بارات کی شرعی حیثیت اور مسنون شادی کے لوازمات
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

بارات کی شرعی حیثیت اور مسنون شادی کے لوازمات
سوال : کیا شادی کے موقع پر دولہا کے ساتھ بارات کا جانا کسی حدیث سے ثابت ہے؟
جواب : شادی بیاہ کے موقع پر مروجہ بارات لے جانا شرعاً بالکل ثابت نہیں، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ عہد رسالت مآب اور خلفائے راشدین کے ایام ہائے خلافت میں کہیں بھی اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ نکاح کے لیے دولہا، دو گواہ اور لڑکی کے ولی سر پرست کا ہونا کافی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی میں آپ کے کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شادیاں ہوئیں، کسی نے بھی بارات کا اہتمام نہیں کیا۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں :
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ پر زردی کا نشان دیکھا تو فرمایا : ”یہ کیا ہے ؟“ انہوں نے کہا: ”میں نے ایک عورت سے سونے کی ایک ڈلی کے برابر مہر کے ذریعے نکاح کیا ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اللہ تیرے لئے برکت ڈالے، ولیمہ کرو، اگر چہ ایک بکری ہو ہو۔“ [مسلم، كتاب النكا ح : باب الصداق و جواز كونه تعليم قرآن و خاتم حديد1427]
اس صیح حدیث سے معلوم ہوا کہ عبدالرحٰمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی شادی کا علم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت ہوا جب آپ نے عبدالرحٰمن پر زعفران کا زرد رنگ دیکھا۔ اگر اسلام میں بارات کا کوئی تصور ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے بلایا جاتا۔ لیکن اسلام میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی بھی صحابہ کی شادی پر بارات ساتھ گئی ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی پیاری بیٹی فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کا رشتہ مانگنے کے لئے علی رضی اللہ عنہ اکیلے ہی آپ کے پاس تشریف لے گئے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلال و ہیبت کی وجہ سے بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہیں کون سی چیز لائی ہے، کیا تجھے کوئی حاجت ہے ؟“علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ”میں خاموش ہو گیا۔“پھر آپ نے ایسے ہی کہا: میں پھر خاموش ہو گیا۔ بالاخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «لعلك جئت تخطب فاطمة ؟» ”شاید تم فاطمہ سے منگنی کے لئے آئے ہو۔“
تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ”ہاں !“ آپ نے پوچھا: ”کیا تمہارے پاس مہر دینے کے لئے کچھ ہے۔“علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ”یا رسول اللہ ! نہیں اللہ کی قسم ! آپ نے فرمایا : ”تیری لوہے کی زرہ کہاں ہے جو میں نے تجھے پہنائی تھی ؟ کہنے لگے : اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں علی کی جان ! وہ تو حطمیہ ہے، اس کی قیمت چار درہم بھی نہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تیرے نکاح میں دیا، تو اس زرہ کو بھیج دے جس کے ساتھ تو فاطمہ کو حلال کرے گا۔“ یعنی بطور مہر دے کر اسے اپنے لئے حلال بنا لو۔ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی حقِ مہر تھا۔ تفصیل کے لئے دیکھیں : [دلائل النبوة للبيهقي 3/ 160، البداية و النهاية3/ 302۔ اسد الغابة8/ 216، 215]
اس واقعہ سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ کا ئنات کے افضل ترین بندوں میں سے علی المرتضٰی اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی پر نہ بارات کا میلا اور نہ رسم و رواج کو کوئی دخل۔ علی رضی اللہ عنہ اکیلے ہی منگنی کے لئے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق مہر پوچھ کر اپنی پیاری لخت جگر فاطمہ بتول رضی اللہ عنہما کا نکاح کر دیا۔ صحیح اسلامی طریقہ یہی ہے کہ جس گھر میں نکاح کا ارادہ ہو وہاں لڑکا پیغام دے، وہ گھر والے اگر منظور کر لیں تو جلد نکاح کر دیں، رسم و رواج کا قطعاً انتظار نہ کریں، اسی میں خیر و فلاح ہے۔
اللہ تعالیٰ صحیح سنت رسول پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بخشے اور ہر قسم کے ہندو رسم و رواج سے بچائے۔ (آمین !)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: