جو شخص روزے میں بیوی سے حرام کام کا ارتکاب کرے ؟
سوال : اس شخص کا کیا حکم ہے جو رمضان کے مہینہ میں اپنی بیوی کے ساتھ حرام کام کا ارتکاب کرے ؟ صوم کی حالت میں کرے تو اور رات میں کرے تو ؟ اور اس کا کفارہ کیا ہے ؟
جواب : جو شخص رمضان کے مہینہ میں غروب آفتاب سے طلوع فجر کے درمیان اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، البتہ اگر دن میں طلوع فجر سے غروب آفتاب کے درمیانی وقفہ میں بیوی کے ساتھ ہم بستری کرے تو وہ گنہگار اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نافرمان ہو گا۔ اور اس پر قضا اور کفارہ دونوں واجب ہو گا۔ کفارہ درج ذیل ہے :
(1) ایک غلام آزاد کرنا (2) اگر غلام نہ پائے تو مسلسل دو مہینے کا صوم رکھنا (3) اگر اس کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھاناکھلانا۔ اپنے ملک کی عام غذا میں سے جو اس کے علاقہ کے لوگ کھاتے ہوں ہر مسکین کو نصف صاع (تقریباً سوا کلو)۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ“
سوال : ایک شخص بیان کرتا ہے کہ جس وقت وہ اپنی بیوی کے ساتھ کھیل کود، یا بوس وکنار کرتا ہے تو اپنے پائجامہ میں اپنے عضو تناسل سے رطوبت پاتا ہے۔ اس کا سوال یہ ہے کہ طہارت اور صوم کی صحت اور عدم صحت کے اعتبار سے اس پر کیا آثار مترتب ہوتے ہیں ؟
جواب : سائل نے اپنے سوال میں اس بات کا ذکر نہیں کیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ کھیل کود کی وجہ سے منی کا احساس کرتا ہے۔ صرف اتنا ذکر کیا ہے کہ وہ اپنے پائجامہ میں رطوبت پاتا ہے۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ کہ جو رطوبت وہ پاتا ہے وہ مذی ہے، منی نہیں ہے۔ اور مذی نجس ہے۔ کپڑے یا پائجامہ کے جس حصہ پر لگے اس کا دھونا ضروری ہے۔ اور اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اور ذَکر (عضو تناسل) اور خصیتین کو دھونے کے بعد وضو کرنا ضروری ہے۔ تاکہ طہارت حاصل ہو جائے۔ اہل علم کے صحیح قول کی بنا پر اس سے نہ صوم فاسد ہوتا ہے اور نہ غسل ضروری ہوتا ہے۔ البتہ اگر خارج ہونے والی چیز منی ہے تو اس سے غسل واجب ہو گا اور صوم بھی فاسد ہو جائے گا۔ منی اگرچہ پاک ہے مگر طبیعت اس سے گھن محسوس کرتی ہے۔ اور کپڑے یا پائجامہ کے جس حصہ پر لگ جائے اس کا دھونا مشروع ہے۔ اور صائم کے لئے مناسب اور افضل یہ ہے کہ اپنے صوم میں ایسی چیزوں سے احتیاط برتے جو شہوت کو بھڑکانے والی ہوں۔ خواہ بیوی کے ساتھ کھیل کود ہو، یا بوس و کنا ر۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ“

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: