یزید پر لعنت کا جواز از امام ابن جوزی رحمہ اللہ

کتاب کا نام
الرَّدُّ عَلَى المتعصَّب الَعِنيدْ المَانِعِ مِنْ ذَمَّ يَزيد
اس ضدی سرکش کا رد جو یزید کی مذمت سے روکتا ہے

مصنف: جمال الدین ابی الفرج عبدالرحمان بن علی بن محمد ابن جوزی (المتوفی 597ھ)

ترجمہ، اختصار، اور تحقیق: قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

[ez-toc]

علامہ جوزی کا تعارف

علامہ جمال الدین ابو الفرج عبدالرحمان بن جوزی رحمۃ اللہ علیہ تاریخ اسلام کی ایک مایہ ناز شخصیت ہیں۔
ولادت و تربیت
علامہ جوزی کی ولادت 509 یا 510 ہجری کو بغداد میں ہوئی
(سیر اعلام النبلاءج 15 ص 483، عیون الحکایات ص 4)
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی عمر ابھی تین سال ہی تھی کہ والد کا انتقال ہوگیا پھر آپ کی پرورش آپ کی پھوپھی نے کی
(سیر اعلام النبلاء ج 15 ص 484)
حصول علم کا شوق
بچپن سے ہی آپ کو حصول علم کا شوق تھا چنانچہ خود ہی فرماتے ہیں کہ 6 سال کی عمر میں باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے مکتب میں داخلہ لے لیا تھا ۔ 7 سال کی عمر میں جامع مسجد میں ہونے والے درس میں حاضر ہوتا وہاں جو بھی احادیث بیان ہوتیں مجھے یاد ہوجاتیں اور گھر جاکر میں انہیں لکھ لیتا، دوسرے لڑکوں کی طرح دریائے دجلہ کے کنارے کھیلنے کے بجائے میں کسی کتاب کاصفحہ لے کر گھر کے ایک گوشے میں مطالعہ میں مشغول ہوجاتا ۔
(لفتۃالکبد الی نصیحۃ الولد ص 33 ملحصاً)
آپ نے تقریباً 87 علماء مشائخ سے علم حاصل کیا
(تاریخ الاسلام للذھبی ج 42 ص 288)
تصانیف کی تعداد
خود علامہ نے اپنی تالیفات کی تعداد دو سو کے لگ بھگ بتائی ہے ۔آپ کے نواسے کے بقول آپ کی کتابوں کی تعداد 250 کے آس پاس ہے۔

وفات
ابن جوزی 12 رمضان المبارک 597ہجری جمعہ کی رات مغرب و عشاء کے درمیان بغداد میں فوت ہوئے ۔ان کا جنازہ لوگوں کے سروں پر اٹھایا گیا تو مخلوق کا انبوہ کثیر تھا ۔وہ جمعہ کا دن تھا ،یہاں تک کہ کہا گیا کہ کثرت اژدھام اور گرمی کی شدت کی وجہ سے لوگ روزہ توڑنے پر مجبور ہوگئے ۔بغداد کے مغربی جانب باب صرف میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے بالکل قریب دفن ہوئے۔
نوٹ: ابن جوزی کے حالاتِ زندگی دیکھنے کےلئے دیکھیے مذکورہ کتب:
(مراۃ الجنان ج 4 ص 489)
(وفیات الاعیان انب الفلکان ج 3 ص 140)
(الذمیل علی طبقات الحنابلہ ابن رجب ج 1 ص 397)
· (سیر اعلام النبلاء الذھبی ج 21 ص 365)
(العبر الذھبی ج 4 ص 297)

اس کتاب کی نسبت اور اس کا نام

ابن جوزی کی طرف اس کتاب کی نسبت قطعی اور یقینی ہے۔ متعدد علماء نے اپنی تالیفات میں اس کا زکر کیا ہے۔ ان علمائے کرام اور ان کی کتب کے حوالہ جات درج ذیل ہیں۔
۱: (سبط ابن جوزی تذکرۃ الخواص ص 287)
۲: (ابن اثیر الکامل 11 – 562)
۳: (ابن کثیر البدایۃ النہایۃ 8 – 223)
۴: (ابن تیمیہ منہاج السنۃ 4 – 574)
۵: (ابن رجب حنبلی الذیل علی طبقات الحنابلہ 417 – 356)
۶: (الذھبی سیر اعلام النبلاء 21 – 169)
۷: (اابن حجر الھتیمی اھواعق المرحقہ ص 222)
۸: (حاجی خلیفہ کشف الظنون 1 – 839)
اور اس میں کہا کہ کتاب کا آغاز یوں ہے الحمدللہ کفو جلالہ جو کہ مخطوطہ (قلمی نسخوں) کے خلاف ہے۔
۹: (اسماعیل باشا ھدایۃ العارفین 1 – 521)
۱۰: (احوانساری روضات الجنات 5 – 36)
۱۱: (عبدالحمید العلوجی مؤلفات ابن جوزی ص 103)
ابن اثیر اور ابن کثیر ابن تیمیہ اور حافظ ذھبی نے کتاب کے نام کا ذکر نہیں کیا بلکہ انہوں نے اشارہ کیا ہے کہ ابن جوزی نے یزید پر لعنت کے جواز (جائز ہونے) پر ایک کتاب لکھی ہے ۔ ان کے سوا باقی مصنفین نے کتاب کا نام یوں ذکر کیا ہے :الرد علی المتعصب العنید المانع من ذم یزید

آغاز متن کتاب

علامہ جوزی فرماتے ہیں سب تعریف اللہ کے لیے ہے،جس نے ہمیں بذریعہ علم گمراہی اور خواہشِ نفس کی مطابقت و موافقت سے نجات عطا فرمائی اور جاہل و فسادی لوگوں سے محفوظ فرمایا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے ، وہ اکیلا ہے،ایسی گواہی جو صاحبِ یقین علماء کی گواہی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں، تمام رسولوں کے سردار اور آخری نبیؐ ہیں۔
درود وسلام نازل ہوں سید المرسلین خاتم النبیین اور آپ کی پاکیزه اور فضیلت مآب آل اور آپ کے اصحاب اور قیامت تک آپ کی اتباع کرنے والوں پر ۔
ایک مجلس میں ایک سائل نے مجھ سے یزید بن معاویہ کے بارے میں سوال کیا، حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں اس نے جو سلوک روا رکھا اور مدینہ میں لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا جو حکم دیا ہے، اس بناء پر آپ بتلائیے کہ کیا یزید بن معاویہ پر لعنت کرنا جائز ہے ؟میں نے جواب دیا اس کے لئے وہی کافی ہے ،جس میں وہ مبتلا ہے اور خاموشی زیادہ مناسب ہے۔
(حوالہ صواعق المحرقہ ص (222)، تذکرۃ الخواص ص 387)
علامہ جوزی سے سوال کرنے والے نے کہا یہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ خاموشی زیادہ مناسب ہے لیکن میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا اس پر لعنت کرنا جائز ہے ؟
میں نے جواب دیا صاحب ورع و تقویٰ علماء نے اسے جائز قرار دیا ہے جن میں حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں
میرا یہ جواب اس شخص (عبد المغیث حنبلی) تک پہنچا جس نے روایات احادیث پڑھی ہیں مگر وہ عمومی تعصب ضد و عناد اور ہٹ دھرمی سے باز نہیں آیا ۔ اس نے میرے جواب کا انکار کیا اور یزید کی حمایت و وکالت کرتے ہوئے ایک کتاب لکھ ماری ۔میرا ایک دوست عبدالمغیث حنبلی کی کتاب میرے پاس لایا اور مجھ سے اس کتاب کے رد کا مطالبہ کیا، میں نے جواب دیا کہ میں اس آدمی کو علم و فہم کی کمی کے تناظر میں اچھی طرح جانتا ہوں جواب تو اسے دیا جاتا ہے جو سمجھ بوجھ رکھتا ہو جب کہ وہ اس سے عاری ہے۔
علامہ جوزی اپنی سند حسن کے ساتھ ایک روایت لائے ہیں، وہ بیان کرتے ہیں، لوگ چار طبقوں میں تقسیم ہے:
۱: ایک وہ آدمی ہے ،جو جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ وہ جانتا ہے، وہ عالم ہے ،اس سے لے لو ،علم حاصل کرو۔
۲: ایک وہ آدمی ہے، جو جانتا ہے مگر نہیں جانتا کہ وہ جانتا ہے ،وہ بھولنے والا ہے، اسے یاد دلا دو۔
۳: ایک وہ آدمی ہے کہ نہیں جانتا مگر وہ جانتا اور مانتا ہے کہ وہ نہیں جانتا ،وہ ہدایت و رہنمائی کا طلبگار ہے ،اسے سکھلاؤ۔
۴: ایک وہ آدمی ہے کہ نہیں جانتا اور یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ نہیں جانتا (یعنی ایسا جاھل ہے جو اپنی جہالت سے بھی جاہل ہے) پس وہ جاہل ہے اسے چھوڑ دو۔
(حوالہ عیون الاخیار لا بن تیمیہ 2 ص (126) العقد الفرید لابن عبدابہ 2 – (294) حسن)
علامہ جوزی کہتے ہیں اور یہ شخص عبدالمغیث حنبلی نہ منقولات کو جانتا ہے نہ معقولات کو سمجھتا ہے لیکن حدیث پڑھتا ہے تاہم صحیح و سقم میں تمیز کی معرفت نہیں رکھتا نیز مقطوع و موصول میں تابعی و صحابی میں ناسخ و منسوخ میں تمیز نہیں کرسکتا نہ ہی دو حدیثوں کے درمیان تطبیق و جمع کی صلاحیت رکھتا ہے۔

علامہ جوزی فرماتے ہیں مذموم کی مذمت اور ملعون پر لعنت کرنے کو علماء نے جائز قرار دیا ہے جن میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں اور امام احمد بن حنبل نے تو یزید کے بارے میں وہ کچھ کہا جو لعنت سے بھی بڑھ کر ہے ۔
علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے حسن سند کے ساتھ ایک روایت بیان کی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ مہنا بن یحییٰ نے کہا میں نے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے یزید بن معاویہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے جواب دیا وہ تو وہ ہے جس نے مدینہ اور اس کے باسیوں کے ساتھ ایسا ایسا سلوک کیا ہے۔ میں نے پوچھا اُس نے کیا سلوک کیا ہے؟
تو امام احمد بن حنبلؒ نے جواب دیا اس کو تخت و تاراج کیا اور برباد و ویران کیا، میں نے امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا کیا ہم یزید بن معاویہ سے حدیث کی روایت لیں؟ فرمایا اس سے حدیث کی روایت نہ لی جائے اور کسی کے لئے جائز نہیں کہ اس سے ایک حدیث کی روایت بھی لی جائے اور کسی کے لئے مناسب نہیں کہ اس سے حدیث لکھے۔
میں نے پوچھا جب اس نے ایسا ویسا سلوک کیا تو اس کے ساتھ کون لوگ تھے؟ تو امام احمد بن حنبلؒ نے جواب دیا اہل شام (شامی ملک میں رہنے والے)
(مجموع فتاوی لابن تیمیہ 3 – 412)
ابوبکر بن عباس کہتے ہیں کہ میں نے صالح بن احمد بن حنبل کو یہ کہتے ہوئے سنا میں نے اپنے والد (احمد بن حنبلؒ) سے پوچھا کہ کچھ لوگ ہمیں یزید کی دوستی کی طرف منسوب کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا اے میرے بیٹے جو کوئی اللہ پر ایمان رکھتا ہو وہ یزید کے ساتھ دوستی کیسے رکھ سکتا ہے، میں نے پوچھا پھر آپ اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے تو جواب دیا تم نے مجھے کسی پر لعنت کرتے کب دیکھا ہے مگر اس پر لعنت کیوں نہ کریں جس پر اللہ نے اپنی کتاب میں لعنت بھیجی ہے۔ میں نے پوچھا اللہ نے اپنی کتاب قرآن میں یزید پر لعنت کہاں بھیجی ہے؟ تو امام احمد بن حنبلؒ نے یہ آیت تلاوت کی
فَہَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ اَنۡ تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ تُقَطِّعُوا اَرۡحَامَکُمۡ ﴿۲۲﴾اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمۡ وَ اَعۡمَیَ اَبۡصَارَہُمۡ ﴿۲۳﴾
ترجمہ: اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کردو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو ۔ یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی پھٹکار ہے اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی روشنی چھین لی ہے ۔
تو کیا فساد قتل سے زیادہ بڑا نہیں ہے؟
(المُصَتَمدُ فِی الاصول ص 38 طبقات الحنابلہ (377) ابن رجب نے الذبل علی طبقات الحنابلہ 1 – (356) اس کی سند حسن لذاتہ ہے)

یزید جیسے کام کرنے والا ملعون ہے

جان لیں کہ حدیث میں ان لوگوں پر بھی لعنت آئی ہے جن کا فعل یزید کے فعل کے عشر عشیر کو بھی نہیں پہنچتا۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے اللہ تعالیٰ نے بالوں کو گودنے والیوں ،گدوانے والیوں، بالوں کونوچنے والیوں، نچوانے والیوں اور خوبصورتی کے لئے دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے۔
(صحیح بخاری حدیث 2127)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا جوڑ لگانے والی، جوڑ لگوانے والی، گودنے والی اور گدوانے والی پر لعنت کی ہے۔
(صحیح بخاری حدیث 2137)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا اس آدمی پر اللہ کی لعنت ہے جو کسی جاندار چیز کو نشانہ بنائے
(صحیح بخاری حدیث1227)
عن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ قال لَعَنَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ المُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بالنِّسَاءِ، والمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بالرِّجَالِا
اللہ نے ان عورتوں پر لعنت کی جو مردوں کی مشابہت اختیار کریں اور ان مردوں پر بھی لعنت بھیجی جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں۔
(للطبراني الاوسط، ح: (4003))
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاــ:
ليس منَّا من تشبَّه بالرِّجالِ من النِّساءِ ولا من تشبَّه بالنِّساءِ من الرِّجالِوہ ہ
ہم میں سے نہیں ہیں جو عورتیں مردوں کی اور مرد عورتوں کی مشابہت اختیار کریں۔
(مسند أحمد (6875)، والطبراني (13/467) (14332))
حَدَّثَنَا آدَمُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا عَوْنُ بْنُ أَبِي جُحَيْفَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : لَعَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَاشِمَةَ وَالْمُسْتَوْشِمَةَ ، وَآكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ ، وَنَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَكَسْبِ الْبَغِيِّ وَلَعَنَ الْمُصَوِّرِينَ .
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، کہا ہم سے عون بن ابی جحیفہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گودنے والی اور گدوانے والی، سود کھانے والے اور کھلانے والے پر لعنت بھیجی اور آپ نے کتے کی قیمت اور زانیہ کی کمائی کھانے سے منع فرمایا اور تصویر بنانے والوں پر لعنت کی۔
(صحیح بخاری حدیث 5347)
عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَعَنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكَلَ الرِّبَا وَمُوَكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے ، کھلانے والے ، لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی ، اور فرمایا :’’ (گناہ میں) وہ سب برابر ہیں ۔‘‘
(صحیح مسلم ( 1598) ( 4093))
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا :
ملعون من سَبَّ أباہ، ملعون من سَبَّ أمَّہٗ، ملعون من ذَبَحَ لغیر اللّٰہ، ملعون من غَیَّرَ تُخُومَ الأرض، ملعون من کَمَّہَ أعمٰی عن الطریق، ملعون من وَقَعَ عَلٰی بہیمۃٍ ، ملعون من عَمِلَ عَمَلَ قوم لوط۔‘‘ قالہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مرارًا ثلاثًا فی اللوطیۃ
وہ شخص ملعون ہے جو اپنے باپ کو برا بھلا کہے، وہ شخص ملعون ہے جو اپنی ماں کو برا بھلا کہے، وہ شخص ملعون ہے جو غیر اللہ کے لیے ذبح کرے، وہ شخص ملعون ہے جو زمین کی حدود بدل دے، وہ شخص ملعون ہے جو اندھے کو راستے سے بھٹکادے، وہ شخص ملعون ہے جو جانور کے ساتھ جماع کرے، وہ شخص ملعون ہے جو قومِ لوط والا عمل کرے، قوم لوط والی بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا
(مسند احمد،۵/۸۳-۸۴، حدیث ۲۹۱۵ – ۱۰۰۱۵ اخرجہ الحاکم فی المستدرک ۴/۳۹۶ (۸۰۵۲) وقال صحیح الاسناد ولم یخرجاہ واقرہ الذہبی)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا شراب پر دس وجہ سے لعنت کی گئی ہے، خود شراب پر لعنت، اس کے پینے والے، پلانے والے، بیچنے والے، دوسروں کےلئے نچوڑنے والے، اپنے لیے نچوڑنے والے، اس کے لے جانے والے اور جس کے پاس لے جائی جائے اور اس کی قیمت کھانے والے سب پر لعنت۔
خوب جان لیں کہ اس سلسلے میں بہت سی احادیث موجود ہیں، جیسے ملعون ہے وہ جو ذمہ داری دے (ولی بنائے) اس کو جواس کا اہل نہ ہو۔

یزید کے کچھ احوال

اب میں یزید بن معاویہ کے کچھ حالات و احوال بیان کرتاہوں اور یہ کہ وہ حکومت پر کیسے قابض ہوا اور پھر اس کے زمانہ حکومت میں کیا کچھ واقعات رونما ہوئے جنہیں ابوبکر بن ابی الدنیا محمد بن سعد صاحب طبقات اور ابوجعفر بن جریر وغیرہم جیسے ائمہ نے انتہائی مختصر طور پر بیان کیا ہے (میرے اس بیان کی وجہ یہ ہے )کہ اس کے افعال و کردار کی روشنی میں اس کی مذمت اور اس پر لعنت کرنے کا جواز معلوم ہوجائے پھر اس کے بعد میں ان بودے دلائل کا جائزہ لوں گا اور ان کا رد کروں گا جو شیخ (عبدالمغیث)نے یزید کی حمایت و مدح میں پیش کیے ہیں اور کوئی کسی کے لئے مخلص تب ہوتا ہے جب اس سے محبت کرنے والا ہوتا ہےاور رسول ﷺ سے حدیث صحیح مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: رَأَيْتُ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرِحُوا بِشَيْءٍ لَمْ أَرَهُمْ فَرِحُوا بِشَيْءٍ أَشَدَّ مِنْهُ قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! الرَّجُلُ يُحِبُّ الرَّجُلَ عَلَى الْعَمَلِ مِنَ الْخَيْر, يَعْمَلُ بِهِ وَلَا يَعْمَلُ بِمِثْلِهِ؟! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ
ترجمہ: سیدنا انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا صحابہ کرام ؓ نے جب مذکورہ بالا فرمان سنا کہ: ”تم اسی کے ساتھ ہو گے جس کے ساتھ تمہیں محبت ہو گی۔“ تو وہ اس قدر خوش ہوئے کہ انہیں کسی اور چیز سے اس سے بڑھ کر خوشی نہ ہوئی تھی۔ ایک شخص نے کہا: اے ﷲ کے رسول! انسان ایک شخص کے ساتھ اس کے اچھے اعمال کی وجہ سے محبت کرتا ہے، مگر خود اس جیسے عمل نہیں کر سکتا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”انسان اس کے ساتھ ہو گا جس کے ساتھ اسے محبت ہو گی۔
(سنن ابو داؤد حدیث (5127))

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا لوگوں کو یزید کی بیعت کی طرف دعوت دینا

سنہ 56ھ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اپنے بعد یزید کی بیعت کی دعوت دی اور اس کو ولی عہد مقرر کردیا اور مغیرہ بن شعبہ کو حکم دیا کہ وہ کوفہ جائیں اور یزید کی بیعت کے لئے راہ ہموار کریں۔ ایک خط لایا گیا پس انہوں نے اسے لوگوں کے سامنے پڑھ کر سنایا کہ ان کی موت واقع ہونے کی صورت میں یزید ان کا جانشین ہوگا۔
(تاریخ الرسل والملوک للطبری (5 – 303) حسن)
محمد بن سعد نے طبقات میں بیان کیا ہے کہ حضرت معاویہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، عبد الرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں ایک بات کررہا ہوں تم مجھے کچھ واپس نہ لوٹانا (یعنی نفی میں جواب نہ دینا) وگرنہ میں تمہیں قتل کردوں گا پس حضرت معاویہ نے قوم کے سامنے تقریر کی جبکہ لوگوں پر ظاہر کیا کہ انہوں نے یزید کی بعیت کرلی ہے قوم خاموش رہی ان کے خوف کی وجہ سے اقرار بھی نہ کیا اور انکار بھی نہ کیا
(الکامل فی التاریخ (3 – 510) البدایۃ و النھایۃ (8 – 79) (واللہ اعلم))
علامہ جوزی نے حسن سند کے ساتھ روایت نقل کی ہے کہ جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کے لئے بیعت لی تو اس کی بیعت کے لئے مدینہ منورہ کی طرف پیغام بھیجا پس عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ مکہ شریف چلے گئے۔ حضرت معاویہ کو اس کی خبر ہوئی تو وہ عمرہ کے ارادے سے مکہ آئے اور انہیں بلا بھیجا۔ پھر منبر پر چڑھے اور ان کا عذر قبول کیا جبکہ لوگوں کو خبر دی کہ انہوں نے بیعت کرلی ہے اہل شام میں سے کچھ شامی کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا ہمیں اجازت دیں کہ ہم ان کی گردنیں اُڑا دیں، آپ نے فرمایا میں تمہاری طرف سے ایسی بات آئندہ کبھی نہ سنوں گا (میں تمہاری یہ بات) ہرگز نہیں سنوں گا۔

یزید کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی نصیحت

جب ساٹھ ہجری کا آغاز ہوا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے یزید کی بیعت کا معاملہ اس وفد کے سامنے رکھا جو عبداللہ بن زیاد کی ہمراہی میں ان کے پاس قاصد بن کر آیا تھااور اپنی بیماری کے عالم میں اپنے بیٹے یزید کے لئے عہد لیا اور اس سے کہا اے میرے بیٹے یزید میں نے تیرےلیے اشیاء کو ہموار کردیا ہے مجھے اس امر حکومت کے سلسلے میں چار آدمیوں کے سوا کسی سے کوئی خوف نہیں اور وہ یہ ہیں : حسین بن علی رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ ۔رہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ تو وہ ایسے آدمی ہیں جن کو عبادت نے متوالا بنا رکھا ہے جب ان کے سوا کوئی باقی نہیں رہے گا سب بیعت کرلیں گے تو وہ بھی تیری بیعت کرلیں گے۔ جہاں تک حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا تعلق ہے تو اہل عراق انہیں نکالے بغیر ہرگز نہ چھوڑیں گے اگر وہ تجھ پر خروج کریں اور تو ان پر غلبہ حاصل کرے تو ان سے درگزر کرنا کیونکہ ان کے لئے (رسولﷺ کی) قریبی رشتہ داری ثابت ہے اور ابن ابی بکر رضی اللہ عنہ میں ہمت نہیں ہے مگر عورتوں اور کھیل کود میں اگر وہ اپنے ساتھیوں کو کچھ کرتے دیکھیں گے تو وہ بھی انہیں کی طرح کریں گے اور وہ تیرے لئے شیر کی طرح بہت بیٹھنے اور سونے والا ہوگا اور لومڑی کی طرح فریب کاری سے کام لے گا اور جب تجھ پر قدرت پائے گا حملہ کرے گا وہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ ہے اگر اس نے تیرے ساتھ ایسا کیا اور تو نے اس پر غلبہ اور قدرت پائی تو اس کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دینا (تاریخ طبری 5 – (322) الکامل و ابن عدی (4 – 6) البدایۃ النھایۃ 8 – (115) اس قول کی اسانید شواہد کی بنا پر حسن لغیرہ ہیں)
اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے اگر یزید کے بارے میں میری خواہش و محبت کا غلبہ نہ ہوتا تو میں رشد و ہدایت ہونے کو واضح اور نمایاں طور پر دیکھ لیتا۔
(تذکرۃ الخواص حسن (386))

یزید کا حکم دینا کہ اس کے لئے زبردستی بیعت لی جائے

جب معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو یزید ان کے پاس موجود نہیں تھا پھر وہ آیا اور اس کے لئے بیعت لی گئی تو اس نے گورنر مدینہ ولید بن عتبہ کو خط لکھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ سے میرے لئے زبردستی بیعت لو، اس معاملہ میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرو۔ ولید بن عبدالملک بن مروان کو بلایا گیا اور اس سے مشورہ لیا گیا تو اس نے کہا میرے خیال میں تم ان سب حضرات کو اسی وقت بلاو اور انہیں بیعت کرنے کے لئے کہو اگر وہ بیعت کرلیں تو ٹھیک ورنہ بصورت انکار ان کی گردنیں اُڑا دو اور انہیں قتل کردو ، اس نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو (گورنر ہاؤس) بلایا اور ان سے بیعت کا مطالبہ کیا حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عام لوگوں کے ساتھ ہمیں بھی دعوت دیں تو یہ ایک بات ہے کیونکہ میرے جیساآدمی اس طرح چھپ کر بیعت نہیں کرتا اور تمہیں یہ جرات بھی نہیں ہونی چاہیے کہ مجھ سے بیعت کا مطالبہ کرو یہ کہہ واپس تشریف لے آئے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا جب لوگ بیعت کریں گے میں بھی کرلوں گا پھر مکہ چلے گئے، رہے عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ تو انہوں نے اگلے دن کاوعدہ کیا اور اسی رات مکہ کی طرف چل نکلے اور ان کے بھائی عمرو بن زبیر نے ان کی طرف پیغام بھیجا کہ یزید بن معاویہ نے قسم کھائی ہے کہ وہ تیری طرف سے انکار کو قبول نہیں کرے گا یہاں تک کہ تجھے چاندی کے طوق میں ڈال کر لایا جائے چنانچہ انہوں نے اس کے کہنے کی طرف توجہ نہیں دی۔
(تاریخ طبری 5 – (338) الکامل لابن عدی (4- 14) البدایۃ والنہایۃ 8 – (146))

