کیا رکوع و سجود میں قرآت کر سکتے ہیں؟
وعن ابن عباس رضي الله عنهما ، قال: (كشف النبى صلی اللہ علیہ وسلم الستارة، والناس صفوف خلف أبى بكر، فقال: أيها الناس ، إنه لم يبق من مبشرات النبوة إلا الرؤيا الصالحة يراها المسلم، أو ترى له، ألا وإني نهيت أن أقرأ القرآن راكعا أو ساجدا ، فأما الركوع فعظموا فيه الرب، وأما السجود فاجتهدوا فى الدعاء فقمن أن يستجاب لكم)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ہٹایا اور لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے صفیں باندھے کھڑے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لوگو ! نبوت کی مبشرات میں سے نیک خواب کے علاوہ کچھ باقی نہ رہا جسے مسلمان دیکھتا ہے ، یا دیکھایا جاتا ہے اس کے لیے ٍ، خبردار مجھے منع کر دیا گیا کہ میں کرتے ہوئے یا سجدہ کرتے ہوئے قرآن مجید پڑھوں ، رہا رکوع تو اس میں رب تعالیٰ کی عظمت بیان کرو ، رہا ، سجدہ تو اس میں خوب دعا کیا کرو یہ لائق ہے کہ تمہاری دعا قبول کر لی جائے ۔ [صحيح مسلم]
تحقیق و تخریج: مسلم: 479 ، باب النهي عن قراة القرآن في الركوع والسجود ، ج 2/ 48
فوائد:
➊ رکوع و سجود میں قرآت کرنا حرام ہے ۔ رکوع میں تو رب کی عظمت بیان کی جاتی ہے اور سجدے میں دعا مانگی جاتی ہے اور دعا مانگنے کی بہت زیادہ کوشش کرنی چاہیے ۔ یہ حالت دعا کی قبولیت کے لیے بھی مفید ہے اور قربتِ الہی کا بھی ذریعہ ہے ۔
➋ نیک خواب نبوت کا حصہ ہوتے ہیں اور ان کا تعلق ایک مسلمان کے ساتھ ہی ہو سکتا ہے کیونکہ نبوت جیسا پاکیزہ منصب مسلمانوں کے حق میں آیا ہے ۔ غیر مسلم اس نعمت سے محروم ہیں ۔
➌ لیکن خواب ایک طرح کی بشارت تنبیہ وعید یا عطا ہوتا ہے ۔
➍ نبوت انبیاء پر ختم ہے اور اس سلسلہ کی آخری قسط ہماری نبی پر ختم ہوتی ہے ۔ اس کے بعد کوئی نبوت کا سوال اللہ سے کرے بھی تو نہیں مل سکتی ۔
➎ کسی نبی علیہ السلام کی موجودگی میں اس کا امتی امامت نہیں کروا سکتا ہاں جب کوئی نبی خود اجازت دے وہ امامت کروا سکتا ہے ۔ جسے نبی اپنی موجودگی میں اجازت دے وہ بہت خوش نصیب ہوتا ہے ۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ سعادت عظمی حاصل ہوئی ۔
➏ امام مسجد کی رہائش مسجد سے متصل بوئی جا سکتی ہے اور مکان میں مسجد کی طرف کھڑکی بھی رکھی جا سکتی ہے ۔ اللہ کے گھر میں جھانکنا گناہ نہیں ہے لیکن ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے گھر جھانکنا گناہ ہے ۔ اسی طرح کھڑکی یا دروازے کے آگے پردہ لٹکانا شرعاًً درست ہے ۔
➐ لوگ صفوں میں کھڑے جماعت کی تیاری میں ہوں تو امام پھر بھی ان کو وعظ کر سکتا ہے ۔ اصل امام کی نیابت اسلام میں درست ہے قائم مقام امام مسجد میں ہونا چاہیے ۔

[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: