رمضان کا روزہ ہمیشہ 30 دن رکھنے کا حکم
سوال : بعض لوگ رمضان کا صوم ہمیشہ 30 دن رکھتے ہیں۔ اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح اور مشہور حدیثیں اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور علماء تا بعین کا اجماع اور اتفاق اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ عربی مہینہ 29 دن کا بھی ہوتا ہے اور 30 دن کا بھی۔ پس جو شخص ہمیشہ 30 ہی دن کا صوم رکھے اور چاند کا اعتبار نہ کرے وہ سنت اور اجماع کا مخالف، اور دین میں ایسی بدعت کا موجد ہے جس کی اجازت اللہ تعالیٰ نے نہیں دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے :
اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ [7-الأعراف:3]
’’ تم لوگ اس کی اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر من گھڑت سر پرستوں کی اتباع مت کرو “۔
نیز ارشاد فرمایا ہے :
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ [3-آل عمران:31 ]
’’ کہہ دیجیے اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا “۔
اور فرمایا :
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّـهَ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ [59-الحشر:7]
’’ اور تمہیں جو کچھ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) دیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناًً اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے “۔
نیز ارشاد ربانی ہے :
تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ وَمَنْ يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ٭ وَمَنْ يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ [4-النساء:13]
’’ یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرماں برداری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے اور اس کی مقررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنم میں ڈال دے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، ایسے ہی لوگوں کے لئے رسوا کن عذاب ہے “۔
اس مضمون کی آیتیں بہت سی ہیں۔
اور صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں :
صوموا لرؤيته و أفطروا لرؤيته فإن غم عليكم فاقدروا له [صحيح: صحيح بخاري، الصوم 30 باب قول النبى صلى الله عليه وسلمإذا رأيتم الهلال فصوموا، 11 رقم 190، 1906، 1909، صحيح مسلم، الصيام 13 باب وجوب صوم رمضان لرؤية الهلال 2 رقم 4 1080]
’’ چاند دیکھ کر صوم رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔ اور اگر بدلی ہو تو مہینہ کی تعداد پوری کرو “۔
اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے :
فاقدروا له ثلاثين [صحيح: صحيح مسلم، الصيام 13 باب وجوب صوم رمضان لرؤية الهلال 2 رقم 4، 1080]
’’ اس کی تعداد تیس پوری کرو “۔
اور صحیحین میں ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں :
إذا رأيتم الهلال فصوموا وإذا رأيتموه فأفطروا فإن غم عليكم فعدوا ثلاثين [صحيح: صحيح بخاري، الصوم 30 باب قول النبى صلى الله عليه وسلم إذا رأيتم الهلال فصوموا، 11 رقم 1907 بروايت ابن عمر رضي الله عنهما۔ صحيح مسلم، الصيام 13 باب وجوب صوم رمضان لرؤية الهلال 2 رقم 19، 20، 1081 بروایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ]
’’ جب تم چاند دیکھو تو صوم رکھو اور جب چاند دیکھو تو افطار کرو۔ اور اگر بدلی ہو تو تیس کی گنتی پوری کرو “۔
اور صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته فإن غم عليكم فصوموا ثلا ثين [صحيح: صحيح بخاري، الصوم 30 باب قول النبى صلى الله عليه وسلم إذا رأيتم الهلال فصوموا، 11 رقم 1909، صحيح مسلم، الصيام 13 باب 2 رقم 17، 1081]
