سوال :
کیا ایک عورت اپنی بیٹی کی ولی بن کر اس کا نکاح کروا سکتی ہے، جبکہ لڑکی کا باپ بھی موجود ہے؟ کتاب وسنت کی رو سے واضح فرمائیں۔
جواب :
عورت کے نکاح کے لیے ولی کا ہونا ضروری ہے اور ولی مرد ہی ہو سکتا ہے۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا نكاح إلا بولي (ابو داؤد، کتاب النکاح، باب فی الولی (2085)، ابن ماجه(1881)، ترمذی (1101)، حاكم (169/2)
”ولی کے بغیر نکاح نہیں۔“
اس حدیث کو امام ترمذی، ابن حبان (6075 تا 2078) اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جس بھی عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔“
(أبوداؤد، كتاب النكاح ،باب فی الولی (2083)، ترمذی (1102)، ابن حبان (4074)، حاکم (168/2 ح : 2706)
اس حدیث کو بھی امام ابن حبان اور امام حاکم وغیرہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ شیخ الاسلام ذکر اللہ انصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ولی کے بغیر واقع ہونے والا نکاح صحیح نہیں ہے۔ “(فتح العلام : ص 512 )
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
”کوئی عورت کسی عورت کی شادی نہ کرے اور نہ کوئی عورت اپنی شادی بذات خود کرے۔“
ابن ماجه كتاب النکاح باب لا نكاح إلا بولى (1882)، دارقطنی (227/3) البیہقی (110/7)
شیخ الاسلام ذکر اللہ انصاری رحمہ اللہ نے فتح العلام (ص 531 ) میں اس حدیث کو بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ عورت نہ اپنا نکاح خود کر سکتی ہے اور نہ کسی دوسری عورت کا اور اس میں عزت اشرافت ہے۔ جو عورتیں گھروں سے راہ فرار اختیار کر کے اپنا نکاح خود منعقد کر دیتی ہیں وہ جہاں شریعت کے مقاصد حسنیٰ کی دھجیاں بکھیرتی ہیں وہاں اپنے والدین، عزیز واقارب اور رشتہ داروں کے لیے بھی ذلت و رسوائی کا باعث ہوتی ہیں۔ شریعت نے جو بھی اصول وضوابط اور زندگی گزارنے کے طور طریقے دیے ہیں ان پر عمل کرنے ہی میں خیر و بھلائی ہے۔ شریعت سے ہٹ کر زندگی بسر کرنا دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کو جنم دینا ہے۔ اللہ تعالٰی ہمیں راہ سدید اور صراط مستقیم پر قائم رکھے اور جادۂ حق ہی پر ہماری موت آئے۔ (آمین )