سوال : کیا گروی رکھی ہوئی ہر چیز سے فائدہ حاصل کرنا ٹھیک ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دی ہے
جواب : ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
« يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا تَأْكُلُوْا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ » [النساء : 29]
”اے ایمان والو ! اپنے مالوں کو آپس میں ناجائز طریقے سے مت کھاؤ۔“
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«اِنَّ دِمَاءَکُمْ وَاَمْوَالَکُمْ حَرَامٌ عَلَیْکُمْ» [مسلم، كتاب الحج : باب حجة النبى 1218]
”بلاشبہ تمہارے خون اور اموال تم پر حرام ہیں۔“
ان واضح دلائل سے معلوم ہوا کہ مسلمان کا مال مسلمان پر اصلاً حرام ہے۔ جوازِ تصرف کے لیے کسی شرعی دلیل کی ضرورت ہے جو یہاں مقصود ہے۔ گروی رکھنے والا شخص اپنی گروی شدہ چیز کا مالک ہے اور اس کا اپنی چیز سے فائدہ اٹھانا تو معقول ہے جب کہ جس کے پاس گروی رکھی گئی ہے اس کی حیثیت امین کی ہے اور اس کے پاس پڑی ہوئی چیز امانت ہے جو رقم کے تحفظ کے لیے ہے، تو کسی کی امانت میں تصرف کرنا خیانت اور ناجائز ہے۔ اور حدیث میں جو خرچ کے عوض جانور کا دودھ دوہنے اور اس پر سواری کرنے کی اجازت ہے اس سے استدلال کرنا درست نہیں کیونکہ یہ حدیث عمومی شرعی اصول کے منافی ہے، یہ صرف سواری کے ساتھ خاص ہے، اس پر عام قیاس کرنا درست نہیں۔ صحیح بخاری میں امام بخاری رحمہ اللہ کا فہم بھی یہی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”ایک گروہ نے کہا ہے کہ جس کے پاس گروی رکھی گئی ہے وہ خرچ کے عوض گروی جانور پر سواری کر سکتا ہے اور دودھ دوہ سکتا ہے۔ اس حدیث کی وجہ سے دو فائدوں کے علاوہ فائدہ حاصل نہیں کر سکتا۔“ [فتح الباري 144/5]
پھر فرماتے ہیں کہ جمہور اہلِ علم کا یہی مسلک ہے کہ جس کے پاس گروی رکھی گئی ہے وہ گروی اشیاء سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ سلف صالحین سے کچھ ایسے صریح آثار بھی مروی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مقروض آدمی کے مال سے فائدہ اٹھانا درست نہیں۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ طیبہ آیا تو میری ملاقات عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ہوئی، انہوں نے کہا: ”آپ میرے گھر آئیں تو میں آپ کو ستو اور کھجور کھلاؤں گا اور آپ ایک عظیم گھر میں آئیں گے۔“ پھر فرمایا : ”تم ایک ایسی زمین پر ہو جس میں سود عام ہے، جب تمہارا کسی شخص پر حق ہو اور وہ تمہیں بھس، جو اور چارے کا گٹھا بطورِ تحفہ دے تو اسے قبول نہ کرنا کیونکہ یہ سود ہے۔“ [بخاري، كتاب الانصار : باب مناقب عبدالله بن سلام 3814]
سالم بن ابی الجعد فرماتے ہیں :
”ہمارا ایک پڑوسی مچھلی فروش تھا، اس کے ذمے کسی آدمی کے پچاس درہم تھے۔ وہ قرض دینے والے کو مچھلی ہدیہ بھیجتا تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما آئے تو اس نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا: تو انہوں نے فرمایا : ”جو وہ تجھے تحفے میں دے رہا ہے اسے حساب میں شمار کرو۔“ [بيهقي 350/5]
ان صحیح اور صریح آثار سے معلوم ہوا کہ قرض لینے والے شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مقروض کی کسی چیز سے فائدہ اٹھائے، لہٰذا اگر کسی شخص کے پاس کوئی چیز گروی رکھی گئی ہو تو وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور اگر وہ فائدہ اٹھائے تو اصل رقم سے حساب کر کے اتنی رقم کم کر دی جائے گی اور اگر حق سے زائد فائدہ اٹھایا ہو تو یہ واپس کرنا ہو گا وگرنہ سود ہو گا۔ (واللہ اعلم)