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا مکہ مکرمہ کی طرف تشریف لے جانا

حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ مکہ تشریف لے گئے تو اہل کوفہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس کوفہ میں بلانا شروع کردیا اور انہوں نے کہا کہ ہم ایک لاکھ کی تعداد میں آپ کے ساتھ ہیں۔
(البدایۃ و النہایۃ 8 – (170))
علامہ جوزی نے پوری سند نقل کی ہے اور جب اہل کوفہ کو خبر ملی کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ مکہ آرہے ہیں اور انہوں نے یزید بن معاویہ کی بیعت نہیں کی تو ان کی طرف سے آپ کے پاس وفود آئے اور سلیمان بن صرد اور مسیب بن نجبہ نے آپ کو خط لکھا اور روساء شہر یزید کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کو اپنی بیعت لینے کی طرف متوجہ کیا اور کہا کہ ہم نے لوگوں کو اس حال میں چھوڑا ہے کہ وہ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں اور آپ کے منتظر ہیں ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں آپ کے ساتھ حق پر جمع فرمائے گا اور آپ کے وسیلہ سے لوگوں کو اس ظلم و ستم اور جور و جفا سے نجات و چھٹکارا عطا فرمائے گا جس میں ہم مبتلا ہیں، آپؓ یزید کے مقابلے میں امر خلافت کے زیادہ حق دار ہیں جس نے خلافت پر غاصبانہ قبضہ کرلیا ہے، خیار امت کو قتل کیا چنانچہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت مسلم بن عقیل کو بلایا اور فرمایا آپ کوفہ جائیے اگر ان کی طرف سے آپ اجتماع دیکھیں تو مجھے لکھ دیجیے گا۔
(الکامل 4 – (19))
اہل سیر نے لکھا ہے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے جب مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو کوفہ بھیجا تو یزید کو یہ خبر ملی تو اس نے عبید اللہ بن زیاد کو کوفہ کا گورنر بنا دیا اور یزید نے اس کو لکھا مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ عراق کی طرف متوجہ ہوئے ہیں ان پر نظر رکھو اور ہتھیار بند لوگ مقرر کر دو، پہرہ لگا دو اور الزام لگا کر گرفتار کرلو ،جس سے بھی بدگمانی ہو اس کو بھی گرفتار کرلو اور جس پر تہمت بھی ہو اسے بھی حراست میں لے لو اور گرفتار کرلو۔
(تاریخ طبری 5 – 381 البدایۃ و النہایۃ 8 – 168 یہ روایات اپنی تمام اسانیدکے ساتھ صحیح ہیں)
حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھ دیا کہ تیرہ ہزار افراد نے میری بیعت کرلی ہے، اس لیے آپ جلدی آجائیں، حضرت حسین رضی اللہ عنہ مکہ سے کوفہ کی طرف چل پڑے، اِدھر عبید اللہ بن زیاد نے امام مسلم کو گرفتار کروا کر قتل کروا دیا، حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو ابن زیاد کی طرف سے گرفتار کیے جانے اور آپ کی شہادت کی خبر ملنے پر پہلے قیس بن مہر کو ان کی طرف قاصد بنا کر بھیجا، ابن زیاد نے قیس بن مہر کو گرفتار کروایا اور ان سے کہا لوگوں کے سامنے کھڑے ہوجاؤ اور امام حسین رضی اللہ عنہ کو گالی دو (معاذ اللہ) ابن زیاد نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں کذاب ابن کذاب کے الفاظ استعمال کیے، حضرت قیس بن مہر منبر پر چڑھے اور فرمایا اے لوگوں میں نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو منزل حاجر (بلند سطح زمین جس کا وسط درمیان پست جگہ ہو، نہر کے کنارے کا وہ حصہ جو پانی کوروک دے) میں چھوڑا ہے، میں تمہاری طرف ان کا قاصد بن کر آیا ہوں تاکہ ان کی امداد و نصرت کرو۔ ابن زیاد کے حکم سے انہیں محل کی چھت سے نیچے گرا دیا گیاچنانچہ وہ شہید ہوگئے۔
(تاریخ طبری 5- (395) ، الکامل 4 – (41) ، البدایۃ والنہایۃ 8 – (168) اس کی سند حسن ہے )
امام حسین رضی اللہ عنہ کو مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر ملی تو آپ نے واپسی کا ارادہ فرمایا (اس موقع پر) بنو عقیل بن ابی طالب میں سے پانچ افراد آپ کے ساتھ تھے، وہ کہنے لگے کیسے واپس لوٹیں گے جبکہ ہمارے بھائی کو شہید کر دیا گیا ہے (ہم بدلہ لیے بغیر واپس نہیں لوٹیں گے یا ان کی طرح شہادت کا جام نوش کریں گے) تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی چل پڑے یہاں تک کہ سواروں نے آپ کو آ گھیرا تو آپ نے ارشاد فرمایا میں تمہارے پاس خود نہیں آیا بلکہ تمہارے خطوط اور قاصد میرے پاس آئے اس لیے میں تمہارے بلانے پر آیا ہوں ،انہوں نے جواب دیا ہم نہیں جانتے جو آپ کہہ رہے ہیں پھر آپ نے کربلا کی طرف رجوع فرمایا دراں حالانکہ آپ کے ساتھ 45 سوار اور تقریباً 100 پیدل تھے پھر ابن زیاد نے عمرو بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو سپہ سالار لشکر مقرر کیا اور کہا الحسین، حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عمرو سے فرمایا مجھے چھوڑ دو میں اسلامی سرحد پر چلا جاتا ہوں یا وہیں سے واپس چلا جاتا ہوں جہاں سے آیا ہوں یا پھر مجھے خود یزید کے پاس جانے دو۔
(تاریخ طبری 5 – (413)، البدیۃ والنہایۃ 8 – (170) )
نوٹ: حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اس قول کی طرف نسبت کرنا ضروری ہے کہ مجھے چھوڑ د ومیں اسلامی سرحد پر چلا جاتا ہوں یا وہیں سے واپس لوٹ جاتا ہوں جہاں سے آیا ہوں یا پھر خود میں یزید کے پاس چلا جاتا ہوں بایں طور پر یہ روایت تاریخ کی بڑی کتابوں میں موجود نہیں جیسے (الاخبار الطوال لابی فیفۃ الدینوری ص (254) ) میں موجود نہیں اور (طبری 5 – (414)، الکامل 4 – (54)) وغیرہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے غلام عقبہ بن سمعان سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ سے مکہ، مکہ سے عراق اور آپ کی شہادت تک آپ کے ساتھ رہا، آپ نے اپنی شہادت کے دن تک لوگوں سے جتنے خطاب فرمائے وہ سب میں نے سنے خدا کی قسم! آپ نے کبھی بھی نہیں فرمایا کہ میں یزید کے ہاتھ میں ہاتھ دوں گا اور نہ ہی یہ فرمایا کہ میں مسلمانوں کی کسی سرحد پر چلا جاؤں گا بلکہ آپ نے صرف یہ فرمایا مجھے چھوڑ دو میں جہاں سے آیا وہیں مکہ شریف چلا جاؤں یا مجھے اس وسیع و عریض زمین میں کسی طرف نکل جانے دو کہ میں دیکھوں کہ یزید کا انجام کیا ہوتا ہے لوگ اس کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
عمرو نے ابن زیاد کو یہ سارے صورت حال لکھ بھیجی تو اس نے جواب دیا نہیں کوئی رو رعایت اور کرامت و عزت نہیں جب تک وہ میرے ہاتھ میں ہاتھ نہ دے دیں اگر وہ انکار کریں تو ان سے جنگ کرو اور جب قتل ہوجائیں تو ان کے سینہ کو گھوڑوں سے روند ڈالو اس نے یہ شعر پڑھے
خبردار جس وقت ہمارے پھندے اس کو اپنے جال میں پھانسیں گے تب وہ نجات و اخلاص کا امیدوار ہوگا جبکہ وہ وقت خلاص و نجات کا نہ ہوگا (یعنی وہ ہمارے چنگل میں آ پھنسا ہے بچ کر نکل جانا چاہتا ہے لیکن اَب نکل جانے کا وقت بیت چکا)
(تاریخ طبری 5 – (411)، الکامل لابن عدی 4 – (53))

حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں کی شہادت

امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں کبھی بھی اپنا ہاتھ ابن زیاد کے ہاتھ میں نہیں دوں گا اور امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے ارشاد فرمایا آج رات تاریکی اور اندھیرے میں متفرق ہوجاؤ (بکھر جاؤ) اور مجھے چھوڑ کر یہاں سے چلے جاؤ۔
آپ کے ساتھیوں نے جواب دیا ہرگز نہیں خدا کی قسم! ہم ہرگز ہرگز آپ کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے یہاں تک کہ وہی کچھ (تکلیف و مصیبت) ہمیں پہنچے جو آپ کو پہنچے۔
(تاریخ طبری 5 – (418))
پس یزیدی لشکر آپ کے اور پانی کے درمیان حائل ہوگیا اور آپ پر پانی بند کردیا ہے۔
(تاریخ طبری 5 – (412))
(آپ نے فرمایا کیا تمہارے لیے میرا قتل جائز و درست ہے کیا) میرا خون تمہارے لیے حلال ہے کیا؟میں تمہارے نبی کی بیٹی کا بیٹا (تمہارے نبی کا نواسہ) نہیں ہوں اور کیا میں ان کے چچا کے بیٹے کا بیٹا نہیں ہوں؟

کیا تم نے رسول ﷺ کا وہ فرمان نہیں سنا جو آپؐ نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں ارشاد فرمایا یہ دونوں جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔
عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَلْحَسَنُ وَ الْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ وَ فَاطِمَۃُ سَیِّدَۃُ نِسَائِھِمْ اِلَّا مَا کَانَ لِمَرْیَمَ بِنْتِ عِمْرَانَ۔))
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حسن و حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما جنتی نوجوانوں کے سردار اور فاطمہ جنتی خواتین کی سردار ہوں گی، ما سوائے مریم بنت عمران کے
(مسند احمد حدیث (10212)- (1162) أخرجہ ابویعلی: (1169) والنسائی فی الکبری : (8512) -(11618) )
تم میری تصدیق کرو وگرنہ جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ، ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھ لو۔
شمر نے کہا میں صرف اللہ کی عبادت کرتاہوں میں نہیں جانتا جو آپ کہہ رہے ہیں۔ عمرو بن سعد پہلا آدمی تھا جس نے لشکر حسین رضی اللہ عنہ پر پہلا تیز چلایا حضرت علی اکبر بن حسین رضی اللہ عنہ جنگ کے لئے نکلے اور یہ رجز پڑھ رہے تھے۔
میں علی بن حسین بن علی ہوں بیت اللہ کی قسم! ہم نبی کے سب سے زیادہ قرابت دار ہیں شمر عمرو اور ابن الدعی عبیداللہ بن زیاد کے مقابلے میں ہمارے قرابت بالکل واضح ہے
(تاریخ طبری 5 – (446)، الکامل 4 -74، البدایۃ والنہایۃ 8 – (185))
ایک آدمی نے آپ کونیزہ مارا اور آپ کو شہید کردیا یہ علی اکبر تھے جو حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ایک چھوٹابچہ آیا اور آکر آپ کی گود میں بیٹھ گیا یزیدی لشکر کے ایک بدبخت نے تیر مارا تو وہ شہید ہوگیا۔
امام حسین رضی اللہ عنہ نے پینے کے لئے پانی طلب فرمایا پانی آپ کے پاس لایا گیا، آپ نے اسے پینے کا ارادہ فرمایا تو حصین بن نمیر نے ایک تیر مارا جو آکے آپ کو لگا اور آپ کے ہاتھ سے خون بہنا شروع ہوگیا
(الکامل 4 – (76)، البدایۃ و النہایۃ 111 ، البدایۃ و النہایۃ 8 -(188-186))
یہ حصین بن نمیر بن نائل الکندی اسکونی ابو عبدالرحمان اہل حمص کے مضبوط و ماہر جرنیلوں میں سے تھا یہ وہ بدبخت ہے جس نے مکہ میں ابن زبیر کا محاصرہ کیا اور کعبہ پر گولہ باری کروائی اشتر کے ساتھ ابن زیاد کی جنگ میں ابن زیاد کے ساتھ ہی مارا گیا)۔
(تہذی ابن عساکر 4 – (374) ، الاعلام 2 – (279))
پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سب ساتھیوں اور آپ کے گھر کے افرادکو شہید کردیا گیا اور مردوں میں سے صرف آپ اکیلے باقی رہ گئے، آپ نے مدافعت و مزاحمت فرمائی، زرعہ بن شریک نے آپ کے شانہ پر ضرب لگائی، ایک اور بدبخت نے آپ کے کندھے پر دوسری ضرب لگائی، سنان ابن انس نے آپ پر حملہ کیا اور آپ کی ہنسلی کی ہڈی میں نیزہ ماراپھر آپ کے سینے پر نیزا مارا ،آپ زمین پر گرے تو اس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا۔
نوٹ: حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کس نے شہید کیا اس میں مؤرخین کا اختلاف ہے دیکھیے (البدایۃ والنہایۃ 8 – (188) ، تذکرۃ الخواص ص (253))
مؤرخین نے پانچ آدمیوں کا ذکر کیا ہے:
۱: سنان ۲: حصین بن نمیر ۳: مہاجر بن اوس تمیمی ۴: کثیر بن عبداللہ شعبی ۵: شمر بن ذی الجوشن
اور آپ کا سر انور کاٹ لیا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کا سر انور خولی بن یزیدنے کاٹا آپ رضی اللہ عنہ کے جسم نازنین پر 33 زخم موجود تھے (تاریخ طبری 5 – (453)، البدایۃ والنہایۃ 8 – (188)) اور آپ کے کپڑے میں تیر لگنے کی وجہ سے تقریباً 110 پھٹن موجود تھی۔پھر انہوں نے (یزیدی لشکر نے) آپ کے کپڑے اور ہتھیار تک لوٹ لیے۔ آپ کی تلوار القلافس النہثی نے لی، آپ کا پائجامہ بحر بن کعب نے اتار لیا اور آپ کو مجرد (بےلباس) کردیا، آپ کا جبہ قیس بن الاشعت نے لے لیا، آپ کا عمامہ جابر بن یزید نے لیا اور حضرت فاطمہ بنت الحسین کی چادر بھی چھین لی گئی نیز یزیدیوں نے آپ (یعنی فاطمہ بنت حسین) کے کانوں کی بالیاں اور زیور تک چھین لیا۔
(الکامل فِی ضُعَفَاء الرجال لابن عدی 4 – (78)، تاریخ البدایۃ والنہایۃ 8 – (188) حسن)
نوٹ: جب مختار نے خون حسین کا بدلہ لیا تو خولی بن یزید اصبحی کو بھی قتل کیا اور 6 6ھ میں قتل کے بعد جلا دیا) (البدایۃ والنہایۃ 8 – (272))
پھر عمرو نے پکارا منادی کروائی جو حسین رضی اللہ عنہ کا سر لائے اسے ہزار درہم انعام دیا جائے گا پھر عمرو نے کہا کون لوگ ہیں جو اپنے گھوڑوں سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی نعش کو روندیں گے یہ سن کر کچھ لوگ (دس آدمی) نکلے اور انہوں نے امام عالی مقام کی مقدس نعش کو گھوڑوں سے اس طرح روند ڈالا کہ عالی مقام کا سینہ و پشت چکنا چور ہوگئے۔
(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی 4 – (80)، تاریخ الاحم و الملوک 5 -(454)، البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر 8 – 181)
عمرو نے آپ کے سر انور کو عبید اللہ بن زیاد کے پاس کوفہ بھیج دیا، عورتوں اور بچوں کوبھی سوار کرکے کوفہ بھیج دیا۔ یہ قافلہ جب میدان کار زار سے گزرا تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے انتہائی درد و کرب کے ساتھ روتے ہوئے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ آپ کی دہائی ہے دہائی ہے دیکھیے یہ حسین چٹیل میدان میں خون سے لتھڑے ہوئے اعضاء بریدہ پڑے ہیں، اے رسولِ خدا آپ کی دہائی ہے کہ آپ کی بیٹیاں اسیر و قیدی ہیں، آپ کی اولاد کے لاشے بے گور و کفن پڑے ہیں اور ہوائیں ان پر خاک اُڑا رہی ہیں۔
(تاریخ الاحم و الملوک 5 – (454)، الکامل 4 – (81))
اور اس میں یوں ہے یارسولﷺ آپ پر ایمان کے فرشتوں کا درود سلام دیکھیے آپ کی بیٹیاں قیدی ہیں۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی فریاد سن کر دوست دشمن سب رو پڑے۔
زر بن جیش نے کہا پہلا وہ سر جسے نیزے پر بلند کیا گیا وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سرمبارک ہے۔
(تاریخ الاحم و الملوک 5 – (394)، الکامل 4 – (83)، البدایۃ والنہایۃ 8 -(191))
علامہ جوزی حسن سند کے ساتھ روایت لائے ہیں حضور ﷺ کے خادم انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک عبید اللہ بن زیاد کے پاس لایا گیا اور اسے طشت میں رکھا گیا تو وہ ایک (چھری سے) آپ (کے ناک پر) مارنے لگا اور اس نے آپ کے حُسن کے بارے میں کچھ پوچھا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا امام عالی مقام رسول ﷺ کے ساتھ بہت زیادہ مشابہ تھے اور آپ نے وسمہ کا خضاب کیا ہوا تھا۔
(صحیح بخاری حدیث 3728)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک ابن زیاد کے پاس لایا گیا تو میں اس وقت اس کے پاس تھا، اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ایک چھڑی سے آپ کے دندان مبارک کو چھیڑنا شروع کیا اور آپ کے حسن و جمال پر اعتراض کرنے لگا تو میں نے کہا اپنی چھڑی پیچھے ہٹا لے، خدا کی قسم! میں نے رسول ﷺ کو دیکھا کہ وہ امام کے منہ کی جگہ کو چومتے تھے جس جگہ تُو چھڑی لگا رہا ہے۔
(سنن ترمذی حدیث 3778 (حسن)، طبرانی الکبیر حدیث 2878)
سعید بن معاذ اور عمرو بن سہل یہ دونوں ابن زیاد ملعون کے پاس تھے کہ وہ اپنی چھڑی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ناک اور آنکھوں پر مارنے لگا اور اس کے ساتھ آپ کے چہرے پر بھی مارنے اور چھونے لگا، آپ رضی اللہ عنہ کے چہرے کے بارے میں طعن کرنے لگا تو حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے اسے کہا اپنی چھری ہٹا لے میں نے رسولﷺ کو دیکھا کہ تیری چھڑی کی جگہ پر وہ اپنے ہونٹ رکھے ہوئے تھے، ابن زیاد نے بن ارقم سے کہا تو بوڑھا ہوگیا ہے تیری عقل ماری گئی ہے۔ (سیراعلام النبلاء 3 – (315))
علامہ جوزی صحیح سند کے ساتھ ایک روایت لائے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے، جب حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک اور ان کے بچے اور عورتیں ابن زیاد کے پاس لائی گئیں، اس وقت حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے معمولی پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور دیگر عورتوں نے انہیں چھُپا رکھا تھا۔ ابن زیاد نے پوچھا یہ کون ہے؟ آپ نے کوئی جواب نہ دیا، اس نے تین بار ایسا کیا اور تینوں مرتبہ آپ نے اس سے کلام نہیں کیا، ایک کنیز نے جواب زینب بنت علی رضی اللہ عنہ ہیں تو ابن زیاد ملعون نے کہا اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے تم لوگوں کو رسوا کیا، قتل کیا اور تمہاری کہانیوں کو چھوٹا کردیا، اس پر زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے ہمیں اپنے نبی ﷺ کے ذریعے سے عزت عطا فرمائی، ہمیں پاک بنایا، ہم نہ ہی فاسق ذلیل ہوتے ہیں اور نہ ہی فاجر جھٹلائے جاتے ہیں، اُس نے کہا تُو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے تیرے گھر والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا، حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے جواباً عرض کی ان کی قسمت میں شہادت لکھی تھی اس لیے وہ شہید ہوگئے عنقریب اللہ تمہیں اور انہیں ایک جگہ جمع فرمائے گا اُس وقت وہ تیرے خلاف نیا مقدمہ بارگاہ الہٰی میں پیش کریں گے ۔
(تاریخ الاحم و الملوک 5 – (457))
علامہ جوزی اپنی سند کے ساتھ ایک روایت لائے ہیں کہ عبیداللہ بن زیاد نے ہمارے سامنے خطبہ دینا شروع کیا اور کہنے لگا خدا کا شکر ہے جس نے حق اور حق والوں کو فتحیاب کیا، امیرالمؤمنین یزید اور اس کی جماعت کی مدد کی ،کذاب ابن کذاب (حسین بن علی، معاذ اللہ) اور ان کےساتھیوں کی جماعت کو ہلاک کیا، حضرت عبیداللہ بن عفیف ازدی بول اُٹھے اور فرمانے لگے اے ابن مرجانہ (مرجانہ کے بیٹے) کذاب ابن کذاب تُو ہے اور تیرا باپ ہے، جھوٹا تُو ہے اور تیرا باپ ہے اور جھوٹا وہ ہے جس نے تجھے گورنر بنایا۔
نوٹ: عبیداللہ بن زیادملعون نے عبداللہ بن عفیف ازدی رضی اللہ عنہ کو بھی قتل کروا دیا۔
(الکامل فی ضعفاء الرجال 4 – (83))
جب حسن بصری رحمہ اللہ علیہ کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اطلاع ملی تو آپ اتنا روئے کہ ان کے کندھے پھڑکنے لگے پھر آپ نے فرمایا ہائے ذلت و رسوائی اس قوم کیلئے جن کے نبی کے بیٹے کو ابن داعی (ابن زیاد) نے قتل کردیا (شہید کردیا) اور اس امت کو کیا ہوگیا کہ اس کے نبی نواسہ کا قتل کردیا گیا اور وہ دیکھتی رہی۔
(تاریخ الاحم و الملوک للطبری 5 – (458)، الکامل 4 – (82))
ربیع بن خثیم نے کہا انہوں نے ان بچوں کو قتل کیا ہے کہ جب رسول ﷺ سفر سے واپس تشریف لاتے تو انہیں اپنے ساتھ چمٹا لیتے اور سینے سے لگا لیتے۔
(تذکرۃ الخواص (258))

حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں کے سر مبارک یزید لعین کے دربار میں

