کیا بازار میں مسجد بنانا جائز ہے ؟

تحریر: حافظ مطیع اللہ

وَعَنْ أبى هُرَيْرَةَ رَضِيَ الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم: "صَلاَةُ الرَّجُلِ فى جماعةٍ تزيدُ عَلَى صَلاَتِهِ فى سُوقِهِ وَبَيْتِهِ بضْعاً وعِشْرينَ دَرَجَةً، وذلِكَ أَنَّ أَحَدَهُمْ إِذا تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ أَتَى الْمَسْجِد لا يَنْهَزُهُ إِلاَّ الصَّلاَةُ، لا يُرِيدُ إِلاَّ الصَّلاَةَ، لَمْ يَخطُ خُطوَةً إِلاَّ رُفِعَ لَهُ بِها دَرجةٌ، وَحُطَّ عَنْهُ بِهَا خَطيئَةٌ حتَّى يَدْخلَ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ كانَ فى الصَّلاَةِ مَا كَانَتِ الصَّلاةُ هِيَ تحبِسُهُ، وَالْمَلائِكَةُ يُصَلُّونَ عَلَى أَحَدكُمْ مَا دَامَ فى مَجْلِسهِ الَّذي صَلَّى فِيهِ، يقُولُونَ: اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللَّهُمَّ تُبْ عَلَيْهِ، مالَمْ يُؤْذِ فِيهِ، مَا لَمْ يُحْدِثْ فِيهِ "متفقٌ عليه، وهَذَا لَفْظُ مُسْلمٍ. وَقَوْلُهُ صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم: "ينْهَزُهُ”هُوَ بِفتحِ الْياءِ وَالْهاءِ وَبالزَّاي: أَي يُخْرِجُهُ ويُنْهِضُهُ.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کی جماعت کے ساتھ پڑھی ہوئی نماز اس کی گھر یا بازار میں پڑھی ہوئی نماز سے بیس سے کچھ زائد درجے فضیلت رکھتی ہے، اس لیے کہ جب کوئی شخص وضو کرتا ہے اور اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر نماز کے لیے مسجد میں آتا ہے اور نماز ہی اسے مسجد کی طرف لے جاتی ہے تو پھر وہ جو بھی قدم اٹھاتا ہے تو ہر قدم کے بدلے اس کا ایک درجہ بلند اور ایک گناہ معاف ہو جاتا ہے حتٰی کہ وہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے۔ پس جب مسجد میں داخل ہو جاتا ہے تو وہ حالت نماز میں شمار ہوتا ہے جب تک نماز سے وہاں روکے رکھتی ہے اور فرشتے تمہارے ایک پر رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اس جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے نماز پڑھی تھی ۔ فرشتے کہتے ہیں: اے اللہ ! اس پر رحم فرما، اے اللہ ! اسے بخش دے، اے اللہ ! اس پر رجوع فرما ( اور یہ دعائیں جاری رہتی ہیں ) جب تک وہ کسی کو تکلیف نہ پہنچائے، جب تک وہ بے وضو نہ ہو ۔“ متفق عليه یہ لفظ صحیح مسلم کے ہیں ۔
ينهزه : یا اور ہاء پر زبر اور پھر زاء ۔ اس کے معنی ہیں ” اسے نکالتی اور کھڑا کرتی ہے۔“
توثيق الحديث :
[ أخرجه البخارى 564/1 – فتح ، و مسلم 649 ، 272]
غریب الحدیث :
البضع : ہاء کے نیچے زیر اور اوپر زبر، دونوں طرح۔ اس کا تین سے نو تک کی تعداد پر اطلاق ہوتا ہے۔
احسن الوضوء : ” اچھی طرح وضو کیا ۔“
خطوة : خاء پر پیش ہو تو اس کا معنی ہے ” دو قدموں کا درمیانی فاصلہ” اور خطوة خاء پر زبر ہو تو اس کا معنی ہے ” قدم ”
حُط : ” مٹا دیا جاتا ہے “
خطيئة : ” خطائیں گناؤ”
ما لم يحدث : ” جب تک بے وضو نہ ہو ۔ “
فقه الحدیث :
➊ گھر یا بازار میں اکیلے نماز پڑھنا جائز ہے، کیونکہ اگر یہ جائز نہ ہوتی تو پھر اسے ایک درجے کے برابر قرار نہ دیا جاتا ۔
➋ بازار میں مسجد بنانا اور اس میں نماز پڑھنا جائز ہے کیونکہ وہاں اکیلے نماز پڑھنا جائز ہے تو پھر جماعت کے لیے وہاں مسجد بنانا بدرجہ اولیٰ جائز ہے۔
➌ جماعت کے ساتھ پڑھی ہوئی نماز کیلے نماز پڑھنے سے میں سے کچھ اوپر درجے فضیلت رکھتی ہے نیز اس فضیلت سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے که با جماعت نماز پڑھنا صرف مستحب ہے واجب نہیں بلکہ با جماعت نماز پڑھنا دلائل کی رو سے واجب ہے، جیسا کہ آپ نے نابینے صحابی سے فرمایا کہ اگر اذان سنتے ہو تو پھر مسجد میں آؤ۔ نیز جماعت سے پیچھے رہ جانے والوں کے لیے تہدید اور وعید ہے اور اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اگر با جماعت نماز ادا کرنا واجب ہے تو پھرا کیلے نماز پڑھنا کیسے جائز ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اکیلے نماز پڑھنا جائز تو ہے لیکن جماعت ترک کرنے سے گناہ ہوتا ہے۔
➍ مذکورہ فضیلت اسے حاصل ہوتی ہے جو مسجد میں صرف اور صرف نماز کی نیت سے آئے جیسا کہ آپ نے فرمایا: ” وہ شخص مسجد میں صرف اور صرف نماز کے لیے آئے۔”
➎ فرشتے مومنوں کے لیے دعا کرتے ہیں اور بخشش طلب کرتے ہیں جیسا کہ سورہ مومن ( 7 تا 9 ) میں اس کی وضاحت ہے ۔
➏ ایک نماز سے دوسری نماز تک انتظار کرنا اور ایک مسلمان کا با وضو رہنا مستحب ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: