71۔ کیا شیطان عورت کو جھانکتا (غیر محرم کے لیے مزین کر کے پیش کرتا ) ہے ؟
جواب :
جی ہاں!
سیدنا عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہما، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشيطان، وأقرب ما تكون من ربها وهى فى قعر بيتها
عورت پردہ ہے، جب وہ گھر سے باہر آتی ہے تو شیطان لوگوں کی نظروں میں اسے مزین کرتا ہے اور عورت اپنے رب کے انتہائی قریب گھر کے اندرون حصے میں رہ کر ہوتی ہے۔‘‘
——————
72۔ کیا غیر محرم عورتوں کو دیکھنا شیطان کی طرف سے ہوتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں!
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
النظرة سهم مسموم من سهام إبليس، فمن غض بصره عن محاسين امرأة له، أورث الله قلبه حلاوة إلى يوم القيامة
’’نظر ابلیس کے تیروں میں سے ایک زہر آلود تیر ہے، جس نے اللہ کی رضا کے لیے عورت کے محاسن سے اپنی نگاہ کو جھکا لیا (یعنی عورت کو نہ دیکھا ) اللہ تعالیٰ قیامت تک کے لیے اس کے دل کو مٹھاس سے بھر دیتے ہیں۔‘‘
——————
73۔ میں شادی شدہ ہوں، اگر میں ایک عورت کو دیکھوں اور مجھے اچھی لگے، تو کیا یہ شیطان کی طرف سے ہے اور ایسی صورت میں کیا کروں ؟
جواب :
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن المرأة تقبل في صورة شيطاني، وتدبر في صورة شيطان، فإذا رأى أحدكم امرأة فأعجبته فليأت أهله، فإن ذلك یرد ما في نفسہ
عورت شیطان کی صورت میں آتی جاتی ہے، جب کوئی بندہ عورت کو دیکھے اور وہ عورت اس کو اچھی لگے تو اپنی بیوی کے پاس آ کر حاجت پوری کر لے، اس طرح اس کا نفسانی وسوسہ ختم ہو جائے گا۔
کنوارے خواتین و حضرات ( غیر شادی شدہ) روزے رکھیں، کیونکہ روزہ ڈھال ہے۔ میں عورت کو بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے، شرعی پردہ اختیار کرنے، بے پردگی، تبرج اور غیر محرم مردوں سے نرم کلام سے اجتناب کی نصیحت کرتا ہوں۔ تاکہ معاشرے کے حالات درست ہو جائیں۔
——————
74۔ پہلے وقتوں میں نقل ( ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا) کے وسائل کیا تھے ؟ کیا شیطان ان کے ساتھ جاتا تھا ؟
جواب :
اللہ تعالی نے فرمایا:
وَمِنَ الْأَنْعَامِ حَمُولَةً وَفَرْشًا ۚ كُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّـهُ وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿١٤٢﴾
”اور چوپاؤں میں سے کچھ بوجھ اٹھانے والے اور کچھ زمین سے لگے ہوئے (پیدا کیے )۔ کھاؤ اس میں سے جو اللہ نے تمھیں رزق دیا اور شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو، بے شک وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔ “ [الأنعام: 142 ]
اس آیت مبارکہ میں لفظ حَمُولَةً سے مراد اونٹ، گھوڑا، خچر، گدھا اور ہر بوجھ اٹھانے کے قابل چیز مراد ہے۔ فَرْشًا سے مراد بکریاں وغیرہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّـهُ حَلَالًا طَيِّبًا ۚ
”اور الله نے تمھیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے (حلال، طیب ) کھاؤ۔ “ [المائدة: 88 ]
یعنی پھل، کھیتیاں اور چوپائے وغیرہ ان تمام اشیا کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور تمھارے لیے رزق کا سامان بنایا ہے۔
وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ ﴿١٦٨﴾
”اور شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو۔“ [ البقرة: 168 ]
یعنی اس کے طریقے اور حکموں کی پیروی نہ کرو، جیسا کہ ان مشرکوں نے کی، جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے پھلوں اور کھیتیوں وغیرہ کو حلال کیا، مگر انھوں نے اللہ پر افترا باندھتے ہوئے انھیں اپنے اوپر حرام کر لیا۔
إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
”بے شک وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔ “ [ البقرة: 168 ]
یعنی اے لوگو! یہ شیطان تمھارا واضح اور کھلا دشمن ہے، جیسا کہ درج ذیل آیت کریمہ سے بھی واضح ہوتا ہے۔
إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ۚ إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴿٦﴾
” بے شک شیطان تمھارا دشمن ہے تو اسے دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو اپنے گروہ والوں کو صرف اس لیے بلاتا ہے کہ وہ بھڑکتی آگ والوں سے ہو جائیں۔ “ [الفاطر: 6 ]
——————
75۔ کیا سواری سے گرانے میں شیطان کا کوئی عمل دخل ہے ؟
جواب :
امام احمد نے ابو تمیمہ سے روایت کی ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے گدھے نے گرا دیا، میں نے کہا شیطان ہلاک ہو، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تقل : تعس الشيطان. فإنك إن قلت: تعس الشيطان . تعاظم، وقال: بقوتي صرعته، و إذا قلت: باسم الله، تصاعر حتيٰ يصير مثل الذباب
” یہ نہ کہو! شیطان ہلاک ہو، اگر تو نے ایسا کہا تو وہ عظمت محسوں کرے گا اور کہے گا: میں نے اپنی طاقت سے اس کو گرایا ہے، جب تو بسم الله کہے گا تو وہ (ذلیل) اتنا مکھی کی طرح چھوٹا ہو جاتا ہے۔ “ [مسند احمد، ثعالبي فى تفسيره 20/1 ابن عطية فى المحرر الوجيز 60/1]
امام قرطبی نے الجامع لأحکام القرآن 92/1 میں ذکر کیا ہے۔
میرے بھائی! اگر سفر کرے تو سواری پر سوار ہوتے وقت تین مرتبہ الله أكبر، کہہ کر پھر درج ذیل کلمات پڑھ لیا کرو:
سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَـٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ ﴿١٣﴾ وَإِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ ﴿١٤﴾
اللهم إنا نسألك فى سفيرنا هذا البر والتقوى، و من العمل ما ترضٰى، اللهم هون علينا سفرنا هذا، واطو عنا بعده، اللهم أنت الصاحب فى السفر، والخليقة فى الأهل، اللهم إني أعوذ بك من وعثاء السفر وكآبة المنظر، وسوء المنقلب فى المال و الأهل، آئبون تائبون عابدون، لربنا حامدون
”پاک ہے وہ جس نے اسے ہمارے لیے تابع کر دیا، حالانکہ ہم اسے قابو میں لانے والے نہیں تھے۔ اور بے شک ہم اپنے رب کی طرف ضرور لوٹ کر جانے والے ہیں۔ “ [الزخرف: 14 ]
”اے اللہ! ہم اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقوی اور تیری رضا مندی والے عمل کا سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ! ہمارے لیے اس سفر کو آسان کر دے اور دوری کو لپیٹ دے۔ اے اللہ! سفر میں تو ہی ساتھی اور اہل خانہ میں نائب ہے۔ اے اللہ! میں تجھ سے سفر کی مشقت، برے منظر اور اہل وعیال میں برے لوٹنے (یعنی جب آئیں تو کوئی تکلیف دہ چیز محسوس کریں) سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ ہم لوٹنے والے، توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے اور اپنے رب کی حمد بیان کرنے والے ہیں۔ “
——————
76۔ کیا شاعری شیطان کا کلام ہے ؟
جواب :
جی ہاں!
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی نماز پڑھتے دیکھا تو آپ نے تین تین مرتبہ کہا :
الله أكبر كبيرا، الحمد لله كثيرا، سبحان الله بكرة وأصيلا
”اللہ سب سے بڑا ہے، بہت بڑا اور تمام تعریف اللہ کے لیے ہے بہت زیاده، میں اللہ کی پاکیزگی بیان کرتا ہوں صبح و شام۔ “
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا:
أعوذ بالله من الشيطان من نفخه و نفثه وهمزه
”میں اللہ کی پناہ پکڑتا ہوں مردود شیطان سے، اس کی پھونک سے، اس کی تھوک سے اور اس کے چوکے سے ۔ “ [ سنن بي داود، رقم الحديث 701]
عمرو نے کہا :
نفثه سے شعر و شاعری نفخه سے تکبر اور همزه سے موتة ، مراد ہے۔
ابن ماجہ نے الموتة کی تفسیر جنون اور دیوانگی سے کی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ گندی شعروشاعری شیطان کا کلام ہے۔
اللہ تعالیٰ کا قول ہے :
وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ ﴿٢٢٤﴾
”اور شاعر لوگ، ان کے پیچھے گمراہ لوگ لگتے ہیں۔ “ [الشعرآء: 224 ]
مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ ایسے کلام سے زبان کو روک کر رکھے، جو اللہ و رسول کی ناراضی کا باعث ہو، کیونکہ ایسا کلام دل میں منافقت کو ایسے اگاتا ہے، جیسے پانی کھیتی وغیرہ کو اگاتا ہے اور حیا کو کم، ہوا پرستی کو زیادہ اور مروت کو ختم کر دیتا ہے۔ جو ایسے کلام کا عادی ہو، وہ بے وقوف ہے، اس کی شہادت (گواہی) کو قبول نہ کیا جائے۔
——————
77۔ کیا گانا شیطان کی بانسری ہے ؟
جواب :
جی ہاں!
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر آئے اور میرے پاس دو بچیاں جنگ بعاث (یہ اہل عرب کا ایک مشہور دن ہے جس دن جنگ ہوئی) کے بارے میں گیت گا رہی تھی:
فاضطجع على الفراش و حول وجهه، ودخل أبوبكر فانتهرني، وقال: مزمارة الشيطان عند النبى صلى الله عليه وسلم ! فأقبل عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: دعهما. فلما غفل غمزتهما فخرجتا
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بستر پر لیٹ کر اپنا چہرہ پھیر لیا، اسی اثنا میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لے آ ئے اور مجھے ڈانٹ کر کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شیطان کی بانسری بج رہی ہے؟ (یعنی یہ جرات کیسے ہوئی ؟) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر کی طرف متوجہ ہو کر کہا: ابو بکر! انھیں چھوڑ دو۔ جب ابو بکر ان سے ذرا غافل ہوئے تو میں نے اشارے سے انہیں نکل جانے کو کہا تو وہ چلی گئیں۔ “ [صحيح البخاري 119/1، 118، صحيح مسلم 609/2، سنن الكبري للبيهقي 224/10]
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گیت کو شیطان کی بانسری کہا، مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی اعتراض نہ کیا، جس سے معلوم ہوا کہ واقعی گیت شیطان کی بانسری ہے۔
اعتراض:
اگر گیت شیطان کی بانسری ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس گانے کیوں دیا اور انہیں منع کیوں نہیں کیا؟
جواب:
کیونکہ وہ دو چھوٹی غیر مکلف بچیاں تھیں، جو بدویوں کا گیت گا رہی تھیں۔
بعض لوگ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گانا حلال ہے، حالانکہ اس حدیث سے یہ استدلال درست نہیں، کیونکہ :
➊ جو گا رہی تھی وہ بچی تھی، جو شریعت کی مکلف نہیں تھی اور وہ کلام بھی اچھا پیش کر رہی تھی۔
➋ اس نے نذر مانی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحیح سالم لوٹیں گے تو میں گیت گاوں گی تو لڑکی اپنی نذر پوری کر رہی تھی۔
رہے آج کل کے فحش گانے، عریاں ڈانس اور کلب وغیرہ تو یہ جائز نہیں ہیں۔
——————
78۔ کیا خلقت کے اعتبار سے اونٹ اور شیطان کے درمیان کوئی مناسبت ہے ؟
جواب :
جی ہاں!
عبد الله بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صلوا فى مرابض الغنم، ولا تصلوا فى أعطان الإبل، فإنها خلقت من الشياطين
”بکریوں کے باڑے (جہاں بکریاں باندھی جاتی ہیں) میں نماز پڑھ لیا کرو اور اونٹوں کے باڑے (جہاں اونٹ باندھے جاتے ہیں) میں نماز نہ پڑھو، کیونکہ وہ شیطانوں میں سے پیدا کیے گئے ہیں۔“ [سنن ابن ماجه، رقم الحديث 769]
شیخ سلیم ہلالی نے موسوعۃ المناہی الشرعیۃ (436/1) میں اس حدیث کو صحیح لغیرہ کہا ہے ۔
مطلب یہ ہے کہ ہر اونٹ کے بالائی حصے سرین یا کوہان میں شیطان ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے تو وہ چھوٹا (ذلیل) ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اونٹ کو خدمت کے لیے اور بندوں کی سواری کے لیے مسخر کیا ہے، اس لیے اس کو خدمت اور محنت میں استعمال کرو، اس کی خدمت دین و دنیا جس لحاظ سے بھی فائدہ دے حاصل کرو۔
——————
79۔ کیا دوران نماز شیطان پر لعنت بھیجنا جائز ہے ؟
جواب :
جی ہاں!
سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑے ہوئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:
أعود بالله منك ثم قال: ألعنك بلعنة الله ثلاثا وبسط يده كانه يتناول شيئا فلما فرغ من الصلاة، قلنا: يا رسول الله قد سمعناك تقول فى الصلاة شيئا لم نسمعك تقوله قبل ذلك و رأيناك بسطت يدك؟ قال: إن عدو الله إبليس جاء بشهاب من نار ليجعله فى وجهي فقلت: أعوذ بالله منك ثلاث مرات، ثم قلت: ألعنك بلعنة الله التامة. فلم يستأخر ثلاث مرات، ثم أردت أخذه، والله لولا دعوة أخينا سليمان لأصبح موثقا، يلعب به ولدان أهل المدينة
”میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ پھر تین مرتبہ فرمایا: میں تجھ پر اللہ کی لعنت بھیجتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرماتے ہوئے ایسے ہاتھ بڑھایا، جیسے کوئی شے پکڑ رہے ہوں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے (ازروئے تعجب) کہا: اے اللہ کے رسول ! ہم نے نماز میں آپ کو کچھ کہتے سنا ہے، جو اس سے پہلے ہم نے کبھی نہیں سنا اور ہم نے آپ کو ہاتھ بڑھاتے بھی دیکھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ کا دشمن ابلیس میرا چہرہ جلانے کے لیے آگ کا ایک شعلہ لے کر آیا تو میں نے تین بار أعوذ بالله منك ، (میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں) پڑھا، پھر میں نے تین بار العنك بلعنة الله التامة ، کہا، مگر وہ پیچھے نہ ہٹا، تو میں نے اس کو پکڑنا چاہا (جس کی وجہ سے ہاتھ بڑھایا تھا ) اللہ کی قسم ! اگر ہمارے بھائی سلمان کی دعا نہ ہوتی (اے اللہ مجھے ایسی بادشاہت عطا کر جو میرے بعد کسی کو سزاوار نہ ہو) تو وہ قیدی کی حالت میں صبح کرتا اور اہل مدینہ کے بچے اس کے ساتھ کھیلتے۔ ‘‘ [صحيح مسلم 148/3، صحيح ابن حبان 446/8، سنن النسائي 459/4]
امام بیہقی نے اس حدیث کو دلائل النبوۃ (157/8) میں ذکر کیا ہے ۔
——————
80۔ شیطان کب منتشر ہوتے ہیں اور ہم ان سے بچنے کے لیے کیا کریں ؟
جواب :
غروب آفتاب کے وقت شیطان منتشر ہوتے ہیں۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا كان جنح الليل أو أمسيتم فكفوا صبيانكم، فإن الشيطان ينتشر حينئد، فإذا ذهب ساعة من الليل فخلوهم، وأغلقوا الأبواب واوا اسم الله، فإن الشيطان لا يفتح باب مغلقا
جب رات کا اندھیرا یا شام ہو جائے تو اپنے بچوں کو (گھروں میں) روک رکھو، کیونکہ اس وقت شیطان منتشر ہوتے ہیں، جب رات کا کچھ حصہ گزر جائے تو پھر انھیں چھوڑ دو اور دروازوں کو بسم اللہ پڑھ کر بند کیا کرو، کیونکہ شیطان بند دروازہ نہیں کھول سکتا۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث 433، صحيح مسلم 2012]
یہاں چند اہم امور ہیں جنہیں اختیار کرنا ضروری ہے :
➊ بچوں کو (غروب شمس) کے وقت گھروں میں روک رکھنا اور دروازوں کو بند کر دینا۔
➋ مشک کو باندھنا۔
➌ برتنوں کو بسم اللہ پڑھ کر ڈھانپ دینا۔
➍ سوتے وقت چراغ گل کر کے سونا۔
➎ چوہیا سے احتیاط کرنا، کیونکہ وہ اہل خانہ کو تکلیف پہنچا سکتی ہے۔
——————