کیا ذکر و وظائف کے لیے وضو ضروری ہے؟ حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

کیا درود و وظیفہ اور ذکر و اذکار کے لیے وضو کرنا لازمی ہے اور جب دوران ذکر وضو ٹوٹ جائے تو دوبارہ کرنا ضروری ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب :

وضو نماز کے لیے لازمی و حتمی ہے، اس کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی۔ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
لا يقبل الله صلاة بغير طهور، ولا يقبل صدقة من غلول
(ابن ماجه، أبواب الطهارة وسننها، باب لا يقبل الله صلاة بغير طهور 271، مسلم كتاب الطهارة، باب وجوب الطهارة للصلاة 224 ابوداؤد 59)
”اللہ تعالی کوئی نماز وضو کے بغیر قبول نہیں کرتا اور نہ خیانت کے مال سے صدقہ قبول کرتا ہے۔“
یہ روایت انس، ابو بکر صدیق، ابو بکرہ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے اور وظیفہ کے لیے وضو لازمی اور ضروری نہیں ہے۔ انسان با وضو اور بے وضو دونوں حالتوں میں وظیفہ پڑھ سکتا ہے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
كان النبى صلى الله عليه وسلم يذكر الله على كل أحيانه
(مسلم كتاب الحيض، باب ذكر الله تعالى في حال الجنابة وغيرها 373، بخاری تعلیقا قبل الحديث 634)
”رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ہر حال میں اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔“
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس مقام پر شرح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
وفي إبراد البخارى له هنا إشارة إلى اختيار قول إبراهيم النخعي وهو قول مالك والكوفيين لأن الآذان من جملة الأذكار فلا يشترط فيه ما يشترط فى الصلاة من الطهارة ولا من استقبال القبلة
(فتح البارى 115/2)
”امام بخاری کا اس حدیث کو اس مقام پر ذکر کرنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انھوں نے ابراہیم نخعی کے قول کو اختیار کیا ہے اور یہی قول امام مالک اور اہل کوفہ کا ہے، وہ یہ کہ اذان جملہ اذکار میں سے ہے، اس کے لیے وہ شرائط نہیں ہیں جو نماز کے لیے ہیں، جیسے وضو اور استقبال قبلہ وغیرہ۔“
اور امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر صحیح مسلم میں باب باندھا ہے: ”باب ذكر الله تعالى فى حال الجنابة وغيرها“ ”جنابت وغیرہ میں اللہ کے ذکر کا بیان“ پھر اس باب کی شرح میں لکھتے ہیں:
هذا الحديث أصل فى جواز ذكر الله تعالى بالتسبيح والتهليل والتكبير والتحميد وغيرها من الأذكار وهذا جائز بإجماع المسلمين
(شرح مسلم للنووی 59/4)
”یہ حدیث (جنابت وغیرہ کی حالت میں) تسبیح وتہلیل، تکبیر و تحمید اور ان جیسے اذکار کے جواز پر دلیل ہے اور یہ مسلمانوں کے اجماع کی وجہ سے جائز ہے۔“
لہذا ذکر و اذکار ”سبحان الله ، لا إله إلا الله، الله أكبر، الحمد لله “ وغيره وظائف کے لیے وضو شرط نہیں، یہ دونوں طرح درست ہیں، البتہ اگر با وضو ہو تو پسندیدہ امر ہے۔ واللہ اعلم!

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے