احکام و مسائل رمضان المبارک
یومِ عاشوراء یعنی دسویں محرم الحرام کا روزہ مشروع ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:
”جب رسول اللہ ﷺ نے یومِ عاشوراء کا روزہ رکھا اور اس کے بارے میں حکم بھی دیا تو صحابہ نے عرض کی ، اے اللہ کے رسول ! اس دن کو تو یہود و نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم اگلے سال نویں محرم کا بھی روزہ رکھیں گے۔“
ابنِ عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اگلا سال آنے سے پہلے ہی رسول اللہ ﷺ فوت ہوگئے ۔ [صحیح مسلم: ۱۱۳۴]
اس حدیثِ مبارکہ سے نویں اور دسویں محرم الحرام کے روزے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے ، یہ بھی معلوم ہوا کہ یومِ عاشوراء دسویں محرم ہے ۔
حکم بن اعرج رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما چاہِ زمزم کے پاس اپنی چادر کو تکیہ بنا کر ٹیک لگائے بیٹھے تھے، اسی اثنا میں میں بھی پہنچ گیا ، میں نے عرض کی کہ مجھے یومِ عاشواء کے بارے بتائیے ، فرمانے لگے:
”جب آپ محرم کا چاند دیکھ لیں تو گنتی شروع کردیں اور نویں محرم کو صبح روزہ رکھ لیں ، میں نے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کا یہی عمل مبارک تھا؟ فرمایا ، ہاں ۔“ [صحیح مسلم: ۱۱۳۳]
حافظ بیہقی اس روایت کا مطلب واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”گویا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مراد یہ ہے کہ یومِ عاشوراء کے ساتھ نویں محرم کا روزہ بھی مشروع ہے ، آپ نے سائل کے جواب میں ہاں اس لیے کہہ دیا کہ وہ خود رسولِ کریم ﷺ سے نویں محرم کے روزے کا ارادہ بیان کرتے ہیں۔ “ [السنن الكبريٰ للبيهقي: ۲۸۷/۴]
اس کی وضاحت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول سے ہوتی ہے ، فرماتے ہیں:
صوموا التاسع و العاشر و خالفوا اليهود.
”نویں اور دسویں محرم کا روزہ رکھ کر یہودیوں کی مخالفت کرو (وہ صرف یومِ عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے)۔ “ [السنن الكبريٰ للبيهقي: ۲۸۷/۴ ، وسنده صحيح]