’’ چاند دیکھ کر صوم رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔ اور اگر بدلی ہو تو تیس دن صوم رکھو “۔
اور دوسرے الفاظ میں ہے :
فأكملوا العدة ثلاثين [صحيح: صحيح بخاري، الصوم 30 باب 11 رقم 1907 بروايت ابن عمر رضي الله عنهما]
’’ یعنی تیس کی گنتی پوری کرلو “۔
اور ایک دوسرے الفاظ میں یوں ہے :
فأكملوا ثلا ثين يوما [صحيح: صحيح بخاري، الصوم 30 باب 11 رقم 1909 بروايت ابوهريره رضي الله عنه]
یعنی شعبان کی تیس تاریخ پوری کرو۔
اور حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا تصوموا حتي ترواالهلال أو تكملوا العدة، ولا تفطروا حتي تروا الهلال أو تكملوا العدة [صحيح: صحيح سنن أبى داؤد، الصوم با ب إذا غمي الشهر 6 رقم 2040۔ 2326۔ صحيح سنن نسائي، الصيام 22 باب إكمال شعبان ثلاثين ضمني باب 13 رقم 2007، الإرواء رقم 902]
’’ جب تک تم چاند نہ دیکھ لو یا مہینہ کی تعداد پوری نہ کر لو تب تک تم صوم نہ رکھو۔ اور جب تک تم چاند نہ دیکھ لو یا مہینہ کی تعداد پوری نہ کر لو تب تک صوم رکھنا بند نہ کرو “۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد حدیثوں میں ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا :
إن الشهر تسع وعشرون فلا تصوموا حتي تروا الهلال ولا تفطروا حتي تروا الهلال فإن غم عليكم فأكملوا العدة [صحيح: صحيح بخاري، الصوم 30 باب قول النبى صلى الله عليه وسلم إذا رأيتم الهلال فصوموا، 11 رقم 1907 بروايت ابن عمر رضي الله عنهما۔ صحيح مسلم، الصيام 13 باب وجوب صوم رمضان لرؤية الهلال 2 رقم 6، 1080]
’’ بے شک مہینہ انتیس دن کا (بھی) ہوتا ہے لہٰذا جب تک چاند نہ دیکھ لو صوم نہ رکھو اور جب تک چاند نہ دیکھ لو افطار نہ کرو۔ اور اگر بدلی ہو تو 30 تاریخ پوری کرو “۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ثابت ہے :
الشهر هكذا وهكذا وهكذا وأشار بأصابعه العشر، وخنس إبهامه فى الثالثة ثم قال الشهر هكذا وهكذا وهكذا بأصابعه العشر ولم يخنس فيها شيئا [صحيح: صحيح بخاري، الصوم 30 باب 11 رقم 1908 بروايت ابن عمر رضي الله عنهما، صحيح مسلم الصيام 13 باب 2 رقم 16، 1080 ]
’’ مہینہ اس طرح اور اس طرح اور اس طرح ہوتا ہے اور آپ نے اپنی دسوں انگلیوں سے اشارہ کیا۔ اور تیسری مرتبہ اپنے انگوٹھے کو موڑ لیا۔ پھر اپنی دسوں انگلیوں کو ملا کر تین بار فرمایا کہ مہینہ اس طرح ہوتا ہے اور کوئی انگلی نہیں سمیٹی “۔
اس سے آپ کا اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ مہینہ کبھی 30 دن کا اور کبھی 29 دن کا ہوتا ہے۔ علم و ایمان والے صحابۂ کرام اور تابعین عظام نے ان صحیح احادیث کو عام طور پر قبول کیا اور اس کے مقتضی پر عمل کیا ہے۔ چنانچہ وہ لوگ شعبان، رمضان اور شوال کے چاند کی رویت کا اہتمام کرتے اور بینہ اور شواہد جس کی تائید کرتے اس پر عمل کرتے تھے، چاہے اس کا تعلق مہینہ کے پورا ہونے سے ہوتا یا اس کے کم ہونے سے۔ لہٰذا تمام مسلمانوں پر واجب اور ضروری ہے کہ اسی سیدھے راستہ پر چلیں اور اس کے مخالف لوگوں کے آرا ء اور ان کی ایجاد کردہ بدعتوں کو چھوڑ دیں۔ اسی سے ہم ان لوگوں کے زمرے میں شامل ہو سکتے ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے جنت اور اپنی رضامندی کا وعدہ فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا :
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ [9-التوبة:100]
’’ اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے “۔
’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: