ماخوذ: شرح کتاب الجامع من بلوغ المرام از ابن حجر العسقلانی، ترجمہ: حافظ عبد السلام بن محمد بھٹوی
وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: لا تبدءوا اليهود والنصارى بالسلام وإذا لقيتموهم فى طريق فاضطروهم إلى أضيقه [أخرجه مسلم] ، [بلوغ المرام : 1244] ”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہ یہودیوں کو پہلے سلام کہو نہ عیسائیوں کو اور جب انہیں کسی راستے میں ملو تو انہیں اس کی طرف (سے گزرنے پر) مجبور کرو جو زیادہ تنگ ہو۔“ [مسلم]
تخریج : [مسلم، السلام 13] ، [بلوغ المرام : 1244] وغیرہ دیکھئے [تحفة الاشراف مسند ابي هريرة 411/9]
فوائد :
➊ یہود و نصاریٰ کو پہلے سلام کہنے میں ان کی تعظیم و تکریم پائی جاتی ہے حالانکہ عزت کے حقدار صرف اہل ایمان ہیں۔ وَلِلَّـهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَـكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ [63-المنافقون:8] ”عزت صرف اللہ کے لئے اور اس کے رسول کے لئے اور ایمان والوں کے لئے ہے مگر منافق لوگ جانتے نہیں۔“ یہود و نصاریٰ سے جنگ فرض ہے یہاں تک کہ وہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں۔ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ [9-التوبة:29]
اسی ذلت کا احساس دلانے کے لئے اور اسے مستقل قائم رکھنے کے لئے مسلمانوں کو حکم دیا کہ اگر راستے میں تمہاری ملاقات ان سے ہو تو ان کے لئے کھلا راستہ مت چھوڑو بلکہ انہیں مجبور کرو کہ تنگ تر راستے سے گزریں۔
افسوس کہ مسلمانوں نے جہاد چھوڑا تو عزت بھی قصہ پارینہ بن گئی۔ بھلا محکوم قوم اپنی حاکم قوم کے لوگوں کو تنگ راستے کی طرف چلنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ یا انہیں پہلے سلام کرنے اور سلیوٹ مارنے سے انکار کر سکتی ہے ؟ اگر تھوڑا سا غور کریں تو یہ حدیث صرف سلام میں ابتداء نہ کرنے اور تنگ راستے کی طرف مجبور کرنے کا حکم ہی نہیں دے رہی بلکہ قدم قدم پر مسلمانوں کو باعزت ثابت کرنے، کفار کو ذلیل کرنے اور ان کے ساتھ مسلسل برسر پیکار رہنے کا حکم دے رہی ہے۔
➋ سلام کی ایک حکمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہ نے یہ بیان فرمائی :
اولا ادلكم على شيء اذا فعلتموه تحاببتم، افشوا السلام بينكم [مسلم عن أبى هريرة/ الإيمان : 93]
”کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جس کے کرنے سے تمہارے درمیان محبت پیدا ہو جائے آپس میں سلام عام کرو۔“
اس سے معلوم ہوا کہ سلام کا نتیجہ باہمی محبت ہے جب کہ کفار کے متعلق حکم یہ ہے کہ انہیں اپنا دوست مت بناؤ لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ [60-الممتحنة:1] ”میرے اور اپنے دشمن کو دوست مت بناؤ۔“
➌ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب یہودی تمہیں سلام کہتے ہیں تو وہ کہتے ہیں السام عليكم ”تم پر موت ہو“ تم جواب میں کہو وعليك ”یعنی تم پر ہو “ [بخاري عن ابن عمر 6257] معلوم ہوا اگر اہل کتاب سلام کا لفظ کہیں اور ہمیں صاف سنائی دے تو انہیں وعليكم السلام کہنا چاہئے خصوصاً اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا [4-النساء:86]
”اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو۔“
➍ اگر مسلمان اور کافر ملے جلے بیٹھے ہوں تو انہیں سلام کہنا چاہئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلمان، بت پرست، مشرک اور یہودی ملے جلے موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کہا۔ [بخاري : 6254]
➎ یہود و نصاریٰ سے سلام میں پہل منع ہے لیکن اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ اچھے طریقے سے رہ رہے ہوں تو مزاج پرسی میں اگر پہل کر لے تو اس کی گنجائش ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام میں پہل سے منع کیا کلام میں نہیں۔