پھر عبیداللہ بن زیاد نے زمر بن قیس کو بلایا اور اس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں کے مبارک سروں کو یزید لعین کے پاس بھیجا کیونکہ یزید کی طرف سے ایک قاصد ابن زیاد کے لئے حکم لے کر آیا تھا کہ وہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا سارا ساز و سامان اور ان کے اہل بیت کے بقیہ افراد کو اس کے پاس بھیج دے۔
(تاریخ الاحم و الملوک 5 – (459)، الکامل 4 – (83)، البدایۃ 8 – (191))
یہ ابن زیاد کے افعال قبیحہ ہیں ،حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اس کے حکم سے شہید کیا گیا اور اسی کا حکم مانتے ہوئے شہید کیا گیا اس کا کسی نے بھی انکار نہیں کیا او راہل سیر و تاریخ کا بھی اس میں کوئی اختلاف نہیں لیکن پھر بھی ذہبی اپنی کتاب (سیر اعلام 3 – 549) میں ابن زیاد کے ترجمہ حالات میں لکھتے ہیں کہ ہم رضائے الہٰی کے لئے ان سے بغض و دشمنی رکھتے ہیں اور ان سے برأت و بےنیازی کا اظہار کرتے ہیں مگر ان پر لعنت نہیں کرتے اور ان کامعاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہیں گویا اس ذھبی نے اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں سنا۔
وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا
ترجمہ: جو آدمی قتل کرے کسی مومن کو جان بوجھ کر تو اس کی سزا جہنم ہے ہمیشہ رہے گا اس میں اور غضب ناک ہوگا اللہ تعالیٰ اس پر اور لعنت ڈالے گااس پر اور تیار کر رکھا ہے اس نے اس کیلئے عذابِ عظیم (سورۃ نساء 4 – (93))
ابن حجر نے صواعق محرقہ میں فرمایا: ’’اس پر اتفاق کیا گیا ہے کہ یزید کا نام لیے بغیر جس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا یا قتل کا حکم دیا، اس کو جائز سمجھا یا اس پر راضی ہوا ان سب پر لعنت کرنا جائز ہے لہٰذا امام ذھبی کا قول تعصب پر مبنی ہے پس حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں پر قیامت تک اللہ کی لعنت ہو۔‘‘
حضرت علامہ جوزی بھی سند کے ساتھ ایک روایت لائے ہیں، وہ اونٹ ذبح کیے گئے جن پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے مبارک سر اٹھائے گئے تھے تو لوگ ان کا گوشت نہ کھا سکے کیونکہ ان کا گوشت اندرائن سے زیادہ کڑوا ہوچکا تھا۔ (تذکرۃ الخواص ص(267)، البدایۃ والنہایۃ 8 – 201 (واللہ اعلم))
جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں کے مبارک سر یزید کے پاس پہنچے تو وہ دربار لگا کر بیٹھا ہوا تھا اور شامی روساء کو بلوا کر ان کو اپنے ارد گرد بٹھایا ہوا تھا پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر انور اس کے سامنے رکھا گیا تو اس نے اپنے ہاتھ کی چھڑی آپ کے چہرہ انور پر مارنا شروع کی اور کہنے لگا:
یفلقن ھاماً من رجال اعزۃ علیتا وھم کانوا اعق وأظلما
انہوں نے (یعنی تلواروں نے) ایسے لوگوں کی کھوپڑیاں توڑیں جو ہم پر غالب تھے اور وہ نہایت نافرمان اور ظالم تھے
یہ شعر حصین بن حمام مری کا ہے۔ (شرح اختیار المفصل قطب تبریزی 1 – (325)، معجم الکبیر طبرانی 3 – (115)، مجمع الزوائد 9 – ـ(193))
اور کہا اس کو طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں مگر ضحاک جس کے حالات معلوم نہیں۔ (واللہ اعلم)
علامہ جوزی حسن سند کے ساتھ ایک روایت لائے ہیں۔ جس کا مفہوم یوں ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر انور لایا گیا اور یزید کے سامنے رکھا گیا تو اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھڑی سے آپ کے سر انور پر ضرب ماری اور پھر مندرجہ ذیل بالا شعر پڑھا۔
’’ہمارے ہاتھ کی تلواروں نے ایسے لوگوں کی کھوپڑیاں توڑیں جو ہم پر غالب تھے اور وہ نہایت نافرمان اور ظالم تھے ‘‘
مزید ایک اور سند نقل کی جس کا خلاصہ یہ ہے :
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے سے انہوں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ میں یزید بن معاویہ کے پاس تھا جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک اس کے پاس لایا گیا تو اس نے لکڑی کے ساتھ آپ کے ہونٹوں پر مارنا شروع کیا اور وہ مندرجہ بالا شعر پڑھنے لگا۔ــ
میں نے اس سے کہا اپنی چھڑی ہٹا لے (اور اس گستاخی سے باز آجا) اس نے جواب دیا تم مجھے اس سے روکتے اور منع کرتے ہو تو جواب دیا میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول ﷺ کو دیکھا کہ آپؐ نے امام حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے دائیں ران پر اور امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے بائیں ران پر بٹھا رکھا ہے اور اپنا دایاں ہاتھ مبارک امام حسن رضی اللہ عنہ کے سر مبارک پر رکھا ہوا تھا اور اپنا بایاں ہاتھ امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک پر، آپؐ فرما رہے تھے اے اللہ! میں ان دونوں کو تیرے اور صالح المومنین کے سپرد کرتاہوں پھر اس کے بعد زید بن ارقم رضی اللہ عنہ یزید سے کہنے لگے اے یزید رسولؐ کی ودیعت و امانت کے لئے تیری حفاظت کیسی (انکی ودیعت و امانت کی حفاظت کررہا ہے اور ان کے ساتھ ظالمانہ و سفاکانہ سلوک کررہا ہے)حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک یزید کے سامنے رکھا گیا اس وقت وہاں صحابی رسول ﷺحضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ موجود تھے تو یزید لعین نے چھڑی کے ساتھ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو مارنا شروع کردیا اور مندرجہ ذیل بالا شعر پڑھنے لگا تو حضرت برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے اسے کہا اپنی چھڑی ہٹالے اور اس گستاخی سے باز آجا خدا کی قسم! میں نے بارہا نبی کو اس چہرہ اور ان ہوٹنوں کو چومتے ہوئے دیکھا ہے۔
(الکامل لابن عدی 4 – (85)، تاریخ الاحم و الملوک 5 -(390)، البدایۃ والنہایۃ 8 – (192))
علازمہ جوزی رحمہ اللہ حسن سند کے ساتھ ایک روایت لائے ہیں جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک لایا گیا اور یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھا گیا تو اس نے ایک شعر پڑھا۔
’’اے کاش بدر میں قتل ہونے والے میرے اشیاخ بنو خزرج کا نیزوں کی ضربوں سے چیخنا چلانا دیکھتے پس وہ خوشی سے نعرے بلند کرتے اور خوشی سے ان کے چہرے دمک اٹھتے پھر غائبانہ طور پر مجھے دعا دیتے ہوئے کہتے کہ تمہارے ہاتھ کبھی بیکار نہ ہوں
مجاہد تابعی کہتے ہیں یزید نے پھر اس معاملے میں منافقت کا سہارا لیا اور اپنے لشکر کے ہر فرد کو ملامت کی اور بُرا بھلا کہا (اخبار الطوال ص 267، البدایۃ و النہایۃ 8 – 192)
علامہ جوزی کہتے ہیں یہ اشعار ابن زبعری کے ہیں۔عبداللہ بن زبعری بن قیس قرسی اپنے دور جاہلیت میں مسلمانوں کا بہت مخالف تھا پھر فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوا اور نبیﷺ کی مدح کی۔ (اصابہ 2 -(308)، الاعلام 4 – 318)
اے کاش بدر میں قتل ہونے والے میرے اشیاخ بنو خزرج کا نیزوں کی ضربوں سے چلانا دیکھتے جس وقت انہوں نے اپنی کمزور عبائیں پھینک دیں اور عبدالاشل میں سخت جنگ اور قتل و غارت واقع ہوئی ہم نے ان کی دو گنا عورتوں کو قتل کیا اور یوم بدر کے میزان کے جھکاؤ کو برابر کردیا ہے۔
اور یہ اس لیے کہ مسلمانوں نے بدر کے دن کافروں کے بہت سے افراد کو قتل کیا پھر کافروں نے احد کے دن مسلمانوں کے بہت سے افراد کو شہید کیا تو یزید نے اس سے استشہاد کیا (اس کو گواہی دی) اور اس کے بعض الفاظ کو بدل دیا یہ استشہاد گواہی اس کی ذلت و رسوائی کے لئے کافی ہے۔
اور ہم نے (سیرت لابن ھشام 3 – 69) اور سیرہ ابن کثیر نے (البدایۃ 8 – (110،224)) سے اس کی تصحیح کی ہے
اگر یزید بن معاویہ نے ایساکہا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو اور تمام لعنت کرنے والوں کی بھی لعنت ہو اور اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو اس کو لوگوں کی نظروں میں برا اورقبیح بنا دینے کے لئے ایسا گھڑنے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔
(تاریخ ابن کثیر 8 – 224 حسن ہے، واللہ اعلم)

خاندانِ نبوت کے قیدیوں کو یزید کی مجلس میں پیش کیا جانا

پھر یزید نے علی بن حسین بن زین العابدین اور بچوں اور عورتوں کو بلوایا اس حال میں وہ رسیوں میں جکڑے ہوئے تھے، رسیوں سے باندھے ہوئے تھے اس حالت میں انہیں یزید کے سامنے لایا گیا تو امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا اے یزید تیرا کیا خیال ہے کہ اگر رسولﷺ ہمیں اس طرح رسیوں سے بندے اور جکڑے ہوئے دیکھتے تو آپ کے قلب اطہر پر کیا گزرتی تو کیا تو ہمارے بارے میں ذرا بھی نرم گوشہ نہیں رکھتا (اور تجھے کچھ بھی شرم نہیں آئی) تو اس پر یزید لعین نے جواب دیا اے علی! تمہارے باپ نے قطع رحمی کی اورمیری سلطنت کو مجھ سے چھیننا چاہا دیکھ خدا نے اس سے کیا سلوک کیا ہے پھر عورتوں اور بچوں کو لاکر اس کے سامنے بٹھایا گیا تو ایک شامی مردود آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے امیر یزید یہ عورت فاطمہ بنت علی مجھے دے دو حالانکہ آپ پاکباز اور سیدہ تھیں آپ ڈرگئیں اور اپنی بڑی بہن سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا آنچل پکڑ لیا تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا بول اُٹھیں تو جھوٹا ہے تو نے جھک ماری اور بےہودہ بات کی ہے واللہ نہ تیری مجال ہے، نہ یزید کی، نہ یہ تیرے لیے حلال وجائز ہے اور نہ ہی یزید کیلئے اس پر یزید بھڑک اٹھا اور بکواس کرنے لگا اے زینب تو نے جھوٹ بولا ہے، یہ میرے لیے جائز ہے اگر میں ایسا کرنا چاہوں تو کرسکتا ہوں، حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے جواباً عرض کی خدا کی قسم تو ایسا ہرگز نہیں کرسکتا مگر یہ کہ ہمارے دین و ملت سے نکل جائے اور ہمارے دین و مذھب کے سوا کوئی اور دین اختیار کرے (یعنی یہ کسی مسلمان کے لئے جو ان کی کفو میں سے نہیں ہرگز جائز و حلال نہیں)
(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی 4 – (86)، تاریخ الاحم و الملوک 5 -(461)، البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر 8 – (194) حسن)
پھر اس نے قافلہ اسیران اہل بیت کو مدینہ بھیج دیا اور امام حسین کے سرانور کو عمرو بن سعید بن العاص (بن امیہ بن عبدشمس اموی القرشی) کے پاس بھیج دیا جو کہ مدینہ کا گورنر تھا اس نے سر انور کو پکڑا اور اپنے سامنے رکھا اور آپ کی ناک کابانسہ پکڑا، پھر اس کے حکم سے سرانور کو کفن دیا گیا اور آپ کی والدہ محترمہ کی قبر انور کے پاس البقیع مدینہ منورہ میں دفن کیا گیا، محمد بن سعد نےایسے ہی بیان کیا ہے۔
(طبقات ابن سعد 5 – 238، میزان الاعتدال 3 – (666)، لسان الیمزان 5 – (318))
علامہ ابن جوزی کی بیان کردہ ایک روایت کے مطابق امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کو یزید کے ایک خزانہ میں پایا گیا تو اسے کفن دے کر دمشق میں باب فراویس کے پاس دفن کر دیا گیا،محدثین کے نزدیک عثمان اور محمد (اس روایت کے دو راوی) ثقہ نہیں یعنی ان کا اعتبار نہیں اور پہلا قول (پہلی روایت) زیادہ صحیح ہے ۔ (تذکرہ الخواص (266) (265)، البدایۃ والنہایۃ 8 – (204))
تنبیہ: یہاں کچھ دیگر اقوال بھی ہیں جو درج ذیل ہیں:
۱: حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک کربلا کی طرف لوٹایا گیا اور جسم اطہر کے ساتھ دفن کیا گیا۔
۲: فرات کے کنارے مسجد رقہ میں مدفون ہوئے۔
۳: قاہرہ میں مدفون ہوئے
علامہ جوزی نے سند ذکر کی ہے جو کہ عندالمؤرخین حسن ہے۔
جب اسیرانِ کربلا کا قافلہ مدینہ میں داخل ہوا تو بنو عبدالمطلب کی ایک عورت نے اپنے بال کھولے اور اپنی آستین اپنے سر پر رکھے باہر نکلی اور ان سے آکر ملی اور رو رو کر کہنے لگی:
’’تم کیا جواب دو گے اگر نبی ﷺ نے تم سے پوچھ لیا کہ میری امت کے ہوتے ہوئے تم نے میرے بعد میری اہل بیت اور میری اولاد سے کیا سلوک کیا کہ ان سے بعض کو تم نے قیدی بنایا اور بعض کا خون بہایا، میں نے تمہیں جو نصیحت کی تھی کہ میرے بعد میرے قرابت داروں سے برا سلوک نہ کرنا اس کی جزا یہ تو نہ تھی۔‘‘
(تاریخ طبری 5 – 39، الکامل 4 – 81، البدایۃ والنہایۃ 8 – 198، معجم الکبیر طبرانی 3- 124 – (118)) حسن، واللہ اعلم
ابراہیم نخعی نے کہا اگر بالفرض میں قاتلینِ حسین کے ہمراہوں میں سے بھی ہوتاپھر مجھے کہا جاتا کہ جاؤ جنت میں داخل ہوجاؤ تو میں شرم محسوس کرتا کہ رسولﷺ مجھے دیکھ نہ لیں واللہ میں ایسا ہی کرتا(یعنی اپنے اس فعل کی وجہ سے رسول کا سامنا کرنے سے حیا اور ندامت محسوس کرتا )
(تہذیب الکمال 6 – 439، تہذیب التہذیب 2 – (355)، مجمع الزوائد 9 – (195)) امام عراقی کہتے ہیں اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر ملی تو آپؓ نے فرمایا انہوں نے (یزیدیوں نے) آپ کو شہید کیا ہے اللہ ان کی قبروں اور گھروں کو آگ سے بھر دے، پھر آپؓ پر بیہوشی طاری ہوگئی۔
(تہذیب الکمال 6 – 439، سیراعلام النبلاء 3 – (318))
عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں ایک روز میں نے دوپہر کے وقت خواب میں رسول ﷺ کو دیکھا کہ آپ کے بال بکھرے ہوئے گرد آلود ہیں، دست مبارک میں خون بھری ہوئی ایک بوتل ہے، میں نے عرض کیا یہ بوتل کیسی ہے اور اس میں خون کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ حسین اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے جسے میں آج صبح سے جمع کررہا ہوں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے تاریخ اور وقت کو یاد رکھا جب خبر آئی تو پتہ چلا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اسی دن شہید کیے گئے تھے۔
(مسند احمد 1 – 283، معجم الکبیر طبرانی 3 – (11)، مجمع الزوائد 9 – (194)) اس کی سند حسن ہے
میں ابن جوزی کہتا ہوں کہ عمرو بن سعد اور ابن زیاد کے فعل سے اتنا تعجب نہیں جتنا تعجب یزید لعین کے افعال قبیحہ سے ہے کہ اس نے اپنی غرض فاسد کے حصول کے لئے سر انور کی توہین کی۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کے دندان مبارک پر چھڑی ماری، سر انور کربلا سے کوفے، دمشق اور پھر کافی عرصہ گزرنے کے بعد مدینہ کی طرف واپس لوٹایا۔
کیا خوارج کے ساتھ بھی ایسا سلوک روا رکھنا جائز ہے؟ کیا شریعت کا حکم یہ نہیں تھا کہ ان کی نماز جنازہ پڑھائی جائے اور دفن کیا جائے؟ رہا یہ قول کہ میں ان کو قید کرتا یہ ایسا امر ہے جو فاعل اور معتقد کو لعنت سے نہیں بچا سکتا اور اگر وہ سر مبارک کا احترام کرتا جب وہ اس کے پاس پہنچا تھا اور اس پر نماز پڑھتا اور طشت میں نہ رکھواتا اور نہ ہی چھڑی کے ساتھ مارتا تو یہ فعل اس کو کیا ضرر و نقصان پہنچاتا کیونکہ قتل حسین سے اسے مقصود تو حاصل ہوچکا تھا لیکن اس میں جاہلیت کی کینہ پروری تھی، جس کی دلیل اس کا وہ شعرپڑھنا ہے جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے، اے کاش بدر میں قتل ہونے والے میرے بزرگ آج کا منظر دیکھتے۔

اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت توڑ دی

جب 62 ہجری کا آغاز ہوا تو یزید بن معاویہ نے عثمان بن محمد بن ابی سفیان کو مدینہ کا گورنر مقرر کیا اس نے مدینہ منورہ سے ایک وفد یزید کے پاس بھیجا جب وہ وفد واپس لوٹا تو انہوں نے مدینہ کے لوگوں کے سامنے یزید کا اصلی چہرہ ظاہر کیا اور کہا ہم اس آدمی کے پاس سے ہوکر آئے ہیں جس کا کوئی دین نہیں، وہ شراب پیتا ہے، ستار بجاتا اور گاتا ہے، کتوں سے کھیلتا ہے اور دل بہلاتا ہے، اے اہل مدینہ ہم تمہیں گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہم نے اس کی بیعت توڑ دی ہے۔
حضرت منذر بن زبیر بن عوام بن خویلد نے کہا خدا کی قسم اس نے مجھے ایک لاکھ درہم تحفہ میں دئیے ہیں لیکن یہ تحفہ مجھے یہ کہنے سے نہیں روک سکتا کہ میں اس کے بارے میں سچی بات بتاؤں، خدا کی قسم! وہ شراب پیتا ہے اور وہ نشہ میں چُور مست و مدہوش رہتا ہے یہاں تک کہ نمازوں کو چھوڑ دیتا ہے۔ (الکامل لابن عدی 4 – (103)، البدایۃ والنہایۃ 8 – (218) – (216))
پھر مدینہ کے باسیوں نے عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ یزید کے خلاف خروج کیا اور مرمٹنے پر ان کی بیعت کی جبکہ عبداللہ بن حنظلہ خود بھی مرنے مارنے کے لئے جنگ میں کود پڑے یہاں تک کہ شہید کردئیے گئے۔
(سیراعلام النبلاء 3 -(321))
اہل مدینہ نے یزید کے گورنر عثمان بن محمد کو مدینہ منورہ سے نکال دیا۔ حضرت ابن حنظلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اے قوم خدا کی قسم! ہم یزید کے خلاف اس وقت اُٹھ کھڑے ہوئے جب ہمیں یہ خوف لاحق ہوگیا کہ (اس کی بدکاریوں کی وجہ) سے ہم پر کہیں آسمان سے پتھر نہ برس پڑیں کیونکہ یہ بدبخت یزید ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ نکاح کو جائز قرار دیتا اور شراب پیتا، نماز کو چھوڑتا تھا خدا کی قسم! اگر لوگوں میں سے کوئی بھی میرا ساتھ نہ دیتا تب بھی میں پرواہ نہ کرتا اور اس معاملہ میں شجاعت کا مظاہرہ کرتا۔
عبداللہ بن عمرو جو کہ معیر اور ثقہ راویوں میں سے تھےفرماتے ہیں کہ اہل مدینہ منبر نبوی کے پاس جمع ہوئے اور یزید کی بیعت توڑ دی پس عبداللہ بن ابی عمرو بن حفص مخزومی نے کہا میں یزید کی بیعت اس طرح توڑتا ہوں جس طرح میں اپنا عمامہ اتارتا ہوں، پھر اپنا عمامہ اپنے سر سے اتار دیا فرمایا میں یہ کہہ رہا ہوں حالانکہ میں یزید کے انعام و اکرام سے نوازا گیا ہوں لیکن وہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے بہت نشہ کرنے والا ہے۔
یزید کو مدینہ کی بیعت توڑنے کی خبر پہنچی تو اس نے مسلم بن عقبہ (جو اموی دور میں چالاک اور سخت دل لوگوں کا لیڈر تھا) لشکر کا امیر بنا کر مدینہ پر چڑھائی کے لیئے بھیجا اور کہا کہ لوگوں کو تین مرتبہ میری بیعت کی دعوت دینا اگر وہ تیری دعوت کو قبول کرلیں تو ٹھیک ورنہ ان سے جنگ کرنا اور جب تو ان پر غلبہ حاصل کرلے تو تین دن کے لئے اسے (مدینہ) کو لوٹ مار کے لئے مباح قراردینا،اس میں جو کچھ مال و متاع اسلحہ ہتھیار اور کھانے کی چیزیں ہیں وہ سب لشکر کے لئے ہیں اور جب تین دن گزر جائیں تو ان سے ہاتھ روک لینا اور انہیں چھوڑ دینا، چنانچہ مسلم بن عقبہ نے تین دن کیلئے مدینہ کو مباح قرار دے دیا، مسلم کی فوج کے لوگ مردوں کو قتل کرتے اموال لوٹ لیتے اور عورتوں پر واقع ہوتے (یعنی عورتوں سے جبراً بدفعلی کرتے والعیاذ باللہ) (تاریخ طبری 5 – (484)، الکامل 4 – 112، البدایۃ والنہایۃ 8 -( 218)) یہ روایت حسن ہے۔
ایک عورت نے مسلم بن عقبہ سے اپنے بیٹے کے بارے میں سفارش کی جبکہ وہ پکڑا گیا تھا قید کرلیا گیا تھا تو اس نے کہا جلدی کرو پکڑ لاؤ اور اس کو قتل کردو پھر اس کی گردن مار دی گئی، پھر مسلم نے لوگوں کو یزید کی بیعت کرنے کی دعوت دی اور کہا کہ بیعت کرو اس پر کہ تم اس کے غلام ہو اور تمہارے مال بھی اسی کے ہیں، یزید بن عبداللہ نے کہا ہم کتاب اللہ پر بیعت کرتے ہیں چنانچہ اس کے حکم سے ان کو قتل کردیا گیا۔ (تاریخ طبری 5 – (491))
سعید بن مسیب کو پکڑ کر مسلم بن عقبہ کے پاس لایا گیا اور ان کو بیعت کا حکم دیا کہ تم یزید کی بیعت کرلو۔ انہوں نے جواب دیا میں صرف ابوبکر اور عمر کی بیعت پر ہوں، اس نے ان کے قتل کا حکم بھی دے دیا، ایک آدمی نے کہا سعید بن مسیب مجنون ہیں تو ان کو چھوڑ دیا گیا۔ (البدایۃ والنہایۃ 8 – (221))
المدائنی نے کتاب الحرۃ میں امام زھری سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا جنگ حرہ کے دن قریش انصار و مہاجرین اور ان کے غلاموں میں سے 700 لوگ شہید ہوئے اور غلاموں آزاد مردوں اور عورتوں میں سے جنہیں میں پہچانتا نہیں تھا وہ دس ہزار کی تعداد میں شہید ہوئے۔ (البدایۃ و النہایۃ 8 -221)
ایک اور روایت جس کا مفہوم یہ ہے کہ میں نے قریش کی ایک عورت کو طواف کرتے ہوئے دیکھا تھوڑی دیر میں ایک سیاہ رنگ کا نوجوان اس کے پاس آیا تو اس نے اسے گلے لگا لیا اور اس کو بوسہ دیا تو میں نے حیرانگی سے پوچھا اے اللہ کی بندی کیا تو اس سیاہ رنگ سے یہ کچھ کررہی ہے ، اس نے جواب دیا یہ میرا بیٹا ہے اس کا باپ یوم حرہ میں مجھ پر واقع ہوا تو میں نے اس کو جنا ہے۔
واقعہ حرہ کے بعد اہل مدینہ کی ہزار کنواری عورتوں کے ہاں بچے پیدا ہوئے ۔ (البدایۃ و النہایۃ 7 -221، تذکرۃ الخواص 289)
علامہ جوزی نے کچھ روایات نقل کی ہیں جن کا مختصر مفہوم ہم یہاں نقل کردیتے ہیں:
۱: علامہ جوزی کہتے ہیں جو عجائب دیکھنا چاہتا ہے وہ حرہ کے دن اہل مدینہ پر ڈھائے جانے والے ان مظالم کو دیکھ لے جو یزیدی لشکر کی لوٹ مار سے رونما ہوئے، جنہیں یزید نے اس کی کھلی چھٹی دے دی تھی۔ (الذیل علی طبقات الحنابلہ 1- 225)
۲: رسول ﷺ نے فرمایا جو اہل مدینہ کو ڈرائے اللہ اسے خوف میں مبتلا کرے، اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو، تمام فرشتوں کی، تمام انسانوں کی لعنت ہو اور اللہ قیامت کے دن اس کا کوئی عمل قبول نہیں کرے گا، نہ فرض نہ نفل۔ (مسند احمد 4 – 55)
۳: رسول ﷺ نے فرمایا جو بھی اہل مدینہ کو دھوکہ دے، اللہ تعالیٰ اس کو جہنم میں پگھلائے گا، جس طرح نمک پانی میں پگھل جاتا ہے ۔ (بخاری 3 – 27)
۴: رسولﷺ کی حدیث ہے، جو اہل مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے تو اللہ اس کو آگ میں پگھلائے گا، جس طرح تابنا آگ میں پگھلتا ہے یا نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔ (مسلم 4 – (113))
بےوقوف دشمن کا گمان ہے اس حدیث کی مراد یہ ہے کہ ان اہل مدینہ کو بغیر تاویل کے ڈرائے گا۔
حدیث کا یہ معنی جو اس مفضل نے سیکھا اور سمجھا ہے، اس میں شک نہیں کہ یہ معنی امام احمد سے مخفی و پوشیدہ رہا جبھی تو انہوں نے فرمایا کیا اہل مدینہ کو ڈرایا دھمکایا نہیں اور کوئی بھی یہ نہ جان سکا اور کسی کو بھی یہ معلوم نہ ہوگا کہ اس کا ڈرانا تاویل کے ساتھ تھا اگر بالفرض اس یزید کا اہل مدینہ کو ڈرانا جائز ہو کیونکہ وہاں اس کے خلاف خروج کیا گیا تھا تو ہمارے اس کلام کا جواب یہ ہے کہ کیا یہ بھی جائز تھا کہ تین دن کے لئے مدینہ میں لوٹ مار قتل و غارت گری اور عصمت دری کو مباح و حلال قرار دینے کا حکم دے اور ہم یہ ذکر کرچکے ہیں کہ اس نے یہ حکم دیا پھر جو کچھ واقعات رونما ہوئے کیا وہ اس سے راضی نہیں تھا۔ اور ہرگز ہرگز اس کا انکار نہیں کیا بلکہ اس پر مروان بن حکم کا شکریہ ادا کیا جیسا کہ اس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے اور یزید بن معاویہ کو اس جرم سے بری قرار دینا اور بھی بڑا جرم ہے۔

