دوران طواف جوتا ساتھ اٹھانا
سوال : کیا حالت طواف میں اپنے ساتھ جوتا اٹھانا جائز ہے؟
جواب : بیت اللہ کے طواف کے وقت جوتا ساتھ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں، اگر جوتا صاف ستھرا ہو، کوئی گندگی نہ لگی ہو تو اسے پاؤں میں پہنے رکھیں پھر بھی درست ہے کیونکہ صاف و ستھری جوتی کے ساتھ نماز پڑھنے کا ثبوت کئی ایک احادیث ِ صحیحہ صریحہ میں موجود ہے۔ جیسا کہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ننگے پاؤں اور جوتا پہن کر بھی نماز پڑھتے تھے۔ [أبوداؤد، كتاب الصلاة : باب الصلاة فى النعل 653]
لہٰذا صاف جوتے میں عبادت کرنا جائز ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ـ
کیا ہر طواف میں اضطباع ضروری ہے؟
سوال : اضطباع کسے کہتے ہیں؟ کیا ہر طواف میں اضطباع ضروری ہے، اگر نہیں تو کم از کم کتنے چکروں میں ضروری ہے؟
جواب : اضطباع یہ ہے کہ احرام کی اوپر والی چادر کو اپنی دائیں بغل کے نیچے سے گزار کر اپنے بائیں کندھے پر ڈال لیں اور اپنا دایاں کندھا ننگا رکھیں۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے جعرانہ سے (احرام باندھ کر) عمرہ کیا اور بیت اللہ کے گرد رمل چال سے طواف کیا اور اپنی اوپر والی چادر کو اپنی دائیں بغلوں کے نیچے سے گزار کر انہیں اپنے کندھوں پر ڈال لیا۔“ [أبوداؤد، المناسك : باب الاضطباع فى الطواف 1884]
یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف اضطباع کی حالت میں کیا اور آپ پر سبز چادر تھی۔“ [سنن أبى داؤد، كتاب المناسك : باب الاضطباع فى الطواف 1883]
علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری اس حدیث کی شرح میں ملا علی قاری سے نقل کر کے لکھتے ہیں :
”اضطباع اور رمل ہر اس طواف میں سنت ہے جس کے بعد سعی ہے اور اضطباع تمام چکروں میں سنت ہے برخلاف رمل کے، رمل طواف کے دوران اضطباع مستحب نہیں اور عوام الناس جو ابتدائے احرام سے لے کر حج یا عمرے میں اضطباع کیے رکھتے ہیں اس کی کوئی اصل نہیں بلکہ نماز کی حالت میں مکروہ ہے۔“ [تحفة الأحوذي 2/2، مرعاة المفاتيح 123/9]
مقام ملتزم پر دعا کرنا
سوال : مقام ملتزم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس وقت گڑگڑا کر دعا کرنے کا حکم دیا ہے ؟ حج یا عمرہ یا دونوں میں؟
جواب : حجرِ اسود اور باب کعبہ کے درمیان والی جگہ جسے ملتزم کہتے ہیں، اس کے ساتھ چمٹنا اور اس پر اپنا سینہ، ہاتھ، بازو اور چہرہ رکھنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے جیسا کہ ابوداؤد، کتاب المناسک : باب الملتزم اور ابن ماجہ، باب الملتزم وغیرھما میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے، اس التزام کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں، یہ پورے موسمِ حج میں کسی وقت بھی کیا جاسکتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مکہ میں داخل ہوتے وقت ہی کر لیا کرتے تھے۔
رمل کس طواف میں ضروری ہے؟
سوال : رمل کس طواف میں ضروری ہے؟
جواب : پہلے طواف کے صرف پہلے تین چکروں میں مردوں کے لیے رمل چال اور بقیہ چار چکروں میں عام چال سے چلنا سنت سے ثابت ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ نے اس پر تمام ائمہ وفقہاء کا اجماع نقل کیا ہے۔ [الفتح الرباني 23/12]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم حج اور عمرہ کے لیے آنے پر سب سے پہلے جو طواف کرتے ہیں اس میں تین چکر دوڑ کر (رمل) لگاتے اور باقی چار چکروں میں عام چال چلتے، پھر مقام ابراہیم ہر دو دکعت پڑھتے، پھر صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے ـ“ [صحيح بخاري، كتاب الحج : باب استلام الحجر الاسود، حين يقدم مكة اول ما يطوف ويرمل ثلاثا 1603]
حج یا عمرے سے واپسی پر دعوت کرنا
سوال : کیا حج یا عمرہ سے واپسی پر دوست احباب کی دعوت کرنا مسنون ہے؟
جواب : سفرِ حج سے واپس آنے پر دوستوں کی دعوت کرنا مستحب ہے جیسا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (سفرِ حج) سے واپس مدینہ منورہ لوٹے تو لوگوں کی دعوت کے لیے یوں اہتمام کیا کہ ایک اونٹ یا گائے (راوی کو شک ہے) ذبح کی۔ [بخاري، كتاب الجهاد والسير : باب الطعام عند القدوم 3089]
دوران حج حیض و نفاس والی عورت کیا کرے
سوال : اگر دوران حج عورت پر حیض و نفاس کی حالت طاری ہو جائے تو وہ کیا کرے؟
جواب : جب 8 ذوالحجہ کو منیٰ کی طرف روانگی کا وقت آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو روتے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ میں بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکتی۔ اب سب لوگ منیٰ میں جا رہے ہیں اور میں بدستور حالتِ حیض میں ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ (غسل کرو اور حج کا احرام باندھ لو اور) سب وہ ارکان ادا کرو جو حاجی کریں البتہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔“ [بخاري، كتاب الحيض : باب تقتضي الحائض المناسك كلها إلا الطواف بالبيت 305]
اسی طرح سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے ہاں بیٹا (محمد بن ابی بکر) پیدا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”غسل کر لو اور کَس کر لنگوٹ باندھ لو اور پھر احرام کی حالت اختیار کر لو۔“ [مسلم، كتاب الحج : باب حجة النبى صلى الله عليه وسلم 1218]
ایک سے زیادہ مرتبہ عمرہ کرنے کا حکم
سوال : کیا مکہ میں رہتے ہوئے بار بار عمرہ کرنے کی ممانعت آئی ہے؟ وضاحت فرما دیں۔
جواب : مکہ مکرمہ میں رہ کر ایک سے زیادہ مرتبہ عمرہ کرنا درست ہے، جس طرح کثرت سے طواف بیت اللہ درست ہے۔ اس کے لیے احرام حرم سے باہر جاکر بھی باندھا جا سکتا ہے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقامِ تنعیم (مسجد عائشہ) سے احرام باندھنے کا واقعہ ہے ـ اسی طرح مکہ میں حرم کے اندر اپنی رہائش سے بھی احرام باندھنا درست ہے جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« فمن كان دونهن فمهله من أهله . . . حتٰي أهل مكة يهلون منها » [بخاري، كتاب الحج : باب مهل أهل الشام 1526]
”جو لوگ میقات کے اندر ہیں وہ اپنی رہائش سے احرام باندھیں گے حتیٰ کہ مکہ والے مکہ ہی سے احرام باندھیں گے۔“
اگر کوئی کہے کہ مکہ میں رہ کر بار بار عمرہ کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے تو جواب یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں رہ کر بار بار طواف کرنا بھی تو ثابت نہیں۔ کیونکہ آپ عمرہ کر کے اپنے ساتھیوں سمیت مکہ سے باہر ابطح میں ٹھہر گئے تھے اور آٹھ ذوالحجہ کو وہاں سے منیٰ چلے گئے تھے۔ اگر کوئی کہے کہ طواف سے منع نہیں کیا گیا تو جواب یہ ہے کہ عمرہ کرنے سے بھی منع نہیں کیا گیا ـ « والله اعلم »
میت کی طرف سے حج کرنا
سوال : کیا میت کی طرف سے حج کیا جا سکتا ہے؟
جواب : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے پوچھا: ”میری والدہ نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن وہ حج کرنے سے پہلے ہی فوت ہو گئی تو کیا اس کی طرف سے حج ہے ؟“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”اگر اس کے ذمے قرض ہوتا تو تم اسے ادا کرتے ؟“ اس نے کہا: ”ہاں !“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اللہ تعالیٰ کا قرض زیادہ حق رکھتا ہے کہ اسے ادا کیا جائے۔“ [بخاري، كتاب الجزاء الصيد : باب الحج والنذور عن الميت والرجل يحج عن المرأة 1852]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کی طرف سے حج کیا جا سکتا ہے۔