خلع والی عورت کی عدت کتنی ہوگی؟
تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری

خلع والی عورت کی عدت ایک حیض ہے کیونکہ:
➊ ثابت بن قیس بن شماس نے اپنی بیوی جمیلہ بنت عبداللہ بن اُبی کو مارا ، اس کاہاتھ توڑ دیا ، ان کا بھائی نبیٔ کریم ﷺ کی خدمت میں اس کی شکایت لے کر آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف آدمی بھیجا ، اسے فرمایا:
خذالّذي لها عليك وخلّ سبيلها، قال ؛ نعم ، فأمر رسول الله ﷺ أن تتربّص حيضةً واحدةً، فتلحق بأهلها.
”تم وہ حق مہر رکھ لو جو اس عورت کا تمہارے ذمہ ہے اور اس کا راستہ چھوڑ دو ، اس نے کہا ، ٹھیک ہے ، پھر رسول اللہ ﷺ نے اس [جمیلہ] کو ایک حیض انتظار کرنے کا حکم دیا ، پھر وہ اپنے گھر والوں کے پاس چلی جائے ۔“ [سنن نسائی: ۳۵۲۷ ، وسندہ صحیح]
عن عبادة بن الصّامت عن الرّبيع بنت معوّذ بن عفراء، قال ؛ قلت لها ؛ حدثيني حديثك، قالت ؛ اختلعت من زوجي، ثمّ جئت عثمان، فسألت ؛ فماذا على من العدّة؟ فقال ؛ لا عدّة عليك الّا أن يكون حديث عهد بك فتمكثين عندهٗ حتّٰي تحيضين حيضةً، قالت ؛ وانّما تبع فى ذٰلك قضاء رسول الله ﷺ فى مريم المُغَالِيَةِ وكانت تحت ثابت ابن قيس، فاختلعت منه.
”سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ ربیع بنت معوذ بن عفرا سے کہا کہ مجھ سے اپنی آپ بیتی بیان کرو، اس نے کہا، میں نے اپنے خاوند سے خلع لے لیا، پھر میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور سوال کیا کہ کیا مجھ پر کوئی عدت ہے؟ آپ نے فرمایا ، تجھ پر کوئی عدت نہیں، ہا ں شروع شروع میں تو اس کے پاس ٹھہر حتی کہ ایک حیض گزار لے ، کہتی ہیں کہ سیدنا عثمان نے اس فیصلے میں رسولِ کریم ﷺ کے اس فیصلے کی پیروی کی ہے ، جو آپ نے مریم المغالیہ کے بارے میں فرمایا تھا ، وہ ثابت بن قیس کے نکاح میں تھیں ، پھر ان سے خلع لے لیا۔“ [سنن ابن ماجه: ۲۰۵۸ ، السنن الصغريٰ للنسائي: ۳۵۲۸، السنن الكبريٰ للنسائي: ۵۶۹۲، المعجم الكبير للطبراني: ۲۶۶/۲۴۔ ۲۶۵ ، وسندهٗ حسن]
عن الربيع بنت معوذ بن عفراء أنها اختلعت عليٰ عهد النبى ﷺ، فأمرها النبى ﷺ أو أمرت أن تعتد بحيضةٍ.
”ربیع بنت معوذ بن عفرا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کے عہدِ مبارک میں خلع لیا، ان کو نبیٔ کریم ﷺ نے حکم دیا یا اسے ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا گیا ۔“ [سنن ترمذي: ۱۱۸۵ ، وسنده صحيح و صححه ابن الجارود: ۷۶۳]
عن ابن عباس أن امراة ثابت بن قيس اختلعت من زوجها عليٰ عهد النبى ﷺ ، فأمرها النبى ﷺ أن تعتدّ بحيضةٍ.
”سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس کی بیوی نے نبی اکر م ﷺکے عہدِ مبارک میں اپنے خاوند سے خلع لیا، آپ نے اسے ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا ۔ “ [سنن ابي داود: ۲۲۲۹ ، سنن ترمذي: ۱۱۸۵/م ، وسندهٗ صحيح]
امام ترمذی نے اس حدیث کو ”حسن غریب“ قرار دیا ہے ۔
ابنِ عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
عدّة المختلعة حيضة.
”حائضہ کی عدت ایک حیض ہے ۔“ [موطا الامام مالك برواية يحييٰ: ۵۶۵/۲ ، سنن أبى داود: ۲۲۳۰، وسنده صحيح]
نافع بیان کرتے ہیں:
وكان ابن عمر يقول: تعتد ثلاث حيض ، حتّٰي قال هٰذا عثمان ، فكان يُفتي به ويقول: خيرنا و أعلمنا.
”سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما (پہلے) فرماتے تھے کہ وہ (خلع والی عورت) تین حیض عدت گزارے گی ، یہاں تک کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ (ایک حیض عدت کا حکم) فرمایا تو آپ اسی (ایک حیض) کے مطابق فتویٰ دینے لگے اور فرمایا کرتے تھے، آپ (عثمان رضی اللہ عنہ) ہم میں سے بہتر اور زیادہ علم والے ہیں۔“ [مصنف ابن ابي شيبه: ۱۱۴/۵ ، وسندہ صحيح]
تنبیہ:
امام ترمذیؒ فرماتے ہیں:
فقال أكثر أهل العلم من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم وغيرهم: انّ عدّة المختلعة عدّة المطلقة، ثلاث حيض.