مسرف (مسلم) بن عقبہ کی ہلاکت

واقعہ حرہ 63ھ میں 28 ذوالحجہ بروز بدھ پیش آیا۔ جب 64ھ کا آغاز ہوا اور مسرف (مسلم بن عقبہ) اہل مدینہ سے جنگ کرکے فارغ ہوا اور اس کے لشکر نے ان کے اموال و اسباب کو لوٹ لیا تو وہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے جنگ و قتال کے لئے مکہ و مکرمہ کی طرف متوجہ ہوا مگر راستے ہی میں مرگیا، مدینہ منورہ کو تخت و تاراج کرنے اور اس کی موت کے درمیان چند دن کا ہی فاصلہ تھا یعنی وہ ایسے پگھل گیا جیسے نمک میں پانی پگھل جاتا ہے۔
زیاد کی حماقت کی وجہ سے مرتے وقت بھی یہی کہہ رہا تھا کہ اے اللہ مجھ سے لا الہ الا اللہ کی شہادت و گواہی کے بعد کبھی کوئی ایسا عمل نہیں ہوا جو اہل مدینہ سے جنگ و قتال سے زیادہ محبوب ہو۔ اگر اس کے بعد بھی تو نے مجھے جہنم میں داخل کیا تو ضرور میں شقی و بدبخت ہوں گا۔ (تاریخ طبری 5 – (497)، الکامل لابن عدی 4 – 122، البدایۃ والنہایۃ 8 – (232))
پھر اس نے حصین بن نمیر السکونی کو بلایا اور اسے کہاامیر المومنین نے میرے بعد تجھے لشکر کا امیر مقرر کیا تھا تو کوچ میں جلدی کر اور ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو تین دن مہلت نہ دینا، چنانچہ وہ چلا اور مکہ پہنچ کر ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کرلیا اور 64 دنوں تک محاصرہ جاری رکھا اور ان پر حلقہ تنگ کردیا۔ ان 64 دنوں میں شدید جنگ ہوئی، 3 ربیع الاول ہفتہ کے دن کعبہ پر گولہ باری کی گئی، منجنیق کے ذریعے ایک آدمی نے نیزے کے سِرے میں آگ کا شعلہ (چنگاری کو) رکھا، ہوا اس کو اڑا کر لے گئی تو کعبہ میں آگ لگ گئی اور غلافِ کعبہ جل گیا چنانچہ اہل مکہ کو ربیع الاول کے ماہ میں ہی یزید بن معاویہ کی ہلاکت کی خبر آگئی۔ واقعہ حرہ اور اس کی موت کے درمیان صرف تین ماہ گزرنے کا فاصلہ تھا پس وہ ایسے ہی پگھل گیا جیسے تانبا پگھل جاتا ہے آگ پر۔ جیسا کہ ہم نے رسولﷺ سے روایت کیا اس آدمی کے بارے میں جو اہل مدینہ سے برائی کا ارادہ کرے اور ہم اسی مختصر پر اکتفا کرتے ہیں کیونکہ مقصود تو اس سے حاصل ہوگیا ہے جو اس سے زیادہ معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے وہ میری کتاب کا مطالعہ کرے جس کا نام المنتظم في تاريخ الملوك والأمم لابن جوزی ہے۔

یزید کے خوف سے بعض صحابہ کی بیعت

ابن مغیث نے ایک روایت ذکر کی ہے کہ یزید کی ولی عہدی پر امت کی رضامندی ثابت ہے مگر پانچ صحابہ سے جنہوں نے اس کا انکار کیا ہے
۱: عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ
۲: ابن عمر رضی اللہ عنہ
۳: ابن زبیر رضی اللہ عنہ
۴: حسین رضی اللہ عنہ
۵: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
جواب: علامہ جوزی نے کہا عبدالمغیث تم ابن عراقی کے بارے میں کیسے روایت کررہے ہو کہ وہ راضی نہیں ہوئے جبکہ تم نے تو اس سے قبل ان کی بیعت کرنے کو اپنی دلیل بنایا ہے اس کو کیا سمجھا جائے جبکہ ہم نے بیان کیا ہے کہ جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کے لئے بیعت لی تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ چلے گئے۔
اور جب معاویہ کا وصال ہوا اور یزید کی بیعت لی گئی تو ابن عمر رضی اللہ عنہ دوبارہ مکہ چلے گئے۔ (تاریخ طبری 5 – (4-3)) بالآخر اپنی جان کے خوف سے بیعت کرلی۔
جان لیں کہ جن پر بھی بھروسہ اور اعتماد کیا گیا ان میں سے کوئی ایک بھی یزید کی بیعت پر راضی نہ ہوا یہاں تک کہ عوام نے بھی اس کی بیعت سے انکار کیا مگر اپنی جانوں کے خوف پر خاموش ہوگئے۔جب امامت جبراً و قہراً واقع ہو تو صرف ضرورت کے موقع پر علماء اس کی صحت کا حکم لگاتے ہیں، فقہائے کرام کا اجماع ہے کہ امامت واجب ہے، اس لیے کہ دنیا اور دین کے امور کا انتظام شرعاً مقصود و مطلوب ہے جو امام کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا لہٰذا امام مقرر کرنا واجب و ضرور ی ہے اس بات کابیان یہ ہے کہ آدمی کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہم جنس آدمیوں کے ساتھ میل جول رکھے اور طبعیتیں ظلم کا قصد و ارادہ بھی کرتی ہیں تو ایسی صورت میں ظلم و ستم کو روکنا اور منع کرنا ضرور ی ہے تاکہ دنیا اور دین سلامت رہے اور علماء کا اجماع ہے کہ اپنی خواہش کے ساتھ اما م کی تبعیض مقرر کرنا جائز نہیں بلکہ اس کے لئے کچھ شرائط ضروری ہیں، ان صفات کو (الکامل 4 – (166)) میں ملاحظہ فرمائیں۔
امام کی جملہ صفات اور امامت کی شرائط حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ذات مستور ہ صفات میں جمع میں تھیں اور اہل زمانہ میں سے کوئی بھی ان صفات میں آپ کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔ فقہاء کرام فرماتے ہیں فاضل پر مفضول کی ولایت جائز نہیں (اہل سنت اور زیدیہ کے نزدیک جائز ہے اور شیعہ امامیہ کے نزدیک جائز نہیں) (الفصل فی الملل ص 4 – (163))
مگر وہاں کوئی رکاوٹ اور مانع موجود یا تو فتنہ یا فساد کا خوف ہو یا پھر فاضل سیاست کا جاننے والا نہ ہو اور افضل کی تقدیم پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جو بخاری و مسلم میں عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ثقیقہ والے دن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا میں نے ان شخصیات میں سے ایک کو بطور خلیفہ پسند کرتا ہوں پس تم ان دونوں میں سے جس کو چاہے اس کی بیعت کرلو تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا خدا کی قسم اگر میں آگے بڑھوں پھر اس میں میری گردن مار دی جائے کوئی گناہ بھی میرے قریب نہ ہومیرے نزدیک یہ اس بات سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں اس قوم کا امیر بنوں جس میں ابوبکر موجود ہوں۔ (تاریخ طبری 3 – (433)، الکامل 2 – (425))
اس معاملہ میں کیا کوئی شک کرسکتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ یزید بن معاویہ کے مقابلے میں خلافت کے زیادہ حق دار تھے، نہیں ہرگز نہیں بلکہ وہ شخصیات جو مرتبہ میں حسین رضی اللہ عنہ سے کم مرتبہ ہیں، جیسے عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ وغیرہ ان میں سے نہیں مگر وہ جن کے لئے صحبت سب بہادری و دلیری ورع و تقویٰ اور وسیع علم ثابت ہے، یزید ان میں سے کسی چیز میں بھی مقابلہ نہیں کرسکتا پھر وہ کس وجہ سے تقدیم کا حقدار ثابت ہوسکتا ہے اور یزید کی بیعت پر نہ کوئی عالم راضی تھا نہ جاہل اور اگر کسی اھل الناس سے پوچھیں کہ ان دونوں میں سے کون زیادہ صلاحیت و قابلیت رکھتا ہے امام حسین رضی اللہ عنہ یا یزید تو یہی جواب ملے گا آپ کو کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ۔ پس ہمارے بیان میں ظاہر ہوگیا ہے کہ اس کی حکومت جبری تھی اور لوگ خوف اور ڈر کی وجہ سے خاموش ہوگئے تھے وہ جنہوں نے یزید کے خلاف خروج کیا اور اس کی بیعت نہیں کی ان میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے پھر جب انہیں جان کا خطرہ محسوس ہوا تو بیعت کرلی، عبدالمغیث نے بیعت کی صورت کو تو دیکھا مگر وہ بھول گئے کہ بیعت جبرا کرائی گئی تھی۔
اور جب اہل عراق نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ آپ ہمارے پاس تشریف لائیں ہم آپ کی بیعت کریں گے ، آپ زیادہ حق دار ہیں اور گمان کیا کہ ان سے حمایت و نصرت ملے گی مگر انہوں نے آپ کی مدد کو چھوڑ دیا اسی لیے تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ امر خلافت کے والی بنے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ وہ بھی زیادہ حق دار ہیں۔ یہ عبدالمغیث امر خلافت کے مستحق والی اور غیر مستحق جو ضرورتاًو جبراً والی بن بیٹھا ہو کے درمیان فرق نہیں کرتا۔

ظالم حاکم کی اطاعت و فرماں برداری کا مسئلہ

اس کے بعد عبدالمغیث نے وہ احادیث بیان کی ہیں جن میں ائمہ کی اطاعت کا وجوب ہے اگرچہ وہ ظالم ہوں اور اس نے کہا امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ میں ظالم ائمہ کی معیت و قیادت میں جہاد کو جائز سمجھتا ہوں، ہر فاجر نیک و بد کے پیچھے نماز پڑھنا جائز سمجھتا ہوں چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے حجاج کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔ اس پر علامہ جوزی ابن مغیث کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اے کم فھم انہوں نے ضرورت کے موقع پر اس کی اجازت دی ہے اسی لیے احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہم ہر نیک و بد کی اطاعت کریں گے اور اس کی بھی اطاعت کریں گے جس نے بذریعہ تلوار غلبہ حاصل کرلیا ہے یہ سب فتنوں سے بچنے کے لئے ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حجاج بن یوسف کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے اور اس کی اذیت و تکلیف پر صبر کا بھی مظاہرہ کرتے تھے۔ حضرت حسن بصری اور دیگر حجاج پر لعنت فرماتے اور اس کے خلاف بدعائیں کرتے تھے مگر فتنہ کے خوف سے اس کے خلاف جنگ و قتال سے روکتے اور منع کرتے تھے۔
امام فرماتے ہیں کہ میں حسن بصری کی مجلس میں تھا جب حجاج کا وہاں سے گزرہوا وہ ان کے پاس بیٹھ گیا پھر اُٹھ کھڑا ہوا اور سوار ہوگیا، ایک آدمی اُٹھ کھڑا ہوا اور اس نے کہا اے ابوسعید اس نے مجھے بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ میں نے گھوڑا اور ہتھیار لیے اور اللہ کی قسم! میرے عطیہ میں گھوڑے کی قیمت اور میرے اہل و عیال کا خرچہ نہیں ہے، حسن بصری کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے پھر فرمایا نہیں کیا ہے اللہ تعالیٰ اس کو غرق کریں کہ انہوں نے اللہ کے بندوں کو غلام بنا رکھاہے اور اللہ کے مال و دولت بنا لیا ہے اللہ کتاب کو پس پشت ڈال دیا ہے، شراب کو نبیذ کے ذریعے حلال قرار دیا ہے، لوگوں کا ناحق مال لیتا ہے اور اللہ کی ناراضگی میں خرچ کرتا ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ کا دشمن آتا ہے تو وہ احاطہ کیے ہوئے خیموں میں تیز رفتار خچروں پر سوار رات کو آنے والے ہوتے ہیں اور جب ان کا مسلمان بھائی آتا ہے تو وہ کمزور لاغر اور پیدل چلنے والے ہوتے ہیں۔ (المنتظم لابن جوزی 6 – (144))
حجاج نے خطبہ دیا اور اس کو اتنا لمبا کیا کہ وقت عصر نکل گیا حسن بصری نے کہا ٹھہر جاؤ رک جاؤ نماز کھڑی ہونے والی ہے پھر اپنے بھائیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ان کی طرف بھیجا گیا کمزور بدن والا کمزور لاغر آنکھ والا ملعون لعنت کیا ہوا عذاب دیا ہوا حسن بصری بھی کھڑے ہوگئے اور لوگ بھی اُٹھ کھڑے ہوئے۔ حجاج نے خطبہ چھوڑا نیچے اترا اور لوگوں کونماز پڑھائی اس کے بعد حسن بصری رحمہ اللہ علیہ کو طلب کیا مگر ان کو اذیت و تکلیف پہنچانے پر قادر نہ ہوسکا۔
ہم حسن بصری کے پاس تھے کہ ایک آدمی آیا اور اس نے کہا سعید بن جبیر کو حجاج نے قتل کردیا ہے۔
اشعث ھندانی نے کہا میں نے حجاج کو خواب میں دیکھا بُری حالت میں تو میں نے پوچھا تیرے ساتھ رب نے کیا کیا ہے؟
اس نے جواب دیا میں نے جس کو قتل کیا اللہ نے مجھے قتل کروا دیا ہے اس کے بدلے میں پھر اس کے بعد مجھے جہنم میں ڈال دیا ہے اس نے جواب دیا پھر تجھے کیا امیدہے کہ تُو جہنم سے نکل جائے گا اس (حجاج)نے کہا جس طرح ہر کلمہ پڑھنے والے کو امید ہوتی ہے کہ میں ضرور ایک نہ ایک دن جہنم سے ضرور نکل جاؤں گا۔ ابن سیرین نے کہا میں اس حجاج کے بارے میں امید رکھتا ہوں کہ وہ ضرور ایک دن جہنم سے آزاد ہوجائے گا۔ جب حضرت حسن بصری کو پتہ چلا ابن سیرین کی بات کا تو فرمایا اللہ کی قسم! اللہ اس کو کبھی بھی جہنم سے نہیں نکالے گا۔ (تہذیب التہذیب 2 – (213)، البدایۃ والنہایۃ 9 – (139))
عمر بن عبدالعزیز نے عدی بن ارطاۃ کو خط لکھا حجاج کے طریقے پر مت چلو کیونکہ وہ بغیر وقت کے نماز پڑھتا تھا، بغیر حق کے زکوۃ لیتا تھا اور اس کے علاوہ وہ سب کچھ ضائع کرنے والا تھا۔ (سیرۃ عمر بن عبدالعزیز ابن جوزی (88)، البدایۃ والنہایۃ 9 -(143)) حسن
اور کسی چیز کی بھی پرواہ نہیں کرتا تھا۔ عمر بن عبدالعزیز بیان کرتے ہیں قیامت کے دن اگر امتوں میں برائی ظاہر کرنے کا مقابلہ ہوا اور ہر امت نے اپنے ناپاک وخبیث کو ظاہر کیا اور پھر ہماری امت نے حجاج کو نکالا تو ہم ان سب پر غالب آجائیں گے۔ (الکامل 9 – (586))
عمر بن عبدالعزیز اپنے عزیز واقارب حکمرانوں کے ظلم کی وجہ سے ان کی مذمت کیا کرتے تھے، ان کا حکمران ہونا بھی انہیں اس بات سے نہیں روک سکا۔ عمر بن عبدالعزیز خلیفہ بنے تو انہوں نے ان کے مظالم کو بند کروا دیا جو ان کے خاندان کی طرف سے جاری تھے۔
عمر بن الولید عبدالملک کو اطلاع ملی تو اس نے انہیں خط لکھا تم نے اپنے سے پہلے بادشاہوں کو عیب دار بنا دیا ہے اور ان کے طریقے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کیا ہے اور تم نے اپنے رشتہ داروں اور اہل قرابت کو ظلم و ستم کے ساتھ مخصوص کیا ہے حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اسے جواباً لکھا تمہاری پہلی حالت یہ ہے ولید کا بیٹا ہونا جیساکہ زعم و گمان کیا گیا ہے تمہاری ماں بنانیہ تھی جو حمص کے بازار میں پھرا کرتی تھی اللہ اسے بہتر جاننے والا ہے، ذبیان نے اسے مسلمانوں کے مال میں سے خرید لیا اور پھر تیرے باپ کو تحفہ دے دیا تو وہ تجھ سے حاملہ ہوئی کیا ہی تھا وہ حمل اور کیا ہی برا ہے مولود پھر تو پروان چڑھا تو تو مفرور و سرکش اور مخالف حق تھا تو یہ گمان کرتا ہے کہ میں ظالموں میں سے ہوجاؤں حالانکہ مجھ سے زیادہ ظالم اور اللہ کے عہد کو ترک کرنے والا وہ ہے جس نے تجھے مسلمانوں کے لشکر کا امیر مقرر کیا جبکہ تو تو بچہ اور بے وقوف تھا، تو ان میں اپنی رائے سے فیصلہ کرتا ہے پس خرابی ہے تیر ےلیے اور تیرے باپ کے لئے، قیامت کے دن تم دونوں کے دشمن بہت کثیر ہوں گے ،مجھ سے زیادہ ظالم اور اللہ کے عہد کو ترک کرنے والا ہےاور توڑنے والا وہ ہے جس نے حجاج کو گورنر مقرر کیا جو حرام خون بہاتا ہے مال لیتا ہے، اور مجھ سے زیادہ ظالم اور اللہ کے عہد کو ترک کرنے والا وہ ہے جس نے قرہ بن شریک کو مصر کا گورنر بنایا جوکہ دیہاتی بڈھا کھونسٹ تھا جسے گانے بجانے لہوولہب کھیل کھود اور شراب پینے کی کھلی چھٹی تھی۔
سعید بن مسیب تابعی بیان کرتے ہیں میں جب بھی اللہ کی رضا کے لئے نماز پڑھتا تو بنی مروان کے لئے بددعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہلاک کردے۔

امام عالی و مقام پر خروج کی تہمت اور اس کی حقیقت

اس مخالف جھگڑالو مد مقابل عبدالمغیث نے کہا کہ کچھ لوگ اس طرف گئے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ خروج کرنے والے تھے، ہم کہتے ہیں کہ خروج کرنے والا وہ ہوتا ہے جو مستحق امامت کے خلاف خروج کرے جبکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے باطل کو دفع کرنے اور اقامت حق کے لئے خروج فرمایا، میں نے امام ابن عقیل سے سنا کہ ایک آدمی نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ کہہ دیا کہ وہ خارجی تھا نعوذ باللہ۔ا س بات سے میرے دل میں ایک چوٹ لگی، میں نے جواب دیتے ہوئے کہا اگر رسولﷺ کے بیٹے ابراہیم زندہ ہوتے تو نبوت کی صلاحیت رکھتے بالفرض اگر حضرت حسن حسین رضی اللہ عنہما ابراہیم کے مقام و مرتبہ سے کم بھی ہوں جو انہیں نبی کےساتھ حاصل ہے حالانکہ آپ نے ان دونوں حسن و حسین کو اپنا بیٹا ہی قرار دیا ہے تو حسین یہ صلاحیت نہیں رکھتے کہ خلیفہ ہوں؟۔ آپ کو خارجی کہنا اور بنی امیہ کے جبر و قہر کی وجہ سے آپ کو امامت سے خارج کردینادین و عقل کے تقاضوں کے سراسر خلاف ہے۔
ابن عقیل کہتے ہیں اے مخاطب جب میں تجھے لوگوں کی وفادری کی خبر دوں تو میری تصدیق مت کرنا کیونکہ مخلوق پر رسولﷺ کا حق سب سے بڑھ کر ہے اور سب لوگوں سے زیادہ ہے۔ اس لیے کہ آپ نے مخلوق کو ہدایت دی اور تعلیم دی، بھوکوں کو کھانا کھلایا، جو ذلیل تھے ان کو عزت دی اور آخر میں ان سے شفاعت کا وعدہ کیا۔
جیسا کہ قرآن میں اللہ فرماتے ہیں
لَّا اَسْئَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰى
میں نہیں مانگتا تم سے اس دعوت حق پر کوئی معاوضہ سوائے قرابت داری کی صحبت کے۔
لوگوں نے آپﷺ کے صحابہ کو قتل کیا اور آپ کی اولاد کو ہلاک کیا۔
مخالف مدمقابل کہتا ہے آپ لوگ یزید کے باپ معاویہ کے احترام کے پیش نظر یزید کے بارے میں سکوت کیوں نہیں اختیار کرلیتے ؟
جواب: ہم کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل اور قاضی ابویعلیٰ اور ان کے بیٹے ابو الحسین نے تو سکوت اختیار نہیں کیا حالانکہ وہ تمہارے استاد ہیں۔ (الذیل علی طبقات الحنابلہ 1 – (177))
ہم پوچھتے ہیں کہ تم اپنے استاد کی موافقت کیوں نہیں اختیار کرتے ۔ درج ذیل دو میں سے ایک امر ہی تجھے ان کی موافقت سےروک پا رہا ہے۔یا پھر تمہارا مقصود یہ ہے کہ مخالفت کرو تاکہ پہچانے جاؤ۔
کیا لوگوں کا اتفاق نہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص عشرہ مبشرہ میں سے ہیں جن کے لئے جنت کی گوا ہی دی گئی ہے نیز ان کا شمار اصحاب بدر اور اصحاب شوریٰ میں بھی ہوتا ہے لیکن ان کے بیٹے عمرو نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک روا رکھا اس کی وجہ سے لوگوں نے اس کے بارے میں کوئی خاموشی (سکوت) اختیار نہیں کی کیونکہ دین (اس طرح کی ناجائز) باہمی محبت کا احتمال نہیں رکھتا۔
اس شیخ عبدالمغیث نے بطور دلیل یہ کہا ہے کہ یزید سخی تھا اس نے عبداللہ بن جعفر کو چار لاکھ درہم دے دئیے۔
ہم کہتے ہیں کہ جس امر کے ساتھ تم اس کی مدح و ستائش کررہے ہو، وہ مدح و ستائش کے لائق نہیں بلکہ وہ تو قابل مذمت ہے کیونکہ ایسا کرنا (درہم و دینار کا بے دریغ خرچ کرنا) تو مسلمانوں کے بیت المال میں اسراف و تبذیر اور فضول خرچی ہے اور جو ایسا کرے وہ قابل تعریف نہیں بلکہ قابل مذمت ہوتا ہے۔ وہ اپنے مال میں سے نہیں بلکہ مسلمانوں کے بیت المال میں سے دیتا تھا اور اس لیے دیتا تھا کہ لوگ اس کے بارے میں خاموش رہیں۔ اس شیخ نے کہا وہ قرن ثانی دوسری صدی ہجری میں تھا جبکہ رسولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم سب سے بہترین لوگ ہو پھر وہ لوگ جوان کے بعد آئیں گے۔ (صحیح بخاری 8 – (176)، مسلم 8 – (184))
ہم جواباً کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے عموم قرن کی طرف اشارہ فرمایا ہے یہ اشارہ ان کی طرف نہیں ہے جو اس فضلیت سے خارج ہیں یعنی فساق وغیرہ جو اپنے فسق و فجور کی وجہ سے فضیلت سے خارج ہیں۔
دوسری صدی میں تو حجاج وغیرہ جیسے ظالم بھی موجود تھے اور معبد جہنی جیسے بھی۔ عبدالمغیث کہتا ہے روایت کیا گیا ہے کہ کچھ لوگ یزید کے پاس گئے تو وہ قرآن پڑھ رہا تھا۔اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں یہ سراسر جھوٹ ہے اور اسی پر ہم جدائی اختیار کرتے ہیں۔
ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنی عقلوں سے نفع اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے اور خواہشاتِ نفس کی موافقت و مطابقت سے ہمیں محفوظ فرمائے یقیناً وہ قریب اور دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے اور سب تعریف اللہ کے لئے ہے جو یکتا اور وحدہ لاشریک ہے اور اللہ تعالیٰ ہمارے آقا رسول ﷺ اور آپ کی آل اور اصحاب پر درود و سلام نازل فرمائے۔

مصادر

۱: تاریخ بغداد و مدینہ – تالیف احمد بن الخطیب بغدادی
۲: تذکرۃ الخواص الامۃ فی خصائص الائمۃ – یوسف بن فرغلی بن عبداللہ البغدادی سبط ابن جوزی
۳: تہذیب التہذیب – لابن حجر عسقلانی
۴: الاخبار الطوال – احمد بن دینوری
۵: الاعلام – خیر الدین الزرکلی
۶: معجم البلدان – یاقوت الحموی الرومی بغدادی
۷: المیزان الاعتدال فی نقد الرجال الذھبی
۸: منہاج السنہ- لابن تیمیہ
۹: الملل والنحل- لابن عبدالکریم
۱۰: طبقات الکبریٰ- لابن سعد
۱۱: الصواعق المحرقة في الرد على أهل البدع والزندقة – ابن حجر الھیتمی
۱۲: سیر اعلام النبلاء لذھبی
۱۳: سیرۃ عمر بن عبدالعزیز – لابن جوزی
۱۴: تہذیب الکمال فی اسماء الرجال – لابن یوسف المزی
۱۵: تاریخ الرسل و الملوک – لابن جریر
۱۶: الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ – لابن حجر

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: