آمنہ کا بیان ہے کہ جب میرے یہاں حضور کی ولادت ہوئی تو ایک بڑا ابر کا ٹکڑا نظر آیا، جس میں سے گھوڑوں کے ہنہنانے، پروں کے پھٹپھٹانے اور لوگوں کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ ابر کا ٹکڑا بچہ کے اوپر چھا گیا۔ اور بچہ میری نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ البتہ منادی کی آوازیں سنائی دی کہ محمد کو ملکوں ملکوں پھراؤں اور سمندر کی تہوں میں لے جاؤ کہ تمام دنیا ان کے نام و نشان کو پہچان لے اور جن و انس چرند و پرند اور ملائکہ بلکہ ہر ذی روح کے سامنے ان کو لے جاؤ۔ ان کو آدم علیہ السلام کا خلق، شیث علیہ السلام کی معرفت، نوح علیہ السلام کی شجاعت، ابراہیم علیہ السلام کی دوستی، اسمعیل علیہ السلام کی زبان، اسحاق علیہ السلام کی رضا، صالح علیہ السلام کی فصاحت، لوط علیہ السلام کی حکمت، موسیٰ علیہ السلام کی سختی، ایوب علیہ السلام کا صبر، یونس علیہ السلام کی اطاعت، یاشع علیہ السلام کا جہاد، داؤود علیہ السلام کی آواز، دانیال علیہ السلام کی محبت، الیاس علیہ السلام کا وقار، یحییٰ علیہ السلام کی پاکدامنی اور عیسیٰ علیہ السلام کا زہد عطا کرو۔ اور تمام پیغمبروں کے اخلاق میں انہیں غوطہ دو۔
آمنہ کہتی ہیں پھر یہ منظر ہٹ گیا۔ تو میں نے دیکھا کہ آپ سبز حریر میں لپٹے ہیں۔ اور اس کے اندر سے پانی ٹپک رہا ہے۔ آواز آئی۔ ہاں محمد نے تمام دنیا پر قبضہ کر لیا۔ اور کوئی مخلوق ایسی نہ رہی جو ان کے حلقہ اطاعت میں نہ آ گئی ہو، کہتی ہیں کہ پھر میں نے دیکھا تو نظر آیا کہ آپ کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہے۔ اور مشک خالص کی سی خوشبو آپ سے نکل رہی ہے۔ دفعۃ تین آدمی نظر آئے۔ ایک کے ہاتھ میں چاندی کا آفتابہ ہے۔ دوسرے کے ہاتھ میں سبز زمرد کا طشت ہے۔ اور تیسرے کے ہاتھ میں سفید ریشم ہے۔ اس نے سفید ریشم کو کھول کر اس میں سے انگوٹھی۔ جس کو دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوتی تھیں نکالی۔ پہلے اس نے انگوٹھی کو سات دفعہ اس آفتابے کے پانی سے دھویا۔ پھر مونڈھے پر مہر کر کے بچہ کو تھوڑی دیر کے لئے اپنے بازؤں میں لپیٹ لیا۔ اور پھر مجھے واپس کر دیا۔
تحقیق الحدیث :
اس حکایت کی بنیاد یہ ہے کہ قسطلانی نے مواہب لدنیہ میں السعادة والبشری نامی ایک میلاد کی کتاب سے اس کو نقل کیا ہے۔
اور السعادة والبشری کا مصنف کہتا ہے کہ اس نے خطیب سے اس روایت کو لیا ہے۔
روایات کے لحاظ سے خطیب کی تاریخ کا جو درجہ ہے وہ کسے معلوم نہیں۔
قسطلانی نے اس روایت کو ابونعیم کی طرف بھی منسوب کیا ہے مگر دلائل ابو نیم کے مطبوعہ نسخہ میں تو اس کا پتہ نہیں۔
غنیمت یہ ہے کہ حافذ قسطلانی نے خو د تصریح کر دی ہے کہ اس میں سخت نکارت ہے۔
—————— گہوارے میں کلام کرنا
حافظ ابن حجر سے فتح الباری ج 2 ص 344 پر واقدی کی سیر کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے گہوارے میں کام کیا۔ ابن سبع کی خصائص میں ہے کہ فرشتے آپ کا پنگوڑا ہلاتے تھے، سب سے پہلا فقرہ زبان مبارک سے یہ نکلا۔
الحمد لله كبيرا والحمد لله كثيرا .
ابن عائد وغیرہ میلاد کی بعض اور کتابوں میں اور فقرے بھی منسوب ہیں۔ مثلاً کہ آپ نے لا اله الا الله يا جلال ربي الرفيع پڑھا۔
تحقیق الحدیث :
واقدی کی سیر سے مراد اگر واقدی کی مغازی ہے تو اس کا کلکتہ کا مطبوی نسخہ جو میرے پیش نظر ہے۔ اس میں یہ واقعہ مذکور نہیں۔ اور اگر ہوتا بھی تو واقدی کا کیا اعتبار ہے؟
ابن سبع اور ابن عائد وغیر ہ زمانہ متاخر کے لوگ ہیں۔
اور قدماء سے روایت کی نقل میں بےاحتیاط ہیں۔ کسی قدیم ماخذ سے اس روایت علم نہیں ہوتا۔ معلوم نہیں انہوں نے یہ روایتیں کہاں سے لیں۔
—————— چاند سے باتیں کرنا
بیان کیا جا تا ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اللہ ! مجھ کو جس نشانی نے آپ کے مذہب میں داخل ہونے کا خیال دلایا وہ یہ ہے کہ جب آپ گہوارے میں تھے۔ تو میں نے دیکھا کہ آپ چاند اور چاند آپ سے باتیں کرتا تھا۔ اور انگلی سے آپ اس کو جدھر اشارہ کرتے تھے، ادھر جھک جاتا تھا۔ فرمایا : ہاں، وہ مجھ سے باتیں کرتا تھا اور میں اس سے باتیں کرتا تھا۔ وہ مجھے رونے سے بہلاتا تھا۔ اور عرش کے نیچے جا کر جب وہ تسبیح کرتا تو میں اس کی آواز سنتا تھا۔
تحقیق الحدیث :
یہ حکایت دلائل بیہقی، کتاب المائتین صابونی، تاریخ خطیب اور تاریخ ابن عساکر میں ہے۔
مگر خود بیہقی نے تصریح کی دی ہے کہ یہ صرف احمد بن ابراہیم جبلی کی روایت ہے اور وہ مجہول ہے۔
صابونی نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ روایت سند اور متن دونوں لحاظ سے غریب ہے۔
علاوہ ازیں حضرت عباس رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دو سال بڑے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شیرخوارگی کے زمانہ میں وہ خود شیرخوار ہوں گے۔
——————
ایک یہودی کی بشارت
بیان کیا جا تا ہے کہ جس شب آپ پیدا ہوئے، قریش کے بڑے بڑے سردار جلسہ جمائے بیٹھے تھے۔ ایک یہودی نے جو مکہ میں سوداگری کرتا تھا ان سے آ کر دریافت کیا، کہا تمہارے یہاں آج کسی کے گھر بچہ پیدا ہوا ہے؟ سب نے اپنی لاعلمی ظاہر کی۔ اسی نے کہا : اللہ اکبر تم کو نہیں معلوم تو خیر میں جو کچھ کہتا ہوں اس کو سن لو، آج شب کو اس پچھلی امت کا نبی پیدا ہوا ہے۔ اس کے دونوں مونڈھوں کے بیچ میں ایک نشانی ہے، اس میں گھوڑے کے ایال کی طرح کچھ اوپر تلے بال ہیں، اور وہ دو دن تک دودھ نہ پئے گا۔ کیونکہ ایک جن نے اس کے منہ میں انگلی ڈال دی ہے۔ جس سے وہ دودھ نہیں پی سکتا۔ جب جلسہ برخواست ہو گیا۔ اور لوگ گھروں کو لوٹے تو معلوم ہوا کہ عبداللہ بن عبد المطلب کے گھر لڑکا پیدا ہوا ہے۔ لوگ اس یہودی کو آمنہ کے گھر لائے۔ اس نے بچے کے پیٹ پر تل دیکھا تو غش کھا کر گر پڑا۔ جب ہوش آیا تو لوگوں نے سبب پوچھا۔ اس نے کہا : اللہ کی قسم ! اسرائیل کے گھرانے سے نبوت رخصت ہو گی۔ اے قریش ! تم اس کی پیدائش سے خوش ہو، ہوشیار، اللہ کی قسم یہ ایک دن تم پر ایسا حملہ کرے گا جس کی خبر چار دانگ عالم میں پھیلے گی۔
تحقیق الحدیث :
یہ روایت حاکم کی مستدرک میں ہے، [مستدرك حاكم 602/2 رقم 4177، السيرة النبويه 101/1،، مختصر المستدرك 1055/2]
اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
مگر اہل عمل جانتے ہیں کہ حاکم کا کسی روایت کو صحیح کہنا ہمیشہ تنقید کا محتاج رہتا ہے۔
چنانچہ حافظ ذہبی نے تلخیص مستدرک کی [ج 2 ص 602] میں حاکم کی تردید کی ہے۔
اس کا سلسلہ روایت یہ ہے کہ یعقوب بن سفيان فسوی، ابوغسان محمد بن یحییٰ کنانی سے اور وہ اپنے باپ یحییٰ بن علی کتانی سے اور وہ محمد بن اسحاق ( مصنف سیرت) سے روایت کرتا ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ابن اسحاق نے خود اپنی سیرت میں یہ روایت نہیں لی۔
ابوغسان محمد بن یحییٰ کو گو بعض محدثین ( بخاری) نے ثقہ کہا ہے مگر محدث سلمانی نے اس کو منکر الحدیث ( ایسی باتیں بیان کرنے والا جن کی تصدیق دیگر معتبر روایات سے نہیں ہوتی) کہا ہے۔
ابن حزم نے اس کو مجہول کہا ہے۔
بہرحال اس تک غنیمت ہے۔ مگر اس کے باپ یحییٰ بن علی کا کہیں کوئی ذکر نہیں کہ یہ کون تھا اور کب گزرا ہے؟
اس قسم کی ایک روایت اسی راہب کے متعلق ابو جعفر بن ابی شیبہ سے مروی ہے۔ اور ابونعیم نے دلائل میں اور ابن عساکر نے تاریخ میں اس کو ذکر کیا ہے۔ لیکن زرقانی نے لکھا ہے کہ ابو جعفر بن ابی شیبہ نامعتبر ہے۔
——————
پیدا ہوتے ہی سجدہ کرنا
آمنہ کہتی ہیں کہ جب آپ پیدا ہوئے تو ایک روشنی چمکی۔ جس سے تمام مشرق و مغرب روشن ہو گئے۔ اور آپ دونوں ہاتھ ٹیک کر زمین پر گر پڑے۔ (شاید مقصود یہ ہے کہ آپ سجدہ میں گر گئے ) پھر مٹھی سے مٹی اٹھائی۔ ( اہل میلاد اس سے یہ مطلب لیتے ہیں کہ آپ نے پوری روئے زمین پر قبضہ کر لیا ) اور آسمان کی طرف سر اٹھایا۔
تحقیق الحدیث :
یہ حکایت ابن سعد میں متعدد طریقوں سے مذکور ہے مگر ان میں سے کوئی قوی نہیں۔
اس کے قریب قریب ابونعیم اور طبرانی میں روایتیں ہیں۔ ان کا بھی یہی حال ہے۔