولفین صحاح ستہ تمام کے تمام مجتہد تھے ، تفصیل کے لیے مقدمہ تحفۃ الاحوذی ص 174 کا مطالعہ کریں۔
ہم یہاں صرف امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔ شیخ ابراہیم بن عبد اللطیف حنفی مرحوم سندھی فرماتے ہیں کہ
(البخاری امام مجتهد براسه كابي حنيفة والشافعي ومالك واحمد وسفيان الثوري و محمد بن الحسن )
( مقدمه لامع الدراری ص 68 ج 1 و ما تمس الیہ الحاجتہ ص 26)
یعنی امام بخاری‘ امام ابو حنیفہ‘ امام شافعی‘ امام مالک‘ امام احمد بن حنبل‘ سفیان ثوری اور محمد کی طرح چوٹی کے مجتہد تھے۔
ملا علی القاری حنفی فرماتے ہیں کہ
(امير المؤمنين في الحديث وناصر الاحاديث النبوية وناشر المواريث المحمدية قيل لم ير في زمانه مثله من جهة حفظ الحديث واتقانه وفهم معاني كتاب الله وسنة رسوله ومن حيثية حدة ذهنه ودقة نظره و وفور فقهه وكمال زهده وغاية ورعه وكثرة اطلاعه على طرق الحديث وعلله وقوة اجتهاده و استنباطه ) (مرقاة ص 13 ج 1)
یعنی امام بخاری حدیث میں امیر المومنین ہیں، احادیث نبویہ کے ناصر‘ اور وراثت محمد یہ کے ناشر ہیں‘ زمانے نے ان جیسا حافظ الحدیث نہیں دیکھا اور نہ ہی اتقاء میں اور نہ ہی قرآن کے معانی اور سنت رسول کے فہم میں‘ اور اس حیثیت سے بھی کہ ان جیسا زمانے نے پختہ ذہن اور باریک بین اور فقہ کی مضبوطی میں‘ بلکہ زہد و تقویٰ کے کمال میں ان جیسا کوئی نہ تھا‘ طرق حدیث اور اس کی علل کی معرفت اور اجتہاد و استنباط مسائل میں (اپنی نظیر آپ تھے)
آگے چل کر فرماتے ہیں کہ
(كثر ثناء الائمة عليه حتى صح عن احمد بن حنبل انه قال ما اخرجت خراسان مثله وقال غير واحد هو فقيه هذه الامة وقال اسحاق بن راهويه يا معشر اصحاب الحديث انظروا الى هذا الشاب واكتبوا عنه فانه لوكان في زمن الحسن البصرى لاحتاج اليه لمعرفته بالحديث وفقهه وقد فضله بعضهم فى الفقه والحديث على احمد واسحاق وقال ابن خزيمة ماتحت اديم السماء اعلم بالحديث منه ) (مرقاة ص 15 ج 1)
یعنی کثرت سے آئمہ کرام نے آپ (بخاریؒ) کی تعریف و توصیف کی ہے یہاں تک کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے صحیح سند سے مروی ہے کہ خراسان میں ان جیسا کوئی پیدا ہی نہیں ہوا۔ اور متعدد آئمہ نے انہیں اس امت مرحومہ کا فقہی کہا ہے‘ اور امام اسحاق بن راہویہ فرماتے ہیں کہ اے جماعت اہل حدیث کے لوگو! اس نوجوان کی طرف دھیان کرو اور اس سے احادیث لکھو‘ کیونکہ یہ اگر حسن بصری کے زمانہ میں بھی ہوتا تو وہ بھی اس کے محتاج ہوتے۔ احادیث کی معرفت اور فقہ کی وجہ سے اور بعض نے تو امام بخاری کو امام احمدؒ بن حنبل اور اسحاقؒ پر بھی فقہ وحدیث میں ترجیح دی ہے، امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں کہ آسمان کے نیچے ان سے زیادہ کوئی حدیث کو جاننے والا نہیں (انتہی)
اگر ہم ان اقوال کا استیعاب کریں جنہوں نے امام بخاری کو مجتہد کہا ہے، تو ایک کتابچہ تیار ہو سکتا ہے‘ مگر ہمارا مقصود ڈھیر سے مٹھی بھر کی نشان دہی کرنا ہے‘ اور آخری قول کو نقل کر کے ہم اس مضمون کو ختم کرتے ہیں ماضی قریب میں دیوبندی مکتب فکر کی طرف سے’’ انوار الباری ‘‘ کے نام سے مولانا انور شاہ کشمیری شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کے افادات کو ان کے شاگرد سید احمد رضا بجنوری نے شائع کیا ہے‘ اس میں فرماتے ہیں کہ
’’امام بخاری چونکہ خود درجہ اجتہاد رکھتے تھے اس لیے انہوں نے جمع احادیث کا کام اپنے نقطہ نظر سے قائم کیے ہوئے تراجم وابواب کے مطابق کیا‘‘۔
(مقدمہ انوار الباری ص 31 ج 2)