”صحابہ کرام اور ان کے علاوہ اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ خلع والی عورت کی عدت مطلقہ عورت کی طرح تین حیض ہے ۔ “ [جامع الترمذي تحت حديث: ۱۱۸۵/م]
امام ترمذی کی یہ بات محل نظر ہے ، کسی صحابی سے خلع والی عورت کی عدت تین حیض ہونا ثابت نہیں ، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جو روایت ہے ، اس سے آپ کا رجوع بھی ثابت ہے ، والحمدللہ ! امام اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ان ذهب ذاهب الي هذا ، فهو مذهب قوي
”جس کا یہ مذہب ہے کہ خلع والی عورت کی عدت ایک حیض ہے تو یہ مذہب قوی ہے۔ “ [جامع ترمذي تحت حديث ۱۱۸۵/م]
اعتراض نمبر ۱:
جناب تقی عثمانی دیوبندی حیاتی پہلی حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں:
جمہور کے نزدیک حدیثِ باب میں ”حیضۃ“ سے مراد جنسِ حیض ہے ، اس پر بعض ان روایات سے اشکال ہوتا ہے ، جن میں ”حیضۃ“ کے ساتھ ”واحدۃ“ کی قید مصرح ہے ، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ راوی کا تصرف ہے ، دراصل اس ”حیضۃ“ میں ”ۃ“ تائے وحدت نہیں بلکہ بیانِ جنس کے لئے ”ۃ“ لائی گئی ہے ۔ [درسِ ترمذي از تقي: ۴۹۶/۳]
تبصرہ:
یہ تحکمِ محض ہے ، آلِ تقلید اور منکرینِ حدیث کی مشترکہ کاوش ہے کہ جو حدیث اپنے مذہب کے خلاف پاتے ہیں ، اس کو ”راوی کا تصرف“ وغیرہ کہہ کر دینِ اسلام کو مطعون و مشکوک گردانتے ہوئے ذرا جھجک محسوس نہیں کرتے ۔
”حیضۃ“ یہ حاض یحیض کا مصدر ہے ، یہ اصل میں ”حیض“ تھا، اس میں ”ۃ“ وحدت کی ہے ، ثلاثی مجرد کا مصدر ”فَعْلَۃٌ“ کے وزن پر آئے تو وحدت کا فائدہ دیتا ہے ، ثلاثی مجرد کا مصدر یا تو ”ۃ“ سے خالی ہوگا یا ”ۃ“ کے ساتھ مستعمل ہوگا جیسے ”رحمۃ“ ہے ، اگر ”ۃ“ سے خالی ہو اور اس سے وحدت مراد لینی ہو تو ”ۃ“ لائی جائے گی ، اگر پہلے پہلے سے ”ۃ“ کے ساتھ مستعمل ہوتو وحدت مراد لینے کے لئے ”واحدۃ“ کی قید بڑھائی جائے گی ، جیسے ”رَحِمْتُۃٗ رَحْمَۃً وَاحِدَۃً“ .
بالفرض و التقدیر ان کی یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ ”حیضۃ“ میں ”ۃ“ جنس کے لئے ہے اور جنس واحد ، تثنیہ اور جمع کو شامل ہوتی ہے تو ہم روایت کے لفظ ”واحدۃ“ کے ساتھ جنس سے وحدت مراد لے لیں گے ، کیونکہ واحد بھی جنس کے افراد میں سے ہے ۔
نبوی فیصلے کی پیروی میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا بھی یہی فتویٰ ہے کہ خلع والی عورت کی عدت ایک حیض ہے ، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی اپنے فتویٰ سے رجوع کرکے اس عثمانی فتویٰ کو قبول فرمایا، امام اسحاق اس کو قوی مذہب قرار دیتے ہیں ، اس کے باوجود ”بعض الناس“ حدیث میں ”واحدۃ“ کے لفظ کو راوی کا تصرف کہتے نہیں تھکتے ، اس پر سہا گہ یہ کہ ان سے پہلے یہ اعتراض کسی مسلمان سے ثابت نہیں۔
اعتراض نمبر ۲:
جناب تقی عثمانی دیوبندی اس حدیث پر دوسرا اعتراض یوں وارد کرتے ہیں:
نیز یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ روایت جو خبرِ واحد ہے ، نصِّ قرآنی ﴿وَالْمُطَلَّقٰتُ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُؤءٍ﴾ [سورة البقرة: ۲۲۸] کا معارضہ نہیں کرسکتی ۔ [درسِ ترمذي: ۴۹۶/۳]
تبصرہ:
➊ یہ واضح طور پر منکرینِ حدیث کی روش ہے ، یہی وہ خطرناک ہتھیار صدیوں سے ردِّ حدیث کے لیے استعمال کرتے چلے آرہے ہیں، ثابت ہوا کہ فتنۂ انکارِ حدیث دراصل تقلیدِ ناسدید کا پروردہ ہے ، حالانکہ آیتِ کریمہ کاحکم عام ہے ، جس طرح نصِّ قرآنی سے حاملہ عورت کی عدت اس کے عموم سے مستثنیٰ ہے کہ: ﴿وَاُولاَتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾ [الطلاق: ۴]
یعنی: ”حمل والیوں کی عدت وضع حمل ہے“ اسی طرح نصِّ حدیث سے خلع والی عورت کی عدت اس آیت کے عموم سے خاص و مستثنیٰ ہے ۔
➋ یہ آیت ”عام مخصوص منہ البعض“ ہے تو احناف کے نزدیک ”عام مخصوص منہ البعض“ کی تخصیص خبرِ واحد سے بالاتفاق جائز ہے، کیونکہ ان کے نزدیک ”عام مخصوص منہ البعض“ ظنی ہے اور خبرِ واحد بھی ظنی ہے ، ظنی کی تخصیص ظنی سے ان کے نزدیک بلا اختلاف جائز ہے ۔
➌ اس آیتِ کریمہ کا تعلق طلاق سے ہے ، جبکہ حدیثِ مذکورہ خلع کے متعلق ہے اور خلع طلاق نہیں بلکہ فسخِ نکاح ہے ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے