سوال :
ایک آدمی نے کسی عورت کا نکاح کر دیا، جبکہ وہ عورت پہلے سے شادی شدہ ہے، تو کیا اس طرح نکاح پر نکاح کر دینا جائز و درست ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو ایسے نکاح خواں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کتاب وسنت کی رو سے راہ نمائی کریں۔
جواب :
اسلام کے تمام احکام بین، واضح اور روشن ہیں، کسی میں بھی ابہام و اخفاء نہیں ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن حکیم میں حرام رشتوں کا بالتفصیل ذکر فرمایا ہے۔ اسی طرح رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بڑی وضاحت کے ساتھ رشتوں کی حرمت کا ذکر کیا ہے۔ کچھ رشتے نسبی، کچھ رضاعی اور کچھ سسرالی حرام ہیں، اسی طرح شادی شدہ عورت کے ساتھ نکاح کرنا بھی حرام ہے۔ جب تک وہ کسی کے نکاح میں ہے، دوسرے آدمی کو اس سے نکاح کرنے کی اجازت نہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا ہے: ﴿وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ﴾ (النساء : 24) ”اور تمھارے اوپر شادی شدہ عورتیں بھی حرام کر دی گئیں۔“
اسلام کی پیاری تعلیمات میں شوہر والی عورت سے نکاح کی بات تو بہت بعید ہے، اگر کوئی مرد کسی جگہ نکاح کا ارادہ رکھتا ہو اور اس کی وہاں منگنی ہو گئی ہو تو کسی دوسرے آدمی کو اس کی منگنی پر منگنی کرنا بھی حرام ہے، تاوقتیکہ پہلے آدمی کی بات ختم ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ولا يخطب الرجل على خطبة أخيه حتى ينكح أو يترك
بخاري، كتاب النكاح، باب لا يخطب على خطبة أخيه الخ (5144)، مسلم، کتاب النکاح، باب تحريم الجمع بين المرأة … الخ (1408/38)
”کوئی مرد اپنے بھائی کی منگنی پر منگنی نہ کرے، یہاں تک کہ وہ نکاح کر لے یا چھوڑ دے۔“ جب منگنی پر منگنی کرنا منع اور حرام ہے تو نکاح پر نکاح کر لینا کیسے درست اور جائز ہو سکتا ہے۔ جس آدمی نے یہ حرکت کی ہے اولاً تو اسے اس عورت سے جدا کرنا چاہیے، ثانیاً اگر اسلامی حکومت قائم ہو اور حدود کا نفاذ ہو تو انھیں سزا دینی چاہیے۔ ان کا نکاح پڑھنے والے شخص نے اگر لاعلمی میں ایسا کیا ہے تو قابل مواخذہ نہیں ہے، قرآن پاک میں ہے:
﴿رَبَّنَا لا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا﴾
(البقرة : 286)
”اے ہمارے پروردگار! اگر ہم بھول جائیں، یا خطا کر لیں تو ہمارا مواخذہ نہ کر۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
رفع القلم عن ثلاثة : عن المجنون المغلوب على عقله، وعن النائم حتى يستيقظ، وعن الصبي حتى يحتلم
ابن حبان (193)، ابو داود (4399)، مسند احمد (154/1 : 1348)
”تین قسم کے لوگوں سے قلم اٹھا دیا گیا ہے، ایسے مجنون سے جس کی عقل پر جنون غالب آگیا ہو، سوئے ہوئے شخص سے حتیٰ کہ وہ بیدار ہو جائے اور بچے سے جب تک وہ بالغ نہ ہو جائے۔“
اور اگر قصداً ایسا کیا ہے تو بہت بڑی جسارت کی ہے، اس پر خلوص دل سے توبہ کرے، آئندہ ایسے عمل سے مکمل اجتناب کرے اور اپنی غلطی پر ندامت اختیار کرے، معافی مانگے اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے۔
علماء و خطباء کو چاہیے کہ مکمل چھان بین اور تحقیق کے ساتھ امور انجام دیں، ورنہ دینی نقصان کے علاوہ دین کے لیے بڑا نقصان ہے، لوگ جب کسی عالم دین پر آوازیں کہتے ہیں تو اس عالم کی وجہ سے دین سے بیزاری اور نفرت جنم لیتی ہے اور لوگ اسلام کو سلام کر بیٹھتے ہیں۔