غیر مقلد کی تعریف

فرماتے ہیں کہ‘ غیر مقلد تو وہ ہوتا ہے جو خود بھی اجتہاد نہ کر سکے اور مجتہد کی تقلید بھی نہ کرے‘ بلکہ فقہاء کو گالیاں دے اور ان کے مقلدین کو مشرک کہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 63)

الجواب:-

اولا:-

آپ کی بیان کی ہوئی تعریف کی روسے مقلد کی یہ تعریف ہو گی کہ جو مجتہد ہو کر تقلید کرے‘ حالانکہ مجتہد عالم ہوتا ہے اور اہل علم کا اتفاق ہے کہ مقلد کا شمار اہل علم میں نہیں ہو تا۔
(اعلام الموقعین ص 7 ج 1)
مولانا اشرف علی تھانوی حنفی دیوبندی فرماتے ہیں کہ ہم خود ایک غیر مقلد کے معتقد اور مقلد ہیں کیونکہ امام اعظم کا غیر مقلد ہونا یقینی ہے، مجالس حکیم الامت ص 345 مرتب مفتی محمد شفیع صاحب مزید دیکھئے حاشیہ الطحطا وی علی الدر المختار ص 51 ج 1 جھنگوی صاحب اپنی بیان کردہ تعریف کی رو سے صراحت کریں کہ امام ابو حنیفہ مجتہد تھے یا نہیں؟ اور آیا وہ ائمہ دین اور بزرگان ملت کو گالیاں دیا کرتے تھے کہ نہیں ؟

ثانیا:-

آپ نے جو غیر مقلد کی تعریف کی ہے یہ فقہ اور اصول فقہ حنفیہ کی کس کتاب میں درج ہے‘ بمع حوالہ صراحت کریں‘ ورنہ کذب و افتراء سے باز آجائیے قیامت کے روزان کے متعلق سوال ہو گا۔

ثالثاً:-

راقم الحروف نے آج تک اپنے کسی استاد سے بحق آئمہ کرام گالی نہیں سنی‘ اگر آپ کے قول میں صداقت ہے تو ثبوت دیجیے ورنہ لعنتہ اللہ علی الکذبین کی وعید سے ڈر جائیے‘ یہ لعنت کا طوق آپ کے گلے میں پڑ کر آپ کو ڈبو دے گا۔
ہم اللہ کو گواہ بنا کر حلفیہ کہتے ہیں کہ اہل حدیث تمام بزرگان دین آئمہ کرام‘ فقہاء عظام کا دل سے احترام کرتے ہیں۔ ہاں البتہ ان کے قول واقوال کو وحی آسمانی کی طرح نہیں جانتے کہ جس میں نظر ثانی کرنا کفر ہو‘ اور نہ ہی ان کو معصوم عن الخطا تصور کرتے ہیں‘ بلکہ ان کے قرآن و سنت کے خلاف اقوال کو ان کی بشری کمزوریاں اور بھول چوک سے تعبیر کرتے ہیں‘ اور ان کے درست اجتہادات کی قدر کرتے ہیں‘ پوری امت مرحومہ کے بزرگان سے ہماری خصوصی محبت ہے‘ ان سے عداوت کو سلب ایمان قرار دیتے ہیں اور گالیاں دینے والے کو بحکم رسول فاسق تصور کرتے ہیں۔
( سباب المسلم فسوق‘ الحدیث‘ بخاری و مسلم بحوالہ مشکوٰۃ ص 411)
اس بات کا اظہار ہم نے صرف آج ہی نہیں کیا بلکہ آج سے کئی برس قبل ہم دین الحق ص 516 ج1 میں کر چکے ہیں، مگر ابو بلال شرم وحیا کو بالائے طاق رکھ کر جھوٹ وفریب کے ساتھ ساتھ ہماری غیبت بھی کر رہا ہے۔ جو بہر حال گالیاں دینے سے زیادہ گناہ ہے۔

