خاوند، خواہ مالدار ہی ہو، اس پر اپنی بیوی کے حج کا خرچہ واجب نہیں، لیکن اگر نکاح کرتے وقت یہ شرط لگائی جائے، جب اسے پورا کرنا ضروری ہے کیونکہ عورت کا حج ہمارے نزدیک اس پر خرچ کرنے میں نہیں آتا، کہ ہم کہیں کہ جس طرح اس کا نان و نفقہ واجب ہے، اسی طرح حج کے لیے بھی اس پر خرچ کرنا ضروری ہے۔ ایسی صورت حال میں اگر عورت کے پاس حج کے لیے مالی استطاعت نہیں تو اس پر حج فرض بھی نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا» [آل عمران: 97]
”اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج (فرض) ہے، جو اس کی طرف راستے کی طاقت رکھے۔“
نیز حدیث شریف میں بھی استطاعت کا ضروری ہونا ذکر ہوا ہے اور جس کے پاس مال نہ ہو وہ استطاعت نہیں رکھتا، لہٰذا ان لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جانی چاہیے جن کے پاس مال نہیں کہ ان پر حج فرض نہیں، جس طرح فقیر پر زکاۃ فرض نہیں ہوتی اور فقیر اپنے اوپر زکاۃ واجب نہ ہونے کی وجہ سے نادم نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنی حالت فقر جانتا ہے، اسی طرح جو حج کی استطاعت نہیں رکھتا اسے نادم ہونا چاہیے نہ کسی طرح کا اثر ہی لینا چاہیے کیونکہ اس پر حج فرض ہی نہیں ہوتا۔
میں نے بکثرت ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو حج کی قدرت نہیں رکھتے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے اوپر عائد ایک فرض سے غفلت کر رہے ہیں۔ میں انہیں کہتا ہوں، خاطر جمع رکھیں اور مطمئن رہیں تم پر حج فرض نہیں۔ تم اور جس نے حج کیا ہے وہ اللہ کے ہاں برابر ہیں کیونکہ تمہارے پاس عذر ہے اور اس پر فرض تھا، لہٰذا اس نے حج کیا، البتہ یہ بات ضرور ہے کہ جو کوئی عبادت کرتا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو نہیں کرتا، چاہے صاحب عذر ہی ہو۔
[ابن عثيمين: نورعلي الدرب: 12]