سامان خریدنے سے پہلے اسے بیچنا

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

89- فروخت شدہ سامان کو قبضے میں لینے سے پہلے اس میں تصرف کرنے کا حکم
سامان خریدنے سے پہلے اسے بیچنا جائز نہیں، کیونکہ جو چیز انسان کے پاس نہ ہو، اسے بیچناجائز نہیں، فرمان نبوی ہے:
«لا يحل سلف و بيع، ولا بيع ما ليس عندك» [سنن الترمذي، رقم الحديث 1234 سنن النسائي، رقم الحديث 4611]
”سلف (قرض) اور بیع (ایک ہی وقت میں) جائز نہیں، اور جو تیرے پاس نہیں اس کی کوئی بیع نہیں۔“
اور حضرت حکیم بن حزام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کوئی آدمی میرے پاس کوئی سامان خریدنے کے لیے آتا ہے وہ سامان میرے پاس نہیں ہوتا تو کیا میں وہ سامان اسے بیچ سکتا ہوں، پھر جا کر اسے خرید لوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو تیرے پاس نہیں اسے نہ بیچ۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3503]
لہٰذا جب آپ کوئی چیز بیچنا چاہتے ہیں تو پہلے اسے خریدیں، پھر جب تم نے وہ چیز اپنے قبضے میں لے لی اور اپنے پاس رکھ لیا تو وہ چیز تمہارے پاس ہوگئی، پھر اس کے بعد تم اسے بیچ سکتے ہو اور جو تم سے کوئی چیز خریدنے کا خواہش مند ہو تو اسے کہیں: صبر کر یہاں تک کہ میں وہ چیز خرید لوں۔ جب تم وہ چیز خرید لو اور وہ تمہارے قبضے میں آ جائے، پھر جسے چاہو بیچ دو۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 111/19]

90- سامان کو اپنی ملکیت اور قبضے میں کرنے سے پہلے بیچنا جائز نہیں
کوئی تاجر بعض مصنوعات، جیسے: فریزر، واشنگ مشین وغیرہ کے نمونے شو روم میں رکھتا ہے، جب کوئی گاہک ان اشیا میں سے کوئی چیز خریدنا چاہتا ہے وہ اس کے ساتھ قیمت پر اتفاق کر لیتا ہے، پھر وہ امپورٹ کرنے والے تاجر سے رابطہ کرتا ہے، اس سے مطلوبہ مقدار میں خرید لیتا ہے اور اپنی گاڑی میں رکھ کر وہ چیز گاہک کے گھر پہنچا آتا ہے، پھر اس کے بعد قیمت وصول کرتا ہے، اس بیع کا کیا حکم ہے؟
یہ بیع جائز نہیں، کیونکہ یہ سامان کو اپنی ملکیت اور قبضے میں کرنے سے پہلے بیع ہے، اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا يحل سلف و بيع، ولا بيع ما ليس عندك»
’’سلف (قرض) اور بیع (ایک ہی وقت میں) جائز نہیں، اور جو تیرے پاس نہیں اس کی کوئی بیع نہیں۔“
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکیم بن حزام سے کہا:
«لا تبع ما ليس عندك»
”جو تیرے پاس نہیں اسے نہ بیچ۔“
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں سامان خریدا جائے اسے وہیں، تاجروں کے اسے اپنے گھروں میں منتقل کرنے سے پہلے ہی بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3499]
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 18/19]

91- ملکیت میں لینے سے پہلے سامان بیچنا
سوال: کچھ تاجر سامان خریدتے ہیں، پھر اسے وصول کرتے ہیں، وہ اس کا معاینہ نہیں کرتے بلکہ بیع کی رسید لے لیتے ہیں اور قیمت دے دیتے ہیں اور سامان پہلے تاجر کے گوداموں ہی میں پڑا رہنے دیتے ہیں، پھر کسی دوسرے تاجر کو دے دیتے ہیں جبکہ وہ چیز پہلے تاجر کے گوداموں میں پڑی رہتی ہے۔
جواب: خریدار کے لیے یہ سامان اس وقت تک بیچناجائز نہیں جب تک وہ بائع کی ملکیت میں رہے، یہاں تک کہ خریدار اسے وصول کر لے اور اپنے گھر یا بازار منتقل کر لے، کیونکہ اس سلسلے میں میں احادیث ثابت ہیں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«لا يحل سلف و بيع، ولا بيع ما ليس عندك»
’’سلف (قرض) اور بیع (ایک ہی وقت میں) جائز نہیں، اور جو تیرے پاس نہیں اس کی کوئی بیع نہیں۔“
اور حکیم بن حزام سے آپ نے فرمایا:
«لا تبع ما ليس عندك»
”جو تیرے پاس نہیں اسے نہ بیچ۔“
اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس جگہ سامان خریدا جائے اسے وہیں، جب تک تاجر اسے اپنے گھروں میں منتقل نہ کر لیں، بیچنے سے منع فرمایا۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3499]
اسی طرح ان احادیث کی بنا پر کہ جس نے کوئی سامان خریدا وہ اس وقت تک اسے آگے نہیں بیچ سکتا جب تک اسے اپنے گھر یا بازار وغیرہ میں کسی دوسری جگ منتقل نہیں کر لیتا۔
[ابن باز مجموع الفتاوى والمقالات: 121/19]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!

جزاکم الله خیرا و احسن الجزاء