رابعا:-

ادب و احترام کی ٹھیکے داری کا دعویٰ کرنے والو! حنفیہ سے بڑھ کر کوئی گستاخ وبے ادب نہیں۔ آپ کے اکابر نے ہر مخالف کی وہ خبر لی ہے کہ اللہ کی پناہ‘ اصول شاشی اور نورالانور ص 179 میں حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت انسؓ کو غیر فقیہ لکھا ہے‘ اور اصول شاشی کے بین السطور میں حضرت عقبہ بن مالک رضی اللہ عنہ اور آس پاس کے دیہات کے تمام صحابہ کرام کو غیر فقیہ لکھا ہے‘ اردو زبان میں غیر فقیہ کا ٹھیک معنی بے وقوف کے ہوتے ہیں‘ آپ کے امام ابو حنیفہ نے حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث کو اعرابی ( جنگلی و بدو) مسند ابوحنیفه مترجم ص 88‘ کہہ کر ٹھکرا دی تھی۔ نور الانوار ص …. اور التوضیح ص 411 میں امام شافعی کو جاہل اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو بدعتی لکھا ہے۔
شاید آپ ان کو ادب واحترام اور بڑے اچھے القاب قرار دیتے ہوں تو ذرا ہمت کر کے جب نصرۃ العلوم کی تقریب بخاری کا اشتہار شائع کریں تو انہیں القاب سے اشتہار میں اپنے استاذ کا نام لکھنا کہ فلاں شیخ الحدیث‘ جو غیر فقیہ‘ اعرابی جاہل و بدعتی ہیں ان کا بخاری کی آخری حدیث پر درس ہو گا‘ اٹھیے اور ہمت کیجیے اور ان القاب سے ایک دیوبندی عالم کو مخاطب کیجیے پھر قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ چاروں اطراف سے آپ کے حق میں دیوبندی وہ دعا خیر کریں گے کہ آپ کو جان کے لالے پڑ جائیں گے۔
افسوس آپ اپنے اکابر کے لیے تو جاہل‘ بدعتی‘ غیر فقیہ اور اعرابی کا لفظ پسند نہیں کرتے مگر صحابہ کرام اور حامی سنت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق اسے بڑے شوق سے گوارہ کرتے ہیں بلکہ اسے معرفت کا نام دیتے ہیں‘ یہ ہیں ادب کے واحد ٹھیکے دار۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

ائمہ اربعہ نے تقلید کیوں نہ کی؟

فرماتے ہیں‘ نہ معلوم آپ نے یہ جملہ کہاں سے سن رکھا ہے کہ ائمہ اربعہ غیر مقلد تھے ، آپ کا سوال اسی طرح ہے جس طرح کوئی یوں کہے میں کسی نام کا مقتدی بن کر نماز نہیں پڑھوں گا‘ یہی رٹ لگا تا چلا جائے ہم اس سے پوچھیں گے کیوں نہیں مقتدی بنتا؟ وہ کہے پہلے دکھاؤ یہ امام کس کا مقتدی ہے ؟ یا یوں کہے کہ میں کسی نبی کا امتی نہیں‘ اس لیے کہ ہمارے پیغمبر کسی کے امتی نہیں ہیں، پہلے حضور علیہ السلام کا امتی ہونا ثابت کرو میں بعد میں امتی بنوں گا۔ پہلے اہم کا مقتدی ہونا دکھلاؤ میں بعد میں مقتدی بنوں گا‘ یا میں اس بادشاہ کی رعایا نہیں ہوں کیونکہ یہ بادشاہ کس کی رعایا ہے؟ میں مقلد نہیں ہوں کیونکہ ائمہ اربعہ کسی کے مقلد نہیں تھے۔ ہم بڑے پیار سے عرض کریں گے کہ امام امام ہی ہوتا ہے باد شاہ رعایا میں شمار نہیں ہو تا‘ رعایا بادشاہ نہیں ہوتی، پیغمبر امتی نہیں ہوتے‘ مجتہد تو مجتہد ہے وہ مقلد کیسے ہو‘ تقلید تو غیر مجتہد کرے گا جو درجہ اجتہاد پر فائز نہیں ہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 63)

الجواب:-

اولا:-

بھائی اقتداء اور تقلید کا ہم فرق بیان کر چکے ہیں، اگر اس کا کوئی معقول جواب آپ کے پاس ہے تو وہ عنایت کیجیے۔

ثانیا:-

بھائی جان بادشاہ اور تقلید کا آپس میں کیا تعلق ہے ؟ بادشاہ تو غیر مجتہد بھی ہو سکتا ہے‘ بلکہ دین سے بے بہرہ اور اجڈ بھی ہو سکتا ہے‘ غالباً آپ نے تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ ایسی حرکت نہ کرتے‘ کسی ایف اے یا بی اے کے طالب علم سے پوچھنا کہ اکبر کا دین الٰہی کیا چیز تھی‘ اور اس کا موجد بادشاہ تھا کہ نہیں ؟ یہ بھی خوب کہا کہ بادشاور عایا نہیں الخ شاید آپ کو قرآن کا مطالعہ نہیں ارشاد ربانی ہے کہ
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ(آل عمران: 26)
اے اللہ بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی دیتا ہے اور جس سے چاہے چھین لیتا ہے۔
لیجیے جناب اس آیت میں آپ کے دو مطالبے پورے ہوتے ہیں‘
(1) اللہ حکمرانی کو چھین بھی لیتا ہے‘ جب چھین لیتا ہے تو وہ بادشاہ نہیں رہتا اس کا شمار رعایا میں ہوتا ہے۔
(۲) بادشاہی کا مالک اللہ ہی ہے اور حقیقی شہنشاہ وہی ہے۔

ثالثاً:-

آپ نے لفظ‘ لمتہ پر غور نہیں کیا‘ جس کی وجہ سے آپ کو غلطی لگی ہے‘ یا جان بوجھ کر مغالطہ دیا ہے، سنئے کہ امتہ بمعنی جماعت آتا ہے خواہ وہ انسانوں کی ہو یا جانوروں یا پرندوں کی‘ ارشاد ربانی ہے کہ
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓىٕرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْؕ
(سوره الانعام :38)
یعنی زمین میں جو چلنے پھرنے والا (حیوان) یا دو پروں سے اڑنے والے جانور ہیں ان کی تمہاری ہی طرح جماعتیں ہیں۔
اور جب اس لفظ کا اطلاق انسانوں کے لیے ہو تو اس سے مراد ہم عقیدہ لوگ ہوتے ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے۔
(كَانَ النَّاسُ أُمَّةٍ وَاحِدَةً )
(پہلے تو سب) لوگوں کا ایک ہی مذہب تھا۔
(2-213)
اور عرف عام میں امت ان ہم عقیدہ لوگوں کی جماعت کو کہتے ہیں، جسے کوئی نبی یا رسول تشکیل دیتا ہے اور ارشاد ربانی ہے
(كنتم خير امةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ )
(آل عمران: 110)
(مومنو) جتنی امتیں بھی لوگوں کے لیے پیدا ہوئیں تم ان میں سے بہتر ہو۔
(مترادفات القرآن ص 390)
ان معانی کو ملحوظ رکھیے تو ایسا سوال کرنے والا ( پہلے یہ بتایا جائے کہ نبی کس کا امتی ہے) جاہل و نادان ہی ہو سکتا ہے‘ کوئی ذی علم اور باشعور انسان نہیں ہو سکتا‘ جب کہ تقلید کا یہ معنی نہیں ہے، جس کی وجہ سے آپ کی توجہ ہی غلط اور مثال اغلط ہے‘ آپ جیسے لوگوں کی نادانیوں کی وجہ سے ہی منکرین حدیث کا گروہ پیدا ہوا ہے۔ اب بالفرض اگر کوئی جاہل و نادان اور علم دین سے کورا اس کو پلے باندھ لے تو آپ کے لیے یہی ایصال گناہ کافی ہے، آپ ہمارے ساتھ اختلاف ضرور رکھیے بلکہ بغض و تعصب بھی ترک نہ کیجیے، مگر فرضی اعتراضات کو درمیان میں لاکر دین کا حلیہ مت بگاڑ یئے اور جہلاء کو دین سے برگشتہ نہ کیجیے‘ اگر ان کی حالت کو سنوار نہیں سکتے تو مزید خراب بھی نہ کریں‘ پھر آپ پہ واضح ہونا چاہیے کہ اگر کوئی یوں کہے کہ ان کے موجد آپ ہی ہیں‘ ور نہ یہ الزامی جواب کہلانے کا سرے سے مستحق ہی نہیں‘ کیونکہ الزامی جواب میں فریق ثانی کا مسلم ہونا شرط ہوتا ہے۔ غیر مسلم کو آپ کے دل کی بھڑاس تو کہا جاسکتا ہے مگر اسے جواب کوئی دانا نہیں کہے گا‘ غور کیجیے کہ سوال تو آپ یہ نقل کرتے ہیں کہ ائمہ اربعہ نے کسی کی تقلید ہی نہیں کی‘ یہ سوال آپ کے مسلمات سے ہے‘ اس کا جواب آپ ہمیں غیر مسلم عنایت کرتے ہیں‘ بھائی ان چیزوں کی جہلا میں تو شاید قدر ہو مگر اہل علم کے نزدیک آپ کا یہ جواب کم از کم خلط مبحث کی بدترین مثال ہے۔

رابعا:

آپ کا یہ جواب کہ ائمہ اربعہ چونکہ مجتہد تھے‘ اور مجتہد کے لیے تقلید جائز نہیں، یہ بھی سوال کا جواب نہیں! اس جواب پر متعدد اعتراض ہیں‘ بتایا جائے کہ ائمہ اربعہ پیدائشی مجتہد تھے یا ایک زمانہ تک انہوں نے کسب کیا جس کے نتیجہ میں وہ درجہ اجتہاد کو پہنچ گئے۔ اگر آپ کہیں کہ وہ پیدائشی مجتہد تھے‘ تو اس کا ثبوت قرآن و حدیث سے دیجیے۔ اگر آپ ثبوت نہ دے سکے تو ماننا پڑے گا کہ وہ ابتدائی زمانہ میں مجتہد نہ تھے‘ اور ایک مدت تک انہوں نے علم دین حاصل کیا‘ پھر درجہ اجتہاد پایا‘ لہذا آپ پر لازم ہے کہ ثابت کریں کہ اجتہاد کا درجہ پانے سے پہلے انہوں نے کس کی تقلید کی ؟ اگر آپ ان سے صحیح اسناد کے ساتھ یہ ثابت کر دیں کہ ہم پہلے تو فلاں فلاں کی تقلید کرتے تھے مگر اب چونکہ مجتہد ہو گئے ہیں لہذا ہم نے تقلید کو بھی ترک کر دیا ہے۔ اگر آپ یہ ثابت کر دیں تو ہم آپ کو منہ مانگا انعام دیں گے مگر یادرکھیے پوری دنیا کے مقلدین سر توڑ کوشش کرنے کے باوجود اس میں بری طرح ناکام رہیں گے۔ ان شاء الله
بالفرض اگر آپ علماء دیو بند کی تقلید میں یہ کہہ دیں کہ اجتہاد کوئی اکتسابی چیز یافن نہیں ہے جسے محنت سے حاصل کر لیا جائے بلکہ وہ ملکہ عطاء الٰہی ہے۔
(دفاع امام ابو حنیفہ ص 340)
تو اس کے جواب میں ہم عرض کرتے ہیں کہ اجتہاد کیا پورا دین کا علم بلکہ انسان کی ہر چیز عطاء الٰہی ہے، مگر کوئی چیز موہسبت نازل نہیں ہوتی جب تک انسان کی طرف سے اس کے حصول کی کوشش اور کسب نہ کیا جائے ارشاد ربانی ہے کہ
يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ (الشورىٰ:50)
یعنی ہم جسے چاہتے ہیں لڑکے عطا کرتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں لڑکیاں موہسبت کرتے ہیں۔
اسی طرح سورہ مریم آیت 50 میں کہا ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب موہبست کیے‘ جس سے معلوم ہوا کہ اولاد اللہ کی عطا ہے تو کیا اس کا یہ معنی ہے کہ اولاد کے حصول کے لیے کسی انسانی عمل کی ضرورت نہیں۔
قرآن گواہ ہے کہ ساری دنیا کو رزق اللہ دیتا ہے۔ تو کیا اس کا یہ معنی ہے کہ حصول رزق کے لیے محنت کی ضرورت نہیں‘ یا یہ حدیث کہ تمام لوگ اللہ کی رحمت سے جنت میں جائیں گے ۔ ( بخاری کتاب الرقاق باب القصد والمداومة… مسلم کتاب صفات المنافقين) (باب لن يدخل احد الجنة بعمله) تو کیا اس کا یہ معنی ہے کہ اللہ کی رحمت کو حاصل کرنے کے لیے کسی عمل صالحہ کی ضرورت نہیں‘ الغرض اس ساری تقریر سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ ایک مدت تک ائمہ اربعہ غیر مجتہد تھے‘ لہذا اس دور میں ان سے تقلید ثابت کریں‘ اور نہ ہمارا یہ لاجواب اعتراض لا جواب ہی رہے گا۔ ان شاء اللہ
جب کوئی ثبوت ہی آپ کے پاس نہیں تو پھر اللہ کا خوف کیجیے خلط مبحث علماء کی شان نہیں، علاوہ ازیں اگر تقلید شخصی واجب یا مستحسن فعل ہو تا یا امت مرحومہ پر ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید ضروری ہوتی تو یہ چاروں بزرگ اپنی تقلید سے منع نہ کرتے۔
(۱) امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ
(لا يحل لاحد ان ياخذ يقولى مالم يعلم من أين قلت ونهى من التقليد وندب إلى معرفة الدليل )
اس شخص کو میرا قول لینا حلال نہیں جو یہ نہیں جانتا کہ میں نے کس دلیل سے کہا ہے اور امام صاحب نے تقلید سے منع کیا اور دلیل معلوم کرنے کی ترغیب دلائی۔
(مقدمہ ہدایہ ص 93 ج 1)
(۲) امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ
(انما انا بشر اخطى واصيب فانظروا في رائي فكلما وافق الكتاب والسنة فخذوه وكلما لم يوافق فاتركوه ).
یعنی میں تو ایک انسان ہوں درست اور غلطی (اجتہاد میں ) دونوں کرتا ہوں‘ آپ میری رائے میں دیکھا کریں کہ جو بات قرآن وحدیث کے موافق ہو اس کو لے لو اور جو خلاف ہو اسے چھوڑ دو۔
(۳) عام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ
( جلب المنفعة ص 68 و اعلام الموقعین ص 2).
( نهى عن التقليده وتقليد غيره )
(حجۃ اللہ الباللہ ص 155 ج 1)
یعنی امام شافعی نے اپنی اور کسی اور کی تقلید سے منع کیا ہے۔
(۴) نام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ
(لا تقلدوني ولا تقلدن مالكا ولا الاوزاعي ولا النخعي ولا غيرهم وخذ الاحكام من حيث اخذوا من الكتاب والسنة ) (حجۃ اللہ الباللہ ص 157 ج 1 ) یعنی میری تقلید کرنانہ ہی مالک و اوزاعی و شخصی و غیرہ کی کرنا اور احکام کو وہاں سے لینا جہاں سے انہوں نے اخذ کیے ہیں یعنی قرآن و سنت سے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: